یہ بندہ آخر اتنا ڈرتا کیوں ہے؟

شاہ سرخی میں جو سوال کیا گیا ہے وہ اگر کوئی ہم جیسا سرپھرا کرے تو لوگ کہیں گے کہ ان کو تو مودی جی سے خدا واسطے کا بیر ہے لیکن جب عالمی شہرت یافتہ صحافیہ اور ‘مودی ایک مسیحا‘ نامی کتاب کی مصنف پوچھے تو سوچنا پڑتا ہے ’کچھ تو ہے جس کی پردہ داری ہے‘۔ تولین سنگھ نے اپنے حالیہ کالم ’بعنوان ’’جمہوریت کیسے کمزور ہوتی ہے‘ میں یہ اعتراف کیا کہ مودی بھکت کی حیثیت سے ان کا کردار حال میں ختم ہوگیا ہے یعنی یہ مودی کے ایک سابق شیدائی کے تاثرات ہیں ۔ اس میں وہ وزیر اعظم کے حیدرآباد میں دئیے جانے والے بیان کہ ’وراثت کی سیاست سے جمہوریت کمزور ہوتی ہے‘ کی تائید کرتے ہوئے کہتی ہیں یہ بات درست ہے۔ فی الحال حزب اختلاف کا سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ وہ مختلف افراد کی خاندانی وراثت بن گیا ہے ۔ اس کے بعد وہ سوال کرتی ہیں کہ آخر ملک کا دانشور طبقہ اور عالمی ذرائع ابلاغ ان کا مخالف کیوں ہے؟

اس سوال کا جواب تولین سنگھ خود اپنے مضمون میں دینے کی کوشش کی۔ وہ اعتراف کرتی ہیں کہ ہندوستان غربت اور سنگین معاشی مسائل کو حل نہیں کرپایا لیکن جمہوری نظام کا قیام اس کی سب سے بڑی کامیابی ہے مگر اب وہ بھی خطرے میں ہے۔ ان کے مطابق جمہوریت کو لاحق خطرہ محض وراثت کی سیاست سے نہیں بلکہ اختلاف رائے کو سختی کے ساتھ کچلنے کے رحجان سے ہے۔تولین سنگھ کے مطابق جب صحافیوں کو دہشت گرد قرار دے کر جیل میں ٹھونس دیا جائے۔ بے قصور اختلاف کرنے والوں کو حوالات میں بھیج دیا جائے ۔ اپنے سیاسی مخالفین کی آواز دبانے کی خاطر ای ڈی، سی بی آئی اور این سی بی جیسے اداروں کا بے دریغ استعمال کیا جائے ۔ یہ ثابت کیے بغیر کہ کون فسادی ہے گھروں کو مسمار کردیا جائے اور بی جے پی رہنما اس کا جشن منائیں ۔ پولیس مسلمانوں کو زدوکوب کرنے لگے تو جمہوریت کمزور ہوتی ہے۔ تولین کے خیال میں مودی کے خلاف کوئی طاقتور رہنما یا جماعت نہیں ہے۔ عوام ان کے فلاحی کاموں سے خوش ہیں اور ان کا شمار دنیا کے مقبول ترین رہنماوں میں ہوتا ہے ۔ ایسے میں سوال یہ ہے کہ آخر ایک بظاہر ناقابلِ تسخیر نظر آنے والارہنما ایسے حربے کیوں استعمال کرتا ہے؟

نرگسیت کا شکار وزیر اعظم کا مسئلہ یہ ہے کہ چاپلوس درباریوں کے درمیان وہ اپنے آپ کوطرم خاں سمجھنے لگے ہیں ۔اس لیے ان کی قوت برداشت ختم ہوگئی ہے۔ انہیں یہ خوف لاحق رہتا ہے کہ کہیں یہ جعلی شبیہ دھڑام سے زمین پر نہ آجائے ۔ اس کو بچانے کی خاطر سرکار کےخلاف اٹھنے والی آوازوں کو بے رحمی سے کچل دیا جاتا ہے۔ ملک کا بولنے والا طبقہ فی زمانہ دو حصوں میں منقسم ہوچکا ہے۔ ایک تو وہ شریف لوگ ہیں جنھیں ڈرانے میں موجودہ سرکار کامیاب ہوگئی ہے اور دوسرے وہ بدمعاش ہیں جنہیں بے خوف کردیا گیا ہے۔ ذرائع ابلاغ کے اندر یہ دونوں قسم کے لوگ عوام کو مودی سے ڈراتے رہتے ہیں۔ ان دونوں طبقات کے لیے اس حقیقت کو ہضم کرنا نہایت مشکل امرہے کہ وزیر اعظم خود خوفزدہ ہیں لیکن حقیقت یہی ہے۔ عام لوگ کسی سے نہیں ڈرتے لیکن خاموشی سے سب کچھ دیکھتے رہتے ہیں اورموقع ملنے پر اپنا کام کرجاتے ہیں۔

فی الحال دنیا ایک گاوں میں تبدیل ہوگئی ہے اور جو کچھ ایک ملک میں ہوتا ہے وہ کسی سے پوشیدہ نہیں رہتا ۔ وزیر اعظم نے جرمنی جاکر ہندوستان کو جمہوریت کی ماں کہا تو لوگوں نے خوب تالیاں بجائیں مگر جرمن وزارت خارجہ کے ترجمان نے ایک سوال کے جواب میں کہہ دیا، 'ہندوستان چونکہ خود کو دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کہتا ہے۔ اس لیےاس سے آزادی اظہار اور پریس کی آزادی جیسی جمہوری اقدار کی توقع کی جا تی ہے۔محمد زبیر کی گرفتاری کے تناظر میں انہوں نے کہا کہ پریس کو ضروری آزادی دی جانی چاہیے۔ ہم آزادی اظہار کے لیے پرعزم ہیں۔ ہم دنیا بھر میں آزادی صحافت کی حمایت کرتے ہیں۔ یہ بہت اہمیت کی حامل ہے اور اس کا اطلاق ہندوستان پر بھی ہوتا ہے۔ آزاد رپورٹنگ ہر معاشرے کے لیے ضروری ہے۔ صحافت پر پابندی لمحہ فکریہ ہے۔ صحافیوں کو بولنے اور لکھنے پر جیل میں نہیں ڈالا جا سکتا'۔ اس طرح وزیر اعظم نے اپنے دورے سے جو جعلی تاثر قائم کرنے کی کوشش کی تھی وہ پوری طرح زائل ہوگیا۔

معروف جرمن ادارے ڈی ڈبلیو کے چیف ایڈیٹر رچرڈ واکر نے جرمن وزارت خارجہ کے ترجمان سے پوچھا کہ جرمنی آزادی صحافت کے حوالے سے آواز اٹھاتا ہے اور صحافیوں کی کہیں بھی گرفتاری ہو تو اس کی مخالفت کرتا ہے۔ لیکن ہندوستان کےمعاملے میں فرق کیوں ہے؟ جرمنی ہندوستان کے تئیں سخت موقف اختیار کیوں نہیں کرتا؟ اس دوٹوک سوال کے جواب میں جرمن وزارت خارجہ کے نمائندے نے کہا کہ’ میں یہ نہیں کہوں گا کہ وقت پر اس کی تنقید نہیں کی۔ میں آزادی اظہار اور آزادِ صحافت کے حوالے سے ہمیشہ آواز اٹھاتا رہا ہوں'۔ جرمن وزارت خارجہ کی سنجیدگی کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ اس کے ترجمان نے کہا ، 'ہمیں ہندوستان میں ہونے والی اس(محمد زبیر) گرفتاری کی اطلاع ہے۔ نئی دہلی میں ہمارے سفارت خانے کی اس پر نظر ہے۔ ہم اس معاملے پر یورپی یونین کے ساتھ بھی رابطے میں ہیں۔ یورپی یونین کی ہندوستان کے ساتھ انسانی حقوق کے جن امور پر عہد وپیمان ہے اس میں اظہار رائے اور پریس کی آزادی شامل ہے۔

جمہوریت ایک ایسا باطل نظریہ ٔ سیاست ہے جس کو اپنے اظہار رائے کی آزادی پر بڑا فخر ہے لیکن اب تو خود ایوان کے اندر ارکان کا گلاگھونٹنےکی سعی کی جارہی ہے۔ لوک سبھا سکریٹریٹ کی طرف سے جاری کردہ کتابچہ ا س امرکا تازہ ترین ثبوت ہے۔ ایوانِ پارلیمان کی روداد میں سے میں مخصوص الفاظ کےخارج کرنے کا حکم جاری کردیا گیا ہے۔جن القاب سے حزب اختلاف پردھان سیوک کو نوازتی رہی ہے جملہ جیوی، چائلڈ انٹیلی جنس، کوویڈ اسپریڈر، اسنوپ گیٹ ، بے شرمی، خیانت، کرپٹ، ڈرامہ بازی، منافقت اور نااہل وغیرہ کو روداد سے نکال دیا جائے گا۔ غیر پارلیمانی الفاظ کی اس فہرست میں جملہ جیوی کی شمولیت خاصی دلچسپ ہے۔ یہ دو الفاظ کا مرکب ہے جس کی موجد معروف سیاسی جوڑی مودی اور شاہ ہے۔ اس کا پس منظر یہ ہے کہ شاہ جی سے جب پندرہ لاکھ کے انتخابی وعدہ کی بابت پوچھا گیا کہ انہوں نے اسے ایک انتخابی جملہ قرار دے کر مسترد کردیا ۔ کسان تحریک کے رہنماوں کی تضحیک کے لیے وزیر اعظم نے ’آندولن جیوی‘یعنی تحریک پر گزر بسر کرنے والے کی اصطلاح استعمال کی ۔ حزب اختلاف نے ان دونوں الفاظ کو ملا کر ایک نئی اصطلاح وضع کردی تو سرکار کو مرچی لگ گئی۔
آمریت، آمر، انارکسٹ، غدار، غنڈے، متکبر، سیاہ دن، بلیک مارکیٹ ٹریڈنگ ،جے چند، وناش پرش، خالصتانی، خون کی کھیتی جیسے الفاظ بھی مودی سرکار پر بغیر کسی وضاحت کے منطبق ہوجاتے ہیں۔ ان کے علاوہ فہرست میں شامل منافقت ، نااہل ، نوٹنکی، ڈھول کی پٹی، بہری حکومت جیسے الفاظ موجودہ حکومت کا تشخص بن گئے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ خونریزی، خونی، چمچہ، چمچہ گیری، چیلہ، بچکانہ، بزدل، مجرم اور مگرمچھ کے آنسو جیسے الفاظ سے اگر کسی کو پریشانی ہے تو انہیں غیر پارلیمانی قرار دینے کے بجائے اپنے رویہ کی اصلاح کرے۔ ایوانِ زیریں کےاسپیکر اوم بڑلا نے یہ دلچسپ وضاحت بھی فرمادی ہے کہ ان الفاظ کے استعمال پر پابندی نہیں ہے صرف روداد میں شمولیت کا مسئلہ گا۔ اس کے بعد تو مبادہ سرکار کو چِڑھانے کی خاطران کا استعمال بڑھ جائے گا کیونکہ ریکارڈ میں آنے پروا کسی کو نہیں ہے۔ یہ باتیں جب ذرائع ابلاغ میں آئیں گی تو اس کے استعمال کرنے والے کا کام ہوجائے گا۔

مودی سرکار جانے سے قبل کسی طرح اپنے دامن سے گجرات کا داغ مٹا دینا چاہتی ہے لیکن اس کی ساری تدبیر الٹی پڑجاتی ہے۔ اس سلسلے کی ایک کڑی تیستا سیتلواد پر مرحوم احمد پٹیل سے تیس لاکھ روپیہ لے کر گجرات کی مودی سرکار کرگرانے کا الزام بھی ہے۔ وزیر داخلہ کو سابرمتی ایکسپریس کے ڈبے میں جل کر مرنے والوں کا دکھ تو ہے مگر گلبرگ میں مارے جانے والوں پر افسوس نہیں ۔ انہیں ماں کی گود میں مرنے والی بچی یاد آتی ہے لیکن وہ ترشول کی نوک پر کوکھ سے نکالی جانے والی بچی کو بھول جاتے ہیں ۔ اپنی بدنامی کا رونا رونے والےمودی اگر گلبرگ سوسائٹی میں پولس بھیج کر احسان جعفری کے ساتھ بے قصور لوگوں کو بچا لیتے تو تیستا سیتلواد کی ان مخالفت نہیں کرتیں ۔ ایس آئی ٹی کے الزام کو درست مان لیا جائے تب بھی فساد میں شہید ہونے والے مظلوم کی بیوہ ذکیہ جعفری کوانصاف دلانے کی خاطر ان کے ساتھ کھڑے رہنا کوئی جرم نہیں بلکہ قابلِ ستائش عمل تھا۔ احسان جعفری کے قاتلوں کو کیفرِ کردار تک پہنچانے کی خاطر قانونی ا خراجات کے لیے اگر احمد پٹیل نے تیس لاکھ روپیہ دیا تو دوستی کا حق ادا کیا ۔

گجرات فسادات کے دوران مودی سرکار کی پہلی ذمہ داری فساد زدگان کو بچانے کی تھی جس میں وہ ناکام ہوگئی۔وزیر داخلہ ٹیلی ویژن پرانٹرویو میں گجرات تشدد کا جواز پیش کرتے ہوئے عوام کے غم غصے کو جائز ٹھہراتے ہوئے بھول جاتے ہیں کہ ردعمل میں کیا جانے والا قتل بھی قانون کی نظر میں جرم ہے ۔ سرکار کی دوسری ذمہ داری مجرمین کو سزا دلوانے کی تھی ۔ اسے ادا کرنے کے بجائے مودی سرکار نے مجرموں کو بچانے کی کوشش کی ۔ ایسے میں تیستا سیتلواد جیسے لوگوں کو میدان میں آنا پڑا ۔ اب انہیں قید کرکے یہ پیغام دیا جارہا ہے کہ سرکاری اور عوامی مظالم کے خلاف کوئی آگے آکر اپنی آواز نہ اٹھائے ۔ اس مقصد کے حصول کی خاطر موجودہ حکو مت کبھی صدیق کپن ، کبھی سوامی اسٹین ، کبھی تیستا اور کبھی محمد زبیر جیسے لوگوں کو گرفتار کرکےخوف کا ماحول پیدا کرتی ہے تاکہ اپنے ڈر پر قابو پاسکے۔ ایک عام آدمی کا خوفزدہ ہوجانا اس کے ذاتی نقصان کا سبب بنتا ہے لیکن اگر کوئی حکمراں اس کیفیت میں مبتلا ہوجائے تو رعایا کو بھی اس کی قیمت چکانی پڑتی ہے۔ وزیر اعظم کی حالتِ خوف پر ملک زادہ منظور کا یہ شعر صادق آتا ہے؎
نہ خوف برق نہ خوف شرر لگے ہے مجھے
خود اپنے باغ کو پھولوں سے ڈر لگے ہے مجھے






 

Salim
About the Author: Salim Read More Articles by Salim: 2055 Articles with 1243383 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.