تھامس ایڈیسن٬ ڈاکٹر عبدالقدیر خان اور دہشت گردی کی لہر

شیخ سعدی ؒ ایک حکایت میں لکھتے ہیں کہ ایک غریب بڑھیا نے ایک بلی پال رکھی تھی جو روکھی سوکھی بڑھیا کھاتی وہی بلی کو بھی مل جاتا تھا۔ دونوں امن کے دن گزر رہے تھے ایک دن بلی لذیز کھانوں کے لالچ میں ایک امیر آدمی کے مہمان خانے میں چلی گئی ۔ امیر کے ملازم کھانوں کی نگرانی کر رہے تھے انہوں نے تاک کر بلی پر تیر چلایا جو اس کے جسم میں ترازو ہو گیا ۔ بلی بے چاری وہاں سے اس حال میں بھاگی کہ جسم سے خون ٹپک رہا تھا اور خوف سے بدن تھر تھر کانپ رہا تھااور وہ دل ہی دل میں کہہ رہی تھی کہ اگر میں اس تیر انداز کے ہاتھ سے بچ نکلی تو آئندہ کبھی بھول کر بھی دوسرے کے تر مال پر نظر نہیں ڈالوں گی ۔۔۔

قارئین ہمارے آج کے موضوع کا تعلق اسی بات سے ہے کہ غیر ت مند اقوام اور افراد دوسروں سے مانگ کر نہ تو روشنی لیتے ہیں اور نہ ہی بھیک میں بادشاہی طلب کرتے ہیں یہاں موضوع کا آغاز تھامس ایڈیسن نامی ایک امریکی سائنسدان کے نام سے کیا گیا ۔ جس نے 1847ءسے لیکر 1931تک کی اپنی زندگی کے دوران فونو گراف سے لیکر بجلی کے بلب تک ہزاروں ایجادات کیں اور صنعتی ترقی کی بنیاد رکھی ۔ ایڈیسن کے نام پر ایک ہزار سے زائد ایجادات پیٹنٹ کروانے کا ایک زبردست ریکارڈ بھی موجود ہے اور یہ تعداد ناقابل یقین لگتی ہے ۔ ایڈیسن نے اپنی پیشہ وارانہ زندگی کے آغاز میں ہی نیو جرسی منیلو پارک میں ایک تحقیقی تجربہ گاہ بنا لی تھی اس تجربہ گاہ میں ایک بہت بڑی ٹیم مل جل کا کام کرتی تھی ۔ ایڈیسن نے اپنی ایجادات کو صنعتی پیمانے پر تیار کیا اور مختلف صنعتی کمپنیوں کو منظم بھی کیا حتیٰ کہ جنرل الیکٹرک کمپنی اہم ترین کمپنی بن گئی ایڈیسن کی یہ تمام ایجادات اور ان کی تعداد اس نوعیت کی ہے کہ انہوں نے امریکی صنعت میں اہم کردار ادا کیا ۔ یہی وجہ ہے کہ ایڈیسن کو مارکونی اور گراہم بیل جیسے سائنسدانوں سے بھی زیادہ اہمیت دی جاتی ہے ۔۔۔

قارئین ! یہاں آج کے کالم کے اگلے حصے فخر پاکستان ڈاکٹر عبدالقدیر خان کی جانب چلتے ہیں ۔ ڈاکٹر عبدالقدیر خان نے پاکستان کو دفاعی لحاظ سے ناقابل تسخیر بنانے کےلئے یورپ کو چھوڑا ، آسائشات ، بہترین تنخواہ ، اعلیٰ ماحول کو ترک کرتے ہوئے ذوالفقار علی بھٹو شہید کی دعوت پر پاکستان میں ایٹمی پروگرام کو پروان چڑھانے کےلئے وطن کی مٹی کا انتخاب کیا اور 1998ءمیں وزیراعظم میاں محمد نواز شریف نے باوجود عالمی دباﺅ اور دھمکیوں کے بھارت کے ایٹمی دھماکوں کا جواب دیتے ہوئے 28مئی کو ڈاکٹر عبدالقدیر خان کی کئی عشروں پر مشتمل محنت کا اعلان عملی انداز میں کر دیا اور چاغی کی پہاڑیاں پاکستانی ہنر مندی اور غیرت کا مظہر بن گئیں ۔ اس کے بعد نہ جانے کیا ہوا کہ امریکہ ، یورپ اور خدا جانے کن کن ممالک کی سازشوں کے نتیجہ میں محسن پاکستان ڈاکٹر عبدالقدیر خان کو مزید کام کرنے سے روک دیا گیا اور انہیں ایٹمی اسلحہ اور ٹیکنالوجی غیر قانونی طریقہ سے دنیا کے مختلف ممالک کو فروخت کرنے کا الزام لگا کر نہ صرف قید تنہائی میں محبوس کر دیا گیا بلکہ کردار کشی کرتے ہوئے یہاں تک دھمکایا گیا کہ انہیں امریکہ کے حوالے بھی کیا جا سکتا ہے اور یہ اس دور میں کیا گیا جب پاکستان میں ڈکٹیٹر جنرل مشرف کی حکومت کو امریکہ اور دیگر مقتدر قوتوں کی بھرپور حمایت حاصل تھی ۔

قارئین ! یہ فرق ہے زندہ ممالک اور غلام قوموں میں ، زندہ قومیں اپنے محسنوں چاہے وہ تھامس ایڈیسن کی شکل میں ہوں یا مارکونی اور گراہم بیل جیسے لوگ ہوں وہ لوگ اپنے اثاثوں کی حفاظت کرنا جانتے ہیں پاکستان کی منزل وہاں سے کھوٹی ہوتی ہے کہ جہاں ہم نے اپنے اعلیٰ دماغوں کی قدر کرنے کی بجائے ان کی ہتک کی اور ان کی عزت دینے کی بجائے انہیں پوری دنیا کے سامنے ذلیل و رسوا کیا ۔ سوچنے کی بات ہے کہ ڈاکٹر عبدالقدیر خان اور ان کی ٹیم کی عزت کرنے کی بجائے اگر ہم انہیں ایٹمی سمگلرز اور دیگر گھٹیا ناموں سے نوازیں گے تو کل کیا کوئی سائنس دان اور اعلیٰ دماغ اس ملک کی خدمت کرنے کےلئے اپنے آپ کوپیش کرےگا ۔۔۔؟

قارئین ! ڈاکٹر عبدالقدیر خان نے گزشتہ دنوں بھی میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے اس بات کو دہرایا کہ ان کے پاس وہ ٹیکنالوجی اور منصوبے موجود ہیں اگر حکومت ان سے استفادہ کرے تو پاکستان کو نہ صرف توانائی کے بحران سے نجات مل سکتی ہے بلکہ اس ٹیکنالوجی کے ذریعے ملکی زراعت اور صنعت کو بھی اعلیٰ پیمانے پر ترقی دی جا سکتی ہے ۔ اب یہ حکومت پر ہے کہ وہ اپنے محسن کی طرف سے پیش کی گئی رضا کارانہ خدمات کو قبول کرتی ہے یا بے قدری کرتے ہوئے وطن فروشی اور قدر نا شناسی کی مثالوں میں اضافہ کرنا جاری رکھتی ہے ۔

قارئین! یہاں پر یہ تذکرہ بھی چلتے چلتے کر دیا جائے کہ کراچی میں پی این ایس مہران پر دہشت گردوں کے ایک گروہ نے حملہ کیا ہے اور اس حملے کو بین الاقوامی میڈیا کے مطابق طالبان سے منسوب کیا جا رہا ہے ۔ اس وقت کئی نیوی آفیسر شہید ہو چکے ہیں اور قانون نافذ کرنے والے اداروں اور حملہ آوروں کے درمیان ابھی تک لڑائی جاری ہے اور خون ریز معرکے میں کئی انسانی جانیں مزید ضائع ہونے کا اندیشہ ہے ۔ یہاں یہ بات قابل غور ہے کہ حکومت اغیار کے اشاروں پر ناچنے کی بجائے اپنے دفاع کےلئے اپنی پالیسیز خود تشکیل کیوں نہیں دے رہی ۔۔۔؟

آخر کیا وجہ ہے کہ جب بھی آئی ایس آئی اور حکومتی ادارے اور افواج پاکستان امریکہ کے ڈو مور سمیت دیگر احکامات پر عمل کرنے سے گریز کرنے کی کوشش کرتے ہیں تو یاتو جی ایچ کیوپر حملے جیسا انتہائی خطرناک واقعہ سامنے آجاتا ہے اور کبھی ایف سی ، ایف آئی اے اور دیگر اداروں کو بم دھماکوں سے اڑانے کا سلسلہ شروع ہو جاتا ہے ۔۔۔؟

اور آخری سوال یہ کہ ایبٹ آباد آپریشن کے بعد جب پاکستان کی پارلیمنٹ ، افواج پاکستان اور آئی ایس آئی نے امریکی انتظامیہ اور سی آئی اے کو اپنی سرگرمیاں محدود کرنے کا نوٹس دیا اور نیٹو کی سپلائی لائن کو خطرات پیش آئے تو اس موقع پر ہمارے سامنے پاکستان نیوی پر خطرناک ترین حملہ کر دیا گیا ہے یہ سب آخر کر کون رہا ہے اور نام کس کے لگایا جا رہا ہے ۔۔۔؟

آخر میں حسب روایت لطیفہ پیش خدمت ہے ۔
ایک دکاندار نے اپنے ملازم کو کسی گاہک سے جھگڑتے ہوئے دیکھا تو پاس بلا کر سمجھا نے لگا ۔
”دیکھو کسی گاہک سے جھگڑامت کیا کرو اور وہ جو بھی کہے وہ مان لیا کرو ، کیا کہہ رہا تھا وہ ۔۔۔؟“
ملازم نے بے چارگی سے کہا
”جناب وہ کہہ رہا تھا کہ اس دکان کا مالک دنیا کا سب سے بڑا احمق ہے “

سوچنے کی بات یہ ہے کہ امریکہ بہادر اور دیگر لوگ اس وقت پاکستان کے حکمرانوں اور اس کی قیادت کو کیا کہہ رہے ہیں اور اگر انہیں وہ سب کچھ کہنے سے روکا جاتا ہے تو روکنے والوں کو مشکل میں کیوں ڈالا جا رہا ہے ۔
Junaid Ansari
About the Author: Junaid Ansari Read More Articles by Junaid Ansari: 425 Articles with 339051 views Belong to Mirpur AJ&K
Anchor @ JK News TV & FM 93 Radio AJ&K
.. View More