پاکستان کو جیت مبارک ہو اور wel played افغانستان

 یہ ایک حقیقت ہے کہ ہمارے خطے میں کرکٹ کا کھیل انتہائ مقبولیت کے باعث یہ عوامی جذبات و احساسات , ہماری سیاست , , خارجہ تعلقات اور میڈیا پر نہ صرف اثرانداز ہے بلکہ اب اسکا باقاعدہ اہم حصہ بن گیا ہے۔ حتی کہ پاک انڈیا تعلقات بارے کرکٹ ڈپلومیسی بھی استعمال ہوئ۔ اسی سیاست کی وجہ سے پاکستانی کھلاڑیوں کو IPL میں شامل نہیں کیا جارہا۔

پاکستان انڈیا اور افغانستان کے درمیان اب ہمارے ملکوں کی سب سے بڑی خوشی اور کامیابی کرکٹ کی جیت اور سب سے بڑا المیہ اور ناکامی کرکٹ میچ کی ہار ہے۔ بالخصوص (حقیقتاََ) پاکستان میں اب کرکٹ میچ کی جیت کے علاوہ نہ تو کوئ خوشی بچی ہے اور نہ ہی ہمارے پاس کوئ اور بڑی کامیابی جسے ہم دنیا کو دکھا سکیں۔ اگر کسی اور میدان میں کچھ ہو بھی جائے تو وہ خود بخود ہو جاتی ہے نہ اسمیں سرکار کی اتنی contribution ہوتی ہے اور نہ کوئ دلچسپی اسی طرح عوامی پزیرائ اور دلچسپی بھی نہیں ہوتی۔ اسی طرح کرکٹ میچ میں شکست اتنا بڑا قومی المیہ اور سانحہ بن جاتا ہے کہ بڑے بڑے قدرتی افات اور سانحات کو سیلاب میں بہا کر لے جاتی ہے۔

پاک۔افغان میچ نے دونوں اطراف کی ایکدوسرے بارے خیالات اور رویوں کو کافی حد تک واضح کیا ہے۔ دوران میچ افغانی بالر اور پاکستانی بیٹسمین کے مابین گرما گرمی, میچ کے خاتمے پر افغانی تماشائیوں کی سٹیڈیم میں کرتوت اور پھر ہمارے عوام و خواص کیطرف سے statements.
1) تقریبا تمام کھیلوں میں اورحتی کہ دوست ممالک کے درمیان میچوں میں کافی حد تک درجہ حرارت اونچا ہوجاتا ہے۔ اسی طرح کی بیسیوں اور سینکڑوں مثالیں موجود ہیں۔ اسٹریلیا اور NZ کو دیکھیں, Aus اور Eng کے مابین کیا ہوتا ہے۔ Pak اور Aus اور WI کے میچز میں کیا کچھ نہیں ہوتا۔ تقریبا ہر دوسرا Fast bowler گالیاں نکالتا ہے۔ اور تو اور شین وارن کیا کچھ نہیں کرتا تھا۔ بہرحال اصف اور فرید میں کون کتنا قصوروار تھا شاید ICC فیصلہ کرلے تاہم sportsmanship کا مظاہرہ دونوں میں کسی نے بھی نہیں کیا۔
2) میچ کے بعد افغان تماشائیوں کا رویہ افسوسناک اور قابل مذمت تھا۔ UAE کے قانون کے مطابق شاید انہیں اسکا rewad بھی مل جائیگا۔ حالیہ اطلاعات کیمطابق انہیں اس کار خیر کی جزا مل رہی ہے۔
3) جو شکایت ہماری افغانوں سے ہے کہ وہ ہم سے نفرت کا اظہار کیوں کرتے ہیں؟ وہی ہماری انکے بارے خیالات بھی تحقیرانہ اور طعنے دینے والے ہیں۔( چنے بیچنے والے, جوتے پالش کرنے والے, کچھرا اٹھانے والے اور نمک حرام۔)

وہ ہزاروں افغانی جو پاکستانی یونیورسٹیوں میں پڑھتے ہیں, مختلف شعبوں میں کام کرتے ہیں وہ بھی تو ہیں۔

ہمارے اپنے ملک میں کروڑوں بچے سکول سے باہر ہیں پتہ نہیں وہ کچھرا بھی اٹھانے کے قابل ہوپائینگے؟

رہی بات نمک حرامی کی تو افغانوں نے جتنا نمک حرام کیا ہوگا اور یقینا کیا ہوگا لیکن اسی نمک میں ہم نے بھی پورے پورے دنبے اور بکرے نمکین بنا کر کھائیں ہیں۔ نمک حرامی کی گردان کافی لمبی ہے بہتر ہے کہ اس گردان کو چھوڑ کرہم ان کے بارے اپنے عمومی رویوں کو ان سے بہتر ثابت کریں کیونکہ ہمارا دعوی ہے کہ ہم نے ان پر احسانات کئے ہیں۔

ہمیں کسی میچ میں ہونیوالی گرماگرمی اور ہار جیت کے بعد افغانوں کو فورا ملک بدر کرنے کے اعلانات نہیں کرنے چاہییے۔ فرض کریں انہیں ملک سے نکالنا ہے تو کوئ پراسیس, ٹھوس اور واضح طریقہ کار بنا لیں۔ چالیس سال سے زائد عرصہ ہو چکا ہے انکی تیسری نسل یہاں پل رہی ہے اور ہم انہیں نہ تو اپنی شہریت دے سکے اور نہ نکال سکے۔ خود تو یورپ میں 5 سال گزارنے کے بعد وہاں شادیاں بھی کرلیتے ہیں اور وہاں کی شہریت بھی حاصل کرلیتے ہیں۔

ہمارا ملک پاکستان اب ایک حقیقت ہے۔ اس بحث سے قطعہ نظر کہ کیسے اور کیوں بنا؟ اب یہ ہمارا ہر لحاظ سے آزاد ملک ہے۔ ہمارا اس کے ساتھ اور اسکا ہمارے ساتھ پیار ہونا چاہییے۔ اسی طرح ہمیں دوسرے ممالک کی ازادی اور خود مختاری کا خیال رکھنا چاہییے۔ جسطرح ہم جب کسی ملک کیساتھ تعلقات بناتے ہیں اوراگر کوئ دوسرا طاقت ور ملک اس بارے ہمیں dictate کرے تو ہمیں اسوقت فورا غلامی کی بو اجاتی ہے۔ لیکن اگر ہمارے دو اور پڑوسی تعلقات بنائیں تو اسوقت ہمارا کیا رویہ ہوتا ہے ؟ ہمیں بھی دوسروں کو dictate نہیں کرنا چاہییے اور نہ ہی دوسروں کیلئے طرز حکومت select کرنا چاہییے کہ فلاں طرز حکمرانی ان کے لئے بہتر ہے اور فلاں بدتر ہے۔ نہ ہی سرکاری طور پر اور نہ ہی عوامی طور پر۔

اب میچ کے بعد پاکستان کے ریٹائرڈ فاسٹ بالر شعیب اختر کا ویڈیر بیان ملاحظہ ہو "ایک پٹھان نے دوسرے پٹھان کی پھینٹی لگادی " یہ ہمارے رویے ہیں۔ وہ شعیب اختر جو خود تو ہر دوسری بال پر گالیاں نکالتا تھا اب اسکا بیان یہ ہے۔ چلو اسی بیان کو ہی لے لیتے ہیں تو پھر اسکا سادہ مطلب تو یہ ہے کہ پاکستان میں پاکستانی پشتون اس ملک کو اور تمہیں گرنے نہیں دے گا چاہیے اس کیلئے وہ دوسرے ملک کے پشتون کیساتھ بھی کیوں نہ لڑے بشرطیکہ اسے اس ملک میں برابر کا status ملے اور trust ملے۔ اس ملک میں اسکی سزا و جزا کا پیمانہ بھی دوسروں کے مساوی ہو۔ چلو پھر اسی طرح ہی صحیح لیکن اسی طرح تو کرلو۔ ۔

 

Shakeel Ahmed
About the Author: Shakeel Ahmed Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.