بخدمت جناب بڑے صاحب!



جان کی امان پاﺅں تو ایک عرض کردوں..ہمیں پتہ ہے کہ آپ بڑے عہدے والے افسر ہیں ، اتنے بڑے کہ عوام کے ٹیکسوں سے آپ کے گھر چلتے ہیں اس عوام میں ہم بھی دو ٹکے کے صحافی اور قلم کے مزدور بھی آتے ہیں.ہمارے ہی ٹیکسوں پر پلنے والے افسران سے ہمیں استدعا کرنی پڑ رہی ہیں کیونکہ مغلوں کی حکومت کے بعد اب شغلوں کی حکومت ہے اور جس طرح مغلوں نے عیاشیاں کرکے متحدہ ہندوستان کا بیڑہ غرق کیا تھا انشاءاللہ آپ کی کوششیںبھی رنگ لائیں گی ..

ہمیں پتہ ہے کہ آپ اتنے بڑے صاحب ہیں کہ آپ نے دفتر کے دروازے پر لکھ دیا ہے کہ کسی کو میرے دفتر میں بیٹھنے کی ضرورت نہیں ، کھلاڑیوں کو آپ رقم دے نہیں سکتے .خواہ وہ ضرورت مند ہی کیوں نہ ہوں یا اس کی کارکردگی کتنی ہی اچھی کیوں نہ ہوں حالانکہ اس کیلئے سپورٹس فاﺅنڈیشن بھی بنایا گیا ہے اور کئی ملین روپے صرف اس مد میں رکھے گئے کہ ضرورت مند کھلاڑیوں کی مدد بھی ہوسکے گی اور اگر کہیں بزرگ کھلاڑی غربت یا کسی اور مسئلے کا شکار ہو تو ان کا بھی مسئلہ حل کرکے مالی مدد کی جائیگی جس پر ماشاءاللہ ابھی تک خاموشی ہے کیونکہ 2008سے لیکر 2022 تک اس کے صرف پندرہ اجلاس ہوئے ہیں. کتنے ہی کھلاڑی غربت کے باعث خوار ہیںان میں کسی کی سپورٹس ڈائریکٹریٹ خیبر پختونخواہ نے مدد نہیں کی اور نہ کرینگے.

بڑے صاحب!

ہمیں پتہ ہے کہ آپ کو سوال کرنا برا لگتا ہے آپ کو وہ سوال کرنا اچھا لگتا ہے جو آپ کے کانوں کو بھلا لگے بقول " کوئی میٹھی سی بات کرو" تو صاحب! ہم سے میٹھی باتیں ہوتی ہی نہیں کیوں نہیں ہوتی اس لئے کہ نہ تو آپ خدا ہیں ،نہ ہمیں آپ سے کوئی مقصد ہے ، نہ الحمد اللہ ہمیں اپنے بچوں کو کھیلوں کے میدان میں باہر بھجوانا ہے نہ ہی ہماری بیگم اتنی بڑی کوچ ہے کہ باہر جائے.کیونکہ ہمارے لئے تو اللہ ہی کافی ہے. ہاں آپ کے پاس کرسی اور اقتدار کا نشہ ہے ، اور حضرت علی کے بقول پیسہ اور کرسی انسان کو اس کی اصلی اوقات سامنے لاتا ہے.بس اتنی ہی بات ہے. جو سمجھنے کی بھی ہے اور سمجھانے کیلئے بھی ہے.

ہم ٹھہرے قلم کے مزدور.ہم سے تو یہ نہیں ہوسکتا کہ روزانہ آپ کے دفتر میں آکر بیٹھ جائیں ، پرائی چغلیاں اور غیبت کرکے اپنی بڑائی بیان کرے ، نہ ہی آپ کے سامنے کچھ پیش کرسکتے ہیں ، نہ ہی آپ کو ہم منال کے پہاڑوں میں فارمی چکن اور سبزی کے ملغوبے سے بنے "چکن فریزی "کھلا سکتے ہیں ، نہ ہی آپ کو اپنے گھر میں ڈنر پر مدعو کرکے اپنا کام نکالنا چاہتے ہیں کیونکہ پرسنٹیج کا چکر ہے اس لئے آپ بھی ہوشیار ہیں اس لئے آپ نے آغاز میں وہی "دھوم دھڑکا"کیا جو بقول ایک صاحب کہ جب کوئی نیا تھانیدار آتا ہے تو وہ تھانے کے دیواروں کو بھی دوڑاتا ہے. بس آپ کی اتنی ہی کاوش تھی.اس کے بعد آپ ٹھس ہی ہوگئے.

بڑے صاحب ! برا ماننے کی ضرورت نہیں.

آپ کے دفتر میں آنے کی کوئی کوشش نہیں کرسکتا ، صاحب! آپ کی ساری بدمعاشی اسی کھیلوں کی بدولت ہی ہے ، اگر کھیلوں کے میدان آباد ہیں ، کھلاڑی آرہے ہیں تو آپ کی افسری بھی قائم رہے گی اس لئے ان کھلاڑیوں کیلئے سہولیات فراہم کرے ، خواہ وہ کسی بھی کھیل سے وابستہ ہوں ، ان کھلاڑیوں کو اپنی اولاد کی طرح سمجھیں ، انہیں غصہ بھی کریں ، انہیں محبت بھی دیجئیے انکے مسائل بھی حل کریں تبھی آپ کے اپنے بچے کامیاب ہوں گے آپ دوسروں کے بچوں کی کامیابی کیلئے راستے کھولیں اللہ تعالی آپ کے بچوں کیلئے راستے کھول دے گا.صاحب!ہم ٹھہرے قلم کے مزدور.. اگر کبھی کبھار مولوی بن کر بات کریں تو برا ماننے کی ضرورت نہیں.

صاحب جی !

اتنا سب کچھ لکھ لیا لیکن جس کیلئے لکھنا شروع کیا تھا وہ بات ذہن سے نکل رہی ہیں. صاحب جی ! وہ پوچھنا یہ تھا کہ انڈر 21 کے کھلاڑیوں کیلئے صوبائی حکومت کی جانب سے اعلان کردہ سکالرشپ کیوں نہیں مل ہے ، مختلف کھیلوں سے وابستہ کھلاڑی ہمیں تیس مارخان سمجھ کر پیغام دیتے ہیں کہ آپ بات کریں ، اخبار میں دیں ، ویسے صاحب آپ کو تو ان چیزوں کی پروا نہیں لیکن یہ دس ہزار روپے ان کھلاڑیوں کیلئے بہت اہمیت رکھتے ہیں ، اس سے ان بچوں کے سکولوں کے اخراجات پورے ہوتے ہیں بلکہ بعض بچے اپنے گھریلو اخراجات بھی اس سے پورے کرتے ہیں اور ان پر بوجھ کم ہوتا ہے تبھی وہ کھیلوں کے میدان میں آتے ہیں.

ویسے صاحب! آپ پانی پی لیں.. ہم یہ سوال کررہے ہیں کہ صوبائی سپورٹس ڈائریکٹریٹ نے ایک مہینے کی سکالرشپ بچوں کیلئے جاری تو کردی لیکن پھر اگلے مہینے وہ رقم روک دی گئی ، اور اب چار ماہ سے زائد عرصہ ہوا ہے وہ بچے روزانہ آتے ہیں.کہ سکالرشپ کب ملے گی.

صاحب جی !سوال یہ ہے کہ سال 2021-22 کیلئے جاری رقم کس طرح لیپس ہوگئی ، یعنی استعمال ہوئے بغیر واپس صوبائی حکومت کو چلی گئی ، اس میں نااہلی کس کی ہے اور اس نااہلی کی سزا ان کھلاڑیوں کو کیوں دی جارہی ہیں.حالانکہ سال 2021-22 کے بجٹ کے آخری مہینوں میں کچھ پروگرام زیادہ ہی کروائے گئے ، تفصیلات آپ کو زیادہ معلوم ہونگی ، اخبارات میں بھی آئی ہیں ، اگر کٹنگ چاہئیے تو ہمارے ہی قبیلے کے ایک صاحب جو بنیادی طور پر پراپرٹی کا کاروبار کرتے ہیں وہ ان کٹنگ کی اچھی طریقے سے "کاپیاں"بنا کر پیش کرنے کے عادی ہیں وہ کاپیاں آپ کے پاس آئی ہونگی ذرا اس کو دیکھ لیں تو آپ کو اندازہ ہو جائے گا کہ کتنے بڑے پروگرام کئے گئے اور وہ بھی ایک "چہیتے" کے کہنے پر ،

صاحب!ہمیں آپ سے زیادہ آپ کے دفتر میں بیٹھے لوگوں سے بھی ڈر لگتا ہے کیونکہ کمپیوٹر آپریٹر سے ڈائریکٹ لوگ اسسٹنٹ ڈائریکٹر بن جاتے ہیں ، اسی طرح جس طرح آپ نے ہی کمپیوٹر آپریٹر کو ڈسٹرکٹ سپورٹس آفیسرز کے عہدوں پر پروموٹ کرکے انقلابی قدم اٹھایا. جو کہ قابل تحسین ہے.کیونکہ آپ نے ہی دوسرے صوبائی ڈیپارٹمنٹ کو بھی ورطہ حیرت میں ڈال دیا ہے کہ کس طرح ایک صوبے میں مختلف ڈیپارٹمنٹ میں الگ الگ قانون چل رہے ہیں.

صاحب!یقین ہے کہ آپ کو یہ باتیں بری لگ رہی ہونگی لیکن کیا کریں مجبوری ہے ہماری قلم کی مزدوری بھی انہی کھلاڑیوں کی وجہ سے چلتی ہیں ، آپ کی افسری اور بدمعاشی بھی انہی کھلاڑیوں کی وجہ سے قائم ہے ، آپ تو ٹھہرے بڑے آدمی ، ہم دو ٹکے کے صحافی ..اور ہم جیسوں کو آپ کے ڈیپارٹمنٹ کے لوگ اور ان کی بیگمات " سب کتے ہیں"کہہ کر پکارتے ہیں.اور پھر دھڑلے سے منکر بھی ہوجاتے ہیں." ان کی باتوں میں کچھ حقیقت بھی ہے کیونکہ ہماری برادری میں "کچھ بلڈ ہاﺅنڈ کچھ پپی اور کچھ کوسہ ڈب کتوں کی خصوصیات کے حامل بھی شامل ہیں.کیونکہ وہ بھونکتے بھی ہیں تو صرف سپورٹس ڈائریکٹریٹ کیلئے بھونکتے ہیں ،انہوں نے کبھی کھلاڑیوں ، کسی مسئلے پر بھونکنے کی ہمت و جرا ت نہیں کی . کیوں نہیں کی . یہ ان کا مسئلہ ہے.

خیر بڑے صاحب! آپ کا شکریہ کہ میری ان تلخ باتوں کو دیکھا ، اب سمجھنے کی کوشش بھی کریں اور انڈر 21 کے کھلاڑیوں کیلئے سکالرشپ کا بندوبست بھی کریں ، ورنہ امکان ہے کہ یہی کھلاڑی انٹر ورسٹی مقابلوں کے دوران ہی احتجاجی مظاہرے بھی کرینگے کیونکہ وہ سمجھتے ہیں کہ " ڈائریکٹریٹ آگے دوڑ او ر پیچھے چھوڑ والا معاملہ کررہی ہیں.

شکریہ

قلم کا مزدور

Musarrat Ullah Jan
About the Author: Musarrat Ullah Jan Read More Articles by Musarrat Ullah Jan: 590 Articles with 422499 views 47 year old working journalist from peshawar , first SAARC scholar of kp , attached with National & international media. as photojournalist , writer ,.. View More