ملک ٹوٹے گا یا حکومت؟

ہمارے دو پوتے ہیں۔بڑے کی عمر ابھی صرف پانچ سال ہے لیکن ہے کمال کا چالباز۔وہ شرارت جس میں پٹنے کا ڈر ہو کبھی اس کے قریب بھی نہیں جاتا۔بس اپنے چھوٹے بھائی کے پاس جا کے کھڑا ہو جاتا ہے اور اسے کہتا ہے کہ منے فلاں کام نہ کرنا۔اس کے بعد منا وہ کام کر کے ہی چھوڑتا ہے۔ اس کے بعد منے کی وہ دھنائی ہوتی ہے کہ الحفیظ و الاماں۔منے کی پٹائی کے دوران اس کی خوشی دیدنی ہوتی ہے۔پورا گھر اس کی شرافت کا نہ صرف معترف بلکہ دیوانہ ہے۔منا منی کی طرح چار دانگ عالم میں بدنام ہے اور بڑے میاں کی شرافت اور تہذیب کی گھر والے قسمیں کھاتے نہیں تھکتے ۔میں چونکہ ریٹائر آدمی ہوں اور ریٹائر آدمی کا چونکہ کام ہی یہ ہوتا ہے کہ وہ اپنے اردگرد کی جزئیات پہ نظر رکھے۔ جس طرح ہمارے ریٹائرڈ فوجی اور سول بیورو کریٹ ملکی حالات کی بخیہ گری میں ہمہ وقت مصروف و دلگیر رہتے ہیں۔ میری اسی ڈیوٹی کے دوران مجھ پہ بڑے میاں کے جوہر کھلے۔جب افطاری پہ میں نے یہ معاملہ گھر والوں کے گوش گزار کیا تو کوئی بھی اسے ماننے کو تیار نہ تھا۔میرے فارغ دماغ نے چونکہ اس معصوم شرارت میں اور ملکی سیاست میں ایک مماثلت ڈھونڈ لی تھی اس لئے ثبوت کے طور پہ اسے اپنے موبائیل میں ریکارڈ بھی کر لیا تھا۔جب میں نے وہ ویڈیو چلائی توہی بڑے میاں کی استادیوں پہ اہل خانہ کو یقین آیا۔

ملکی سیاست کی مماثلت یوں کہ ابھی کل ہی ایک عالمی سطح کے پاکستانی لیڈر نے( عالمی اس لئے کہ ان کی رہائش گاہیں اور کاروبار بلا مبالغہ سارے عالم میں پھیلا ہے)نے ایک بیان جاری کیا ہے کہ " خبردار کوئی ادارہ حکومت گرانے کی کوشش نہ کرے"۔وہ ادارہ جس کی طرف ان کا اشارہ ہے ۔ماضی میں اس سے یہ غلطی بارہا سر زد ہوئی ہے کہ جونہی کسی نے کہا کہ حکومت ختم نہیں کرنی ۔انہوں نے آؤ دیکھا نہ تاؤ اور ساری دنیا کی بدنامی مول لے کر عنانِ حکومت خود سنبھالی اور وہ لوگ جنہوں نے انت مچا رکھی تھی انہیں شہادت کے عظیم مرتبے پہ فائز کر دیا۔بنظر غائر اگر آپ اس بیان پہ بھی غور کریں تو یہ ایسا ہی بیان ہے جیسا ہمارا بڑا مناچھوٹے منے کو کسی شرارت پہ اکسانے کے لئے دیا کرتا ہے۔اس میں بھی وہی چلبلا پن ،وہی درخواست اور وہی خواہش پوشیدہ ہے جو بڑے میاں کی نصیحت میں ہوا کرتی ہے۔لیکن اب کی بار گھر والے جان گئے ہیں کہ بڑے میاں کی منشا ءکیا ہے اور منے میاں کو بھی پتہ ہے کہ اس شرارت پہ کتنی لعن طعن سہنا پڑتی ہے اس لئے اس بار ملکی سیاست کے اس بڑے میاں کا یہ پلان تو کامیاب ہوتا نظر نہیں آتا۔

رہی بات حکومت کی ،تو حکومت ہی کے ایک پرانے حریف اور تازہ حلیف جناب مشاہد حسین سید نے ایک دفعہ دریا کو کوزے میں بند کیا تھا ۔ان کا فرمان تھا کہ اس حکومت کا بس ایک نکاتی ایجنڈہ ہے کہ" لٹو تے پھٹو"اب خدا جانے شاہ صاحب کا کیا خیال ہے۔حکومت کا ایجنڈا بدل گیا ہے یا شاہ صاحب کا حال اس چھابڑی والے جیسا ہو گیا ہے جس کی چھابڑی پہ ایک مظاہرے کے دوران مظاہرین نے لوٹ مار شروع کی تو اس نے بجائے ہجوم کو روکنے کے خود بھی لوٹ مار شروع کر دی۔مجمع چھٹنے کے بعد جب کسی نے اس کی وجہ پوچھی تو کہنے لگا کہ بھائی بچت اسی میں تھی۔شاہ صاحب کی قیادت کو بھی تو آخرکوئی مونس و غمخوار درکار تھا۔خیر یہ تو بس ایک جملہ معترضہ تھا ۔بات ہو رہی تھی حکومت کی۔ملک میں بجلی ہے کہ نہیں گیس مل رہی ہے کہ نہیں۔لوٹ گھسوٹ اپنی انتہاءپہ ہے۔گورننس کا نام و نشان نہیں۔سپریم کورٹ کا تو خیر ذکر ہی کیا ،حکومت کسی بھی کورٹ کو خاطر میں لانے پر آمادہ نہیں۔جس کے جو جی میں آتا ہے کرتا ہے ۔کوئی پوچھنے والا نہیں ۔پاکستان کی اس دیالو حکومت کے صدقے ہر چور ڈاکو لٹیرے اور قاتل کو اپنا رانجھا راضی رکھنے کی مکمل آزادی ہے۔یہ پاکستان کی پہلی حکومت ہے جو مسائل کے حل کی بجائے مسائل پیدا کرنے کی ماہر ہے۔اس کے لئے اس حکومت نے باقاعدہ ضیاءالحق کا ایک" نورا "ملازم رکھا ہوا ہے جو کبھی بھٹو کی پھانسی پہ مٹھائیاں بانٹا کرتا تھا اور اب بھٹو کی صفائیاں پیش کرتا پھرتا ہے۔

بلوچستان میں عالمی مداخلت اب ہمارے علاوہ ہر ایک پہ آشکار ہے۔عالمی لٹیرے ہمارا گھر لوٹنے کے در پے ہیں اور ہماری حکومت اس لوٹ مار کو روکنے کی بجائے اپنا حصہ طے کرنے کے چکر میں نظر آتی ہے۔امریکہ اوربھارت کا تو خیر گلہ ہی کیا ایران بھی بلوچستان میں شرارت پہ آمادہ ہے اور ہم ابھی تک مسلم امہ کے رس گلے چوسنے میں لگے ہیں۔چین کے ایک صوبے میں گڑ بڑ ہوتی ہے تو وہ بھی جانتے بوجھتے کہ یہ کاروائی دراصل ہے کس کی ،پاکستان کو آڑے ہاتھوں لیتا ہے اور ہم ہمالیہ کی چوٹیاں ناپتے اور ٹاپتے رہ جاتے ہیں۔طالبان نے علیحدہ انت مچا رکھی ہے۔انہیں جونہی ادائیگی ہو جاتی ہے وہ ایک نیا کھڑاک کر دیتے ہیں۔ہم اس کے بعد کچھ تمغے تقسیم کرتے ہیں اور بس اگلی کاروائی کا انتظار شروع کر دیتے ہیں۔کرزئی جیسا ٹٹ پونجیا بھی ہمارا ٹینٹوا دبانے میں کوئی عار محسوس نہیں کرتا اور ہم اس کے ناز اٹھاتے نہیں تھکتے۔ہمارا کشکول ہے کہ بھر کے ہی نہیں دیتا۔عرب ریاستوں کے باسی ہمیں باقاعدہ بھکاری سمجھتے ہیں ۔ہمارے ایٹمی پروگرام پہ دنیا جہاںکی للچائی ہوئی نظریں ہیں۔اس سب کے باوجود ہماری حکومت بقول وزیر اعظم مضبوط ہے ۔ان کا منصوبہ یہ ہے کہ کسی بھی طرح سینٹ کے الیکشن تک وقت گذارا جائے اور سینٹ میں اپنی اکثریت بنا لی جائے اس کے بعد راوی بس چین ہی چین لکھے گا۔یہ بد قسمت نجانے تاریخ کیوں بھلا دیتے ہیں۔دو تہائی اور تین تہائیاں نہیں ،کسی بھی ملک کے عوام اپنی حکومت کے رکھوالے ہوتے ہیں اور جب عوام ناراض ہو جائیں تو حکومتیں اپنے ہی بوجھ تلے دب جایا کرتی ہیں۔

لیکن صدر پاکستان جناب آصف علی زرداری اس معاملے میں بھی استادوں کے استاد واقع ہوئے ہیں۔اس معاملے کو بھی انہوں نے تقریباََ حل کر لیا ہے۔انہوں نے عوام کا ٹنٹا ہی ختم کرنے کی ٹھان لی ہے۔کراچی میں پہلے ایک دن میں بیس ناحق جانیں جاتی تھیں۔اب ان کی تعداد روزانہ چالیس ہو گئی ہے۔اگر یہ تعدا یونہی ڈبل ہوتی رہی تو تھوڑے دنوں ہی میں گلیاں ہو جائیں گی "سنجیاں "ور اس میں مرزا یار کڈکڑے لگا رہا ہو گا۔جس طرح کراچی کی کمائی پہ پورا ملک عیش کرتا ہے اسی طرح کراچی کی تباہی پہ پورے ملک کو بین بھی کرنے پڑیںگے۔لیکن شاید یہ وقت ابھی نہیں آیا۔کیونکہ ابھی تو صدر صاحب حلیف منا رہے ہیں۔میاں صاحب عمرے پہ جا رہے ہیں۔ایم کیو ایم شرائط منوا رہی ہے۔شاہی سید کا خانِ اعظم ابھی زرداری کے چرنوں میں محو خواب ہے۔یوں بھی وہ بے چارہ چارسدہ نہیں جا پاتا کراچی کیا جائے گا۔مولنٰافضل الرحمٰن اعتکاف بیٹھنے والے ہیں۔عمران خان اسلام آباد میں دھرنے دے رہا ہے۔سید منور حسن کا نور نہ جانے کون سی تاریکیاں منور کرنے میں گم ہے۔جب تک یہ عمرے یہ اعتکاف یہ دھرنے ختم ہونگے اس وقت تک کراچی میں ہزاروں عورتیں بیوہ لاکھوں بچے یتیم اور بے آسرا ہو چکے ہوں گے۔سوچنے والے سوچیں کیا یہ آگ کراچی تک ہی محدود رہے گی۔اگر اس نے ملتان کی کسی درگاہ کو جلا ڈالا۔نوڈیرو کی کسی قبر پہ چڑھ دوڑی۔لاہور کے کسی محل کو اس نے اپنی لپیٹ میں لے لیا یا کراچی کی کٹی پہاڑی کی طرح اسلام آباد کی کسی اونچی پہاڑی پہ پہنچ گئی تو کیا پھر بھی ان بے حس لوگوں کے کانوں پہ کوئی جوں نہ رینگے گی۔

لیکن ہمارا علاج یہی ہے ۔یہ ملک تو قائم رہنے کے لئے بنا ہے یہ قائم رہے گا۔اس ملک سے سب سے پہلے منافق ختم ہوں گے ا ور پھر ظلم کی حکومت۔منافقوں کے دن بھی گنے جا چکے ہیں اور ظالموں کے بھی کیونکہ
اس شخص سے بڑھ کے منافق نہیں کوئی
جو ظلم تو سہتا ہے بغاوت نہیں کرتا

میں دیوار کے پیچھے دیکھنے کا دعوٰ ی تو نہیں کرتا لیکن نوشتہ دیوار پڑھ لیتا ہوں اور وہ نوشتہ یہ ہے کہ کراچی کا ظلم ہی ظالموں سے ہماری نجات کا باعث بنے گا۔ظلم کی یہ حکومت ہفتوں میں نہیں اب دنوں میں جائیگی اور اسی ظلم کے ہاتھوں جائیگی۔کیونکہ ظلم پھر ظلم ہے بڑھتا ہے تو مٹ جاتا ہے اور خون؟ خون تو اب اتنا بہہ گیا ہے کہ اللہ کی پناہ۔
Qalandar Awan
About the Author: Qalandar Awan Read More Articles by Qalandar Awan: 63 Articles with 54351 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.