ملکہ ایلزبتھ کے بعد برطانیہ میں نئے دور کا آغاز

ملکہ الزبتھ دوم کی رحلت کے ساتھ ہی ان کا 70 سالہ شاہی سفر اختتام پذیر ہو گیا۔ وہ 6 فروری، 1952ء کو ملکہ بنی تھیں اور 8 ستمبر، 2022 ء کو آخری دم تک ملکہ رہیں۔ الزبتھ دوم موت کے وقت برطانیہ کے علاوہ 14 ملکوں کی ملکہ تھیں۔ ان سے پہلے جارج ششم برطانیہ کے بادشاہ تھے۔ الزبتھ انہیں کی بیٹی تھیں۔ ان کی پیدائش 21 اپریل، 1926 ء کو ہوئی تھی۔ شہزادہ فلپ سے ان کی 20 نومبر 1947 ء کو شادی ہوئی۔ اس وقت ان کی عمر 21 ساتھ تھی۔ 6 فروری، 1952 ء کو جارج ششم کے بعد وہ ملکہ بنیں۔ اس وقت ان کی عمر 26سال تھی۔ 70برس تک برطانیہ کی ملکہ رہتے ہوئے وہ اپنی گھریلو زندگی بھی بڑی کامیابی سے جیتی رہیں۔ شہزادہ فلپ کے ساتھ قدم سے قدم ملاکر انہیں چلتے ہوئے دیکھنے پر ایسا لگتا تھا کہ وہ ایک دوسرے کے لیے ہی بنائے گئے ہیں۔ یہ بھی عجیب اتفاق ہے کہ شوہر کی موت کے ڈیڑھ برس کے اندر ہی ملکہ کا بھی انتقال ہوگیا۔ 9 اپریل، 2021 کو شہزادہ فلپ کے انتقال کے بعد ایسا لگا تھا کہ وہ ادھوری رہ گئی ہیں مگر وہ بڑی صابر خاتون تھیں۔ الزبتھ دوم شاہی اقدار کے ساتھ جینے اور وراثت کو بڑھانے والی خاتون تھیں۔ انٹرویوز کم ہی دیا کرتی تھیں۔ ان کے ایسا کرنے کی وجہ کیا یہ تھی کہ وہ میڈیا کی حقیقت سے واقف تھیں، تنازعات سے دور زندگی بسر کرنا چاہتی تھیں؟ نجی جذبات کا اظہار وہ کم ہی کیا کرتی تھیں۔ملکہ الزبتھ دوم 600 سے زیادہ عطیہ دینے والے اداروں کی سرپرست تھیں۔ وہ بین مذہبی مکالمے کی حامی تھیں۔ ملکہ الزبتھ دوم نے کبھی سیاسی نظریات کے اظہار میں دلچسپی نہیں دکھائی۔ انٹرویو دیتے وقت بھی اس بات کا پورا خیال رکھا۔ تاہم ملکہ الزبتھ دوم کی موت پربھی ایک دور ختم ہو گیا اور دوسرے دور کا آغاز ہو گیا ہے۔ اب ملکہ الزبتھ دوم کے بڑے بیٹے چارلس سوم برطانیہ کے بادشاہت کے منصب پر فائز ہو گئے ہیں۔ ان کے دور بادشاہت کا آغاز 8 ستمبر، 2022ء کو ہوا۔ اب برطانیہ میں ’ہر مجسٹی‘ کی جگہ ’ہز مجسٹی‘ استعمال ہوگا۔ پارلیمنٹ میں حکومت کا پروگرام اب بادشاہ پیش کریں گے۔ بکنگھم پلیس کے سامنے کے ’کوئنز گارڈز‘ کا نام تبدیل ہو جائے گا، کیونکہ اس پولیس کو اب بادشاہ کے لیے امن قائم رکھنا ہوگا۔ ’کیو سی‘ یعنی ملکہ کے وکیل اب ’کے سی‘ یعنی بادشاہ کے وکیل کہلائیں گے۔ ملکہ الزبتھ دوم کے انتقال اور چارلس سوم کے بادشاہ بننے سے کچھ اور تبدیلیاں ہوں گی۔ مثلاً، برطانیہ کے ترانے میں تبدیلی ہوگی۔ اب تک ’گاڈ سیو دی کوئن‘گایا جاتا تھا اور اب ’گاڈ سیو دی کنگ‘ گایا جائے گا۔ رپورٹ کے مطابق، ’برطانیہ کے پاسپورٹ کے اندرونی کور پر موجود الفاظ جو تاج کے نام پر جاری کیے گئے ہیں، انہیں بھی تبدیل کرنے کی ضرورت ہوگی۔ اسی طرح آسٹریلیا، کنیڈا اور نیوزی لینڈ کے پاسپورٹس کے اندر موجود متن کو بھی اَپ ڈیٹ کرنا ہوگا۔‘برطانیہ ، کینیڈا، آسٹریلیا، نیوزی لینڈ اور مشرقی کیربیئن کے نوٹوں پر اب ملکہ الزبتھ دوم کے بجائے بادشاہ چارلس سوم کا چہرہ نظر آئے گا۔ ملکہ کی تصویروالے ڈاک ٹکٹوں کو بھی تبدیل کرنے کی ضرورت ہو گی۔ اسی طرح اور بھی چیزیں تبدیل ہوں گی۔ جبکہ بادشاہ بن جانے کے بعد چارلس سوم کے سامنے سب سے بڑا سوال شاید یہی ہوگا کہ عوام میں وہ کتنے مقبول ہیں؟ اور وہ عوام میں وہ مقبولیت کیسے حاصل کریں جو ان کی ماں کو حاصل تھی؟ کیونکہ ایک رپورٹ کے مطابق، ’رائے عامہ کے جائزوں نے انہیں مسلسل اپنی والدہ ملکہ الزبتھ دوم یا ان کے بیٹے شہزادہ ولیم سے کم مقبول دکھایا ہے، اس لیے انہیں ابھی عوام کے ایک بڑے حصے کا دل جیتنا ہے۔‘ ان کے بیٹے شہزادہ ہیری نے شریک حیات میگن مارکل کے ساتھ شاہی خاندان چھوڑا تھا تو اس وقت نسل پرستی کی بات سامنے آئی تھی۔ بادشاہ چارلس سوم کو قول و عمل سے یہ بتانا ہوگا کہ وہ مساوات میں یقین رکھتے ہیں، انسانوں کو بانٹ کر دیکھنے کے قائل نہیں۔ ویسے شہزادہ کی حیثیت سے ان کی نجی زندگی میں چاہے جو بھی مسئلے رہے ہوں مگر ان کی امیج مختلف مذہبوں، نظریوں کو احترام دینے والے کی رہی ہے۔ ان کے قول و عمل سے کبھی یہ نہیں لگا کہ وہ انسانوں کو خانوں میں بانٹ کر دیکھنے والے انسان ہیں۔ اس وقت دنیا کو کئی طرح کے چیلنجز کا سامنا ہے تاہم ان میں سے اہم ترین چیلنج ماحولیاتی اور موسمیاتی مسائل ہیں، برطانیہ نے بطور ترقی یافتہ ملک اس نقصان کی تلافی کیلئے کیا کیا ہے، جس میں وہ برابر کا حصہ دارہے، یہ سوال اپنی جگہ اہم ہے تاہم اب یہ دیکھنا ضروری ہے کہ نئے بادشاہ برطانیہ کے اس کردار کو کس طرح دیکھتے ہیں جو وہ دولت مشترکہ کے ممالک کو درپیش چیلنجز کے حوالے سے اداکرنے کیلئے پر عزم ہے۔چارلس سوم ایک ایسے وقت میں تخت نشین ہوئے ہیں جب برطانیہ اور شاہی خاندان کو مشکلات کا سامنا ہے۔ برطانوی مؤرخین کے مطابق نئے بادشاہ کو ایسے بے مثال چیلنجوں کا سامنا ہے جو چارلس سوم کے ساتھ ساتھ بعد میں تخت نشین ہونے والے شاہی حکمرانوں کے اچھے یا برے وقت کا بھی تعین کریں گے۔برطانیہ میں تونائی کے بحران سے نمٹنے سے لے کر ان کی والدہ کی 70 سالہ حکمرانی کے بعد بادشاہت کے بارے میں تبدیل ہوتے ہوئے خیالات چارلس سوم کی حکمرانی کے لیے تلخ ہیں۔یوکرین جنگ کے باعث توانائی کی قیمتوں میں اضافے سے برطانیہ میں لاکھوں خاندانوں کو موسم سرما میں ممکنہ توانائی بحران کا سامنا ہے۔محتاط اندازوں کے مطابق برطانیہ کی دو تہائی آبادی، جو تقریبا ساڑھے چار کروڑ افراد بنتے ہیں، اپنا بل مشکل سے ہی ادا کر سکے گی۔ایسی صورت حال میں برطانیہ کے شاہی خاندان کے مالی معاملات پر بھی کڑی نظر رکھی جائے گی۔ یوکرین جنگ سے قبل ہی برطانوی اخبارات میں افواہ گرم تھی کہ اس وقت پرنس آف ویلز کہلائے جانے والے چارلس اپنی تاجپوشی سمیت شاہی تقریبات کی شان و شوکت میں کمی لانے کے خواہش مند ہیں۔روزنامہ ٹیلیگراف نے لکھا کہ تاجپوشی کی تقریب 1953 ء میں ملکہ الزبتھ دوم کی عالیشان رسم تاجپوشی جیسی نہیں ہو گی جو ٹی وی پر دکھائی جانے والی اس نوعیت کی پہلی تقریب تھی۔تاہم برطانیہ کے شاہی خاندان کی عوامی حمایت 30 سال کے نچلے ترین درجے پر ہے۔تازہ ترین سروے جو 2021 ء میں شائع ہوا، بتایا گیا کہ صرف 55 فیصد برطانوی شہری بادشاہت کو ’بہت اہم‘ یا ’نہایت اہم‘ سمجھتے ہیں۔ گذشتہ دہائیوں میں یہ تعداد 60 سے 70 فیصد تک رہی ہے۔رواں سال عوام کے پسندیدہ ترین شاہی افراد کی فہرست میں چارلس ملکہ الزبتھ اور شہزادہ ولیم کے بعد تیسرے نمبر پر تھے۔اگرچہ ملکہ الزبتھ دوم کی وفات کے بعد نئے بادشاہ کی حمایت میں اضافہ ہوا ہے تاہم چارلس سوم کو شاہی ساکھ کے لیے کام کرنا ہو گا۔شاہی مؤرخ رچرڈ فٹزولیمز کا کہنا ہے کہ ’بادشاہ چارلس سوم کے لیے ایک چیلنج بادشاہت کو نوجوان طبقے کے لیے پسندیدہ بنانا ہے۔‘ان کی رائے کے حق میں برطانوی معاشرتی رویوں کو جانچنے والے سروے کی رپورٹ بھی ہے جس کے مطابق 18 سے 34 سال کی عمر کے صرف 14 فیصد افراد نے بادشاہت کو ملک کے لیے ’بہت اہم‘ سمجھا تھا جب کہ 55 سال سے زیادہ عمر کے افراد میں یہ تناسب 44 فیصد تھا۔ اس وقت ملک کی 27 فیصد آبادی بادشاہت کے مکمل خاتمے کی حامی ہے جو ملک میں ماضی میں ایسے خیالات رکھنے والے افراد کی تعداد سے کہیں زیادہ ہے جو عام طور پر 15 فیصد تک رہتی ہے۔ا گرچہ بادشاہ چارلس سوم برطانیہ کے سربراہ مملکت ہیں۔ لیکن برطانیہ کی آئینی بادشاہت کے ماڈل میں شاہی حکمران کے اختیارات رسمی ہیں۔ اسی لیے شاہی خاندان کے اراکین سے سیاسی طور پر غیر جانبدار رہنے کی توقع کی جاتی ہے۔والدہ کی وفات کے بعد بادشاہ چارلس سوم 56 ایسے ممالک کی سیاسی تنظیم دولت مشترکہ کے سربراہ بھی بن گئے جن کی اکثریت ماضی میں برطانوی نو آبادیاتی نظام کا حصہ رہے ہیں۔وہ برطانیہ کے علاوہ بھی 14 ممالک کے سربراہ مملکت ہیں جن میں آسٹریلیا، کینیڈا، جمیکا اور نیوزی لینڈ بھی شامل ہیں۔بی بی سی کے مطابق دولت مشترکہ سے ایک نئے اور جدید رشتے کو استوار کرنا بادشاہ چارلس سوم کے لیے ایک بڑا امتحان ہو گا۔


 

Haji Latif Khokhar
About the Author: Haji Latif Khokhar Read More Articles by Haji Latif Khokhar: 141 Articles with 98468 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.