محترم وزیراعلی خیبر پختونخواہ محمود خان و وزیر کھیل عاطف خان خیبر پختونخواہ


جناب عالی!

آپ لوگوں کو یہ خط میں سپورٹس ڈائریکٹریٹ سے وابستگی کی بنیاد پر لکھ رہا ہوں، کھیلوں سے وابستگی کی بنیاد پر میری عمر گزر گئی. لیکن جو بے انصافی آج انصاف کے نام پر آنیوالے حکمران کررہے ہیں اس کا جواب کون دے گا. مجھے اتنا یقین ہے کہ آپ دونوں کو اس بارے میں مکمل معلومات نہیں ہونگی اور ہمارے ساتھ زیادتی کی جارہی ہیں اس عمل میں سپورٹس ڈائریکٹریٹ کے اپنے ہی لوگ شامل ہیں..

سپورٹس ڈائریکٹریٹ خیبر پختونخوا نے جون 2022 میں ڈیلی ویجز کوچز کو کام سے روک دیا تھا یہ کہہ کر نئی تعیناتی کی جائینگی لیکن پھر ایک کمیٹی بنا دی گئی جس کی سربراہی اس ڈیپارٹمنٹ میں تعینات افراد ہی کررہے ہیں.قانون کے مطابق جن لوگوں نے تربیتی سیشن کئے ہیں اور اپنی زندگی کھیلوں میں لگائی ہیں ان کیلئے تعلیمی ریکارڈ کے مقابلے میں ان کی متعلقہ شعبے میں مہارت دیکھی جاتی ہیں یہ قانون گورے بھی لاگو کرتے ہیں انہیں کھیلوں کے میدان میں اگر تعلیم کے مقابلے میں فیلڈ میں مہارت والے افراد کو لینا پڑے تو وہ تعلیمی معیار کے بجائے متعلقہ شعبے کے ماہرین کو لیتے ہیں. لیکن..

مزے کی بات یہ ہے کہ سپورٹس ڈائریکٹریٹ نے جون 2020 میں ایسے افراد بھرتی کئے جن کی تعلیمی قابلیت تو ہے مگر اپنے شعبے میں انہیں کوئی نہیں پہچانتا لیکن وہ سپورٹس ڈائریکٹریٹ میں بیٹھے افراد کے کار خاص ہیں.ایسے کار خاص کہ ان کیلئے ہرقانونی و غیر قانونی عمل کرتے رہتے ہیں. اسی بنیاد پر ڈائریکٹریٹ بھرتیاں کی گئی ہیں اور یہ سب کچھ وزیراعلی محمود خان کی دور وزارت میں ہی کیا گیا. جس کی ویری فیکیشن بھی اسی ڈیپارٹمنٹ میں ہیومن ریسورس کے نام پر بیٹھنے والے افراد نے کی ہیں جن کے بنیادی شو ق کھیلوں کے میدان میں ہوتے ہوئے " صرف مرغوں اور تیتروں " کو سنبھالنا ہے. اور اس کیلئے وہ بہت کچھ کرتے ہیں.کیا آپ دونوں یعنی وزیراعلی خیبر پختونخواہ اور وزیر کھیل عاطف خان اس بات کی انکوائری کرینگے کہ کس طرح بغیر کسی کھیل کے مہارت کے ایسے کوچز کو لیا گیا جن کے پاس کچھ بھی نہیں لیکن انہیں کار خاص ہونے کی بناء پر مستقل ملازمتیں دی گئی.سب سے مزے کی بات تو یہ ہے کہ مخصوص افراد کو جو ملازمتیں دی گئی وہ ایک خاص پرائیویٹ یونیورسٹی کے کاغذات پر دی گئی. اور یہ سب کچھ ریکارڈ پر ہیں کہ سپورٹس ڈائریکٹریٹ خیبر پختونخواہ میں ملازمت کرنے والے بیشتر ملازمین " اسی پرائیویٹ یونیورسٹی " سے " پڑھے لکھے" بن گئے ہیں. جس کا ریکارڈ بھی چیک کرنے کی ضرورت ہے.کہ مردان سے لیکر پشاور اور بنوں سے لیکر چارسدہ کے بیشتر ملازمین صرف اسی پرائیویٹ یونیورسٹی سے حاصل شدہ ڈگریوں پر کس طرح ملازمت کررہے ہیں.

محترم وزیراعلی محمود خان اور وزیر کھیل عاطف خان صاحب!

آپ اس بات کی بھی انکوائری کروائیں کہ کس طرح ابھی ڈائریکٹریٹ میں من پسند افراد کو دوبارہ بھرتی کرنے کیلئے کیسے کیسے ڈاکومنٹس بنائے جارہے ہیں.جس طرح سیاستدان ایک دوسرے کو یہ کہہ کر لتاڑتے ہیں کہ کرپشن اور چوری سابق دور میں ہوئی ہیں اسی طرح اسی ڈائریکٹریٹ میں سابقہ بیورو کریٹس کو لتاڑ کر اور ان کے منہ پر گند ڈال کر جو کام اب کیا جارہا ہے وہ قابل افسوس ہے.گذشتہ ایک سال کا ریکارڈ چیک کریں تبھی آپ کو پتہ چل جائے گا.

قانون سب کیلئے یکساں ہے، یہ ایک بنیادی فارمولہ ہے لیکن مزے کی بات یہی ہے کہ سپورٹس ڈائریکٹریٹ میں قانون سب کیلئے یکساں نہیں کیونکہ کچھ لوگ " گڈ بک " میں شامل ہیں اس لئے ایسے کوچزجن کا ریکارڈ سابق ایسوسی ایشن کے نمائندوں کے پاس تھا انہیں دفاتر میں بلوا کر ان سے کنفرمیشن کروالی گئی اور یہ قانونی طریقہ بھی ہے لیکن جو لوگ"اسی ڈیپارٹمنٹ" میں بیٹھے افراد کے آنکھوں میں کھٹکتے ہیں ان کیلئے الگ قانون ہے بجائے ان کی ویری فیکیشن متعلقہ دور کے ایسوسی ایشن کے نمائندوں کے بجائے کوچز کو یہ کہا جارہا ہے کہ موجودہ دور کے ایسوسی ایشن کے نمائندوں سے کروائی جائے، حالانکہ اگر ایک قانون ہے تو پھریہ "دوہرا نظام"کیوں ہے.ایک گڈ بک میں شامل ہیں تو اس کیلئے الگ قانون اور دوسرا کوچ برا لگتا ہے یا پھر خوشامد نہیں کرسکتا تو اس کیلئے الگ قانون.. کیا یہی تحریک انصاف کا انصاف ہے..

اس ڈیپارٹمنٹ میں اتنی اندھیرنگری مچی ہوئی ہیں کہ کوئی یہ پوچھنے کی جرات نہیں کرسکتا کہ ہمارے ساتھ بے انصافی کیوں ہورہی ہیں اور اگر کوئی ایسا کرتا ہے تو پھر " وہ بھی کھڈے لائن" میں شامل ہو جاتا ہے تنخواہیں نہیں دی جاتی، جس کی بڑی مثال ہمارے ہی ڈیپارٹمنٹ کی ایک خاتون ٹینس کوچ بھی ہے جسے پاک آرمی سے اسی ڈیپارٹمنٹ نے بلایا تھا اور اس کے دور میں کم و بیش 30 ٹینس کی لڑکیاں آئی تھی لیکن اس نے اپنے ساتھ ہونیوالی جانبداری کے حوالے سے آواز اٹھائی تو آج اس نہ صرف اس سے ڈیوٹی لی گئی بلکہ تنخواہیں بھی تین ماہ سے ادا نہیں کی جارہی ہیں حالانکہ اس کے ساتھ کام کرنے والے مالی کو جسے سپورٹس ڈائریکٹریٹ نے ٹینس کوچ بنا دیا اسے تنخواہیں ادا کی جارہی ہیں. اور یہ سب کچھ ایسے وقت میں ہورہا ہے جب " خواتین کیساتھ جانبدارانہ" رویوں کے خلاف قانون سازی بھی ہوئی ہیں، اعلانات بھی کئے جارہے ہیں، انصاف کے دعوے بھی کئے جارہے ہیں لیکن اس خاتون ٹینس کوچ کرچ کو نہ صرف تنخواہیں ادا نہیں کی جارہی بلکہ اسی ڈیپارٹمنٹ کے " اصول پسند اور قانون پسند" کہلوانے والے " بڑے بڑے " بیورو کریٹس اسی خاتون کو دھمکیاں بھی دیتے ہیں کہ" آپ کس منہ سے اس ڈیپارٹمنٹ میں آرہی ہو`..

محترم وزیراعلی محمود خان و وزیر کھیل عاطف خان!

کھیلوں کی ڈیپارٹمنٹ کی بنیادی ذمہ داری کھلاڑی پیدا کرنا ہے لیکن اس ڈیپارٹمنٹ میں آنیوالے بیورو کریٹس سے کوئی یہ سوال نہیں کرتا کہ آپ نے اپنے دور میں کتنے کھلاڑی پیدا کئے، کتنے ایسے کھلاڑی بنائے جو صوبے کی سطح پر، قومی سطح پر اور بین الاقوامی سطح پر ملک و قوم کا نام روشن کررہے ہیں.یہاں تو آوے کا آوا ہی بگڑا ہوا ہے.کھلاڑیوں پر کھیلوں کے میدان بند ہیں، آرچری کے کھیل کیلئے جگہ نہیں، اس ڈیپارٹمنٹ کے بڑے صاحب یہ کہتے ہیں کہ " یہ لڑکیوں کا کھیل ہے"، اسی طرح والی بال کیلئے کوئی جگہ نہیں، ہاکی کا ٹرف گذشتہ دس ماہ سے غائب ہے اور اس ڈیپارٹمنٹ میں بیٹھے افسران تنخواہیں لے رہے ہیں لیکن انہیں کھیلوں کی بنیادی سہولیات سمیت کھلاڑیوں کی پروا ہی نہیں.ہاں انہیں پرو ا ہے تو" ٹھیکے" کس طرح من پسند افراد کو دئیے جائیں. اس کیلئے " کیپرا" قانون کے نام پر کس طرح بندوں کو ڈیپارٹمنٹ میں لایا جائے. انہیں کس طرح قانون کی آڑ میں راستہ دیکر من پسند کنٹریکٹرز کو ٹھیکے دئیے جائیں.مخصوص قوانین ہی مخصوص کنٹریکٹر کیلئے بنائے جائیں.اورپھر انہیں نوازا جائے..
اگر آپ کو ان چیزوں کا یقین نہیں! تو سر بسم اللہ کیجئے..

ایک انکوائری کمیٹی بنائیں جو کہ جوڈیشل سمیت سول ملازمین پر مشتمل ہوں اور ان کی دیانت پر کسی کو شک نہ ہوں جو اس بات کی انکوائری کریں کہ کس طرح "اس ڈیپارٹمنٹ " میں آنیوالے افراد موٹر سائیکلوں اور "ڈگ ڈگی " پر آیا کرتے تھے لیکن آج ان کے پاس کروڑوں روپے کی جائیدادیں ہیں، ان ملازمین کا ریکارڈ چیک کریں کہ ان کے پاس اتنا پیسہ دوران ملازمت کیسے آگیا، کہ کروڑروں کی جائیدادیں بھی رکھ رہے ہیں، ان کے رشتہ دار بھی بھرتی ہورہے ہیں اور سب کچھ ان کی مرضی سے ہورہا ہے لیکن پوچھنے والا کوئی نہیں.

اسی طرح کھیلوں کی کوریج کرنے والے صحافی بھی آسمان سے اتری ہوئے لوگ نہیں ان کی بھی انکوائری کرانے کی ضرورت ہے کہ کتنے ایسے لوگ ہیں جو کھیلوں کی رپورٹنگ کے نام پر مخصوص لوگوں نے مسلط کئے ہیں کوئی تو ان صحافیوں کا ریکارڈ بھی چیک کریں کہ کونسے اداروں کیساتھ وابستہ ہیں، انہیں انگریزی، پشتو یا اردو آتی بھی ہے یا نہیں اور ان کی رپورٹنگ فیلڈ میں کتنا تجربہ ہے. یا ایک بندے کی خبر کو سارے اخبار میں مختلف افراد بھیج کر یہی سمجھتے ہیں کہ " ہم نے صحافت کا حق ادا "کردیا ہے.کتنے ایسے صحافی ہیں جو کالجز میں پڑھاتے ہیں، کتنے ایسے ہیں جواسی ڈیپارٹمنٹ کے مخصوص افراد کیساتھ مل کر کنٹریکٹر بنے پھرتے ہیں، کتنے سپورٹس ڈائریکٹریٹ کے " ٹٹو "بن کر کام کررہے ہیں، اور کتنے ایسے ہیں جو نام تو صحافت کا لیتے ہیں مگر وہ بنیادی طور پر گھروں اور زمینوں کی ڈیلنگ کرتے ہیں..سپورٹس ڈائریکٹریٹ کے ملازمین کیساتھ ساتھ ان صحافی نما افراد کا ریکارڈ بھی چیک کرنے کی ضرورت ہے کہ ان کی اوقات پہلے کیا تھی اور اب کیا سے کیا بن گئے ہیں.ان کے رشتہ دار کہاں پر ہیں، کتنے لوگوں نے اپنے رشتہ داروں کو کھیلوں کے نام پر باہر بھجوایا، کتنے میگزین نما اداروں کے لوگوں نے اپنے لیٹر دیکر نیٹ کیفے مالکان کو صحافت کی آڑ میں بیرون ملک بھجوا دیا.کتنے کھیلوں کی کوریج کرنے والے صحافی نما چیزیں "سرکاری ڈیپارٹمنٹس" سے وابستہ ہے اور دونوں جگہوں پر پیدا گیری کررہے ہیں لیکن ڈیوٹی ایک جگہ بھی نہیں کرتے.اس طرح ان میں کتنے ایسے صحافی ہیں جو "ہراسمنٹ " میں ملوث ہیں جن پر گرلز کالجز میں پابندیاں بھی لگی. لیکن ان میں غیرت نام کی کوئی چیز نہیں. اور اپنے گھروں میں بیٹھی اپنی ماؤں، بہنوں اور بیٹیوں کو بھول جاتے ہیں.

محترم محمود خان و وزیر کھیل عاطف خان!

وقت کیساتھ ہر چیز کے معیار بدلتے ہیں اور کوشش کی جاتی ہیں کہ بہتر سے بہتری اور پھر بہترین کا عمل ہو لیکن سپورٹس ڈائریکٹریٹ میں سسٹم الٹا چل رہا ہے.سال 2019 میں این ٹی ایس پاس کرکے آنیوالے افراد کو اسی ڈیپارٹمنٹ نے بھرتی نہیں کیا، کیوں! اس کی وجہ یہی تھی کہ "مرغ اور تیتر" لڑانے والوں کو ایسے لوگ پسند نہیں جو اپنے حق کیلئے لڑتے ہوں، اس ڈیپارٹمنٹ میں متعدد ایسے کھلاڑی موجود ہیں جنہوں نے این ٹی ایس ٹیسٹ بھی پاس کیا، تعلیمی ریکارڈ بھی مکمل ہے لیکن انہیں بھرتی نہیں کیا گیا.اس وقت یہ کہا گیا تھا کہ قومی سطح کے مقابلوں کا ریکارڈ ہونا ضروری ہے بعض لوگوں کے پاس ریکارڈ بھی تھا لیکن انکا ریکارڈ اسی انصاف کی حکومت میں بیٹھے افراد نے غائب کروایا.

اور اب مزے کی بات یہ ہے کہ سال 2022 میں جوقوانین ملازمتوں کیلئے لائے گئے ہیں وہ بہتر سے بہترین ہونے کے بجائے نیچے کی طرف آگئے، جس کی مثال یوں ہے کہ سال 2019 میں قومی مقابلوں کا ریکارڈ چاہئیے تھا اور سال 2022 میں اب صوبائی مقابلوں کا ریکارڈ چاہئیے. اسی طرح کوچز کیلئے عمر کی حد میں میں کمی لائی گئی سوال یہ ہے کہ تیس سے پینتیس سال تک کھیلنے والے وہ کونسے کھلاڑی ہونگے جو اپنے شعبے کو چھوڑ کر کوچنگ کی طرف آئیں گے.حال ہی میں جاری ہونیوالا کرکٹ کا اشتہار بھی"اناڑیوں " کا بنایا گیا اشتہار ہے جس میں کوچ کیلئے عمر 22سال سے 32 سال رکھی گئی ہیں یعنی بقول "بچوں کے ہاتھوں میں پستول دے دیا گیا ہے".

خدارا! کھیل کے شعبے کو مزید تباہی سے بچائیں، میں اسی ڈیپارٹمنٹ سے تعلق رکھتا ہوں، میرے جیسے بہت سارے لوگوں کیساتھ زیادتی ہورہی ہیں لیکن انہیں پوچھنے والا کوئی نہیں.حال ہی میں بغیر اشتہار کے کئے جانیوالے کلاس فور کی بھرتی سے لیکر کوچنگ کرنے والے افراد کیساتھ کیا ہورہا ہے وہ چیزیں ہیں جس پر توجہ دینے کی ضرورت ہے..

شکریہ

سپورٹس ڈائریکٹریٹ کا ایک ادنی ملازم.

Musarrat Ullah Jan
About the Author: Musarrat Ullah Jan Read More Articles by Musarrat Ullah Jan: 590 Articles with 422508 views 47 year old working journalist from peshawar , first SAARC scholar of kp , attached with National & international media. as photojournalist , writer ,.. View More