سال 2022 کے آخر تک پانچ ارب فونز کو پھینک دیا جائے گا

image
 
آپ کا فون یقیناً آپ کو عزیز بھی ہو گا اور آپ کے لیے اہم بھی اس بات سے قطع نظر کہ یہ آئی فون کا نیا ماڈل ہے یا نوکیا کا 3310 ماڈل۔ مگر کیا آپ جانتے ہیں کہ سال 2022 کے آخر تک عالمی سطح پر تقریباً پانچ ارب موبائل فونز کو الیکٹرونک کچرا قرار دے کر پھینک دیا جائے گا۔
 
عالمی ادارہ برائے الیکٹریکل اینڈ الیکٹرونک اکیومپنٹ ویسٹ (ڈبلیو ای ای ای ) کا کہنا ہے کہ رواں برس 5.3 ارب موبائل فونز کو ری سائیکل نہیں کیا جائے گا بلکہ انھیں الیکٹرک کچرا قرار دے کر پھینک دیا جائے گا۔
 
عالمی تجارتی اعداد و شمار پر مبنی یہ تخمینہ ’ای ویسٹ‘ کے بڑھتے ہوئے ماحولیاتی مسئلے کو نمایاں کرتا ہے۔
 
تحقیق سے یہ پتا چلا ہے کہ بہت سے لوگ اپنے پرانے موبائل فونز کو ری سائیکل کرنے کی بجائے انھیں اپنے پاس ہی رکھتے ہیں۔
 
اور ان فونز میں موجود قیمتی دھاتیں مثلا تاروں میں موجود تانبہ، اور ری چارج ایبل بیٹریوں میں موجود کوبالٹ کو نکال کر دوبارہ استعمال نہ کرنے سے ان معدنیات کے لیے کان کنی کرنی پڑتی ہے۔
 
ڈبلیو ای ای ای کے ڈائریکٹر جنرل پاسکل لیروئے کا کہنا ہے کہ ’لوگوں کو یہ احساس نہیں ہوتا کہ یہ تمام بظاہر غیر معمولی اشیا کی بہت زیادہ قیمت ہے اور مجموعی طور پر یہ عالمی سطح پر ایک بڑے حجم کی نمائندگی کرتے ہیں۔‘
 
image
 
دنیا بھر میں ایک اندازے کے مطابق 16 ارب موبائل فونز ہیں اور یورپ میں موجود موبائلز میں سے تقریباً ایک تہائی موبائل فونز اب استعمال میں نہیں ہیں۔
 
ڈبلیو ای ای ای کا کہنا ہے کہ اس کی تحقیق سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ واشنگ مشین سے لے کر ٹوسٹر تک اور ٹیبلٹ کمپیوٹرز سے لے کر جی پی ایس ڈوائسز تک عالمی سطح پر الیکٹرونک کچرے کا ایک پہاڑ ہے اور سنہ 2030 تک یہ بڑھ کر 74 ملین ٹن تک پہنچ جائے گا۔
 
اس سال کے شروع میں، رائل سوسائٹی آف کیمسٹری نے نئی مصنوعات تیار کرنے کے لیے پرانے آلات میں سے قیمتی دھاتیں نکال کر استعمال کرنے کو فروغ دینے کے لیے ایک مہم شروع کی تھی، جس میں یوکرین جنگ سمیت عالمی تنازعات کو اجاگر کیا گیا، جس سے قیمتی دھاتوں کی سپلائی چین کو خطرہ ہے۔
 
ڈبلیو ای ای ای کی اہلکار میگڈلینا کا کہنا ہے کہ ’یہ پرانے آلات بہت سے اہم اور قیمتیں وسائل (دھاتیں) فراہم کرتے ہیں جنھیں نئے الیکٹرانک آلات یا دیگر آلات کی تیاری میں استعمال کیا جا سکتا ہے، جیسے ونڈ ٹربائنز، الیکٹرک کار بیٹریاں یا سولر پینلز۔ یہ سب کم کاربن اخراج کرنے والے معاشروں میں ڈیجیٹل منتقلی کے لیے بہت اہم ہیں۔‘
 
دنیا کے صرف 17 فیصد سے زیادہ الیکٹرونک کچرے کو صحیح طریقے سے ری سائیکل کیا جاتا ہے۔ لیکن اقوام متحدہ کی بین الاقوامی ٹیلی کمیونیکیشن یونین نے اگلے سال تک اسے 30 فیصد تک بڑھانے کا ہدف مقرر کیا ہے۔
 
اس سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ ’یہ تیزی سے بڑھنے والے اور سب سے پیچیدہ کچرے میں سے ایک ہے جو انسانی صحت اور ماحول دونوں کو متاثر کرتا ہے، کیونکہ اس میں نقصان دہ مادے ہو سکتے ہیں۔‘
 
میٹریل فوکس نامی تنظیم کے سروے سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ برطانیہ میں گھروں میں تقریباً 5.63 ارب پاونڈز مالیت کی دس لاکھ سے زائد غیر استعمال شدہ لیکن قابل استعمال برقی اشیا موجود ہیں۔
 
یہ حساب بھی لگایا گیا ہے کہ برطانیہ میں اوسط فی گھر تقریباً دو سو پاؤنڈ تک کی غیر استعمال شدہ الیکٹرک آلات کو فروخت کر سکتا ہے۔
 
اس تنظیم کی آن لائن آگاہی مہم میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ آپ کے قریب ترین ری سائیکل پلانٹ کہاں کہاں موجود ہیں۔
 
پاسکل لیروئے کہتے ہیں اس ضمن میں اور بھی بہت کچھ کیا جا سکتا ہے۔
 
وہ کہتے ہیں کہ ’سپر مارکیٹوں میں کلیکشن بکس فراہم کرنا، نئے آلات کی ڈیلیوری پر چھوٹے ٹوٹے ہوئے آلات کو اٹھانا اور چھوٹے ای ویسٹ کو واپس کرنے کے لیے پی او (پوسٹ آفس) بکس پیش کرنا ان چیزوں کی واپسی کی حوصلہ افزائی کے لیے متعارف کرائے گئے کچھ اقدامات ہیں۔‘
 
Partner Content: BBC Urdu
YOU MAY ALSO LIKE: