فنا فی اللہ کی تہہ میں بقا کا راز مضمر ہے

جب قدرت نے انسانوں کو عدم سے وجود بخشا اور پھر حیات مستعار کیلئے نظام زندگی عطا کیا، تو وہ نظام ماورائے زندگی حقائق کے مضبوط نظریے پر استوار تھا۔ جس کا سادہ سا مفہوم یہ ہے کہ دنیا کی زندگی از خود سب کچھ نہیں بلکہ اس کے بعد ایک اور زندگی آنے والی ہے۔ یہ زندگی اسی کو سنوارنے اور خوبصورت بنانے کیلئے ایک امتحان گاہ ہے۔ لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ جہاں جہاں الٰہی تعلیمات کی گرفت کمزور ہوتی چلی گئی اور نفسانی و شیطانی وساوس کا اثر رسوخ بڑھتا گیا، وہاں "تابع زندگی" کا فلسفہ انسانوں نے اپنی ناقص عقل سے خود ہی گڑھ لیا۔ اگر چہ مذہب کو بظاھر مانتے بھی ہوں لیکن اس میں من گھڑت خرافات کا اضافہ کر دیا۔ زندگی کے شب و روز میں اپنے مالک حقیقی اور پالنہار کو بھلانے لگے۔ کچھ اسی طرح کی صورتحال ہمیں چھٹی صدی عیسوی کے اس دور کی بھی دکھائی دیتی ہے جب عیسیٰ علیہ السلام کی تشریف آوری کو تقریبا 571 سال گزر چکے تھے۔ ان کے آسمان پر اٹھائے جانے کے بعد ابھی تک کوئی نبی بھی تشریف نہیں لائے تھے۔ دنیا بھر اور خصوصا جزیرة العرب میں ایک مرتبہ پھر گمراہیوں نے پنجے گاڑ لیے۔ چھوٹی چھوٹی نومولود بچیاں ماں باپ کی پتھر دلی اور فرسودہ تصورات کی وجہ سے زندہ زمین میں دفن کی جانے لگیں۔ خانہ کعبہ شریف جسے موحد اعظم حضرت ابرہیم و اسماعیل علیہما السلام نے تعمیر فرمایا تھا، اس کے اندر بھی 360 بتوں کو سجا کر ان کی پوجا کی جا رہی تھی۔ قتل و غارت، چوری چکاری، ایک دوسرے کی حق تلفی، ناپ تول میں کمی اور صرف دولت کے انبار اکٹھے کرنا اور انہیں گن گن کر خوش ہونا ان کی زندگی کا شعار بن چکا تھا۔ ایک ایسے زمانے میں جسے تاریخ کے اوراق پر آج بھی "زمانہ جاہلیت" لکھاجاتا ہے۔ پھر اللہ تعالٰی کو اپنی مخلوق پر رحم آیا۔ ربیع الاول شریف کے بابرکت مہینہ میں اللی کے پیارے حبیب لبیب حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادت باسعادت ہوئی۔ اعلان نبوت سے قبل 40 سال کا طویل عرصہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مکہ مکرمہ میں گزارا۔ مکہ مکرمہ میں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے عمر مبارک کے اس حصے کو قرآن حکیم میں بطور ثبوت پیش فرمایا کہ میں نے تمہارے درمیان زندگی کا ایک حصہ گزارا ہے۔ کیا اس میں کوئی کمی کمزوری تمہیں دکھائی دی۔ حقیقت یہ ہے کہ اس وقت تک آپ کے صالح اور پاکیزہ اخلاق و کردار نے اہل مکہ کے قلوب و اذہان پر ایسا اثر کر رکھا تھا کہ وہ لوگ آپ کو "صادق اور امین" کے القابات سے نوازتے تھے۔ پھر وہ وقت آپہنچا کہ جس مقصد کے لیے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تشریف آوری ہوئی، اس کی تکمیل ہو۔ بحکم الہی 40 سال کی عمر شریف میں اظہار نبوت فرمایا۔ کوہ صفا پہ کھڑے ہو کر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اعلان فرما دیا کہ "کہہ دو کہ اللہ تعالٰی کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں، فلاح پا جاؤ گے"۔ یہ وہ موقع تھا جب مخالفت کا آغاز ہوگیا۔ اپنے قریبی رشتہ دار بھی مخالفت کرنے لگے۔ 6 سال یہ سلسلہ جاری رہا۔ اذیتوں اور پریشانیوں کے باوجود حکمت و دانائی اور پوری محنت کے ساتھ اللہ کی مخلوق تک اللہ کا پیغام پہچانے کی کاوشیں جاری رہیں اور اس وقت تک تمام مرد و زن جو ایمان لائے ان کی تعداد 39 بنتی ہے اور چالیسویں اسلام قبول کرنے والے حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ تھے۔ 7 سال مزید مکہ مکرمہ میں ہی رہتے ہوئے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اسلام کی تبلیغ و ترویج کا سلسلہ جاری رکھا۔ اس طرح 13 سالہ اذیتوں سے بھرپور مکی دور کے بعد بحکم الہی آپ نے مدینہ منورہ کی طرف ہجرت فرمائی۔ وہاں پر بھی بے شمار مسائل پر قابو پا کر "اسلامی فلاحی ریاست مدینہ" کی بنیاد رکھی۔ 27 غزوات میں بحیثیت سپہ سالار آپ میدان کارزار میں نظر آتے ہیں۔ ایک صالح معاشرہ کی تشکیل کیلئے عقائد، عبادات، معاملات اور اخلاقیات کی تعلیم کا سلسلہ بھی جاری رہا۔ پھر ایک وقت وہ آیا کہ اللہ تعالٰی نے دین اسلام کی تکمیل کی نوید سنا دی۔ 63 سال کی عمر مبارک میں آپ اس دار فانی سے دار بقاء کی طرف تشریف لے گئے۔ اس طرح کل دعوتی جدوجہد کی کل مدت 23 سال بنتی ہے۔ اس دوران جو جماعت آپ نے تیار فرمائی، وہ مقصد زندگی سے آگاہ تھی۔ انہیں یقین محکم تھا کہ دنیا کی عارضی زندگی کے بعد ہماری اصل اور دائمی زندگی کا آغاز ہوگا۔ اسی لیے انہوں نے دینی حق کی سر بلندی کیلئے کسی بھی مطلوب قربانی سے دریغ نہیں کیا، خواہ جان کی ہو یا مال و اولاد کی۔ آج جب ہم اپنے اردگرد کے ماحول پر نظر دوڑاتے ہیں تو یوں محسوس ہوتا ہے کہ زیادہ تر لوگ الہی تعلیمات سے بے بہرہ اور فکر آخرت سے عاری ہیں۔ وہ سمجھتے ہیں کہ یہی زندگی ہے اور بس۔ ہمارے آقا کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے تشریف لا کر الہی تعلیمات کی تکمیل فرمائی اور اس زندگی کے بعد آخرت کی زندگی کے خد و خال کو واضح فرما کر یہ بتا دیا کہ
فنا فی اللہ کی تہہ میں بقا کا راز مضمر ہے
جسے مرنا نہیں آتا، اسے جینا نہیں آتا

 

Prof Masood Akhtar Hazarvi
About the Author: Prof Masood Akhtar Hazarvi Read More Articles by Prof Masood Akhtar Hazarvi: 208 Articles with 219357 views Director of Al-Hira Educational and Cultural Centre Luton U.K., with many years’ experience as an Imam of Luton Central Mosque. Professor Hazarvi were.. View More