ریڈ فاونڈیشن کا معاشرتی تعمیر میں کردار!

ریڈ فاونڈیشن سکولز‘ کالجز اِس وقت تعلیمی میدان میں ہر طرح سے سر خرو ہوتے جارہے ہیں‘ جن میں طلباء و طالبات شاندار کارکردگی کا مظاہرہ کر رہے‘ امسال کی طرح اس سال بھی میرپور بورڈ کی زیادہ تر پوزیشیز ریڈفاونڈیشن نے لی۔ اَب عوام کا اعتماد کئی اداروں سے زیادہ ریڈ فاونڈیشن پر قائم ہو چکا۔ یہ ادارہ دِن بدن ترقی کی منازل طے کرتا جارہا ہے۔ اِس ادارہ کا معاشرہ کی تعمیر میں کلیدی کردار ہے‘کیونکہ علم انسان میں شعور پیدا کرتا ہے۔ تعلیم کی بدولت ہی انسان اچھے برے کی تمیز کر سکتا ہے یعنی تعلیم ہی مسائل کا حل ہے۔ملک میں بے شمار لوگ اور ادارے عوام کی بے لوث خدمت کر رہے ہیں‘ ہمیں انھیں پروموٹ کرنا چاہیے‘ تاکہ بے لوث خدمت کرنے والوں کی حوصلہ افزائی ہو اور انھیں محسوس ہوکہ وہ جنگل میں ناچنے والے مور نہیں ہیں‘ معاشرے کوان کی خدمات بھی نظر آ رہی ہیں اور لوگ انہیں ایپری شیٹ بھی کر رہے ہیں۔ انسان کاشوق اس کا مظہر ہے اس کی سوچ کیا ہے یہ اس کی منزل کا تعین کرتی ہے۔ہلال کا کمال یہ ہے کہ بدر ِ منیر بن جاتا ہے۔ کلی کا کمال کہ وہ پھول بن جاتا ہے‘بد یگر الفاظ جب تک کوئی شے تکمیل کی تمام کھٹن منازل طے نہیں کر لیتی وہ نہاں رہتی ہے۔

کامیابی کی ایک بنیادی وجہ ریڈ فاونڈیشن کی اعلیٰ قیادت کی ترجیحات ہیں‘عبیدالرحمن عباسی ہوں‘ یا عبدالروف جنجوعہ اس ادارہ کا ہر فرد ملت کا تابناک ستارہ ہے۔ دراصل ترجیحات‘اصول رسمی اور حاشیائی ہوں تو اطمینان بخش ہو سکتے ہیں۔اگر فرائض منصبی کا کمال کسی کے کام کے شایان شان ہو تو دو گنا اطمینان بخش ہوتی ہیں۔ کسی بھی شعبہ ہائے زندگی میں تفویض کردہ فرائض ِ منصبی کامل ارتکاذِ توجہ‘ فرض شناسی‘پیشہ وارانہ صلاحیتوں کی نہج پر گویا اوقات ِ کار کو دیانت کی سوئی سے پرو کر اپنے اہل ِذمہ اور زانوئے تلامذہ طے کرنے والوں کی جھولی میں رکھتے ہیں۔ فرض شناسائی جن کا علت ِ خاصہ ہے۔

ہمارا تعلیم نظام اس طرح سے نسلِ نو کی تعلیم وتربیت کرنے سے تاحال قاصر ہے۔ جس کی ایک اسلامی معاشرہ کو ضرورت ہے۔ ’میں کم و بیش ہندوستان کے ہر حصے کا سفر کر چکا ہوں۔ میں نے وہاں کوئی فقیر‘ کوئی چور نہیں دیکھا۔ اس ملک میں ایسی دولت‘ ایسی اعلیٰ اقدار اور ایسے قابل لوگ دیکھے ہیں کہ میرا نہیں خیال کہ ہم انہیں کبھی فتح کر سکیں گے۔ جب تک کہ ہم ان کی ریڑھ کی ہڈی نہ توڑ دیں۔ چناچہ میں ان کے پرانے نظام تعلیم اور کلچر کو ختم کرنے کی تجویز پیش کرتا ہوں۔ اس لیے کہ اگر ہندوستانی یہ سمجھ لیتے ہیں کہ یہ غیر ملکی نظام اور انگریزی ان کے اپنے نظام سے بہتر ہے تو وہ اپنی خود اعتمادی اور کلچر سب بھول جائیں گے۔ اور وہی کچھ بن جائیں گے جو ہم چاہتے ہیں۔ یونی خالصتاً ایک مغلوب قوم“۔یہ وہ بیان ہے جو لارڈ میکالے نے برطانوی پارلیمان میں دیا تھا‘ جو تاریخ کا حصہ بن گیا۔ اس کی بات بالکل درست تھی‘ انگریز کے ہندوستان پر قبضے سے قبل ہمارے عظیم الشان تعلیمی نظام کی تاریخ پڑھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ کیسا جامع نظام اور کیسی عظیم اقدار و روایات تھیں جنہیں انگریز سامراج نے ختم کر دیا۔

ہمارا آج کا تعلیمی نظام روٹی کمانا تو سکھاتا ہے لیکن زندگی گزارنے کا ڈھنگ نہیں سکھاتا‘ نصاب میں اخلاقیات اور زندگی گزارنے کے طریقوں کی کوئی گنجائش نہیں رکھی گئی۔ اس دور کے تعلیمی اداروں میں فکر اور شعور کی تعلیم نہیں دی جارہی‘ سب کے ذہن ایک مخصوص سوچ کے ساتھ جکڑے ہوئے ہیں۔ یہاں ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کی دوڑ جاری ہے۔ کسی کا مقصد تعلیم حاصل کرنا‘ قابل بننا نہیں بلکہ کاغذ کا ٹکڑا ڈگریاں حاصل کرنا ہے۔

ایسے تناظر میں ایک معلم پر بہت بڑی ذمہ داری ہے اس کے کندھوں پر بھاری بوجھ ہے۔معیاری زندگی کے لئے معیاری تعلیم شرط لازم ہے۔ یہ شرط فرد کے لیے بھی لازمی ہے اور سماج کے لئے بھی۔ تعلیم کا معیار تو نصا ب تعلیم سے متعین ہو تا ہے؛ البتہ طلبہ کی ہمہ جہت شخصیت سازی میں بہت ہی ذمہ دارانہ (crucial) کردارایک اچھے معلم اور استاد کا ہو تا ہے۔ معلم کا کام محض طلباء کو چند حقائق سے آگاہ کردینا اور بعض معلومات منتقل کردینا نہیں ہے۔ اس کا فرض طلبہ کی شخصیت کی تعمیر کرنا‘ ان کی رنگارنگ صلاحیتوں کو پروان چڑھانا‘ان کے اندر دانش و حکمت پیدا کرنا اورا نہیں سماج کا ایک متحرک اور مفید رکن بناناہے۔ اس ذمہ داری کی ادائیگی کے لئے ضروری ہے کہ معلم طلبہ اور سماجی تقاضوں کے درمیان ایک فکری اور نظریاتی پُل قائم کرے تاکہ بدلتی ہوئی دُنیا میں طلباء ان صلاحیتوں سے لیس رہیں کہ جو ایک جدوجہد سے بھرپور زندگی کی ضامن ہوں۔

تبدیلیوں نے تعلیم اور نظام تعلیم پربھی بھرپور اثر ڈالا ہے۔موجودہ وقت تغیر اور تبدیلی کے لحاظ سے انتہائی سریع اور تیز رفتار دورواقع ہوا ہے۔ گلوبلائزیشن نے خود کفالت کی فکر کو پچھاڑدیا ہے۔تہذیب و ثقافت کے میدان میں اجتماعیت نے انفرادیت پر غلبہ حاصل کر لیا ہے۔آج انفرادی تشخص اور اجتماعی روش کے مابین توازن قایم کرنے کی ضرورت پہلے سے بہت زیادہ بڑھ گئی ہے۔علم میں فروغ کی رفتار اتنی شدید ہے کہ حصول علم کے طریقوں میں بنیادی تبدیلیوں کے بغیر علم‘متعلم اور معلم کے درمیان ربط قائم رکھنا مشکل کام بن چکاہے۔آج کے زمانے میں علم حاصل کرنے سے کہیں زیادہ اکتساب کے طریقوں پر عبور حاصل کرنا ضروری ہو گیا ہے۔ علم اور عمل کے درمیان ہر خلیج کو پُر کرنا استاد کے بنیادی فرائض میں شامل ہو گیا ہے۔بدلتی دُنیا میں قومی ورثہ اور اقدار کی حفاظت نئی تعلیمی ضرورت بن گئی ہے۔اس دور کے استاد کو نہ صرف کلاسیکی استاد کا کردار ادا کرنا ہے بلکہ بدلتے ہوئے سماجی تقاضوں کے پیش نظر جدت طرازی کے سلسلوں کوبھی اپنے لائحہ عمل میں شامل کرنا ہے۔

معلم ہونا کوئی معمولی بات ہر گز نہیں‘ جن کے لئے دونوں جہاں پیدا فرمائے گئے‘رحمت العالمینﷺنے بھی اپنا تعارف بطور معلم ہی کروانا پسند فرمایا۔ لیکن ہمارا المیہ ہی کہہ لیجیے کہ ایک معلم کی تذلیل‘ سوشل میڈیا پر بے لگام دانشوروں نے کس قدر ان کی تضحیک معمول بنا لی۔ ریڈ فاونڈیشن سے وابستہ اساتذہ کرام جس قدر محنت‘جانفشانی سے فرائض سرانجام دیتے ہیں وہ اپنی مثال آپ ہیں۔ اگر ان اساتذہ کرام کی محنت اور ان کو ملنے والے معاوضہ کا موازنہ کریں تو یقیناً بہت ہی کم‘بلکہ یوں کہہ لیجیے ان کے اپنے اخراجات پورے کرنا بھی مشکل ہے۔ مہنگائی کے اس وقت میں وہ ایک فیمیل ٹیچر جس پر نہ جانے بوڑھے والدین‘بہن بھائیوں کی تعلیم‘ گھریلو مسائل ہوں۔ ریڈفاونڈیشن جس بہترین انداز میں اساتذہ کو ورک شاپس کے ذریعے نکھار پیدا کرتاوہ ایک الگ عنوان ہے۔ بہرکیف‘ ریڈفاونڈیشن اَب ایک مثالی ادارہ بن چکا۔ہر دُکھ کے بعد ایک سُکھ‘ہر رات کے بعد ایک صبح‘ہر برائی کے بعد اچھائی‘یہ گردشِ دوراں یونہی چلتی رہی ہے۔ یونہی چلتی رہے گی‘جو اعمال صالح بجا لاتے ہیں تاریخ اُنہیں زندہ رکھے گی اور شائد وہ لوگ بھی عبرت کے نشان کے طور پر تاریخ کے اوراق پرمرقوم رہیں جنہیں کبھی انصاف‘معاشرے کو چین دینے کی توفیق نہیں ملتی۔
 

Abid Hashmi
About the Author: Abid Hashmi Read More Articles by Abid Hashmi: 185 Articles with 142454 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.