عمر خالد:انصاف میں تاخیر، انصاف سے محرومی ہے

 دہلی ہائی کورٹ نے جس دن عمر خالد کی ضمانت مسترد کی اسی روز کیرالہ میں پانچ مسلم نوجوان کو دہشت گردی کے الزام سے بری کردیا گیا لیکن یہ رہائی 13؍ سال بعد عمل میں آئی یعنی اگر ان پر جرم ثابت ہوگیا ہوتا اور عمر قید کی سزا ہوجاتی تب بھی وہ ایک سال بعد چھوٹ جاتے۔ ملک کے اندر عدلیہ کی خستہ حالی کے پیش نظر اس خیال سے دل کانپ اٹھتا ہے کہ خدا نخواستہ یہی سلوک عمر خالد اور ان کے ساتھیوں کے ساتھ نہ ہو۔ عمر خالد پر فروری 2020 کے دہلی فسادات کی سازش میں ملوث ہونے کا بہتان ہے۔ ان فسادات کی منصوبہ بندی کرنے کے الزام میں وہ غیر قانونی سرگرمیاں روک تھام ایکٹ (یو اے پی اے ) کے تحت دو سال سے جیل میں ہے۔ عمر خالدکی ضمانت کےخلاف نچلی عدالت کے فیصلے کو دہلی ہائی کورٹ میں چیلنج کیا گیا تھا جسے جسٹس سدھارتھ مردول اور جسٹس رجنیش بھٹناگر نے خارج کردیا ۔

یہ ایک حقیقت ہے مذکورہ فساد میں ان کا کوئی مجرمانہ کردار نہیں تھا اور نہ ہی وہ فساد کی مبینہ سازش کے دوسرے ملزمین سے منسلک تھے ۔ان کے خلاف استغاثہ کے پاس کوئی ثبوت نہیں ہے۔ امراوتی میں فروری 2020 کی تقریر میں کہیں بھی تشدد کی ترغیب نہیں ہے۔ اس کے باوجود جج صاحبان کو ضمانت کی اپیل میں میرٹ نظر نہیں آئی۔ اس طرح کے معاملات میں انتظامیہ کس طرح کے الزامات لگاتا ہے اس کا اندازہ کیرالہ کے مقدمہ سے لگایا جاسکتا ہے جس میں پانچ مسلم نوجوانوں اور تین دیگر افراد کو ابھی حال میں رہائی ملی۔ ان میں سے دو ملزمین نذیر اور شرف الدین پر تو بنگلور بم دھماکوں میں شامل ہونے کا سنگین الزام بھی تھا اور باقی لوگوں پر دھماکہ خیز مواد رکھنے کابہتان تراشا گیا تھا ۔ این آئ اے کی کوچی خصوصی عدالت نے ان سارے الزامات کو مسترد کرکے تمام بے قصور نوجوانوں کی رہائی کا حکم صادر کردیا۔ خصوصی جج نے اپنے فیصلے میں لکھا کہ ایسا کوئی ثبوت نہیں ہے کہ کسی بھی ملزم کا مواد کے قبضے سے کوئی تعلق ہو اس لیے ملزمان بری ہونے کے حقدار ہیں ۔

جج کامینس کے مطابق جس کیس میں کسی بھی بنیاد پر ملزم کو ملوث کرنے کے لیے مواد کا فقدان ہو، کارروائی کرنا عدالت کے وقت کا ضیاع ہوگا۔13؍ سال کے بعد عدالت کو اپنے وقت کی خرابی کا خیال آیا جبکہ اس دوران بے قصور ملزمین کی زندگی ضائع ہوگئی۔2009 میں پولیس ٹیم نے دھماکہ خیز موادکے ملنے کا دعویٰ کرکے الزام لگایا تھا کہ ملزمان نے ملک بھر میں دھماکے کرنے کے مشترکہ ارادے کی تکمیل کے لیے، غیر قانونی طور پر دھماکہ خیز مواد اپنے پاس رکھا اور اسے پانچویں ملزم کے گھر سے ملحقہ مکان میں چھپا دیا۔دھماکہ خیز مادہ قانون کی دفعہ 4 کے تحت جرم ثابت کرنے کے لئےاس بات کا ثبوت ہونا چاہئے کہ ملزم کے پاس یا اس کے قبضہ میں ، جان کو خطرے میں ڈالنے یا املاک کو شدید نقصان پہنچانے کے ارادے سے کوئی دھماکہ خیز مادہ تھا ۔ تاہم این آئی اے عدالت نے مشاہدہ کیا کہ پولیس نے کیس میں جو دھماکہ خیز مواد برآمد کیا اس کے ملزم کے پاس ہونے کاکوئی براہِ راست ثبوت نہیں ہے اور نہ کسی بھی ملزم کے ذریعے اسے ناکارہ بنا نے الزام کو ثابت کرنے کے لیے کوئی ریکارڈ دستیاب ہے ۔

اس مقدمہ ایک دلچسپ پہلو یہ بھی ہے کہ استغاثہ کے بے بنیاد الزامات کو مسترد کرنے کے لیے وکلاء کی ضرورت بھی نہیں پڑی اور نہ اس پر کوئی بحث ہوئی۔ عدالت نے خود ریکارڈ کا معائنہ کیا اور مقدمہ ڈسچارج کرکے سارے ملزمین کو بری کردیا۔یہ کام اگر 13؍ سال قبل ہوجاتا اور ساتھ ہی انتظامیہ کو بے بنیاد الزام لگانے کی سزا دی جاتی تو عمر خالد جیسے کئی بے قصور نوجوان آج جیل کی سلاخوں کے پیچھے نہیں ہوتے۔ موجودہ نظام میں بہتان لگانے والا چھوٹ جاتاہےجبکہ اسلامی نظام میں مجرم قرار پاتا ہے ۔اسی لیے فی زمانہ چہار جانب ناانصافی کا دور دورہ ہے۔ ڈاکٹر عمر خالد بدنامِ زمانہ کپل مشرا یا پرویش ورما جیسا نفرت انگیزی کرنے والا سیاستداں نہیں ہے۔ معروف دانشور نوم چومسکی اور مہاتما گاندھی کے پوتے راج موہن گاندھی سمیت امریکہ کی ہندوس فار ہیومن رائٹس، انڈین امریکن مسلم کونسل، دلت سالیڈریٹری فورم اور انڈین سول واچ انٹرنیشنل جیسی چار عالمی تنظیمیں ان کی رہائی کا مطالبہ کرچکی ہیں ۔

انڈین امریکن مسلم کونسل کی پریس ریلیز کے مطابق نوم چومسکی نے ایک ریکارڈ شدہ بیان میں کہا تھا کہ ’عمر خالد کو گزشتہ ایک سال سے جیل میں رکھا گیا ہے، انہیں ضمانت نہیں دی جا رہی ہے۔ ان کے خلاف واحد ’ٹھوس‘ الزام یہ ہے کہ وہ بولنے اور احتجاج کرنے کے اپنے آئینی حق کا استعمال کررہے تھے۔ یہ کسی بھی آزاد معاشرے کے شہریوں کا بنیادی استحقاق ہے۔‘ اس احتجاجی بیان کے بعد مزید ایک سال گزر گیا مگر حکومت کے کان پر جوں نہیں رینگی ۔ انہوں نے صاف کہا تھا کہ اس دوران جبر و تشدد کے واقعات نے واضح طور پر ہندوستانی اداروں اور شہریوں کے حقوق کے استعمال میں رکاوٹ ڈالی ہے۔ یہ اقدام ہندوستان میں سیکولر جمہوریت کو نقصان پہنچانے اور ہندو نسل کو مسلط کرنے کی کوشش معلوم ہوتا ہے۔

نوم چومسکی کا یہ بیان کہ ’میں واقعات اور الزامات کا اتنی دور سے اندازہ نہیں لگا سکتا لیکن ان میں سے بہت سے واقعات نے بھارت کے عدالتی نظام کا برا چہرہ پیش کیا ہے‘حالیہ فیصلے پر بھی صادق آتا ہے ۔ امریکہ میں بیٹھ کر چومسکی کو یہ اندازہ ہوجاتا ہے کہ ، ’امتیازی سلوک سے بھرے شہریت قانون CAA اور NRC کے خلاف آواز اٹھانے والے عمر پر دہشت گردی اور فسادات بھڑکانے کے بے بنیاد الزامات میں انہیں طویل عرصے سے جیل میں رکھا گیا ہے۔‘ سچائی یہی ہے کہ عمر خالد کو جیل بھیج کر حکومت کے جبرو استبداد کی مخالفت کرنے والوں کو خوفزدہ کیا جارہا ہے۔ نوم چومسکی تو خیر غیر ملکی ہیں اور ان کے تبصرے کو یہ کہہ کر مسترد کیا جاسکتا ہے کہ وہ حقیقت حال سے واقف نہیں ہیں مگر گاندھی جی پوتے راج موہن گاندھی کے بیان کو کیسے مسترد کیا جائے؟یونیورسٹی آف ایلی نوائے(امریکہ) میں درس و تدریس کی خدمات انجام دینے والے راج موہن گاندھی نے عمر خالد کی رہائی کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’ہندوستان کی جیلوں میں ایسے بہت سے لوگ ہیں، جنہیں نہ تو جلد رہا کیا جا رہا ہے اور نہ ہی مناسب طریقے سے انصاف مل رہا ہے۔ یہ بھارت کی جمہوریت ہے، عمر خالد بھی ان ہزاروں لوگوں میں شامل ہیں جو جیلوں میں بند ہیں۔‘

امسال 24 مارچ کو دہلی کی ککڑڈوما کورٹ کے ایڈیشنل سیشن جج امیتابھ راوت نے بھی جے این یو کے سابق طالب علم عمر خالد کو ضمانت دینے سے انکار کرتے ہوئے وہی کہا تھا جسے ہائی کورٹ نے من و عن دوہرا دیا ۔ دونوں نے کہاکہ اس مرحلے پر’درخواست گزار کو ضمانت دینے کا کوئی میرٹ نہیں ہے‘۔ ککڑڈوما کورٹ کے فیصلے پر تبصرہ کرتے ہوئے راج موہن گاندھی نے کہا تھا کہ ’عمر خالد ہندوستان کا ایک بہت ہی باصلاحیت نوجوان سپوت ہے لیکن گزشتہ 20 ماہ سے انہیں UAPA کے تحت جیل میں رکھا گیا ہے۔ ان 20 مہینوں کے دوران نہ انہیں انصاف ملا اور نہ عوامی سماعت ہوئی ۔ 1948 میں ہندوستان نے انسانی حقوق کے تحفظ کی ضمانت دینے والے عالمی اعلامیہ پر دستخط کیے تھے۔ اس اعلامیہ کے مطابق رہائی ان (عمرخالد) کا حق ہے۔امریکی ریسرچ پروفیسر راج موہن گاندھی کے مطابق ، ’عمر خالد اور ایسے ہزاروں لوگوں کو جیل میں رکھنے کا ایک اضافی دن بھی دنیا میں جمہوریت اور انسانی وقار پر چوٹ اور ہندوستان کے وقار کو دھچکا ہے۔‘پروفیسر راج موہن گاندھی نے مطالبہ کیا تھا کہ وہ آزادی کی کھلی ہوا لے سکیں۔ انہیں ہندوستان کے انسانی وقار، آزادی، معیار زندگی اور اتحاد کو بلند کرنے والے حقیقی مشن میں حصہ لینے کا حق دیں۔ ‘

عمر خالد پر جملہ دو الزامات ہیں ان میں سے ایک تقریر تو اس قدر بے ضرر ہے کہ ان کے وکیل نے اسے ثبوت کے طور پر عدالت میں پیش کردیا لیکن چونکہ عدلیہ کی آنکھوں پر زعفرانی پٹی ّ بندھی تھی اس لیے وہ اسے دیکھ نہیں سکی ۔ دوسرا الزام دہلی فساد کی سازش کا ہے۔ ایک سال قبل دہلی کے اقلیتی کمیشن نے ڈاکٹر ظفرالاسلام خان کی نگرانی میں تیار کردہ رپورٹ میں فسادیوں کی تفصیل سے نشاندہی کی گئی تھی۔ ان میں کہیں بھی عمر خالد کا ذکر نہیں تھا۔ ابھی حال میں سابق سپریم کورٹ اور ہائی کورٹ ججوں کی ایک رپورٹ جسٹس لوکر کی قیادت میں تیار کی گئی ہے۔ وہ بھی صاف طور سے کہتی ہے کہ ان فسادات کے بہانے سی اے اے تحریک چلانے والوں سے انتقام لینے کا کام کیا گیا۔ اس لیے یہ سراسر غلط الزام ہے۔ سچائی تو یہ ہے ان دستاویزوں میں جن لوگوں کو فرقہ وارانہ تشدد کا ذمہ دار ٹھہرایا گیا وہ سب سرکار کی پناہ آزاد گھوم رہے ہیں اور بے قصور لوگ جیل کی سلاخوں کے پیچھے ٹھونس دئیے گئے ہیں۔ اس افسوسناک صورتحال پر فیض احمد فیض کا یہ شعر صادق آتا ہے؎
ہے اہل دل کے لیے اب یہ نظم بست و کشاد
کہ سنگ و خشت مقید ہیں اور سگ آزاد
 

Salim
About the Author: Salim Read More Articles by Salim: 2073 Articles with 1270139 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.