اڈانی اور بھوک: یہ رشتہ کیا کہلاتا ہے؟

وزیر اعظم کی غیر معمولی قیادت میں پہلی بار برطانیہ کو پچھاڑ کر ہندوستان دنیا کی پانچویں سے بڑی معیشت بن گیا۔ اس کا سہرہ صرف اور صرف مودی جی کے سر بندھتا ہے۔وہ تو خیر برطانیہ کے اندر وزارت عظمیٰ کی دوڑ میں رشی سوناک تھے۔ ان کے بجائے مودی جی اگر اس مسابقت میں شامل ہوتے تو دنیا کی کوئی طاقت انہیں عظیم برطانیہ کا وزیر اعظم بننے سے نہیں روک پاتی کیونکہ’ مودی ہے تو کچھ بھی ممکن ہے‘ ۔ ویسے اگر رشی سوناک جیت جاتے تو وہ بھی مودی جی کی وجہ سے ہوتا۔ رشی کی ناکامی میں پردھان جی کا کوئی حصہ نہیں ہے کیونکہ شکست و ریخت سے بھلا ان کا کیا واسطہ ؟ امریکہ میں اگر صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو کامیابی مل جاتی تو وہ ہاوڈی مودی اور نمستے ٹرمپ کی وجہ سے ہوتی لیکن ان کے ہارنے میں بھلا مودی کا کیا قصور؟ وہ تو ایسا ہے کہ اترپردیش میں بی جے پی جیت جائے تو وہ مودی جی کے سبب اور اگر پنجاب میں ہار جائے تو وہ علاقائی رہنماوں کی وجہ سے۔یہ ہندوستانی میڈیا کا بنا بنایا فارمولا ہے جس کو وہ استعمال کرتے نہیں تھکتے اور عوام دیکھتے نہیں اوبتی اس لیے یہ سرکس چلتا رہتا ہے۔

معیشت کا جشن ابھی جاری تھا کہ مودی جی قریب ترین دوست گوتم اڈانی کو دنیا کے دوسرے امیر ترین سرمایہ دار ہونے کا اعزاز حاصل ہوگیا۔ یہ بھی وزیر اعظم کی کرم فرمائی کا نتیجہ تھا وزنہ مودی جی سے پہلے گوتم اڈانی کو کون جانتا تھا؟ پچھلے آٹھ سالوں میں اڈانی کے اثاثے میں جو بیس گنا یعنی دو ہزار فیصد کا اضافہ ہوا ہے اس کے لیے مودی جی کے علاوہ کوئی اور ذمہ دار نہیں ہوسکتا ۔ اڈانی نے فی الحال ملک کی شان میں جو اضافہ کیا ہے اس کے لیے وزیر اعظم کا نام تاریخ کے صفحات پر طلائی حروف سے لکھا جائے گا ۔ لوگ مودی جی اس کارنامہ کبھی بھی فراموش نہیں کرسکیں گے اور ہمیشہ ان کے احسانمند رہیں گے کہ ان کے دور میں ملک کو یہ اعزاز حاصل ہوا کہ دنیا ایک نہ سہی دوسرا سب سے امیر آدمی ہندوستانی بن گیا ۔ بعید نہیں کہ 2024 وزیر اعظم ان کو سرکاری پروجکٹس دے دے کر دنیا کاامیرترین آدمی بنوا دیں۔ ویسے اگلے انتخاب میں اگر وہ ناکام بھی ہوگئے تو اڈانی گروپ ان کی عیش و عشرت کا پورا خیال رکھے گا کیونکہ دنیا میں احسانمندی بھی تو کوئی چیز ہے۔

وزیر اعظم نریندر مودی چونکہ چائے پلاتے ہوئے آئے اورکسی سنیاسی کی مانند جھولا اٹھا کر چل دیں گے اس لیے آگے چل کر بھی ان کو کوئی خاص مسئلہ نہیں ہوگا ۔وہ نہ کھا تے ہیں نہ کھانے دیتے ہیں کیونکہ انہیں اول تو بھوک ہی نہیں لگتی اور جب تھوڑی بہت محسوس ہوتی ہے تو راشن کے بجائے بھاشن سےکام چلا لیتے ہیں۔ اصل مسئلہ تو ان عام لوگوں کا ہے جو بھاشن نہیں دیتے ۔ ان کو اپنے پیٹ کی آگ بجھانے کی خاطر غذا کی ضرورت پڑتی ہے۔ یہ چونکہ ان کا نجی معاملہ ہے اس لیے بیچارے وزیر اعظم کا اس سے کوئی لینا دینا نہیں ہے ۔ اسی لیے جب گلوبل ہنگر انڈیکس (عالمی بھکمری کی فہرست) میں ملک پچھڑتا ہے تو اسے بدنام کرنے سازش قرار دے کر مسترد کردیا جاتا ہے۔ یہ عجب اتفاق ہے کہ ہندوستان کے اندر فی فرد کی آمدنی برطانیہ سے بیس گنا کم ہے پھر بھی ہندوستان کو پانچویں نمبر کی معیشت بنانے والی رپورٹ درست ہے۔ اڈانی گروپ پر 2.2لاکھ کروڈ کا قرض ہے اس کے باوجود اسے دوسرے نمبر کا امیر ترین فرد قرار دیا جانا غلط نہیں ہے مگر ہندوستان کا بھکمری کی فہرست میں پاکستان سے پچھڑ جانا عالمی سازش کا نتیجہ ہے۔ یہ الزام اگر درست ہو تب بھی سوال یہ ہے لوگ ایسا کیوں کرتے ہیں؟ اور مودی سرکار ان سازشوں کو ناکام بنانے میں ناکام کیوں ہوجاتی ہے؟

ایک طرف ملک میں ضروری اشیائے خوردنی کے داموں میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے دوسری جانب سونے چاندی کے بھاو گر رہے ہیں۔ جس دن دودھ کا بھاو بڑھا اسی روز سونے کا بھاو 879 روپیہ فی دس گرام گھٹا۔ 10 ؍اکتوبر کو سونا 51,317 پر تھا مگر اچانک وہ گھٹ کر 50,438 پر آگیا۔ سونے کے علاوہ چاندی کے بھاو میں بھی 2,700 روپئے کی گراوٹ دیکھنے کو ملی یعنی چاندی کی قیمت 58,774 روپیہ فی کلو سے گھٹ کر56,042 روپیہ پر آگئی۔ اس کا فائدہ اٹھا کر سوناروں نے اس سال کروا چوتھ کے دن تین ہزار کروڈ کے زیور فروخت کردیئے۔ اس کا مطلب صاف ہے کہ امیر کی حامی سرکار اور غریب کو مہنگائی کی مار۔ وزیر اعظم نریندر مودی نے جہاں بھکمری کی فہرست میں ملک کو 55 سے 107 تک پہنچایا وہیں اڈانی کو بھی 7.3 لاکھ کروڈ ڈالرسے 136.1لاکھ کروڈڈالر تک پہنچا دیا۔ مرکزی حکومت نے جتنے بھی شعبوں کو خود کفیل بنانے کے لیے اقدامات کیے یا نجی ہاتھوں میں دیا اس کا سب سے زیادہ فائدہ اڈانی کو ملا مثلاً جب گرین انرجی کا چرچا ہوا تو سرکار کے آشیرواد سے اڈانی گرین اس میدان کی سب سے بڑی کمپنی بن گئی۔ اسی طرح جب ہوائی اڈوں کو نجی ہاتھوں میں دینا شروع کیا گیا تب بھی اڈانی نے میدان مارلیا۔

ایک طرف اڈانی گروپ کے اثاثوں میں اضافہ ہورہا ہے دوسری جانب اس پر قرض بھی بڑھتا جارہا ہے۔ پانچ سال قبل اس پر ایک لاکھ کروڈ کا قرض تھا جو اب بڑھ کر 2.2 لاکھ کروڈ ہوگیا۔ اب ذرا تصور کریں کہ اگر نیرو مودی کی طرح گوتم اڈانی بھی خود کے دیوالیہ ہونے کا اعلان کرکے رفو چکر ہوجائیں اور یہ قرض ڈوب جائے تو قومی معیشت کا کیا حال ہوگا ؟ لیکن مودی کے چہیتے گوتم اڈانی سے متعلق اس سوال پر کبھی بھی غور نہیں ہوگا۔ اڈانی پر مودی جی احسانات کا سلسلہ بہت پرانا ہے۔ 2002 میں وہ گجرات کے وزیر اعلیٰ بنے اور ملک کی پہلی بندرگاہ اڈانی کے نجی ہاتھوں میں گئی ۔ بیس سال قبل مندرا بندرگاہ پروجکٹ کا کل سالانہ کاروبار 53 کروڈ51لاکھ روپیہ تھا اور منافع صرف دو کروڈپینتالیس لاکھ تھا ۔ اس کو وزیر اعلیٰ کے طور پر مودی جی نے 7.3 لاکھ کروڈ ڈالرتک پہنچوایا اور اب تو وہ دنیا کے دوسرے امیر ترین فرد ہے۔ یہ مودی جی کا چمتکار ہے۔ کاش کہ وہ غریب عوام کی جانب بھی توجہ دے کر ان کی بھکمری دور کرتے لیکن ایسا نہیں ہوا ۔ ملک کے غرباء اور متوسط طبقات کے لیے تو نعرے اور مسلم دشمنی کافی ہے ۔ اصلی ملائی اڈانی جیسے سرمایہ داروں کے لیے مختص ہے۔ اس لیے یہ سوال اہم ہے کہ بھوک اور اڈانی کے درمیان کا یہ ’رشتہ کیا کہلاتاہے؟‘

Salim
About the Author: Salim Read More Articles by Salim: 2049 Articles with 1238196 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.