آہ ۔۔۔جہانگیر بدر

اس نے زندگی کے دو جنم لئے۔ پہلا جنم ایک غریب گھرانے میں لیا اور اپنی محنت ،لگن ، بے مثال کارکردگی اور غیر مشروط وفاداری کے سبب کامیابیوں کی منزلیں طے کرتا اس مقام تک پہنچا جو مقام اس ملک کے وڈیرے، پیر، مخدوم ، جاگیر دار اور سرمایہ داراپنا حق سمجھتے ہیں اور کسی طور پر بھی عام آدمی کی رسائی وہاں ذہنی طور پر قبول نہیں کرتے ۔ مگر اس نے ان میں رہ کر خود کو منوایا اور موت تک غریب کی حالت میں بہتری لانے اور غربت کو کم کرنے کے لئے کوشاں رہا۔بلندیوں کے اس سفر میں بھی اس نے اس دھرتی کے غریب لوگوں سے اپنا ناطہ قائم رکھا اور جن لوگوں سے ابھر کر وہ یہاں تک پہنچا ان سے اپنائیت کا رشتہ ہمیشہ استوار رکھا۔ دوسرا سیاسی جنم اس نے پاکستان پیپلز پارٹی میں لیا۔پہلے دن سے آخری دن موت سے قبل تک وہ ایک جیالا تھا۔ وفا کا پیکر، مستقل وابستگی کا نشان، پارٹی اس کے اندر بستی تھی اور وہ پارٹی ہی کے نام پر سانس لیتا تھا۔پارٹی میں کسی کی بے اعتناعی اس کے استقلال اور اس کے جذبوں کو کبھی کم نہ کر سکی۔پارٹی سے اس کی محبت ہمیشہ زندہ اور جاوداں رہی۔آج اسے ہم سے بچھڑے چھ برس ہو گئے ہیں ۔ لوگ کہتے ہیں اتنا عرصہ ہو گیا، لگتا ہے کل کی بات ہے۔ کیا کہوں ۔ وقت کا پتہ اسے چلتا ہے جسے تکلیف ہوتی ہے ۔ جس پر بیتی ہوتی ہے۔ جس نے اس غم اور دکھ میں لمحہ لمحہ گزارہ ہوتا ہے۔ جی ہاں لاہور کے اس عظیم بیٹے، میرے بہنوئی ، میرے دوست ، میرے ہمدم اور ہمارے خاندان کے انتہائی اہم رکن ڈاکٹر محمد جہانگیر بدر کو ہم سے بچھڑے چھ سال گزر چکے ہیں۔ہمیں اس وقت کے گزرنے کا بھرپور احساس ہے۔ جہانگیر بڑے بلند ہمت تھے۔آخری ایک سال بیماری کی وجہ سے انہوں نے بڑے کرب میں گزارے مگر اپنی بیماری کی پرواہ نہ کرتے ہوئے آخر دم تک پارٹی میں پوری طرح فعال رہے۔شدید تکلیف میں بھی کوئی میٹنگ اور کوئی جلسہ ایسا نہیں تھا کہ جہاں وہ موجود نہ ہوں۔

لاہور میں ان کی پیدائش اندرون شہر میں ہوئی چنانچہ اندرون شہر کے مسائل پر ان کی خاص نظر تھی۔ سوئی گیس کی اندرون شہر فراہمی ان کا خواب تھا۔ محکمے والوں نے قرار دیا کہ پندرہ فٹ سے چھوٹی گلیوں میں گیس ڈالنا تو آگ کو دعوت دینا ہے۔ جہانگیر بڑی تگ و دو سے ایک غیر ملکی کمپنی ڈھونڈھ کر لائے جنہوں نے آمادگی ظاہر کی کہ پلاسٹک کا فلاں قسم کا پائپ ڈالنا انتہائی محفوظ ہے ۔ اس پائپ کی مدد سے آپ اندرون شہر گیس دے سکتے ہیں ۔ چنانچہ اس پائپ کو بچھا کر گیس پہلے اندرون شہر کے مکینوں کو ملی اور اس کے بعد پاکستان بھر کی کچی آبادیوں اور پرانے شہروں کی تنگ و تاریک گلیوں میں رہنے والوں نے اس سے استفادہ کیا۔یہ جہانگیر کا اپنی کلاس کے لوگوں پر اتنا بڑا احسان ہے کہ جس کا کوئی بدل نہیں۔

ہمارے لوگوں کا کمال یہ ہے کہ رب العزت کچھ نوازتا ہے تو وہ اپنا آپ بھول جاتے ہیں۔ جہانگیر اس معاملے میں بڑے سادہ دل تھے۔ بے نظیر بھٹو کے ہر دور میں ان کے ساتھ منسٹر رہے، بڑی اہم وزارتوں پر ہونے کے باوجود کبھی سادگی کا دامن نہیں چھوڑا۔ وہ کبھی بھی اپنے پرانے ساتھیوں ، دوستوں اور محلے داروں کو نہیں بھولے اور نہ ہی ان کے ساتھ رویے میں کوئی تبدیلی لائے۔ ہم ایک دن اکٹھے بیٹے تھے کہ اک فون آیا۔ سیکرٹری پاس ہی تھا اس نے فون پر بات کروائی۔ کوئی کہہ رہا تھا، ’’بادشاہ (یہ جہانگیر کا گھریلو نام تھا)، میں بھولا سبزی والا بول رہا ہوں۔ تھانے سے ایک سپاہی آیا تھا۔ پیسے دئیے بغیر ڈھیر ساری سبزی لے گیا ہے، اوپر سے رعب بھی دے رہا تھا۔ میں نے اسے بتا یاتھا کہ میرا بھائی منسٹر ہے مگر اس نے پرواہ ہی نہیں کی۔اسے فون کرو اور کہو کہ پیسے دے کر جائے اور آئندہ بھی احتیاط کرے‘‘۔جہانگیر نے کہا کہ میں ابھی ڈی آئی جی کو کہہ دیتا ہوں، تمہارا مسئلہ حل ہو جائے گا۔۔ بھولا ناراض ہو گیاکہ نہیں خود سپاہی سے براہ راست بات کرو اور مجھے بتاؤ۔جہانگیر نے کچھ پس و پیش کیا تو فون بند ہو گیا۔پندرہ منٹ بعد بھولا وہاں موجود تھا۔ تھانے کا فون نمبر اس کے ہاتھ میں تھا۔ سیکرٹری نے تھانے فون کیا، سپاہی لائن پر آیا۔ جہانگیر نے بڑے پیار سے اسے بتایا کہ بھولا میرا بھائی ہے اس کی سبزی کے پورے پیسے فوراً اسے پہنچاؤ اور آئندہ ایسی حرکت مت کرنا ورنہ ڈی آئی جی کو بتا دوں گا اور پھر تمہارے ساتھ جو ہو گا وہ تم بہتر سمجھتے ہو۔ایک سپاہی کے لئے کسی وزیر کا پیار سے بھی اتنا کہنا بہت کافی تھا۔ بھولے کا مسئلہ حل ہو گیا۔یہ تو ایک واقعہ ہے جہانگیر کی زندگی ایسے ہزاروں واقعات سے عبارت ہے۔

ہم جب کبھی ہوٹل میں جاتے تو وہ کوئی بھی ہوٹل ہوتا۔ وہاں کے بیرے اور دوسرا عملہ جہانگیر کو اپنے ساتھ کچن میں لے جاتا۔ ہم محدود کھانا کھاتے اور اس کا بل دیتے ۔ جہانگیر بغیر بل کچن میں جو مرضی بالکل مفت کھاتے اور کہتے کہ وہ مجھے اپنی کلاس کا بندہ جان کر عزت دیتے ہیں تو میں کیوں انکار کروں۔لاہور سے اسلام آباد کی پرواز میں وہ جہاز میں کبھی کبھار ہی اپنی سیٹ پر بیٹھے نظر آتے کیونکہ جہاز کا عملہ انہیں اپنے ساتھ لے جاتا اور طرح طرح کی چیزوں سے ان کی تواضع کرتا۔ آدھ پون گھنٹہ اس میں گزر جاتا۔لوگوں سے میل جول میں بہت کھلے ڈلے تھے۔ غریب لوگ آتے باتیں بناتے، ناراضی کا اظہار بھی کرتے ، گالی گلوچ تک پہنچ جاتے مگر جہانگیر انہیں ہنستے ہوئے مناتے اور جو مدد ممکن ہوتی دلیری سے کرتے۔ اپنی وزارت کے دوران انہوں نے ایسے بے سہارا اور بے وسیلہ لوگوں کو، جن کو اپنا کچن چلانا مشکل تھا، چوکیداروں ، چپراسیوں، بیل داروں اور مالیوں جیسی بے پناہ نوکریاں دیں۔ اس جرم کی پاداش میں نیب بھی کاٹی،مگر اپنی اس نیکی پر ہمیشہ نازاں رہے۔ جہانگیر آج ہم میں نہیں مگر مجھے فخر ہے اپنے بھائی پر کہ جب بھی سیاست میں وفا کی بات ہوتی ہے،استقامت کی بات ہوتی ہے، جرات، ہمت اور مستقل مزاجی کی بات ہوتی ہے ۔ تو حوالے کے لئے جہانگیر بدر کا نام آتاہے۔ یہی ڈاکٹرجہانگیربدر کی زندگی کا اثاثہ ہے اور اسی پر پورے خاندان کو فخر اورناز ہے۔
 

Tanvir Sadiq
About the Author: Tanvir Sadiq Read More Articles by Tanvir Sadiq: 575 Articles with 451583 views Teaching for the last 46 years, presently Associate Professor in Punjab University.. View More