نامور نقاد ٗ شاعر ٗ افسانہ نگار اور شفیق استاد ڈاکٹر خورشید رضوی

( یہ انٹرویو روزنامہ پاکستان کے لیے جناب روف طاہر نے لیا جو 26 اپریل 2007ء میں شائع ہوا ۔ جناب روف طاہر اور روزنامہ پاکستان کے شکریے کے ساتھ یہ انٹرویو شامل کتاب کیاجارہا ہے ۔بلکہ توثیق کے لیے ڈاکٹر خورشید رضوی صاحب کو بھی بھیجا گیا ہے -)
*********************
پاکستان کے ممتاز دانشور‘ شاعر اور نقاد ڈاکٹر خورشید رضوی میں 19 مئی 1942ء کو بھارت کے شہرامروہہ میں پیدا ہوئے۔ صرف چار سال کے تھے کہ آپ کے والد صاحب کا انتقال ہو گیا والد کی رحلت کے بعد ماموں نے اپنی سرپرستی میں لے لیا۔ قیام پاکستان کے وقت آپ کا خاندان آگ اور خون کا سمندر عبور کرکے منٹگمری ( اب اس کا نام ساہی وال ہے ) میں آبسا ۔
ساہی وال میں ہی آپ نے تعلیم کے ابتدائی مدارج طے کیے ۔ 1959ء میں گورنمنٹ کالج ساہیوال سے عربی کے ساتھ بی اے آنرز اور پھر پنجاب یونیورسٹی اورینٹل کالج سے 1961ء میں ایم اے عربی کیا اور پہلی پوزیشن حاصل کی۔ ایم اے عربی کرنے کے چند ماہ بعد بہاولپور انٹر کالج میں لیکچرر شپ مل گئی۔ پبلک سروس کمیشن سے سلیکشن کے بعد آپ گورنمنٹ کالج سرگودھا آ گئے۔ یہاں بیس‘ بائیس سال قیام رہا۔ پھر یہاں ہی گورنمنٹ انبالہ مسلم کالج کے پرنسپل مقرر ہوئے ۔ یہاں سے ڈیپوٹیشن پر بین الاقوامی یونیورسٹی اسلام آباد کے ادارہ تحقیقات اسلامی میں چلے آئے۔ یہاں آپ نے چیف بیورو آف ٹرانسلیشن اینڈ ایڈیٹنگ کی حیثیت سے چھ سال گزارے۔ پھر صدر شعبہ عربی کے طور پر گورنمنٹ کالج لاہور تشریف لے آئے۔ 1995ء میں قبل از وقت ریٹائرمنٹ لینے کے باوجود وزیٹنگ پروفیسر کے طور پر ایم اے فارسی کلاس کو اقبالیات پڑھانے کا سلسلہ جاری رکھا۔ شیخ زید اسلامک سنٹر پنجاب یونیورسٹی میں بی اے آنرز اور ایم فل کی کلاسیں بھی لیتے رہے۔آپ کو شعبہ درس و تدریس میں ایک مشفق اور ممتاز استاد ہونے کے ساتھ ساتھ ادب میں بھی اعلی مقام رکھتے ہیں آئیے آپ سے گفتگو کرتے ہیں -:
سوال: لکھنے پڑھنے کا شوق کیسے ہوا؟
خورشید رضوی: اس میں سب سے بڑا کنٹری بیوشن میرے استاد محترم ڈاکٹر صوفی محمد ضیاء الحق کا ہے وہ عربی اور فارسی کے بہت بڑے عالم تھے۔ ان کے والد جناب اصغر علی روحی بہت معروف شخصیت تھے۔ علامہ اقبالؒ کے معاصرین میں ان کا شمار ہوتا تھا۔ 1955ء میں میں نے گورنمنٹ کالج ساہیوال میں داخلہ لیا۔ اس وقت وہ وہاں عربی کے پروفیسر تھے۔ انہی کی وجہ سے میں نے عربی کا مضمون لیا تھا۔ میری علمی دلچسپی کا سب سے بڑا سبب ان کی صحبت تھی۔
سوال: سب سے پہلے آپ کی کوئی غزل‘ نظم شائع ہوئی یا کوئی نثر پارہ؟
خورشید رضوی: سب سے پہلے غزل شائع ہوئی۔ کالج میں پڑھتا تھا تو شاعری کا شوق ہوا۔ وہاں مجلس ادب ہوا کرتی تھی ٗ اس کے اجلاسوں میں میں بھی شرکت کرتا تھا۔ اسی زمانے میں غالب کی زمین پر لکھی ہوئی ایک غزل کالج میگزین میں شائع ہوئی۔
قفس کی تیلیاں کیا کم ہیں تنکوں سے نشیمن کے
قفس میں رہ کے پھر ہم کو تلاش آیاں کیوں ہو
پروفیسر ایس ایم زمان (جو بعد میں نظریاتی کونسل کے چیئرمین بھی ہوئے) ان دنوں ہمیں پڑھایا کرتے تھے۔ ڈاکٹر اے ڈی نسیم میگزین کے انچارج تھے۔ انہوں نے بھی اور دیگر اساتذہ نے بھی بہت حوصلہ افزائی کی۔
سوال: شروع میں کسی سے اصلاح لی یا خود ہی یہ سلسلہ جاری و ساری رکھا؟
خورشید رضوی: جی‘ صوفی محمد ضیاء الحق صاحب سے میں باقاعدہ اصلاح لیتا رہاہوں۔
سوال: عربی آپ کا سبجیکٹ ہے‘ اس میں کبھی طبع آزمائی کی؟
خورشید رضوی: کچھ تھوڑی بہت شاعری عربی میں بھی کی لیکن چونکہ ہمارے ہاں ایسا ماحول نہیں‘ اس لئے اس کی ضرورت بھی نہیں پڑتی۔ افغانستان میں جب روس کی یلغار جاری تھی…… یہ 1986-87ء کی بات ہے…… میں ان دنوں اسلام آباد کی اسلامک یونیورسٹی میں تھا۔ وہاں عرب اساتذہ بہت ہیں۔ انہوں نے افغانستان پر مرجان شعری (مشاعرے) کا اہتمام کیا۔ ان کی خواہش تھی کہ اس میں کوئی پاکستانی شاعر بھی ضرور ہو۔ انہوں نے کہا کہ اگر میں نے اردو میں افغانستان پر کوئی نظم کہی ہو تو وہ اسے عربی میں ترجمہ کر لیں گے۔ میں نے کہا کہ میں عربی میں کچھ لکھ کر لاؤں گا۔ جب میں نے نظم لکھی تو اس نظم کو انہوں نے بہت پسند کیا۔ یہ بعد میں افغانستان کے نام سے شائع ہونے والی عربی رسالے میں شائع بھی ہوئی۔
سوال: آپ نے عربی جرائد کے لئے مضامین بھی لکھے؟
خورشید رضوی: ادارہ تحقیقات کا رسالہ تھا ’’الدراسات الاسلامیہ‘‘ اس میں بھی میرے بعض مضامین شائع ہوئے۔
سوال: ڈاکٹریٹ میں آپ کا موضوع کیا تھا؟
خورشید رضوی: ڈاکٹر فواد سیزکین ایک ترک سکالر ہیں‘ بہت بڑے مخطوطہ شناس ہیں‘ ان دنوں جرمنی میں ہوتے ہیں‘ غربی مخطوطات کی ہبلیو گرافی میں اس وقت یہ سب سے بڑا نام ہیں۔ انہوں نے دو اڑھائی سو بہت اہم مخطوطات کی جو فہرست بنائی ہے اس میں ایک کتاب ہے جس کا نام ہے ’’قلائدالجمان‘‘۔ یہ اصل میں ایک تذکرۂ شعرأ ہے جو ایک مورخ جبل الشعار نے تقریباً 10 جلدوں میں لکھا تھا لیکن وہ زمانہ اتنا پرآشوب تھا کہ جب جبل الشعار کی وفات ہوئی تو اس کے دو سال بعد 665ھ میں سقوط بغداد میں سے دو تو کم ہو چکیں لیکن 8 جلدیں ترکی میں موجود ہیں جو صرف ایک ہی مخطوط ہے‘ اس کے کچھ حصے پر مجھے پی ایچ ڈی کا تھیسس دیا گیا تھا کہ اسے ایڈٹ کروں اور مصنف کے حالات دریافت کروں۔ مجھے اس کتاب سے اتنی دلچسپی ہو گئی کہ میں نے اس کی مکمل مائیکرو فلمز منگوا کر اس کا مطالعہ کیا اور اس کا پورا ایک حصہ ایڈٹ کیا جو کتابی صورت میں موجود ہے۔ عراق کی موصل یونیورسٹی نے مجھے یہ اسائمنٹ دی تھی کہ اس کا یہ حصہ جو سب سے زیادہ مٹا ہوا ہو‘ اسے ایڈٹ کروں۔ اس میں سات آٹھ سال لگ گئے۔ متن کو درست کیا‘ حوالے دیئے۔
سوال: علمی وادبی سرگرمیوں میں آپ کو بیرون ملک جانے کا موقع بھی ملا؟
خورشید رضوی: گلف میں گیا ہوں‘ قطر‘ دبئی‘ ابوظہبی وغیرہ…… وہاں جو ادبی محفلیں ہوتی ہیں ان میں مجھے مدعو کیا گیا۔
سوال: آپ کی شاعری کی کتنی کتابیں منظرعام پر آ چکی ہیں؟
خورشید رضوی: چار کتابیں‘ پہلی ہے ’’شاخ تنہا‘‘ اس میں صرف غزلیں ہیں۔ یہ 1974ء میں شائع ہوئی۔ دوسری ’’سرابوں کے صدف‘‘۔ یہ 1981ء میں چھپی‘ اس میں غزلیں بھی ہیں اور نظمیں بھی۔ 1997ء میں ’’رائیگاں‘‘ آئی اور چوتھی ہے ’’امکان‘‘۔
سوال: آپ کا بنیادی ذوق غزل کی طرف ہے یا نظم کی طرف؟
خورشید رضوی: دونوں ہی سے دلچسپی ہے۔ شاید میرے ہاں غزلوں کی تعداد زیادہ ہو لیکن نظم بھی جب لکھتا ہوں تو محسوس کرتا ہوں‘ اصل میں انسپائریشن کا جو لمحہ ہوتا ہے یہ اپنی ہیئت اپنے ساتھ لے کر آتا ہے۔ کسی وقت کچھ ایسی کیفیت ہوتی ہے کہ آپ اس کا اظہار نظم ہی میں کر سکتے ہیں اور کبھی ایسی کیفیت کہ آپ اس کا اظہار غزل میں کرتے ہیں۔ ’’شاخ تنہا‘‘ کے سوا میرے تینوں مجموعوں میں غزلیں بھی ہیں اور نظمیں بھی۔
سوال: نظموں میں آپ نے زیادہ تر کن چیزوں کو موضوع بنایا؟
خورشید رضوی: حمد بھی لکھی‘ نعت بھی لکھی‘ کچھ قومی نظمیں بھی لکھیں لیکن شاعرانہ اظہار ہے اس حوالے سے کسی خاص ایریا کا بتانا مشکل ہو گا۔ وہ تو انسان کی جو بھی اندرونی کیفیت ہوتی ہے اسی کے مطابق اس کا اظہار ہوتا ہے تاہم اگر میں کسی چیز کی نشاندہی کر سکتا ہوں تو وہ یہی ہے۔ انسان کے باطن کا اس کے ظاہر سے Creative ربط ہوتا ہے‘ وہی ان کا موضوع ہے۔
سوال: نظم کی بات ہوئی تو یہ بتایئے کہ یہ جو آزاد نظم ہے‘ نثری نظم ہے اور ایک سطری نظم ہے‘ اسے آپ کیسے دیکھتے ہیں؟
خورشید رضوی: اصل اہمیت تو شاعر کی ہے کہ وہ حقیقی اور جینوئن ہے کہ نہیں۔ جینوئن شاعر کو بھی بسااوقات کسی مخصوص ہیئت میں اظہار کی ضرورت محسوس ہوتی ہے۔ اب تو آزاد نظم سکہ رائج الوقت ہو چکی ہے۔ شروع میں یہ کہا جاتا رہا……اور اب تک بھی بعض لوگ یہ محسوس کرتے ہیں کہ آزاد نظم کوئی کمزور ہیئت ہے‘ میرے خیال میں ایسا نہیں۔ وقت کے باطن میں جو تقاضے تھے‘ آزاد نظم نے ان کے تحت ظہور کیا اور اس نے اپنی ایسی حیثیت پیدا کر لی ہے جو پابند نظم کے ہوتے ہوئے بھی‘ اپنی جگہ مسلم ہے اور یہ ایک حقیقی صنف سخن ہے۔ اسی طرح ’’آزاد اور پابند‘‘ کے درمیان جو ’’معریٰ‘‘ ہے یعنی بلینک ورس…… وہ تو اس سے بھی پہلے سامنے آ چکی تھی اور اس پر کوئی اتنا زیادہ اختلاف رائے بھی نہیں ہوا۔ البتہ نثری نظم پر بہت اختلاف رائے رہا ہے۔ میں بھی آغاز میں محسوس کرتا تھا کہ نثری نظم کی کوئی تک نہیں ہے کیونکہ یا تو نثر ہے یا نظم ہے۔ ہمارے ہاں چونکہ لفظ نظم بذات خود نثر کے خلاف ہے۔ اگرچہ انگریزی میں جب ہم کہتے ہیں Prose poem تو وہ پوئم‘ پروز کے خلاف اس طرح نہیں ہے جس طرح نثر نظم کے خلاف ہے۔ نام کی حد تک اس میں متضاد عناصر ہیں اور چونکہ بیشتر نثری نظم وہ لوگ لکھتے ہیں جو پابند نظم پر قادر نہیں ہوتے‘ اس اعتبار سے ان کی مشکوک حیثیت ہوتی ہے۔ آپ کسی صنف پر قدرت ہی نہیں رکھتے تو اس سے بغاوت بے معنی ہے لیکن رفتہ رفتہ میں نے یہ محسوس کیا کہ ایسے شعرأ جو پابند نظم بھی لکھ سکتے ہیں‘ آزاد بھی لکھ سکتے ہیں۔ بلینک ورس بھی لکھ سکتے ہیں مثلاً شہزاد احمد‘ انہوں نے نثری نظم لکھی۔ اسی طرح کچھ اور لوگوں کی نثری نظمیں میری نظر سے گزریں تو میں نے محسوس کیا کہ یہ شاید ان کے باطن کی جینوئن ضرورت ہے‘ میں خود تو نثری نظم نہیں لکھتا لیکن میں یہ محسوس کرتا ہوں کہ کچھ لوگوں کے ہاں ایسی نثری نظم میری نظر سے گزری ہیں جنہیں میں یہ کہہ کر رد نہیں کر سکتا کہ ایک جعل سازی ہے یا ایک کمزور سی چیز ہے۔ یہ شاید ان کے باطن کا تقاضا ہے۔ کچھ لوگوں نے کہا اسے نثری نظم کے بجائے ’’نثر لطیف‘‘ کہنا چاہئے۔ یہ تو عنوان کی بحث ہے لیکن نثری نظم کے نام سے آنے والی بہت سی شاعری واقعی قابل توجہ ہے۔
سوال: ماضی قریب میں…… یا جدید دور میں…… یعنی اقبال کے بعد کہہ لیں‘ جن لوگوں نے نظم لکھی‘ ان کے تقابل کے لئے اگر آپ سے کہا جائے……؟
خورشید رضوی: ان میں مجید امجد سب سے بلند ہیں‘ پھر ن م راشد ہیں۔ فیض ہیں‘ میرا جی ہیں۔ ٹاپ پر تو یہی چند نام ہیں…… میں یہ بھی کہوں گا کہ مجید امجد ابھی Unfold ہو رہے ہیں۔ بطور شاعر وہ منکشف ہوتے جا رہے ہیں اور مزید ہوں گے۔ بلاشبہ وہ بہت غیرمعمولی شاعر ہیں۔
سوال: یہ جو آپ نے Unfold ہونے‘ منکشف ہونے کی بات کی ہے تو میرے ذہن میں یہ سوال آیا کہ ادبی جرائد نے بلاشبہ شعر وادب کے فروغ میں اہم کردار ادا کیا‘ پھر اخبارات کے ادبی صفحات بھی آ گئے‘ ان سے بھی لوگوں کو شہرت ملی اور کچھ تو اسی حوالے سے ’’عالمی شہرت یافتہ‘‘ بھی ہو گئے سال بھر دنیا کے مختلف ممالک کی شعری وادبی محافل میں بلائے جاتے ہیں۔ یہ جو گروہ بندی ہو گئی مثلاً وزیر آغا اور احمد ندیم قاسمی کے گروہ بن گئے تو جو شخص کسی گروہ بندی میں نہیں‘ کسی ادبی رسالے یا اخبارات کے ادبی اڈیشنوں کے ساتھ اس کی پی آر نہیں‘ اس کے ’’ایکسپوزر‘‘ میں کچھ دقت ہو رہی ہے۔ اسے ان فولڈ ہونے میں‘ ایکسپوز ہونے میں کچھ وقت لگے گا؟
خورشید رضوی: میں آپ کے سوال کو آسان کر دیتا ہوں‘ آپ Talent Vs Manourving کی بات کر رہے ہیں۔ میں سمجھتا ہوں کہ دور حاضر میں یہ ایک مشکل ضرور ہے کیونکہ ابلاغ کے ذرائع اتنے قوی ہو گئے ہیں کہ لمحہ موجود کی چھوٹی سی کھڑکی میں جو کچھ ہو رہا ہوتا ہے لوگوں کے ذہن پر اس کا اثر یقینا پڑتا ہے۔ کچھ لوگ اس کھڑکی میں زیادہ پہنچ جاتے ہیں۔ کچھ نہیں پہنچ پاتے۔ اس سے وقتی طور پر فرق ضرور پڑتا ہے لیکن اگر ٹیلنٹ بہت مضبوط اور غیرمعمولی ہے تو یہ چیزیں بہت دیر تک اس کا راستہ نہیں روک سکتیں۔ اگرچہ اب لائم لائٹ میں آنے کے جو ذرائع ہیں ان کا رول پہلے سے زیادذہ موثر ہو گیا ہے لیکن اس کے باوجود…… مثلاً مجید امجد ہی کی مثال لے لیجئے‘ وہ ایک درویش صفت آدمی تھے۔ اپنے آپ میں گم رہتے تھے‘ گروہ بندی سے‘ Manouring سے اور ان تمام ذرائع سے بہت دور تھے لیکن اس کے باوجود ان کی شاعری کی اہمیت‘ ان کے مرنے کے بعد کم نہیں ہوئی بلکہ بڑھتی چلی گئی لیکن دوسری طرف ہم دیکھتے ہیں کہ بہت سے لوگ جن کی شاعری ایک وقت میں بہت بلند سطح پر رکھی جاتی ہے‘ ان کے رخصت ہوتے ہی کم ہونی شروع ہو جاتی ہے۔
سوال: یہ بتایئے کہ ادب عالیہ لکھنے کے لئے کیا یہ ضروری ہے کہ شاعر اور ادیب زمان کے علاوہ ’’مکان‘‘ کی حدود سے بھی بالاتر ہو اور یہ کہا جائے کہ شاعر اور ادیب کا کوئی جغرافیہ نہیں ہوتا‘ ادب کی کوئی سرحدیں نہیں ہوتیں…… اور ’’متنازعہ‘‘ معاملات پر وہ اس لئے اظہار خیال نہ کرے کہ اس سے دوسرے لوگوں میں دوسرے علاقے میں کیا پیغام جائے گا؟
خورشید رضوی: یہ سوال تھوڑا سا پیچیدہ ہے۔ میرے خیال میں اس کے دونوں جواب بیک وقت درست ہیں۔ اگر فن کار ایک مینی فیسٹو بنا کر مثلاً جس طرح ترقی پسند تحریک کا مینی فیسٹو تھا اس طرح اگر وہ چلتا ہے کہ کچھ چیزوں کو BAN کر دیا‘ کچھ کو لیبل لگا کر اپنا لیا‘ تو وہ شاعری تو رفتہ رفتہ نعرہ بازی بن جاتی ہے لیکن دوسری بات جو آپ کہہ رہے ہیں میں سمجھ رہا ہوں ک یہ بھی نہیں ہوتا کہ شاعر صرف اپنی پروجیکشن کے لئے‘ خود کو ’’انٹرنیشنلائز‘‘ کرنے کے لئے‘ اپنے حقیقی احساسات کو دبا دے۔ آخر وہ ایک قوم کا فرد بھی ہوتا ہے۔ اس کا ایک مذہب بھی ہوتا ہے‘ اس کی اپنی زمین بھی ہوتی ہے۔ ان سب سے اسے محبت بھی ہوتی ہے اور وہ اسے محسوس کرے‘ پوری ’’جینوئن نیس‘‘ کے ساتھ ایک بات کہتا ہے تو آپ یہ نہیں کہہ سکتے کہ چونکہ اس کی فلاں ’’گروہ‘‘ یا فلاح ملک سے وابستگی ظاہر ہو رہی ہے اس لئے یہ اچھا شاعر نہیں۔ گویا یہ دونوں باتیں اپنی اپنی جگہ درست بھی ہیں اور ایک پہلو سے درست نہیں بھی ہیں۔
حقیقت یہ ہے کہ ایک شاعر کو لکھتے ہوئے کوئی مینی فیسٹو‘ پازیٹو یا نیگیٹو‘ اپنے اوپر عائد نہیں کرنا ہوتا۔ جو کچھ بھی ہوتا ہے اس کے خون میں ہوتا ہے۔ اگر اس کا یقین اندر سے ہے تو اس کے عقائد سے لے کر اس کی وابستگیوں تک سب چیزیں ظاہر ہوتی ہیں لیکن یہ اظہار تخلیقی نوعیت کا ہوتا ہے۔ اگر وہ پلاننگ کرتا ہے کہ یہ بات کہنی چاہئے‘ یہ نہیں کہنی چاہئے یا فلاں جگہ اس کا کیا ردعمل ہو گا تو پھر تو وہ سیاست دان ہو گیا‘ شاعر تو نہ رہا۔
سوال: پرانی بحث ہے لیکن اس پر بھی بات ہو جائے کہ ادب برائے ادب‘ ادب برائے زندگی‘ ادب برائے نظریہ وغیرہ کے لئے آپ کی کیا رائے ہے؟
خورشید رضوی: یہ جو تہہ دار سوال ہوتے ہیں ان کا کوئی دو ٹوک جواب نہیں ہوتا۔ میں ان دونوں باتوں کو مختلف سطح پر بیک وقت ٹھیک سمجھتا ہوں۔ اگر ادب برائے ادب سے مراد یہ لی جائے کہ اس کا زندگی سے کوئی تعلق نہ ہو تو یہ ممکن ہی نہیں۔ شاعر ایک زندہ فرد ہے۔ اس کی کچھ محبتیں ہیں‘ کچھ نفرتیں ہیں‘ کچھ یادیں ہیں‘ کچھ وابستگیاں ہیں اور یہ سب چیزیں اس پر اثرانداز ہوتی ہیں اس لئے ادب زندگی سے پھوٹتا ہے اور زندگی سے کبھی غیرمربوط نہیں ہوتا۔ جو لوگ ادب برائے ادب پر زور دیتے ہیں ان کا بھی مقصد غالباً یہی ہوتا ہے کہ ادب میں ادبی محاسن ضرور ہونے چاہئیں۔ اس میں تخلیقی لپک ہونی چاہئے لیکن اگر یہ کہا جائے کہ ادب میں زندگی کے کوئی موضوعات نہ ہوں تو یہ ممکن نہیں۔ اس کی غیرمعمولی مثال علامہ ڈاکٹر محمد اقبال ہیں۔ انہوں نے ادب برائے ادب کے نظریے کو اس پیمانے پر قبو ل نہیں کیا۔ انہوں نے ادب برائے زندگی کی بات کی۔ زندگی کو جو ادب پژمردہ کرتا ہے وہ ادب کہلانے کا مستحق نہیں اور اقبال نے اس کے مطابق شاعری کر کے دکھائی۔ جو تمام ادبی تخلیقی معیارات کے اعتبار سے اعلیٰ ترین شاعری بھی ہے اور اس کے ساتھ ساتھ ان کی تمام وابستگیوں کا اظہار بھی ہے۔شاعر کا اندرونی Self اگر مضبوط ہے تو کسی بھی موضوع پر بات کرتے ہوئے اس کی تخلیقی رو میں کمی نہیں آتی۔ ہم خود چھوٹے ہوتے ہیں اس لئے ہم محسوس کرتے ہیں کہ یہ بات کریں گے تو غیرادبی ہو جائے گی…… ہاں یہ ضرور ہے کہ اگر آپ ایک گروہ اور ایک مینی فیسٹو بنا کر چلیں کہ اس کے اندر رہوں گا تو اس سے بھی بات نہیں بنتی۔ اس میں پہلی بات یہی ہے کہ آپ کی تخلیقی اور ادبی قوت مضبوط ہونی چاہئے اور پھر آپ کی جو حقیقی زندگی ہے اس کے ساتھ ادب کا تعلق ہونا چاہئے اور آپ کی جو وابستگیاں اور میلانات ہیں ان کا بھرپور اظہار آپ ادب میں کر سکتے ہیں۔
سوال: ابھی آپ نے اقبال کا ذکر کیا‘ عربی آپ کا سبجیکٹ ہے‘ فارسی سے بھی آپ کو گہری دلچسپی ہے‘ یہ فرمایئے کہ عالمی سطح پر ادب میں آپ اقبال کو کہاں رکھتے ہیں؟
خورشید رضوی: میں تو انہیں بہت بلندی پر رکھتا ہوں۔ میں سمجھتا ہوں کہ جو دنیا بھر کے صف اول کے شاعر ہو سکتے ہیں ان میں یقینا اقبال کا بہت اہم مقام ہے‘ آپ اس میں حافظ کو بھی رکھ لیں‘ گوئٹے کو بھی رکھ لیں‘ شیکسپیئر کو بھی رکھ لیں‘ غالب کو رکھ لیں…… اقبال اس اعتبار سے بہت غیرمعمولی ہیں کہ عموماً جب کوئی شخص اصلاحی خیالات کا پرچار شروع کرتا ہے تو اس کی شاعری کی سطح کم ہو جاتی ہے لیکن اقبال کے ہاں ایسا نہیں۔
سوال: ابھی ترقی پسند تحریک کا ذکر ہو رہا تھا‘ یہ بتایئے کہ اس تحریک نے ہمارے ادب پر کیا اثرات مرتب کئے‘ کیا دیا ہمارے ادب کو؟
خورشید رضوی: دیکھئے کوئی بھی تحریک لوگوں سے عبارت ہوتی ہے۔ ترقی پسند تحریک میں بھی ہر طرح کے لوگ تھے۔ ان میں بعض قوی لوگ بھی تھے۔ ان کی وجہ سے جو کنٹری بیوشن آیا‘ ترقی پسند تحریک ان کا کریڈٹ لے سکتی ہے اور کچھ ایسے لوگ تھے جو کسی تحریک سے وابستہ نہیں تھے مثلاً منٹو کا افسانہ نگاری میں جو مقام ہے اس سے کون انکار کر سکتا ہے حالانکہ وہ ترقی پسند تحریک میں شامل نہیں تھے۔ اتنی بات ضرور ہوتی ہے کہ تحریکیں ایک پلیٹ فارم‘ ایک چھتری مہیا کر دیتی ہے لیکن بات بالآخر افراد ہی پر جا کر رکتی ہے کہ کسی تحریک کو اگر بڑے اور صلاحیت والے لوگ مل گئے تو اس تحریک کی بھی واہ واہ ہو گئی۔ مجید امجد‘ ن م راشد بلکہ میراجی بھی اس طرح تو وابستہ نہیں تھے لیکن اس کے باوجود یہ ہمارے بڑے شعرأ میں سے تھے۔
سوال: آپ کو روایت پسند اور روایت پرست شاعر کہا جا سکتا ہے؟
خورشید رضوی: میں خود اپنے بارے میں کیا کہہ سکتا ہوں۔
سوال: میرا مطلب یہ ہے کہ جس طرح کی غزل آپ نے کہی اور آج کل کی نسل جس طرح کی غزل کہہ رہی ہے اس کا آپ کس طرح تقابل کریں گے؟
خورشید رضوی: روایت اور جدت…… یہ وہ چیزیں ہیں جن میں ہم کوئی حدود تو نہیں بنا سکتے لیکن اگر آدمی جینوئن ہے تو وہ اس طرح کی پلاننگ نہیں کرتا کہ مجھے محض پاپولر ہونے کے لئے فلاں فلاں الفاظ اس میں ڈالنے چاہئیں‘ فلاں فلاں موضوعات ڈالنے چاہئیں تو پھر یہ پنساری کی دکان ہو گئی۔ شاعری تو نہ رہی۔ شاعر کا لہجہ اس کا اپنا ہوتا ہے‘ کسی کالہجہ زیادہ کلاسیکل ہو جاتا ہے کسی کا ذرا جدید ہوتا ہے۔ دونوں بیک وقت جینوئن ہو سکتے ہیں۔ یہ ان کا کلام بتائے گا کہ وہ جینوئن ہیں یا نہیں۔ صرف اس بناء پر کسی کو مسترد نہیں کیا جا سکتا کہ اس کے ہاں الفاظ کس نوعیت کے زیادہ آ گئے ہیں۔ شعر تو پرانا اور نیا ہوتا ہی نہیں۔ سراج اورنگ آبادی کی وہ غزل آج تک چلی آ رہی ہے۔
خبر تحیر عشق سن‘ نہ جنوں رہا نہ پری رہی
نہ وہ تو رہا‘ نہ وہ میں رہا جو رہی تو بے خبری رہی
چلی سمت غیب سے اک ہوا کہ چمن امید کا جل گیا
مگر ایک شاخ نہال غم جسے دل کہیں سو ہری رہی
بڑی احتیاط طلب ہے وہ جو شراب ساغر دل میں ہے
جو چھلک گئی تو چھلک گئی جو بھری رہی تو بھری رہی
یہ غزل آج بھی اتنی ہی جدید ہے اس کے الفاظ اس کی بحر‘ اس کے آہنگ قدیم نہیں ہو سکتے۔ تو شاعر بھی ایسے ہی جیسے اقبال نے کہا تھا:
حیات ایک‘ زمانہ ایک‘ کائنات بھی ایک
دلیل کم نظری قصہ جدید و قدیم

شاعری میں اصل چیز تو آپ کی ’کری ایٹوفورس‘ ہے۔ لفظیات مختلف شعرأ کی مختلف ہو سکتی ہیں۔ کسی پر فارسی کا غلبہ ہے‘ کسی پر ہندی کا غلبہ ہے۔ میرا جی آہنگ اور ہے‘ راشد کا آہنگ بالکل اور ہے لیکن دونوں جینوئن شاعر ہیں۔
سوال: آج کے نئے لوگ جس طرح کی نظمیں غزلیں کہہ رہے ہیں؟
خورشید رضوی: میں سمجھ رہا ہوں آپ یہ کہنا چاہتے ہیں کہ جو لوگ صرف ’’مقدار‘‘ کی دھن میں لکھے چلے آ رہے ہیں تو ایسے لوگ تو چاہے پہلے زمانے کے ہوں‘ چاہے آج کے ہوں‘ جینوئن لوگ نہیں ہیں‘ جن کا صرف یہی منشا ہے کہ ہر مہینے ایک کتاب چھاپ دیں یا نئے تجربے کی دھن میں عجیب وغریب حرکتیں کریں۔ شعر میں تجربہ‘ انسان کے اندر سے پھوٹتا ہے‘ جیسے شاخ سے پھول پھوٹتا ہے۔ یہ نہیں کہ کاغذ کا پھول بنا کر شاخ پر ٹانک دیا کہ یہ نیا تجربہ ہے۔ پھر ان لوگوں نے کوئی ریاضت بھی نہیں کی۔ مثال کے طور پر جو ہمارے کلاسیکل سانچے ہیں میں انہیں اس اعتبار سے اہم سمجھتا ہوں کہ اگر کوئی شخص انہیں توڑنا بھی چاہتا ہے تو پہلے ان پر اس کی دسترس ضروری ہے۔ میرے نزدیک تو روایت کی بڑی اہمیت ہے اور اس کا تسلسل رہنا چاہئے۔ یہ الگ بات ہے کہ اس میں آپ کی تخلیقی قوت بھی صرف ہو اور اسے ایک ’’ڈیڈ وائر‘‘ کی بجائے ایک ’’لائیو وائر‘‘ بنا دیں۔
سوال: یہ جو نسائی شعر واادب ہے‘ اس کے متعلق آپ کیا کہیں گے‘ ہماری شاعرات کیسا لکھ رہی ہیں؟
خورشید رضوی: شاعرات کا معاملہ شاعروں ہی کی طرح ہے کہ کوئی اچھا لکھتا ہے کوئی برا لکھتا ہے۔ شاعرات میں بھی یہی صورت حال ہے پھر یہ بھی کہ ادب میں زنانہ مردانہ ڈبے نہیں ہوتے۔ اگر یہ شرط لگائی جائے کہ عورتیں جو شاعری کریں اس میں ان کا عورت ہونا نمایاں ہو تو میں اسے کوئی جینوئن بات نہیں سمجھتا۔ یہ ادب کے بہت بلند رتبے سے نیچے آنے والی بات ہے۔
سوال: انڈیا میں اب بھی مشاعرے ہوتے ہیں اور بعض شعرأ تو ایسے ہیں جن کا ذریعہ معاش ہی مشاعرے ہیں۔ مشاعرے کی ٹکٹ لگتی ہے‘ ہزاروں لوگ اس میں شریک ہوتے ہیں‘ پاکستان میں مشاعرے کی روایت کیوں جڑ نہیں پکڑ سکی…… اور یہ بھی کہ مشاعرے ادب کو دیتے کیا ہیں؟
خورشید رضوی: اس معاملے کو ہم دو نکتہ ہائے نظر سے دیکھ سکتے ہیں۔ ایک نکتہ نظر سے اسے مسترد بھی کر سکتے ہیں کہ یہ ایک ’’کلیثے‘‘ بن چکا ہے۔ لوگ جمع ہو جاتے ہیں اور واہ واہ کر کے چلے جاتے ہیں لیکن دوسری طرف یہ بات بھی ہے کہ یہ ادارہ جیسا بھی چل رہا ہے۔ اس کی وجہ سے اردو زبان کو نئی نسل سے مربوط ہونے کا موقع ضرور ملتا ہے‘ چاہے یہ کالجوں کے فیک مشاعرے ہی کیوں نہ ہوں جن میں بعض طلبہ دوسروں سے لکھوا کر بھی لے آتے ہیں لیکن اس سے انہیں اردو کی لفظیات‘ مشاعرے کا ماحول اور یہ سب چیزیں سیکھنا پڑتی ہیں۔ اس دور میں جبکہ نئی نسل اردو سے بہت دور ہوتی جا رہی ہے‘ مشاعرے کا یہ رول تو مفید ہے…… میرے خیال میں چھوٹی شعری نشستیں ادب کی ترویج میں زیادہ موثر ہو سکتی ہیں۔ مثلاً اگر ایک ہی شاعر کا کلام سنا جائے یا پانچ سات شاعر ہیں‘ انہیں اچھی طرح سے سنیں‘ حاضرین بھی بہت زیادہ نہ ہوں۔ میرے خیال میں یہ مشاعرے ادب میں Mater کرتے ہیں تاہم بڑے مشاعروں کا بھی ایک کنٹری بیوشن ہے جیسا کہ میں نے عرض کیا‘ لوگوں کو اردو سے مربوط رکھنا اور شاعر کی فلاح وبہبود بھی…… ایک زمانہ تھا کہ تفریح کے ذرائع بہت مختصر تھے۔ اس میں مشاعرہ واقعی ایک ایسی چیز تھی جس میں لوگ ٹکٹ کے ساتھ آتے تھے۔ اب اگر آپ پاکستان میں ٹکٹ لگائیں تو میں نہیں سمجھتا کہ مشاعرے میں کوئی آئے گا۔
سوال: کہتے ہیں کہ انڈیا میں تو اب بھی ہزاروں لوگ مشاعروں میں آتے ہیں اور ٹکٹ لے کر آتے ہیں؟
خورشید رضوی: میں انڈیا تو نہیں گیا لیکن یہ یقین کرنا ذرا مشکل ہے۔
سوال: انڈیا کی بات چلی تو یہ بتایئے کہ پاکستان اور ہندوستان کے ادب خصوصاً شعری ادب کا تقابل آپ کیسے کریں گے؟
خورشید رضوی: میں نہیں جانتا کہ یہ میرا قومی تعصب ہے…… لیکن میں اپنے طور پر پوری دیانت داری سے محسوس کرتا ہوں کہ اس وقت ہندوستان میں معدودے چند شعرأ ہوں گے جو اس معیار کی شاعری کر رہے ہیں جو پاکستان میں ہو رہی ہے۔ ان میں سرفہرست لکھنؤ کے جناب عرفان صدیقی تھے…… اﷲ تعالیٰ انہیں جنت الفردوس میں مقام بلند سے نوازے…… جنہوں نے اس معیار کی غزلیں کہیں جو پاکستانی غزلوں کے معیار کی تھیں بلکہ ان سے ہم سیکھ سکتے ہیں۔ اسی طرح چند ایک اور نام آ جائیں گے۔
سوال: مزاحیہ شاعری……؟
خورشید رضوی: اس میں تو شاید کوئی موازنہ ہی نہ ہو مثلاً ہمارے ہاں ضمیر جعفری صاحب تھے‘ انور مسعود ہیں‘ انہوں نے کس معیار کا مزاح لکھا۔ مزاح میں اگرچہ مجموعی طور پر ابتدال آ رہا ہے جو ظاہر ہے کہ اچھی چیز نہیں۔ مزاح ایک بہت مشکل چیز ہے اور جہاں وہ ابتدال کی طرف جاتا ہے تو یوں سمجھیں کہ رسی پر چلتے ہوئے زمین پر آ پڑے۔ ہندوستان کی مزاحیہ شاعری میں ابتدال زیادہ ہے۔
سوال: ہندوستان کے اچھے شعرأ میں بشیر بدر کا نام بھی سننے میں آتا ہے جو اکثر وبیشتر بیرون ملک بھی مشاعروں میں بلائے جاتے ہیں؟
خورشید رضوی: ایسے نام تو بہت ہیں لیکن جیسے ہمارے ہاں نظم میں مجید امجد‘ ن م راشد یا میرا جی ہیں تو اس سطح کے لوگ آپ وہاں کم نکال سکتے ہیں۔ اسی طرح غزل میں ہمارے ہاں جو بہت سے نام ہیں اس سطح کے وہاں پر نہیں۔ عرفان صدیقی صاحب کی غزل کو میں ایک استثنیٰ سمجھتا ہوں۔
سوال: پاکستان میں رفتہ رفتہ عربی اور فارسی کی اہمیت جو کم ہوتی جا رہی ہے‘ اس سے اردو پر کیا اثرات مرتب ہوں گے کیونکہ اردو کا تو حسن ہی اس میں ہے؟
خورشید رضوی: کچھ عرصہ قبل میں نے حلقہ ارباب ذوق میں صدارتی خطبہ ہی اس پر دیا تھا کہ عربی اور فارسی کی روایت سے کٹ جانے کا مطلب یہ ہو گا کہ آپ اپنے کلاسیکی ورثے کو سمجھنے سے محروم رہ جائیں گے۔ اس میں‘ میں نے بہت سی مثالیں دی تھیں مثلاً اقبال اور غالب کے بہت سے اشعار ہیں کہ جب تک عربی اور فارسی سے آپ کا رابطہ نہیں ہے آپ انہیں سمجھ ہی نہیں سکتے۔

 

Aslam Lodhi
About the Author: Aslam Lodhi Read More Articles by Aslam Lodhi: 781 Articles with 665227 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.