لیبیا٬ شام٬ پاکستان اور انکل سام

امام جلال الدین رومی ؒ ایک حکایت میں تحریرکرتے ہیں کہ بخارامیں صدر جہان بخاری کی یہ عادت تھی کہ وہ ہر روز مختلف طبقوں میں خیرات کرتا ۔اس نے زرکی پڑیاں بنارکھی تھیں جو وہ ہر روز لوگوں میں بانٹتا ۔ایک دن بیواﺅں کیلئے ،ایک دن قیدیوں کیلئے ،ایک دن معذوروں کیلئے ،ایک دن قرض داروں کیلئے،غرض وہ اس طرح بے دریغ خیرات کرتا تھا اس کی لیکن ایک شرط تھی کہ سائل خاموش کھڑے رہیں اور اس سے کچھ طلب نہ کریں لب کشائی پر وہ کسی کو کچھ نہ دیتا تھا ایک دن ایک بوڑھے نے اس سے کہا کہ مجھے زکوة دو میں غریب اور نادار ہوں اس نے بوڑھے کو منع کیا لیکن وہ بازنہ آیا اور اصرار کرتا رہا لوگ اس کے اصرار پر حیران تھے اس نے بوڑھے سے کہا کہ تو بڑا بے شرم بوڑھا ہے اس پر بوڑھے نے جواب دیا کہ تو مجھ سے بھی زیادہ بے شرم ہے کہ اس جہان کو تو کھا گیا ہے اب خیرات اور سخاوت کے ذریعے اُس جہان میں بھی اپنا مقام بنانا چاہتا ہے تو دونوں جہانوںکا حریص ہے یہ بات سن کر صدر جہاں بخاری کو ہنسی آگئی اور اس نے تمام خیرات اس بوڑھے فقیر کو دے دی ایک فقیہہ بھی اسی طرح اس سے مخاطب ہوا لیکن اس نے اسے کچھ نہ دیا اس فقیہیہ نے بڑے بھیس بدلے لیکن صدر جہاں بخاری نے ہر بھیس میں اسے پہچان کر خیرات نہ دی وہ لنگڑا بنا ،اندھا بنا ،عورتوں کے ہجوم میں بیٹھا لیکن اس کا مطلب حل نہ ہوا کیونکہ صدر جہاں بخاری اسے ہر رنگ میں پہچان لیتا تھا اس فقیہہ نے ایک دن ایک کفن فروش فقیرسے کہا کہ مجھے کفن میںلپیٹ کر راستے میں ڈال دو تاکہ وہ سخی صدر جہاں یہاں سے گزرے اور شائد تدفین وتکفین کیلئے کچھ دے دے اس نے ایسا ہی کیا صدر جہاں وہاں سے گزرا تو اس نے خیرات دے دی اس فقیہہ نے ہاتھ کفن سے نکال کر خود خیرات پکڑ لی اور صدر جہاں سے کہا کہ دیکھ آخر کار میں نے تجھ سے خیرات وصول کرہی لی ہے صدر جہاں بخاری نے کہا ”لیکن یہ بھی تو دیکھ کہ ایساکرنے کیلئے تجھے مرنا تو پڑاہے “اسی لیے کہا جاتا ہے کہ مرنے سے پہلے مر جاﺅ ۔۔۔۔

قارئین آج کی یہ حکایت نقل کرنے کا مقصد صرف اور صرف یہ ہے کہ یہ بات سمجھی جائے کہ آج زندگی سے حد سے زیادہ پیارہونے کی وجہ سے ہماری وہ حالت ہو چلی ہے کہ بظاہر زندوں میں شمارہونے کے باوجود ہمارے حالات مردوں سے بدترہیں ۔من حیث القوم اور امت اگر دیکھا جائے تو کشمیر جیسے پرانے زخموں سے لے کر انقلاب کے نام پر مصر ،لیبیا ،شام سمیت پوری مسلم امہ کو اس وقت انکل سام اور انکے حواری ”دہشت گردی کے خلاف جنگ “اور ”روشن جمہوریت “کے نام پر فکری اور عملی دہشت گردی کا نشانہ بنا چکے ہیں گویا چور بھی کہے چور چور ۔۔۔

لیبیا میں 1970ءکی دہائی میں ذوالفقارعلی بھٹو کے ہمراہ کرنل قذافی نے اس اتحاد میں شرکت کی تھی جس کا مقصد امریکہ اور مغربی قوتوں کو یہ باور کرانا تھا کہ مسلمان تیل جیسی دولت کو عزت اور غیرت کے ساتھ جینے کیلئے استعمال کرسکتے ہیں پاکستان کو ایٹمی قوت بنانے کی جسارت کرنے کے جرم کے برابر کا جرم یہ بھی قراردیا گیا کہ بھٹو نے آخر مسلم امہ کو قدرتی وسائل کو ”بارگیننگ فورس “ کے طور پر استعمال کرنے کی سوچ کیوں دی اور یہ جرائم اس نوعیت کے تھے کہ انکل سام نے فرد جرم عائد کرتے ہوئے ذوالفقارعلی بھٹو سے لے کر شاہ فہد سب لوگوں کو باری باری نشانہ بنایا اور آج 2011ءرمضان المبارک کے موقع پر پوری دنیا کے سامنے کرنل قذافی کو صیہونی لابی کے ہاتھوں میں کھیلنے والے امریکہ نے عبرت کا نشان بنا کر رکھ دیا ہے لیکن مسلم امہ کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگ رہی اور 50سے زائد مسلم ممالک شہنشائیت اور ملوکیت میں مبتلا ایک ارب سے زائد مسلمانوں کو بے غیرتی اور بے حمیتی کے ساتھ زندگی بسر کرنے پر مجبور کررہے ہیں یہ حکمران کسی ملک میں تو جمہوریت کے نام پر بادشاہت کررہے ہیں ،کسی ملک میں فوج کے سربراہ کی حیثیت سے ”امیر المومنین “بنے بیٹھے ہیں اور کہیں پر ننگی بادشاہت کی صورت میں اسلام کے تمام نظریہ ہائے حکومت کو رد کرتے ہوئے فرعون بنے بیٹھے ہیں اس سب صورت حال میں لیبیا ،شام ،مصر ،فلسطین سے لے کر پوری عرب دنیا کو نشانہ بنا دیا گیا ہے دوسری جانب امت مسلمہ کی سب سے بڑی فوجی قوت اور واحد ایٹمی طاقت پاکستان کو انکل سام نے ”دہشت گردی کے خلاف جنگ “کے نام پر اس طریقے سے اپنے ہی دوستوں اور حلیفوں سے ٹکرایا ہے کہ اس وقت پاکستان دنیا کا سب سے خطرناک ملک قرار بھی دیا جاچکاہے اور عالمی رینکنگ کے مطابق پاکستان اس وقت دہشت گردی کے شکار ممالک میں سرفہرست ہے افغانستان اور عراق کا نمبر پاکستان کے بعد آتا ہے دنیا کی پہلی اسلامی ایٹمی طاقت کے نیوکلیر اثاثہ جات کے تحفظ کے بارے میں مغربی اور امریکی میڈیا عرصہ دراز سے پراپیگنڈے میں مصروف ہے اور سوالات اٹھائے جارہے ہیں کہ ”بنیاد پرست طالبان “کی موجودگی میں اسلام آباد ،جی ایچ کیو اور ایٹمی اثاثہ جات کس حد تک محفوظ ہیں ۔۔۔

یہ سب سوالات اور سازشیں اس بات کی نشاندہی کررہی ہیں کہ ”بگ گیم “شروع ہوچکی ہے کراچی میں گزشتہ 35دنوں کے دوران کھیلی جانے والی خون کی ہولی ،پاکستان کے طول وعرض میں ہونے والے خود کش دھماکے ،بلوچستان کو پاکستان سے علیحدہ کرنے کی سازشیں ،لیبیا میں کرنل قذافی کےخلا ف انکل سام اور نیٹو کی کاروائیاں اور شام میں بڑھنے والی مداخلت ایک ہی زنجیر کی کڑیاں ہیں ۔یہاں پر سمجھنے کی بات یہ ہے کہ اب فیصلہ امت مسلمہ کے نوجوانوںکے ہاتھوں میں ہے کہ وہ بے غیرت حکمرانوں کو اپنے اوپر مسلط رہ کر ملت واحدہ کی صور ت میں سامنے آنے والے یہود ہنود اور نصاریٰ کے اتحاد کے ظلم وستم برداشت کرتے ہیں یا حق کی آواز بلندکرتے ہوئے صالح قیادت کو سامنے لے کر آتے ہیں حالات بہت نازک ہیں ،قیادت کہیں دکھائی نہیں دے رہی اور ہر کوئی اپنے اپنے ایمان کی آزمائش سے گزر رہا ہے بقول غالب
دوست غمخواری میں میری سعی فرمائیں گے کیا ؟
زخم کے بھرنے تلک ناخن نہ بڑھ آئیں گے کیا ؟
گر کیا ناصح نے ہم کوقید اچھا !یوں سہی
یہ جنونِ عشق کے انداز چھٹ جائیں گے کیا ؟
خانہ زادِزلف ہیں ،زنجیر سے بھاگیںگے کیوں ؟
ہیں گرفتار ِوفا ،زنداں سے گھبرائیں گے کیا ؟

قارئین اس وقت ہر کسی کے لیے مقام عبرت اور حیرت ہے اور کامیاب لوگ وہی ہیں جو قرآن کے فیصلے کے مطابق ایمان کی روشنی میں اپنے حال اور مستقبل کا تعین کرتے ہیں رمضان المبارک کے اس آخری عشرے میں عبادتیں بھی کی جائیں ،دعائیں بھی مانگی جائیں لیکن یہ یاد رکھاجائے کہ ٹیکنالوجی کامقابلہ ٹیکنالوجی سے ہوتا ہے اور مسلمانوں کو قوت اکٹھی کرنے کی ہدایت کردی گئی ہے ۔

آخر میں حسب روایت لطیفہ پیش خدمت ہے کہ
ایک کاروباری آدمی تجارت میں ایمانداری کی اہمیت کی موضوع پر گفتگوکررہا تھا اس نے کہا کہ کل ہی کی بات ہے کہ مجھے ایک گاہک نے سو روپے کانوٹ دیا اس کے جانے کے بعد میں نے دیکھا تو وہ چپکے ہوئے دو نوٹ تھے بس وہی ایمانداری کا مسئلہ کھڑا ہوگیا ۔۔۔
سننے والے نے پوچھا کہ کیا مسئلہ پید ا ہوا
ایمان دار دوکان دار نے جواب دیا مسئلہ ایمان داری کا یہ کھڑا ہوگیا کہ یہ دونوں نوٹ میں خود کھا جاﺅں یا اپنے پارٹنر سے مل بانٹ کر کھاﺅں ۔۔؟

قارئین دیکھا جائے تو ہماری عبادتیں اور دیانت داریاں شاید اسی نوعیت کی ہیں آئیے میں آپ ہم سب مل کر تبدیلی کی بنیاد رکھیں ۔۔
Junaid Ansari
About the Author: Junaid Ansari Read More Articles by Junaid Ansari: 425 Articles with 340484 views Belong to Mirpur AJ&K
Anchor @ JK News TV & FM 93 Radio AJ&K
.. View More