فٹبال ورلڈ کپ میں نیا تنازعہ: جرمنی کی ٹیم کا منہ پر ہاتھ رکھ کر احتجاج اور عرب دنیا میں شدید اشتعال

image
 
اگر حالیہ ورلڈ کپ کو دیکھیں تو یوں محسوس ہوتا ہے کہ اس سے منسلک تنازعات کی دو متوازی دنیائیں ہیں۔
 
انسانی حقوق کے کارکنوں، یورپی ٹیموں اور بالخصوص ان سات کپتانوں کے لیے جنھوں نے ’ون لو‘ (ایک محبت) کا بینڈ بازو پر پہننے کا فیصلہ کیا، ان کے نزدیک ہم جنس پرستوں اور خواجہ سراؤں (ایل جی بی ٹی) کے حقوق، انسانی حقوق کا مسئلہ ہیں اور وہ اس حوالے سے آواز بلند کرنا چاہتے ہیں۔
 
میزبان ملک قطر اور اکثریتی طور پر مسلمان عرب دنیا کے لیے یہ مذہب، ثقافت اور خطے کی روایات کا معاملہ ہے، اور عزت و احترام کا بھی جو ان کے نزدیک اُنھیں دی جا رہی ہے۔
 
یہ تناؤ اس ٹورنامنٹ میں بظاہر اب تک چلتا رہا ہے اور یہ دنیا کے سب سے بڑے سٹیج پر بھی جاری ہے۔
 
بدھ کو جرمنی کے کھلاڑیوں نے ورلڈ کپ میں جاپان کے خلاف میچ سے قبل اپنے منھ پر ہاتھ رکھ لیے۔ ٹیم مینیجر ہانسی فلِک نے کہا کہ اس کا مقصد ’یہ پیغام دینا تھا کہ فیفا ٹیموں کو خاموش کروا رہا ہے۔‘
 
مگر جرمنی کے اس مؤقف پر عرب دنیا میں سخت اور متفقہ طور پر منفی ردِعمل سامنے آیا ہے۔
 
عربی میں جرمنی جاپان کا ہیش ٹیگ ٹرینڈ کرتا رہا مگر یہ جرمنی کی حمایت میں نہیں تھا۔ کئی لوگوں نے منھ پر ہاتھ رکھنے کو ایل جی بی ٹی حقوق کی حمایت، ’توہینِ آمیز‘ اور ’اشتعال انگیز‘ قرار دیا۔ کچھ لوگوں نے فیفا سے کھلاڑیوں پر مزید دباؤ ڈالنے کے لیے بھی کہا۔
 
ایک ٹویٹ میں کہا گیا: ’آپ ہمارے پاس آئیں (تو) ہمارے مذہب، ہماری ثقافت، ہماری روایات اور ہمارے قوانین کا احترام کریں۔ ورنہ آپ اپنا ہاتھ جہاں چاہے رکھ سکتے ہیں۔‘
 
ایک اور ٹویٹ میں کہا گیا: ’بھوک، غربت، قلتِ آب، اور کئی دیگر عالمی مسائل موجود ہیں اور آپ نے صرف اسے اپنا مقصد بنایا۔‘
 
ایک فیس بک پوسٹ میں قطر ورلڈ کپ کے عرب و مسلمان پرستاروں کو مخاطب کرتے ہوئے کہا گیا: ’اگر وہ (جرمن ٹیم) اس مقصد کے لیے کھڑے ہو رہے ہیں تو آپ بھی اپنے مذہب پر فخر کریں اور اس پر قائم رہیں۔‘
 
جرمنی کا یہ اقدام فٹ بال کی نگران تنظیم فیفا اور کئی یورپی ٹیموں کے درمیان تنازعے میں تازہ ترین ہے۔ ان یورپی ٹیموں نے فیصلہ کیا تھا کہ ان کے کپتان میچز کے دوران تنوع کو فروغ دینے کے لیے ’ون لو‘ کی پٹیاں پہنیں گے مگر فیفا نے دھمکی دی کہ اُنھیں یلو کارڈ دکھا دیا جائے گا۔
 
image
 
جرمن فٹ بال فیڈریش کے میڈیا ڈائریکٹر سٹیفن سائمن نے اس اقدام کو ’انتہا درجے کی بلیک میلنگ‘ قرار دیا تھا۔
 
جرمنی کو منھ پر ہاتھ رکھنے کی وجہ سے کسی انضباطی کارروائی کا سامنا نہیں کرنا پڑے گا تاہم اس کا کہنا ہے کہ اس کا مقصد کوئی ’سیاسی مؤقف‘ پیش کرنا نہیں تھا۔ جرمنی نے مزید کہا ہے کہ ’انسانی حقوق پر سودے بازی نہیں ہو سکتی۔ ہمیں پٹی باندھنے سے روکنا ہماری آواز بند کرنے جیسا ہے۔ ہم اپنے مؤقف پر قائم ہیں۔‘
 
ورلڈ کپ کے موقع پر فیفا کے صدر جیانی انفینٹینو نے مغربی دنیا پر قطر کے انسانی حقوق کے ریکارڈ کے متعلق رپورٹنگ پر ’منافقت‘ اور ’یکطرفہ اخلاقی سبق‘ کا الزام عائد کیا۔
 
واضح رہے کہ قطر میں ہم جنس پرست تعلقات رکھنا یا ان کو فروغ دینا جرم ہے۔
 
یہ صرف ایک فٹ بال ٹورنامنٹ کی حد تک محدود نہیں ہے۔
 
کئی عربوں کے لیے یہ دکھتی رگ پر ہاتھ رکھنے جیسا ہے۔ قطر میں کئی لوگوں کا سوال ہے کہ جب روس نے سنہ 2018 میں فٹ بال ورلڈ کپ یا پھر چین نے سنہ 2008 میں اولمپکس کی میزبانی کی تھی تو تب ان ملکوں کے انسانی حقوق کے ریکارڈ پر اعتراضات کیوں نہیں اٹھائے گئے۔
 
جب قطر نے ورلڈ کپ کی میزبانی جیتی تو اسے عرب دنیا کی فتح کے طور پر دیکھا گیا کیونکہ بالآخر دنیا کے سب سے بڑے مقابلوں میں سے ایک مقابلہ اب ایسے خطے میں ہونے والا تھا جو عام طور پر صرف جنگوں کے لیے مشہور ہے۔
 
ایک قطری مداح نے مجھے بتایا: ’یہ صرف قطر کے لیے نہیں بلکہ تمام عربوں اور مسلمانوں کے لیے ہے۔‘
 
منتظمین پر کسی بھی تنقید کو پورے خطے پر تنقید اور کسی عالمی مقابلے کی موزوں میزبانی کرنے کی اس کی قابلیت پر شک کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔
 
مگر لگتا ہے کہ خود قطر کو بھی اس بات پر حیرانی ہے کہ دنیا اس کا کس قدر کڑا جائزہ لے رہی ہے۔
 
Partner Content: BBC Urdu
YOU MAY ALSO LIKE: