ہماچل پردیش: مراکش کےہاتھوں اسپین کی شکست

ہماچل پردیش میں رائے دہندگی کا عمل 12؍ نومبر کو مکمل ہوگیا مگر نتائج کے لیے چار ہفتوں کاانتظار کرنا پڑا۔ اس بیچ لوگ بھول گئے کہ ایک دشوار گذار پہاڑی ریاست ہونے کے باوجود وہاں انتخابی جوش و خروش کا کیا عالم تھا۔ ہماچل میں سب سے زیادہ 85.2 فیصد رائے دہی دون اسمبلی حلقہ میں ہوئی اور سب سے کم 62.53 فیصد شملہ اربن میں ریکارڈ کی گئی۔ سرمور ضلع 78.00 فیصد ووٹنگ کے سبب سرفہرست رہا اور کانگڑا ضلع میں سب سے کم ووٹ بھی 71.05 فیصد تھا۔ گجرات میں وزیر اعظم و وزیر داخلہ کی بارہا تلقین کے باوجود پولنگ کا اوسط62 فیصد تھا جبکہ ہماچل پردیش کے اندر .675 فیصد لوگوں نےاپنے ووٹ کا استعمال کیا جو پچھلی مرتبہ سے زیادہ ہے۔ یہ جوش کیوں تھا ؟ اس کا جائزہ لینے سے قبل نتائج پر ایک نظر ڈا لی جائے۔

گجرات میں پولنگ کے ختم ہوتے ہی ایکزٹ پول آنے شروع ہوگئے۔ سب نے یک زبان ہوکر بی جے پی کی کامیابی کا مژدہ سنایا اور کانگریس کی زبردست ناکامی کی پیشنگوئی کی جو سچ ثابت ہوئی لیکن آج تک کو چھوڑ کر سب کے اندازے غلط ثابت ہوئے۔ نتائج نے ثابت کردیا کہ کانگریس کی حالت توقع سے ابتر ہے بی جے پی کی مقبولیت کا اندازے سے بہترہے۔ اس کو جتنا طاقتور سمجھا جارہا تھا وہ اس سے بھی زیادہ قوی ہے ۔ ہماچل میں الٹا ہوگیا اور اتفاق سے یہاں بھی آج تک کا اندازہ حقائق سے قریب تر رہا۔ آج تک کے مطابق بی جے پی کے لیے 24-34 نشستوں کی پیشنگوئی کی گئی تھی جبکہ کانگریس کو 30-40 حلقۂ انتخاب میں کامیاب ہوتے ہوئے دکھایا گیا تھا۔اس میں بھی کانگریس کی کم سے کم سیٹیں بی جے پی کی زیادہ سے زیادہ کے مقابلے چار کم تھیں ۔ اس کے علاوہ نیوز 24 نے تو دونوں کو برابر یعنی 33 پررکھا اور سات نشستوں کے بڑھنے گھٹنے کا امکان ظاہر کیا۔ اس لحاظ سے اگر کانگریس میں پورے سات بڑھا کر بی جے پی سے سات کم کردیئے جائیں تو اس کی پیشنگوئی درست ہوجاتی ہے لیکن ایسا تو اس نے خود بھی نہیں سوچا ہوگا۔

گودی میڈیا کے سرخیل زی نیوز نے بی جے پی کے لیے35-40 کی توقع کی اور کانگریس کو صرف 20-25 نشستوں سے نوازہ ۔ اے بی پی نے بھی بی جے پی کے لیے33-41 نشستوں کی پیشنگوئی کی جبکہ کانگریس کے لیے اس کا اندازہ 24-32 تھا۔ انڈیا ٹی وی کے خیال میں بی جے پی کو 35-40 نشستیں ملنے والی تھیں اور کانگریس کو 26-31 کے درمیان اکتفاء کرنا تھا ۔ نیوز ایکس نے بھی یہی اندازہ لگایا تھا کہ بی جے پی 32-40 نشستوں پر کامیاب ہوجائے گی اور کانگریس 27-34کے درمیان تھک کر بیٹھ جائے گی ۔ ان سارے اندازوں کو پیش نظر رکھا جائے تو بی جے پی کے لیے24-41 یعنی اوسط 33اورکانگریس کی جھولی میں 20-40 یعنی اوسط 30نشستیں ڈالی گئی تھیں جبکہ حقیقت میں کانگریس 40 پر پہنچ گئی اور بی جے پی 25 پر اٹک گئی۔

ووٹ کی گنتی کے دن جو اتار چڑھاو ہورہا تھا اسے دیکھ کر ہندوستا ن اور بنگلہ دیش کے درمیان کھیلا جانے والا پہلا ون ڈے میچ یاد آگیا جوبالآخر بنگلہ دیش کرکٹ کی تاریخ کا یادگار میچ بن گیا۔اس میچ میں ہندوستان نے جو 186 رنز کا ہدف رکھا اس کا دفاع آسان نہیں تھا۔ 187 رنز کا پیچھا کرنےوالی بنگلہ دیش کی ٹیم کے 40ویں اوور میں 136 رنز پر نو کھلاڑی آوٹ ہوکر اس کی ناکامی کا اعتراف کررہے تھے۔ میچ پرہندوستانی گیند باز غالب تھے ۔ بنگلہ دیش کی آخری جوڑی کے سامنے 51رنوں کا ہدف ناقابلِ عبور کھائی تھا۔ تمام اندازے یعنی ایکزٹ پول ہندوستان کے حق میں ہوگئے تھے۔ ایسے میں مہدی حسن نے ہونٹوں سے فتح کا جام چھین لیا۔ایک ایسے وقت میں جبکہ میچ پوری طرح ہندوستان کی گرفت میں تھا مہدی حسن نے کلدیپ سین کے اوور میں دو چھکے لگا کر کھیل کا رخ بدل دیا۔اس کے بعد دیپک چاہر کے 44 ویں اوور میں مہدی حسن نے تین چوکے لگائے۔ اس طرح یہ میچ ہندوستان کے مٹھی سے نکل کر بنگلہ دیش کی ہاتھ میں چلا گیا۔ہماچل پردیش میں یہی کام پرینکا گاندھی نے مودی کی گیند پر چھکا لگا کر کیا۔ ویسے وہ مہدی حسن کی طرح پہلے ہی شیکھر دھون یعنی جے پی نڈا کو بولڈ کرچکی تھیں ۔ اس لحاظ سے ہماچل پردیش کی وومن آف دا میچ پرینکا گاندھی ہیں کیونکہ جس طرح بنگلہ دیش نے سات سال بعد کرکٹ کی بلین ڈالر مارکیٹ کو ہرایا اسی طرح انہوں نے پانچ سال کے بعد بی جے پی کوبڑے آرام سے دھول چٹا دی ۔

ہماچل پردیش میں ہر پانچ سال بعد حکومت کے بدلنے کی روایت1988؁ سے چلی آرہی ہے۔ اس لیے پہلے سےاس بات کا امکان تھا کہ کہ کانگریس پھر سے اقتدار میں آجائے گی۔ ضمنی انتخاب میں بھی یہی رحجان سامنے آیا تھا ۔ چار صوبائی اور ایک قومی انتخاب میں بی جے پی کو ہار کا سامنا کرنا پڑا تھا ۔ ہماچل پردیش چونکہ ایک بہت کم آبادی والا صوبہ ہے اور وہاں کاروبار کےمواقع بہت کم ہیں اس لیے ہر تیسرے گھر کا کوئی نہ کوئی فرد سرکاری ملازم ہے۔ مرکزی حکومت کی نئی پنشن اسکیم نے ان سب کو بے چین کردیا ہے اور وہاں اس کے خلاف تحریک چل رہی ہے۔ ریاست کے ایک تہائی کسانوں کی پیداوار پر اٹھارہ فیصد جی ایس ٹی لگا دیا گیا ہے۔ اس سے وہ لوگ پریشان ہیں نیز مہنگائی و بیروزگاری کے عتاب سے کون بچا ہوا ہے؟ یہ ساری چیزیں بی جے پی کے خلاف تھیں اس کے باوجود حقیقت پسندی یا ہار مان لینا وزیر اعظم نریندر مودی کے خمیر میں نہیں ہے ۔ انہوں نے ایک چھوٹے سے صوبے کو جیتنے کے لیے اپنے وقار کو بالائے طاق رکھ کر ایڑی چوٹی کا زور لگا دیا۔ اس کے باوجود اپنی پارٹی کو کامیاب نہیں کرسکے ۔

بی جے پی نے اپنی نااہل حکومت کے خلاف عوامی غم و غصے سے بچنے کی خاطر بہت سارے ارکان اسمبلی کے ٹکٹ کاٹ دیئے تو بغاوت کا آتش فشاں پھٹ پڑا۔ اس کو قابو میں کرنے کی خاطر مودی کو پکارا گیا تو انہوں نے آو دیکھا نہ تاو فون اٹھایا اور پارٹی کےایک باغی امیدوار کرپال پرمار کو فون کرکے کہہ دیا ’’میں کچھ نہیں سنوں گا، تم الیکشن سے ہٹ جاؤ، باقی ساری ذمہ داری میری...۔‘‘ کرپال نے تو ان کی ایک نہیں سنی اور کہہ دیا ’حضور آتے آتے بہت دیر کردی‘ ۔ کرپال نے پہلے تو وزیر اعظم کے حکم کو اپنے جوتے کی نوک سے اڑا دیا۔ اس کے علاوہ ویڈیو بنواکر ساری دنیا میں پھیلا دی۔ اس داخلی مہا بھارت کانتیجہ یہ نکلا کہ فتح پور سیٹ سے کانگریس کے امیدوار بھونت سنگھ پٹھانیا باون فیصد سے زیادہ ووٹ حاصل کرکے جیت گئے اور پرمار کو صرف چار فیصد ووٹ ملے ۔ وزیر اعظم اگر فون نہیں کرتے تب بھی بی جے پی کا امیدوار ہار جاتا لیکن فون نے جو رسوائی کرائی وہ نہ ہوتی ۔ اس طرح گویا کھایا پیا کچھ نہیں گلاس پھوڑا بارہ آنہ والی بات ہوگئی۔ ویسے ’گولی مارو فیم ‘ انوراگ ٹھاکر کے آبائی ضلع میں بی جے پی پانچوں نشستوں پر ہار گئی۔

گجرات مودی جی کی جنم بھومی ہے تو اترپردیش ان کی کرم بھومی ہے ۔ وہاں بھی اتفاق سے تین ضمنی انتخابات ہوئے ۔ اس میں بھی دو مقامات پر بی جے پی کو ہار کا سامنا کرنا پڑا۔رام پور میں تو خیر الیکشن جیتنے کے لیے بی جے پی راون بن گئی اور اس نے پولیس کے ذریعہ رائے دہندگان کو ڈرا دھمکا کر بلکہ مارپیٹ کرکے روکا ۔ اس کا ثبوت بے شمار ویڈیوز کے علاوہ یہ ہے کہ جہاں74 فیصد وو ٹنگ ہوتی وہاں صرف 34فیصد ہوئی اورتب جاکر بی جے پی امیدوار کوجیت ملی ۔ اس پر یوگی بغلیں بجا رہے ہیں ورنہ تو یوپی سے اس کا سپڑا صاف ہوجاتا۔ کھتولی میں آر ایل ڈی امیدوار مدن بھیا نے بی جے پی کو ہرا دیا۔ یہ نشست پہلے بی جے پی کے پاس تھی لیکن اس بار اس کے میدوار راج کمار سینی کو 22,143 کے فرق سے ہار کا سامنا کرنا پڑا۔ یہ مسلم جاٹ اتحاد کی علامت ہے۔ مظفر نگر فساد سے اسے توڑا گیا اور بی جے پی مغربی اترپردیش میں مضبوط ہوگئی مگر اب ہوا کا رخ بدل رہا ہے۔

مین پوری میں ڈمپل یادو کی ریکارڈ توڑ دولاکھ 88 ہزار کے فرق سے کامیابی گجرات سے کم نہیں ہے۔ اس انتخاب نے چچا بھتیجے کا اختلاف بھی ختم کردیا جو بی جے پی کے لیےبری خبر ہے۔ ملک بھر میں گھوم کر پارٹی کی تشہیر کرنے والے یوگی ادیتیہ ناتھ کے لیے یہ شرم کا مقام ہے۔ چھتیس گڑھ کے بھانو پرتاپ پور کے ضمنی انتخاب میں کانگریس کی امیدوار ساوتری منڈاوی نے بی جے پی کے برہمانند نیتام کو 21,171 ووٹ کے فرق سے ہرا دیا ۔ اڑیشہ میں بی جے ڈی کی ورشا سنگھ نے پدم پور کے حلقۂ انتخاب میں بی جے پی پرتاپ پروہت کو 42,679 کے بڑے فرق سے دھول چٹائی۔ راجستھان کے اندر سردار شہر ضمنی انتخاب میں کانگریس کے انل کمار نے بی جے پی کے اشوک کمار کو 26,852 ووٹ کے فرق سے شکست فاش دی۔ رام پور کے علاوہ بہار کے گڈھنی میں بی جے پی کے امیدوار کیدار گپتا نے صرف 3649 ووٹ سے جے ڈی یو کے منوج کمار کشواہا کو ہرایا ۔ اس طرح پارلیمانی انتخاب میں صد فیصد اور اسمبلی میں بی جے پی کو ۶۶ فیصد ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا۔ اس میں سےرامپور کی چرائی ہوئی جیت بھی شامل ہے۔ وزیر اعظم گجرات کے شہنشاہ ہیں۔ وہاں کی عوام کے سامنے شکوہ شکایت کرکے اور ہمدردی بٹور کر وہ زبردست کا میابی حاصل کرسکتےہیں لیکن پورا ملک گجرات نہیں ہے۔ اس میں ہماچل پردیش اور دہلی کے علاوہ بہار، راجستھان ، اترپردیش، اڑیشہ بھی ہے جہاں ان کا جادو فیل ہوگیا ہے ۔


 

Salim
About the Author: Salim Read More Articles by Salim: 2055 Articles with 1246049 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.