لکھاری ،وقت اور بے قدری


اہل قلم قوم کا سرمایہ ہیں ،لکھنا فن ہے اور ہر کسی کو نہیں ملتا لیکن جس کو ملتا ہے وہ بے قدری کے راستے پر چلنے کی وجہ سے قلم کے مقام کو پہچاننے سے قاصر ہو جاتا ہے ،
زندگی عارضی اور رخصتی ابدی ہے ،لکھاری ماضی ہو جاتا ہے اور اس کا لکھا ایک حرف،لفظ،جملہ اور تحریر ابدی ہو کر مستقبل کی کرن بن جاتی ہے ،
پہلے لکھاری کم اور پڑھنے والوں کی تعداد زیادہ ہوتی تھی ،اب لکھاری لاتعداد اور پڑھنے والوں کی تعداد آٹے میں نمک کے برابر ،لیکن یہ تعداد لکھی جانے والی تحاریر پر نہیں بلکہ ہر ایک حرف ،لفظ،جملے اور موضوع پر نظر رکھتے ہیں ،پڑھتے ہیں ،غور کرتے ہیں ،سمجھتے ہیں اور فیصلہ کرتے ہیں کہ دوبارہ اس لکھاری کی تحریر کو پڑھنا ہے یا پھر ردی کرنا ہے ،
بد قسمتی یہ ہے کہ
*ہم سب لکھاری شاید غیر دانستہ لکھاری بن گئے ہیں ،اس لیے لکھاری کے اوصاف سے واقف نہیں ،
*ہر پڑھا لکھا قلم تھامے لکھاری کا روپ دھارے نظر آتا ہے ،
*ہر لکھاری کسی فورم کے ساتھ منسلک نظر آتا ہے ،
*ہر لکھاری اخبارات ،رسالوں اور ڈائجسٹ میں اشاعت چاہتا ہے ،
*ہر لکھاری اپنی تحریروں کے بدلے گھر کا خرچ چاہتا ہے ،
*ہر لکھاری کتاب کا مصنف بننا چاہتا ہے ،
*ہر لکھاری ایک سے زائد گروپ ،لوگوں،فورمز کے ساتھ اپنی خدمات پیش کرنے کا ارادہ رکھتا ہے تاکہ اس کی پہچان بن جائے ،
*ہر لکھاری ہر ماہ کوئی نا کوئی ایوارڈ چاہتا ہے تاکہ تصاویر فیسبک کی زینت بن جائیں ،
*ہر لکھاری کی خواہش ہے کہ میں پوسٹ کروں اور لکھاریوں کے کمنٹ کی لائن لگ جائے لیکن میں کسی کی پوسٹ پر جا کر کمنٹ نہ کروں کیونکہ وہ خود کو صف اول کا لکھاری مانتا ہے ،
*ہر لکھاری پہلے کسی فورم کے جڑتے ہیں ،پھر اختلاف ہوتے ہیں ،پھر شاید میری طرح ایک الگ چار،آٹھ یا چھ اینٹ کی مسجد بنا کر ادب کی خدمت کا نعرہ لگاتے ہیں ،
*کچھ فورم ہم لکھاریوں کی کتابیں منگواتے ہیں ساتھ رجسٹریشن فیس لیتے ہیں اور بدلے میں ایوارڈ دینے کا اعلان کرتے ہیں ،لیکن ہم خوش ہیں ،
*نئے پرانے لکھاری جب کوئی فورم بناتے ہیں تو یہ تو ممکن نہیں ہوتا کہ وہ خود اخراجات برداشت کریں لہٰذا پھر سالانہ رجسٹریشن فیس وصول کرتے ہیں ،نئے عہدوں کے اعلانات کرتے ہیں ،تقریبات کرواتے ہیں اور اسی طرح پھر نیا سال شروع ہو جاتا ہے ،
*میری مرد لکھاریوں کو لکھنے کے لیے شاید ایک خاص کیفیت اور سکون ضرورت ہوتی ہے لیکن کیونکہ پاکستان ایک ترقی پذیر ملک ہے اور ہمیں بھی ترقی کی دوڑ میں شامل رہنا ہے تو یہ سکون صرف لفظوں میں ہی ملتا ہے ،گھر،باہر،کاروبار کی الجھنوں میں تو نہیں ملتا ،
*فی میل لکھاریوں کا سب سے بڑا مسلہ معاشرتی رویہ ،پھر والدین اور خاندان کے سوالات ؤ اعتراضات ،بیوی ہونے کے ناطے بچوں کی تعلیم و تربیت ،گھر کی ذمہداری ،لکھنے کا شوق ،رشتے داروں کے طعنے لکھاری کو شکاری بنا دیتے ہیں ،
*اگر کسی لکھاری کی کوئی تحریر کسی اخبار یا رسالے اور ڈائجسٹ میں شائع ہو جائے اور ساتھ کوئی کتاب بھی مارکیٹ میں آ جائے تو وہ لکھاری مرد ہو یا عورت غرور و تکبر کے کنارے پر کھڑا ہو کر عاجزی کا درس دینے لگتا ہے ،
*کیونکہ ہر لکھاری خود کو مکمل سمجھتا ہے لہذا کسی بھی فورم پر وہ کسی دوسرے لکھاری کی بات کو اہمیت دینے سے قاصر ہوتا ہے بلکہ بات سننا ،جواب دینا،عمل کرنا ،اپنی توہین سمجھتا ہے ،
*ہر لکھاری سمجھتا ہے کہ وقت کی قید نہ ہو ،جب دل کرے تب لکھ لوں،دوسرا قبول کرے اور انعام بھی دے،
*ہم بھول جاتے ہیں کہ زندگی بھی ایک ٹائم فریم ہے،اس کو سمجھنا پڑتا ہے،عبادت کے لیے بھی وقت کی قید ہے،فجر کو مغرب کے وقت نہیں ادا کر سکتے،وقت کی قید تو دین بھی دیتا ہے،عورت کی زندگی ایک ٹائم فریم کے گرد ہے،پیدائش سے بچپن ، لڑکپن ، جوانی ، شادی، بچے، بڑھاپا اور پھر سفر ابدی سب وقت کی قید ہی تو ہے،
*مجھ سمیت ہر لکھاری سمجھتا ہے کہ ایک فورم یا رسالے میں لکھ کر نام نہیں کمایا جاسکتا لہذا ایک وقت میں کئی منازل کا راہی بن جاتا ہے اور کسی ایک پر بھی مکمل توجہ نہ دینے کی وجہ سے سفر میں ہی رہتا ہے ،
*مجھ سمیت ہر لکھاری ہر کتاب ،رسالے،اخبار، ڈائجسٹ میں لکھنے کا شوق رکھتا ہے اور حامی بھر لیتا ہے لیکن پھر مقررہ وقت پر مطلوبہ ادارے سے تاریخ ،وقت،دن،گھنٹے میں اضافے کی خواہش کرتا ہے اور جب وہ اضافے کو ناممکن کہتے ہیں تو ہم ان کے دشمن بن جاتے ہیں ،
*لکھاری تنقید کرنا حق اور تنقیدی رویہ اپنے ساتھ زیادتی سمجھتا ہے کیونکہ اس کو سیکھنے کی ضرورت نہیں ہے ،
لہذا وقت کی بے قدری لکھاری ہی کرتا ہے حالانکہ وقت کی قدر سیکھانے والا لکھاری ہے ،سچ لکھنا اور اس پر عمل کرنا لکھاری کے اوصاف ہیں لیکن وقت کی بے قدری کی وجہ سے اس کے اپنے اوصاف ہی خاک ہو جاتے ہیں ،
میرے لفظوں سے اختلاف کیا جا سکتا ہے یہ آپ کا حق ہے لیکن اللّٰہ کا واسطہ کہ وقت کی قدر کریں ،سچ کو جگہ دیں ، آپ اور میں ماضی ہونے والے ہیں لیکن ہمارا لکھا مستقبل اور ابدی ہو گا اور آنے والی نسلیں تب ہی مثال دیں گئے جبکہ ہم نے وقت کی قدر کرتے ہیں ایک منظم زندگی گزاری ہو گئی اور تکبر کو پاؤں کی خاک بنایا ہو گا ،دوسروں کو اہمیت دی ہو گئ ،اپنے نام کے لیے فورم نہیں کھڑے کیے ہو گئے بلکہ خود ایک جگہ پر کھڑے ہو کر آنے والی نسلوں کی بقا ء ؤ بہتری کے لیے آواز بلند کی ہوگئ ،
اہل قلم قوم کا سرمایہ ہیں لہٰذا وقت کی قدر کریں تاکہ وقت آپ کی قدر کرے ،
 

Babar Alyas
About the Author: Babar Alyas Read More Articles by Babar Alyas : 875 Articles with 460782 views استاد ہونے کے ناطے میرا مشن ہے کہ دائرہ اسلام کی حدود میں رہتے ہوۓ لکھو اور مقصد اپنی اصلاح ہو,
ایم اے مطالعہ پاکستان کرنے بعد کے درس نظامی کا کورس
.. View More