بھرت پور کی مہا بھارت - چوتھی قسط

وشوناتھ کا آشیرواد لے کر جگو سیدھے دہلی ریلوے اسٹیشن پر پہنچا تو وہاں عجیب ہنگامہ برپا تھا شمال کی جانب سے آنے والی اکثر گاڑیاں تاخیر سے چل رہی تھیں ویسے جگو کو جانا جنوب کی جانب سے تھا لیکن جب تک کہ شمال سے گاڑی آئیگی نہیں اس وقت تک جنوب میں جائیگی کیسے؟ جگو کی سمجھ میں بادِ مخالف کی ضرورت اور حکمت اپنے آپ آگئی تھی ۔اسے دہرا دون ایکسپریس سے ناسک جانا تھا جہاں سے بس کے ذریعہ رالے گن سدّھی یعنی اّنا جی کا گاؤں ۔ دہلی سے بنکر جانے والی ساری گاڑیاں چونکہ گجرات سے ہوکر جاتی تھیں اسلئے جگو کے پاس انتظار کے سوا کوئی اور چارۂ کار نہیں تھا ۔ اچانک جبکہ وہ اس انتظار کی اذیتوں سے گزر تھا اس کے کانوں سے ایک نہایت مدھر آواز ٹکرائی ۔بابو جی یہ لیجئے پوڑی سبزی کھا لیجئے ۔یہ منگو حلوائی بول رہا تھا جگو نے اس کی جانب دیکھا تو اس نے بے طرح سے دانت نکال دئے اور مٹی کے کلہڑ میں تنک (تھوڑی ) سی سبزی اور اس پر رکھی تین پھولی ہوئی پوڑیاں جگو کی جانب بڑھا دیں ۔

جگو کے منہ میں پانی بھر آیا لیکن پھر بھی اس نے کہا شکریہ مجھے نہیں چا ہئے ۔

منگو بولا صاحب آپ کچھ زیادہ ہی پریشان لگتے ہیں ۔یہ سرکاری گاڑی ہے اس کی اپنی مرضی؟ اسے تو جب آنا ہے تب آئے گی آپ کی چنتا سے اس کو کوئی فرق نہیں پڑتا ۔

جی ہاں لیکن مجھے ابھی بھوک نہیں ہے ۔ اس لئے میں معذرت چاہتا ہوں

ارے صاحب بھوک تو اپنی ہے۔ابھی نہیں لگی تو کچھ دیر میں لگ جائیگی اس لئے آپ پیشگی کھا لیجئے

جگو کو منگو کے اصرار سے الجھن ہونے لگی وہ بولا آپ عجیب آدمی ہیں ۔ اپنی پوڑی بیچنے کی اس قدر فکر ہے آپ کو کہ آپ بلاضرورت اسے میرے گلے میں ٹھونسنا چاہتے ہیں ۔

منگو نے پہلے کی سی متانت سے جواب دیا صاحب آپ کو غلط فہمی ہو گئی اس کیلئے میں معذرت چاہتا ہوں لیکن بات دراصل یہ ہے کہ میں یہ سبزی پوڑی بیچ نہیں رہا اور مجھے لگتا ہے آپ کو بھوک لگی ہے ۔

تو کیا تم نے مجھے بھکاری سمجھ لیا ہے جو دان دھرم کرنے چلے آئے ۔جگو نے بگڑ کر کہا

منگو بولا صاحب بھکاری ہوں آپ کے دشمن ہم تو بھیک منگوں کو بھی بھکاری نہیں سمجھتےویسے آپ تو مجھے کمہار لگتے ہیں؟

کمہار ؟ یہ تمہیں کیسے پتہ چل گیا ؟

چلئے آپ نے تصدیق کر دی اس کا شکریہ اب بحث مباحثہ چھوڑ کراس پوتر بھوجن کا سواد(مزہ) لیجئے۔

لیکن آپ میرے کیا لگتے ہیں جو مجھے مفت میں یہ کھانا کھلا رہے ہیں؟

بھائی سچ تو یہ ہے کہ ساتھ ملکر کھانا کھانے کیلئے کچھ لگنا ضروری نہیں ہے۔ویسے اگر آپ اسے ضروری سمجھتے ہیں تو یوں سمجھئے کہ میں آپ کاججمان (میز بان ) ہوں

لیکن میں تو آپ کا مہمان نہیں ہوں ؟

منگو نے جملہ کاٹ دیا اور جھٹ سے بولا نہیں ہیں تو ہو جائیں گے ۔ گاڑی کے آنے میں تاخیر ہو رہی ہے آپ یہ کر سکتے ہیں کہ اس کے آنے تک ہمارے پنڈال میں وشرام(آرام) کر لیں

تمہارا پنڈال؟ تم ہو کون اورکہاں ہے یہ پنڈال ؟

جی پنڈال میرا نہیں یوگی بابا کا ہے۔میں تو ان کا ادنی ٰسابھکت ہوں اور پنڈال یہیں قریب کے رام لیلا گراؤنڈ پر ہے اور وہاں جانے کیلئے باہر مفت رکشا موجود ہے ۔ میری ہی طرح سارے سائیکل رکشا والے بھی بابا کے بھکت ہیں وہ لوگ سواریوں کو رام لیلا میدان تک پہنچانے کی اجرت نہیں لیتے۔

جگو کا دل پسیج چکا تھا اس نے پوڑی کی جانب ہاتھ بڑھاتے ہوئے کہایا ریہ تو زبردست سہولت ہے کھانا تو کھانا، آنا جانا بھی مفت۔

جی ہاں صاحب اور اسی ساتھ رہائش کا بھی بہترین انتظام

اور وہ بھی مفت؟ جگو اب بے تکلف ہو گیا تھا

جی ہاں صاحب یہ بابا کا دربار ہے کوئی سرکاری دربارتھوڑے ہی ہے جہاں ہر چیز کی قیمت پیشگی ادا کرنی ہوتی ہے

جگو بولا سرکار دربار بھی تو مفت خوری کا اڈہ ہی ہے !

جی ہاں صاحب لیکن یہ مفت خوری صرف درباریوں تک محدود ہے ۔

یہ بھی صحیح ہے دکشنا کے بغیر عام آدمی کی وہاں تک رسائی ممکن نہیں ہے جگو نے کہا

آپ کی بات بالکل درست ہے اسی صورتحال کو بدلنے کیلئے ہی یوگی بابا نے اپنا دربار سجایا ہے

نادانستہ طور پر جگو یوگی بابا کے پنڈال کی جانب چل پڑاتھا منگو نے اسے رکشا میں بٹھانے کے بعد کہا آپ پرستھان کریں اور مجھے آگیہ دیں۔ میرے ذمے ّ کچھ اور کام ہے ۔میں انہیں نبٹا کر دوپہر بعد بابا جی کے درشن کیلئے پہنچ جاؤنگا ہماری ملاقات اسٹیج کی دائیں جانب چار بجے ہوگی ۔رکشا کے پہئے کے ساتھ جگو کے دماغ کی چکری بھی گھومنے لگی تھی ۔وہ سوچ رہا تھا :
•یہ منگو بھی زبردست جادوگر ہے ۔اس نے جگو کے سفر کا رخ اس خوبی سے موڑ دیا تھا کہ خود اسے بھی پتہ نہ چلا ۔ ایسا لگتا تھا گویا اس نے جگو کے دماغ کو اپنے قبضے میں کر لیا تھا اور بغیر سوچے سمجھے جگووہ تمام کام کرتا جارہا تھا جو منگو چاہتا تھا
•اور پھر منگو کو یہ کیسے پتہ چل گیا کہ وہ پریشان ہے؟
•اس کو لگی ہوئی بھوک کا اندازہ بھی منگو نے بڑی جلدی کر لیا
•اور تو اور سب سے بڑا چمتکار تو یہ انکشاف تھا کہ وہ کمہار ہے ؟ جگو کے ماتھے پر تو یہ کھدا ہو انہ تھا بلکہ اس کے چہرے مہرے سے بڑے بڑے قیافہ شناس دھوکہ کھا جاتے تھے اوراسے سورن جاتی کا آدمی سمجھ لیتے تھے لیکن منگو نے اس کے پیشے کابالکل صحیح پتہ لگا لیا تھا
•اس کےباوجود منگو اس کے ساتھ پنڈال تک نہیں آیا تھا گویا اسے یقین تھا کہ یہ پنچھی پوری طرح زیرِ دام آچکا ہے ۔ اب یہ درمیان سے کسی اور جانب روانہ نہیں جاسکتا ۔جگو کو منگو کی خود اعتمادی پر رشک آرہا تھا
•وہ سوچ رہا آخر کس ذمہ داری نے منگو کو ریلوے اسٹیشن پر روک دیا اور اس کے ساتھ آنے نہ دیا ؟

آخری سوال کے سوا کسی سوال کا جواب جگو کے پاس نہ تھا ۔ اسے یقین تھا کہ دوپہر تک اور کئی اجنبی لوگوں کو منگو رام لیلا میدان روانہ کر دے گا ۔ اس کا جی چاہا کہ واپس جاکر منگو کی تپسیا میں شامل ہو جائے لیکن اسے لگا یہ کام اس قدر آسان نہیں ہے ۔ یہ فی الحال اس سے نہ ہو سکے گا ۔ اسے یوگی بابا کے ساتھ کچھ اور ابھیاس (ریاض) کرنا ہوگا تب جاکر وہ جگو سے منگو بن سکے گا ۔ جگو نے فیصلہ کیا کہ وہ اگلے دن منگو کے ساتھ ریلوے اسٹیشن ضرورجائیگا لیکن اسی دن شام جب منگو سے ملاقات ہوگی تو اس سے اپنے سارے سوالات کے جواب پوچھے گا ۔

جگو جیسے ہی رام لیلا میدان میں بنے شامیانے میں داخل ہوا اس کا چہار جانب سے استقبال ہونے لگا۔کوئی مسکرا رہا تھا تو کوئی پرنام کررہا تھا ایسا لگتا تھا گویا وہ اپنے پرانے جاننے والوں میں لوٹ آیا ہے ۔ سب سے اہم بات یہ تھی کہ ہر کوئی اسکی آمد سے خوش تھا بعد میں اسے پتہ چلا کہ اس خوشی کا تعلق اسکی اپنی ذات تک محدود نہ تھا بلکہ یہاں ہر کسی کو ایک دوسرے سے مل کر بے حد خوشی ہوتی تھی ۔ ایسا کیوں ہوتا تھا اس کی وجہ کا علم اسے ابھی نہیں ہواتھا لیکن سچ یہی تھا کہ وہ خود بھی ان لوگوں سے مل کر بے شمار مسرت موسیس کررہا تھا ۔اس بیچ ایک کارکن نے اپنی گٹھڑی کو کھولا اور اسے کھانے کی دعوت دی ۔ویسے تو جگو کو بھوک نہیں تھی اس کے باوجود وہ اس پرخلوص دعوت کو ٹھکرا نہ سکا ۔ وہ دونوں آمنے سامنے بیٹھ گئے ۔ان کو ایسا کرتے دیکھ ایک اور مندوب دوڑ کر دوپانی کے پیالے لے آیا اور ان کے سامنے رکھ دئیے۔ اس اجنبی نے پانی لانے والے کو بھی اپنے ساتھ شریک کرلیا ۔ اب ان کے سامنے پتے پر کچھ ستوّ تھا اور پانی ۔ پانی لانے والے نے اپنی جیب سے گڑ کی چند ڈلیاں نکالیں اور ان کو ستوّ پر پھیلا دیا ۔ کھان پان کے بعد ستوّ والے نے پوچھا بابا جی کا پروچن کب ہے ؟ پانی والا بولا ابھی سمے ہے ہم لوگ دوگھنٹہ وشرام کر سکتے ہیں ۔ جگو بولا یہ بہت مناسب مشورہ ہے ۔ ستوّ والا بولا جی ہاں یہ وقت کا بہترین استعمال ہے باباجی کے پروچن سے پوری طرح مستفید ہونے کیلئے جسم و ذہن کا تروتازہ ہونا بہت ضروری ہے ۔پانی والا اس بیچ اپنی دری بچھا چکا تھا تینوں اس ا یک بڑی سی دری پر اغل بغل لیٹ گئے اور نہ جانے کب گہری نیند کی آغوش میں پہنچ گئے ۔

بڑے دنوں کے بعد جگو نے خواب میں اپنے دادا کمل پرشاد اپادھیائے کو دیکھا وہ نہایت ہشاش بشاش نظر آرہے تھے ان کا چہرہ خوشی سی دمک رہا تھا ۔ جگو نے آگے بڑھ کر ان کے چرن چھوئے تو انہوں نے اس کے سر پر ہاتھ رکھا اور پھر اپنے سینے سے لگا لیا ۔ایسا پہلی بار ہوا تھا اس کے بعد وہ دونوں ایک دوسرے کے سامنے مٹی میں بیٹھ گئے کمل پرشاد نے کہا بیٹے کیا تم جانتے ہو کہ آج میں یہاں کیوں آیا ہوں؟ جی دادا جی ! میں نہیں جانتا اور مجھے یہ جاننے کی ضرورت بھی نہیں آپ کے درشن ہوگئے یہی میرا بہت بڑا سوبھاگیہ ہے ۔جگو نے ونمرتا سے کہا

سوتو ہے میں بھی جب تم کو دیکھتا ہوں تو میری آنکھوں کو ٹھنڈک ملتی ہے لیکن آج میری تم سے ملاقات کا ایک خاص کارن (وجہ) ہے

آگیہ دیں داداجی! آپ کی اِچھاّ(مرضی)ہی میرے لئے آدیش (حکم)ہے

بیٹے آج میں تمہیں نہ تو کوئی آدیش دوں گا اور نہ ہی اپدیش ۔آج تو میں سیاست کی دنیا میں تمہارا سواگت کرنے کیلئے آیا ہوں ۔ دیکھو بیٹے یہ ایک نہایت پوتر دھرم کاریہ(مقدس دینی ذمہ داری) ہے جس کا لوگوں نے اس قدر دراپیوگ(غلط استعمال) کیا کہ یہ ایک گالی بن گیالیکن تم اسے دھرم سمجھ کر برتنا۔یادرہے کل یگ کے سارےانیایہ اور شوشن کا سروت(ظلم اور استحصال کا سرچشمہ)یہی راجنیتی ہے اس لئے جو اسے سدھار دے گا وہ سب سے بڑا کام کرے گا پرنتو یہ نہ بھولنا کہ یہ پھولوں کی سیج نہیں کانٹوں کا ہار ہے ۔یہ کام آسان نہیں بہت مشکل ہے لیکن بہادر آدمی کی پہچان یہی ہے کہ وہ مشکل کام میں ہاتھ ڈالتا ہے اور اسے بخیرو خوبی نبٹا دیتا ہے ۔ اس مہا یدھ (جنگِ عظیم)میں میری نیک خواہشات تمہارے ساتھ ہیں ۔ مجھے یقین ہے کہ اس رن بھومی (میدانِ جنگ)سے تم کامیاب و کامران ہو کر لوٹوگے۔ جگو نے عقیدت کے ساتھ اپنی آنکھوں کو بند کرلیا تو اپنے کندھوں پر کسی ہاتھ کا دباؤ محسوس کیا۔ اسکی آنکھ کھلی تو اس کے سامنے منگو کھڑا مسکرا رہا تھا۔منگو نے کہا اٹھو بھائی جگو وشرام کا سمے سماپت ہو گیا ہے ۔جگو نے دیکھا کہ اسکے پاس سے پانی والا اور ستوّ والا دونوں غائب ہیں ۔جگو نے پوچھا کیا پروچن شروع ہونے والا ہے؟

منگو بولا ابھی بس اتنا وقت ہے کہ تم اپنی ضروریات سے فارغ ہوکر منہ ہاتھ دھولو اس کے بعد ہم لوگ چائے پیتے ہیں تب تک یوگی بابا آجائیں گے۔

(باقی آئندہ انشا اللہ)
Salim
About the Author: Salim Read More Articles by Salim: 2073 Articles with 1267090 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.