چندر شیکھر سنگھ نے موہن بھاگوت کا پول کھول دیا

موہن بھاگوت نے ابھی حال میں سنگھ کے ترجمان کو ایک نورا انٹرویو دے کر ایک جعلی بیانیہ گھڑنے کی کوشش کی لیکن قدرت کا کرنا ایسا کہ اس کے اگلے ہی دن بہار کے وزیر تعلیم چندر شیکھر سنگھ کی تقریر اور اس پر سادھو سنتوں کے ردعمل سے سارے کیے کرائے پر پانی پھرگیا ۔ ہفت روزہ پان جنیہ کو دیئے جانے والے اس انٹرویو میں ظاہر ہے سارے سوالات کا موہن بھاگوت کو پہلے سے علم رہا ہوگا اور ان کے جوابات کو کئی بار نظر ثانی کے بعد شائع کیا گیا ہوگا پھر بھی کئی متضاد باتیں درآئیں۔ اس ملاقات میں سر سنگھ چالک کا یہ دعویٰ گمراہ کن ہے کہ ہندو سماج تقریباً ہزار سال سے حالتِ جنگ میں ہے اور لڑنا ہو تو مضبوط ہونا ہی پڑتا ہے۔ دنیا کا یہ خطہ پچھلے ہزار سال سے نہیں بلکہ آریہ قوم کی آمد کے بعد یعنی پانچ ہزار برسوں سے جنگ و جدال میں مبتلا ہے۔ موہن بھاگوت کی نظر میں آریہ نسل بھی ہندو ہے اور جن مقامی باشندوں کو اپنی زمینوں سے بے دخل کرکے جنوب کی جانب ڈھکیل دیا گیا وہ بھی ہندو ہی ہیں ۔ اس لیے جنگ کی حالت کو صرف ایک ہزار سال تک محدود کردینا درست نہیں ہے۔ حقیقت تو یہ ہے کہ پچھلے ہزار سالوں کے اندر اس سے پہلےکے چار ہزار سالوں سے جاری جبرو استبداد میں خاطر خواہ کمی واقع ہوئی۔ ہندوتوا نوازوں کو اس کا افسوس ہے۔

موہن بھاگوت کا یہ دعویٰ بھی خلافِ حقیقت ہے کہ فی زمانہ ملک میں ایک جنگ غیر ملکی لوگ، غیر ملکی اثرات اور غیر ملکی سازشوں کے خلاف جاری ہے۔ حملہ آور آریہ قوم کی روایت یہ رہی ہے کہ اس نے ہمیشہ اپنے سے کمزور مقامی لوگوں کو غلام بنانے کی جانب اپنی ساری توجہ مرکوز رکھی اور اب پھر سے اس کا وہی ہدف ہے۔ ماضی میں اس مقصد کے حصول کی خاطر منو سمرتی کو نافذ کیا گیا اور اب بنچ آف تھاٹ کی مدد سے عوام کچلاجارہا ہے ۔ ہندوستان کےا ندر جنگ و جدال کی تاریخ کا اندازہ رزمیہ کہانیوں میں موجود مہابھارت یا رامائن سے لگایا جاسکتا ہے۔ ان میں کوئی غیر ملکی نہیں تھا۔ مہابھارت میں تو ایک خاندان کےافراد باہمی سازش میں ملوث تھے ۔ ان لوگوں نے اپنے ہی بھائی بندوں کو نیست و نابود کردیا ۔ سری لنکا میں جاکر حملہ کس نے کیا تھا ؟ وہ جنگ انگریزوں یا مسلمانوں کے خلاف نہیں تھی۔

ہندوستان کی تاریخ کا ایک خوفناک پہلو یہ بھی ہے کہ اس ملک میں جاری نسلی امتیاز کے خلاف اٹھنے والی گوتم بدھ کی عظیم اصلاحی تحریک کا نام و نشان مٹا دیا گیا۔ ان کی عبادتگاہوں کو ڈھاکر بودھ مذہبی پیشواوں کو ملک سے فرار ہونے پر مجبور کیا گیا۔ اس لیے ہندو بیداری کی روایت کو سکندر سے جوڑ کر یہ تاثر دینے کی کوشش کرنا کہ وہ مسلمان تھا ۔ اس یونانی حملہ آور کی آمد سے قبل باغوں میں بہار تھی بدترین علمی خیانت ہے۔ اس کے ذریعہ انسانی تاریخ کے عظیم ترین ظلم و استحصال کو چھپانے کی کوشش کی جارہی ہے۔موہن بھاگوت نے اعلان کیا کہ وہ ہندو بیداری کا استعمال کرکے داخلی جنگ جیتنا چاہتے ہیں ۔ یہ اندرونی جنگ کس کےخلاف لڑی جائے گی اور اس میں کامیابی کیسے ہوگی؟ ان سوالات کا جواب انہوں نے نہیں دیا۔جنگ و جدال کی بات کرنے والے سر سنگھ چالک نے چین کے حوالے ایک سوال میں اپنے موقف کی تردید کردی ۔ انہوں نے کہا کہ ’آج ہم مضبوطی کی پوزیشن میں ہیں، اس لیے ہمیں اس بات کا بھی خیال رکھنا ہے کہ ہمیں اپنی طاقت کی پوزیشن میں کیا اقدام کرنا چا ہیے، تاکہ ہم آگے بڑھ سکیں‘۔ اس کے بعد وہ بولے کہ اگر ہم ہمیشہ لڑائی کے موڈ میں رہیں گے تو کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔یہ متضاد بیانات موہن بھاگوت کے کنفیوژن کا منہ بولتا ثبوت ہیں ۔

سنگھ پریوار جب تصادم کی بات کرتا ہے تو ذہن اپنے آپ مسلمانوں کی جانب چلا جاتا ہے لیکن وہ ہندو سماج کی داخلی لڑائی تو ہے نہیں اس لیے سوال یہ ہے کہ آخر وہ اندرونی جنگ کس کے خلاف ہے؟ اس کی جانب اگلے ہی دن بہار کے وزیر تعلیم چندر شیکھر نے اپنی تقریر میں اشارہ کردیا اور ان کی مخالفت میں سادھو سنتوں سمیت بی جے پی والے تلواریں سینت کر میدان میں کود گئے ۔ چندر شیکھر نے نالندہ اوپن یونیورسٹی کے 15ویں کانووکیشن میں طلبا سے خطاب کرتے ہوئےاعلان کیا کہ منو اسمرتی، رام چرت مانس اور بھگوا مفکر گرو گولولکر کی بنچ آف تھاٹس نفرت پھیلاتی ہیں۔ ملک کو نفرت نہیں بلکہ محبت عظیم بناتی ہے جبکہ یہ کتابیں سماج کو تقسیم کرتی ہیں۔ بہار کے چانکیہ کی تصنیف منو سمرتی اور گولوالکر کی بنچ آف تھاٹس تو دو ایسی کتابیں ہیں کہ جن کا دفاع کر نا کسی کے بس کی بات نہیں اس لیے سارے ہندوتوا نواز رام چرت مانس پر تنقید کی مخالفت کرنے لگے۔

وزیر موصوف کی تقریر میں کہا گیا تھا کہ رام چرت مانس میں بعض ذاتوں کے خلاف امتیازی سلوک کی سفارش کی گئی ہے ۔ انہوں نے رام چرت مانس کا شلوک پڑھ کر بتایا کہ اس میں نچلی ذات کے لوگوں کو تعلیم حاصل کرنے کا حق سے محروم کرنے کی خاطر یہاں تک کہا گیا ہے کہ نچلی ذات کے لوگ تعلیم حاصل کرنے کے بعد زہریلے ہو جاتے ہیں، ان کو تعلیم دینا گویا سانپ کو دودھ پلا کر اس کے زہر میں اضافہ کرنا ہے ۔چندر شیکھر نے بتایا کہ منواسمرتی کو جلانے کا کام اس لیے کیا گیا کیونکہ اس میں ایک بڑے طبقےکے خلاف …85 فیصد لوگوں کو …متعدد گالیاں دی گئی ہیں۔ ان کےاس بیان کی مخالفت میں ایڈوکیٹ جندال نے ڈپٹی کمشنر آف پولیس (ڈی سی پی) سائبر کرائم یونٹ دہلی پولیس میں شکایت درج کرائی ہے۔ جندال کے خیال میں منوسمرتی پرنچلی ذاتوں کے ساتھ بدسلوکی اوررام چرت مانس میں نچلی ذات والوں کو ناخواندہ رکھنے کی وکالت کرنے والی کتاب کہنا غلط ہے ۔ جندال کا الزام ہے کہ وزیرتعلیم نے رام چرت مانس پر دلتوں او رعورتوں کو تعلیم حاصل کرنے سے روکنے کے سبب جلانے کی ترغیب دی ۔

بہار کے سابق وزیر زراعت اور بی جے پی رہنما اے پی سنگھ نے چندر شیکھر کے بارے میں کہا کہ یا تو وہ پاگل ہیں یا غدار ہیں یا پھر قوم کی سوچ کے خلاف ہیں۔ ان کی جگہ جیل کے اندر ہے۔وہ اس معاملے کو اسمبلی میں اٹھائیں گے۔مرکزی وزیر اشونی چوبے نے کہہ دیا کہ ،’ایسے جاہل شخص کو وزیر تعلیم بنے رہنے کا کوئی حق نہیں ہے۔ انہیں فوراً اس عہدے سے ہٹا دیاجانا چاہیے۔ اس بیان پر برہم بی جے پی کے ہندو برادری سے معافی مانگنے کے مطالبہ پر پوچھے جانے پر چندر شیکھر نے کہا کہ بھگوا پارٹی حقائق سے لا علم بھگوا پارٹی کو معافی مانگنی چاہیے۔ چندر شیکھر کے اس بیان میں حقیقت ہے۔ ڈیڑھ سال قبل بہار میں نتیش کمار نے بی جے پی کے ساتھ مل کر حکومت سازی کی تو بھگوا پارٹی کےمیولاال چودھری کی وزیر تعلیم بنایا گیا۔ اس نام نہاد پروفیسر نے ایک اسکول کے اندرمنعقدہ تقریب میں شرکت کی اور پرچم لہرایا۔ اس کے بعد قومی ترانہ پڑھتے ہوئے اٹکنے لگے اور "پنجاب سندھ گجرات مراٹھا” کے بجائے "پنجاب وسنتا گجرات مراٹھا” پڑھ دیا۔وزیر موصوف کی غلطیوں پر اسکول کے معصوم بچے حیرت سے ایک دوسرے کی صورت دیکھنے لگے اور وہ ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہوگئی۔ میوالال کی جہالت چندرشیکھر کے بیان کی تصدیق کرتی ہے؟ ویسے یہ بھی ایک تلخ حقیقت ہے کہ تین دن کے اندر میوالال کو اپنی بیوی کے قتل اور بدعنوانی کے الزام میں استعفیٰ دینا پڑا۔ یہ ہے بی جے پی کی چال ، چرتر اور چہرا۔

سیاستدانوں سے علی الرغم ایودھیا کے سادھو سنت بھی چندر شیکھر کی تنقید پر آپے سے باہر ہوگئے ۔ اپنی برہمی کا اظہار کرتے ہوئے رام جنم بھومی مندر کے پجاری آچاریہ ستیندر داس نے کہا کہ اگر اس وزیر کے خلاف کارروائی نہ کی گئی تو سادھو سنت خاموش نہیں رہیں گے۔ جگت گرو پرم ہنس آچاریہ نے وزیر کو ان کے عہدہ سے برطرف کرنے کا مطالبہ کیا۔ ان کے مطابق چندر شیکھر سنگھ کے بیان سے سارے ملک کو تکلیف پہنچی ہے۔ انہوں نے وزیر سے اپنے ریمارکس کے لئے معافی مانگنےکا مطالبہ کیونکہ پرم ہنس کے مطابق رام چرت لوگوں کو جوڑتی ہے اور انسانیت پیدا کرتی ہے۔ تپسوی چھاؤنی کے مہنت پرم ہنس داس تو ایسےبگڑے کہ چندرشیکھر کی زبان کاٹ کر لانے والے کو 10کروڑ روپیہ انعام دینے کا اعلان کردیا حالانکہ یہ دس کروڈ پرم ہنس کے پاس کہاں سے آئیں گے یہ کوئی نہیں جانتا۔ بہار کے وزیر تعلیم کے بیان کی مخالفت نے سر سنگھ چالک موہن بھاگوت کے اس دعویٰ کی ہوا نکال دی جس میں انہوں نے کہا تھا کہ ہندو سماج ہی واحد معاشرہ ہے جو جارحانہ نہیں ہے، لہٰذا عدم جارحیت، عدم تشدد، جمہوریت، سیکولرازم… ان سب کو بچانا ہوگا۔سچ تو یہ ہے ہندو سماج میں موجود تفریق و امتیاز کاخاتمہ کیے موہن بھاگوت کے سارےدعوے بے معنیٰ ہیں۔
(۰۰۰۰۰۰۰جاری)
 

Salim
About the Author: Salim Read More Articles by Salim: 2055 Articles with 1246135 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.