ظریفانہ: راہل کا کمال اور سنگھ کا ملال

للن سنگھ نے کلن مشرا سے کہا یار راہل نے تو کمال کردیا ۔
کلن بولے تم کس کمال کی بات کررہے ہو ۔ پچھلے تین ماہ سے وہ کمال پر کمال کررہاہے ۔
ارے بھیا آج کل سارے ملک میں بھارت جوڑو یاترا کے چرچے ہیں ۔ میں اسی کی بات کررہا تھا۔
تم کس ہندوستان کی بات کررہے ہو بھائی میں تو ہر روز ٹیلی ویژن دیکھتا ہوں وہاں پر بھارت جوڑو یاترا کا نام و نشان ہے۔
ارے للن بھیا آپ کس گودی میڈیا کی بات کررہے ہیں۔ ان بیچاروں کی مجبوری ہے۔ وہ بھارت جوڑو یاترا کو کیسے دکھا سکتے ہیں ؟
کیوں ایسی بھی کیا مجبوری ہے۔ دنیا بھر کی اوٹ پٹانگ باتوں سے بہتر ہے یہ یاترا دکھاو ۔ ٹی آر پی بھی بڑھے گی ۔
بھیا للن ٹی آر پی اشتہار اور اشتہار روپیہ کے لیے دکھائے جاتے ہیں لیکن اگر کوئی خبر چھپانے کے لیے پیسہ ملنے لگے تو اسے کیوں نہ دبایا جائے۔
اب سمجھا لیکن بھارت جوڑو یاترا کے بارے میں تمہیں معلومات کیسے ملتی ہے؟
للن بھیا آج کل سوشیل میڈیا بہت طاقتور ہوچکا ہے۔
اچھا تو وہاں آج کل بھارت جوڑو یاترا کے حوالے سے کیا ہورہا ہے؟
بھائی ایسا ہے پہلے تو اس کا خوب مذاق اڑایا گیا اور بی جے پی والوں کے اعتراضات کو اچھالا گیا۔ کہا گیا کہ یہ تمل ناڈو اور کیرالہ سے آگے نہیں جاسکے گی۔
یہ باتیں تو میں نے زی ٹی وی پر بھی سنیں لیکن کرناٹک میں یاترا کے زبردست استقبال کی خبر سنانے کے بعد وہ خاموش ہوگیا ۔
للن بولا جی ہاں مگر سوشیل میڈیا پر مجھے پتہ چلا کہ مہاراشٹر میں یاترا نے کرناٹک سے زیادہ کامیابی حاصل کی ۔
کلن نے کہا وہ توساورکر پر تنقید کے سبب ہوگیا ، ہندوستان میں تنازع بہت بکتا ہے۔
جی ہاں کلن اور مدھیہ پر دیش میں راہل کو جان سے مارنے کی دھمکی نے اسے ہٹ کردیا ۔
وہ تو ٹھیک ہے مگر دگوجئے سنگھ اور کمل ناتھ کے جھگڑے کا کیا بنا ؟
ارے بھیا اس یاترا نے نہ صرف کمل ناتھ اور دگوجئے کی تو نفرت کو ختم کردیا بلکہ پائلٹ اور گہلوت کی درمیان بھی محبت پیدا کردی ۔
کلن بولا اس کا مطلب ہے ’نفرت کے بازار میں محبت کی دوکان‘ والی بات سچ نکلی ۔
جی ہاں اور کوٹہ کے اندر بی جے پی کے دفتر کی جانب راہل کی ’فلائنگ کِس‘ کو کون بھول سکتا ہے۔
ہاں بھیا کہاں تو لوگ اس یاترا کے شمالی ہندوستان پر داخلے کے حوالے سے مشکوک تھے اور کہاں وہ بڑی شان سے دہلی میں داخل ہوگئی۔
للن نے کہا ہاں یار دہلی میں تو میں خود بھی اپنے آپ کو روک نہیں سکا اور صبح تڑکے نکل کھڑا ہوا۔
کلن بولا بھائی لال قلعہ پر راہل کی تقریر اور اڈوانی و امبانی کی دھلائی میں زندگی بھر بھول نہیں سکتا۔
جی ہاں کلن اس موقع پر راہل نے اس کی شبیہ بگاڑنے والے ہزاروں کروڈ کی تشہیر کو جلا کر خاک کردیا۔
کلن بولا لیکن بھیا اصل چمتکار تو اس وقت ہوا جب یاتراایک مختصر وقت کے لیے اتر پردیش میں داخل ہوگئی۔
ارے بھائی دہلی سے پیدل کشمیر جانے کے لیے اترپردیش سے گذرنا لازمی ہے۔ اس میں حیرت کی کیا بات ہے؟
تعجب گذرنے پر نہیں بلکہ مودی کے ذریعہ نامز د کردہ ’شری رام جنم بھومی تیرتھ چھیتر‘ کے جنرل سکریٹری چمپت رائے کا بیان ہے۔
للن نے کہا ارے وہی چمپت رائے جس پر بدعنوانی کا الزام لگا تھا ۔ کیا کہہ دیا اس کمبخت نے ؟
رائے نے کہا ’’بھارت جوڑو یاترا میں کچھ غلط نہیں ہے، سنگھ نے کبھی بھی بھارت جوڑو یاترا کی مذمت نہیں کی‘‘۔
للن بولا اوہو وہ آر ایس ایس کے سویم سیوک چمپت رائے نے یہ کہہ دیا ۔ یار مجھے تو یقین نہیں آتا ۔
ارے بھیا میں نے وہ ویڈیو دیکھی ہے۔ وہ کہہ رہا تھا راہل گاندھی انتہائی خراب موسم میں بھی مسلسل چل رہے ہیں اور اس کی تعریف کی جانی چاہئے۔
یار کلن راہل تو سنگھ کے لیے شمشیر بے نیام بنے ہوئے ہیں ایسے میں چمپت رائے کا کہنا کہ ’’ ہم سب کو ملک کا دورہ کرنا چاہیے۔‘‘ واقعی چمتکار ہے۔
مجھے تو لگتا ہے اسی لیے راہل نے خیر سگالی کے طور پر کہا کہ سنگھ اور بی جے پی والے میرے گرو ہیں ۔
للن نے وضاحت کی جی نہیں راہل کا پورا بیان یہ ہے ’ میں ان سے سیکھتا ہوں کہ مجھے کیا نہیں کرنا چاہیے‘۔ اس سے بڑا طنز اور کیا ہوسکتا ہے؟
کلن نے کہا مجھے تو رام مندر کے چیف پجاری آچاریہ ستیندر داس کے بیان پر بھی تعجب ہے۔ سرکار سے تنخواہ لے کر کوئی ایسی تائید کیسے کرسکتا ہے؟
کیوں انہوں نے کیا کہہ دیا ؟
راہل گاندھی کو انہوں نے لکھا ’’آپ جو بھی کام ملک کے لیے کر رہے ہیں وہ سب کے مفاد میں ہے۔ میرا آشیرواد آپ کے ساتھ ہے۔‘‘
للن نے کہا یار اس کو کہتے ہیں گھر میں گھس کر مارا۔ راہل نے تو سنگھ پریوار کے سب سے مضبوط قلعہ میں سیندھ لگا دی ۔
کلن بولا آچاریہ ستیندر داس کی اس تحریر میں ایک ایسی بات ہے جس سے سنگھ پریوار کے تن بدن میں آگ لگ گئی ہوگی ۔
اچھا وہ کیا ہے؟ ہمیں بھی تو پتہ چلے ؟
کلن بولا انہوں نے بھارت جوڑو یاترا کی حمایت کے بعد آخر میں جئے شری رام کے بجائے جے سیا رام لکھ دیا۔
للن بولا کیا بول رہے ہو ؟مدھیہ پردیش میں راہل گاندھی نے کہا تھا کہ سیتا اور رام ایک ہیں، اس لیے صحیح نعرہ جئے شری رام نہیں جے سیا رام ہے ۔
جی ہاں وہی تو میں کہہ رہا ہوں کہ آچاریہ ستیندر داس نے جئے سیا رام کہہ کر اس الزام کی تائید کردی کہ بی جے پی اصل نعرے کو بدل رہی ہے۔
للن بولا ہاں یار مجھے تو لگتا ہے کہ اب سوامی ستیندر کی نوکری خطرے میں ہے۔
جی نہیں اگر یوگی جی نے ایسی غلطی کی تو کانگریس انہیں ٹکٹ دے کر ایودھیا کی سیٹ جیت لےگی۔
اچھا تو کیا اس بات کا بھی امکان ہے کہ سنگھ پریوار کانگریس سے قریب ہوجائے ؟
جی نہیں اس کے پاس کیجریوال کی شکل میں بی جے پی کا چھوٹا ریچارج موجود ہے جو اپنے فائدے کے لیے بی جے پی کو فائدہ پہنچانے سے نہیں ہچکچاتا ۔
اچھا تو کیا کلن بھیا آپ بھی عام آدمی پارٹی کو بی جے پی کی بی ٹیم سمجھتے ہیں ؟
نہیں میں ایسا نہیں سمجھتا ۔ میرے خیال میں بی جے پی خود آر ایس ایس کی اے ٹیم اور عام آدمی پارٹی بی ٹیم ہے۔
یہ تو آپ نے بہت بڑا دعویٰ کردیا لیکن کیا آپ کے پاس اس کی کوئی دلیل بھی ہے؟
کیوں نہیں ۔ دیکھو سنگھ کو پتہ ہے کہ بی جے پی کا زوال شروع ہوچکا ہے؟ وہ اپنی انتہا پر پہنچ چکی ہے اس لیے اس کو نیچے ہی آنا ہے۔
گجرات کی زبردست جیت کے بعد آپ یہ کہہ رہے ہیں ؟
جی ہاں گجرات کی جیت کے ساتھ ہماچل اور دہلی کی ہار کو کیوں بھول جاتے ہو؟ ضمنی انتخاب میں بھی اس کی کارکردگی مایوس کن تھی۔
کلن بولا ہاں وہ تو ہے مگر سنگھ اس کو ہونے نہیں دے گا۔ وہ سر دھڑ کی بازی لگا کر زوال کو عروج میں بدل دے گا ۔
جی ہاں وہ ایسی کوشش کرے گا مگر اس میں کامیابی ہو یہ ضروری تو نہیں؟
کلن بولا جی ہاں ہر کھیل میں ہارجیت کا امکان ہوتا ہے۔ سنگھ جانتا ہے اقتدار ہمیشہ نہیں رہتا۔
للن نے پوچھا لیکن سنگھ کو کانگریس سے پر ہیز کیوں ہے؟
اس کی پہلی وجہ تو یہ ہے کہ بی جے پی کو شکست دینے کے لیے سنگھ کی مخالفت کانگریس کی مجبوری بن گئی ہے۔ ایسے میں سنگھ کی حمایت کیسے کرسکتا ہے؟
اچھا اور دوسرا سبب کیا ہے؟؟
دوسری وجہ بی جے پی کا سنگھ کی ضرورت سے بے نیاز ہوجانا ہے۔ سنگھ نے اگر کانگریس کی جانب نگاہ اٹھائی تو اس پر بھی ای ڈی کا چھاپہ پڑ سکتا ہے۔
اچھا !تو آپ کا مطلب ہے کیاسنگھ کے رہنما بھی یو اے پی اے کے تحت گرفتار ہوسکتے ہیں ؟
کیوں نہیں۔ کیا تم نے نہیں سنا ’مودی ہے تو ممکن ہے‘۔ اپنا اقتدار بچانے کے خاطر مودی اور شاہ کسی بھی حد تک جاسکتے ہیں ۔
یہ آپ بہت دور کی کوڑی لائے ہیں گروجی ۔ مجھے یقین نہیں آتا۔
کیوں ہرین پنڈیا کا نام تم نے سنا ہے۔ وہ اور ان کا پورا خاندان سنگھ سے منسلک تھا لیکن وہ کس انجام سے دوچار ہوئے؟
لیکن کلن بھیا بی جے پی کی ناراضی کا خطرہ تو عام آدمی پارٹی کی حمایت میں بھی ہے۔
جی نہیں ۔ اس لیے کہ دہلی اور پنجاب کے علاوہ قومی سطح پر بی جے پی کو عام آدمی پارٹی سے کوئی خطرہ نہیں ہے ۔
یہ آپ کیسے کہہ سکتے ہیں ؟فی الحال ملک میں مودی کے بعدہمارے کیجریوال ہی سب سے مقبول رہنما ہیں۔
تم اتر پردیش بھول گئے جہاں سنجے سنگھ کی کڑی محنت کے باوجودعآپ کو ایم آئی ایم سے بھی کم ووٹ ملے جبکہ دہلی سے یوپی سٹا ہو ا ہے۔
ایسی بات ہے تو سنگھ اس کو آشیرواد کیوں دے گا؟
اس لیے کہ کیجریوال بھی ہندووں کی خوشنودی میں یقین رکھتے ہیں۔ ایک رام بھگت اور دوسرا ہنومان بھگت ، دونوں میں بہت کم فرق ہے۔
جی ہاں ویسے دونوں گاندھی کے دشمن اور بھگت سنگھ کے شیدائی بھی ہیں ۔
بہت صحیح اور پھر کیجریوال کو کسی نے سنگھ پر تنقید کرتے بھی نہیں دیکھا ۔ سنگھ کی دوسری پسند عآپ ہے کیونکہ وہ کانگریس کو کمزور کرتی ہے۔
آپ کی دلیل سن کر مجھے یقین ہوگیا ہے کہ مودی اور کیجریوال سنگھ کی اے اور بی ٹیم ہیں لیکن ان دونوں کی نورا کشتی حیرت انگیز ہے۔
 

Salim
About the Author: Salim Read More Articles by Salim: 2045 Articles with 1226019 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.