خود کشی کے طریقے

ویسے تو خود کشی کے بہت سے طریقے ہیں لیکن سب سے عام فہم اور مقبول عام شادی ہے۔ دنیا بھر میں لوگ جب طے کر لیتے ہیں کہ انہوں نے خود کشی کرنی ہے تو وہ فوراً شادی کر لیتے ہیں۔ یہ خود کشی کی بہترین قسم ہے۔ اس قسم میں انسان جب شادی کر لیتا ہے تو وہ جیتے جی مر جاتا ہے۔ ایسی ہی کیفیت کیلئے ایک لطیفہ بھی ہے۔ جس میں استاد کلاس میں طلبا سے پوچھتا ہے۔
استاد: بتاؤ انسان خود کشی بھی کر لے اور اُسے موت بھی نہ آئے، ایسا کب ممکن ہے؟
طالب علم: سر جب وہ شادی کر تا ہے۔
شادی کے بعد ہر شوہر کا ایک نیا جنم ہوتا ہے۔ پاکستان بننے سے پہلے چودہ نکات پیش ہوئے تھے جو طلبا کو کبھی یاد نہیں ہوئے۔ جہاں تک شادی کا سانحہ ہے، یہاں بہت سے نکات شادی کے بعد پیش کئے جاتے ہیں۔ جن کو یاد رکھنا ہر شوہر کا فرض ہے۔ یہ نکات کچھ اس قسم کے ہوتے ہیں۔ دفتر کے بعد سیدھا گھر آنا ہے۔ راستے میں کوئی دوست نظر آجائے تب بھی نہیں رُکنا۔ بیوی کو ہر بات سے آگاہ ہی نہیں رکھنا بلکہ ہر کام سے پہلے اجازت بھی لینی ہے۔ بیگم میں ٹیلی ویژن دیکھ لوں۔ بیگم جی میں کال سُن لوں۔ کوئی بھی ایسا کام نہیں کرنا جس سے بیگم کے مزاج میں خلل پیدا ہو۔
کچھ کیسز میں شادی دو طرفہ اور مشترکہ خود کشی کا فیصلہ ہوتا ہے۔ جیسا کہ اس لطیفے میں نظر آرہا ہے۔
بیوی: میری شرافت دیکھو کہ میں نے تمہیں دیکھے بغیر شادی کر لی
شوہر: اور میری شرافت دیکھو، کہ میں نے تمہیں دیکھ کر بھی کنویں میں چھلانگ لگا دی
یہاں دونوں جانب سے خودکشی کا فیصلہ کیا گیا تھا۔ جس پر اچنبھے کی کوئی بات نہیں، شادی ہونے کے فوراً بعد میر تقی میرکے معروف شعر ابتدائے عشق ہے روتا ہے کیا۔
آگے آگے دیکھئے ہوتا ہے کیا
کی گونج سنائی دینے لگتی ہے۔ یہ وہ مقام خود کشی ہے جہاں انسان ہر دیکھ سے بے نیاز ہوجاتا ہے۔ بڑے سے بڑے حادثے، صدمے اور سانحے اُسے بے اوقات لگنے لگتے ہیں۔
ایک دفعہ ایک آدمی لائبریری گیا اور لائبریرین سے کہنے لگا، مجھے خود کشی کرنے کے طریقے والی کتاب چاہیے۔
لائبریرین نے اُسے گھور کر دیکھا اور غصے میں بولا۔
واپس تیرا پیو کرے گا! جا شادی کر لے، تیرا کام ہو جائے گا۔
یہ مفت کے قیمتی مشورے بھی کوئی کوئی دیتا ہے۔ بہر حال بات ہورہی تھی کہ خود کشی کن کن طریقوں سے کی جاسکتی ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ خود کشی کو مذہب میں حرام قرار دیا گیا ہے۔ البتہ شادی ایک واحد طریقہ ہے جس سے خود کشی کو حلال قرار دیا گیا ہے۔ اس طریقے سے جب کوئی خود کشی کرتا ہے تو نہ صرف خاندان کے عزیز و اقارب بلکہ دوست احباب اور برادری کے لوگ بھی آکر مبارک باد دیتے ہیں۔ اس خود کشی سے قبل دعوت نامے بھجوائے جاتے ہیں۔ سب کو تاکید کی جاتی ہے کہ وہ ضرور آئیں۔ رشتے داروں میں مٹھائیاں بانٹی جاتی ہیں۔ روپیہ پیسہ پانی کی طرح بہایا جاتا ہے۔ خود کشی کے اس فیصلے پر مشورے لیے دئیے جاتے ہیں۔ خود کشی کے جتنے بھی طریقے ہیں اُن میں شادی واحد طریقہ ہے جس میں ایک شخص دو خودکشی کرنے والوں سے پوچھتا ہے کہ کیا وہ با ہوش و حواس اپنی رضا مندی سے خود کشی کا فیصلہ کر رہے ہیں جس پر خود کشی کرنے والے نہ صرف اپنے عمل کا اقرار کرتے ہیں بلکہ اُن سے خود کشی نامے پر دستخط بھی لے لیے جاتے ہیں جس کے موقعہ پر بہت سارے گواہ بھی موجود ہوتے ہیں۔
خودکشی کا یہ طریقہ دنیا بھر میں رائج ہے۔ دنیا میں بہت بڑے بڑے بادشاہوں نے اِسی طریقے سے خود کشی کی ہے۔ کچھ بادشاہ تو ایسے بھی گزرے ہیں جن کی ایک بار خودکشی کرنے کے بعد بھی تسلی نہیں ہوتی تو اُنہوں نے بار بار خود کشی کی۔خود کشی کے اس طریقے میں خود کشی کے خواہش مند کو نہ تو زہر کھانا پڑتا ہے نہ خود کو پستول سے گولی مارنی پڑتی ہے۔ ویسے تو خود کشی کے اس طریقے میں یعنی شادی میں باقاعدہ بہت سے اہتمام کیے جاتے ہیں۔ لیکن کچھ شہروں اور علاقوں کے اس حوالے سے اپنے دستور اور اصول ہیں دہلی، لاہور، کراچی یا لکھنوسب کے اپنے رواج ہیں۔
انشا ء جی نے ایک بار کہا تھا جو کام کل ہو سکتا ہے اُسے آج کرنے کی بے وقوفی مت کرو اور جو چیز کہیں دور دراز سے ملتی ہو اُسے سامنے والی دکان سے مت خریدیں۔
خود کشی کے حوالے سے بھی یہ یقیناسنہرا اصول مانا جائے گا کہ جو کام شادی سے ہو سکتا ہے اُسے کرنے کیلئے زہر جیسی کڑوی چیز یا نیلا تھوتھا، مینارپاکستان سے چھلانگ لگانے کی حماقت، دریا میں کودنے کی بے وقوفی، ٹرین کے نیچے آنے کی سنگین غلطی، سمندر میں کودنے کی خواہش یا پھانسی کے پھندے سے جھولنے کی بھلا کیا ضرورت ہے۔ خود کشی ہی تو کرنی ہے۔ پھر کیوں نہ احسن طریقے سے کی جائے۔ کیونکہ کسی بھی دوسرے طریقے سے خودکشی کرنے پر آپ کی پکڑ لازمی ہے۔ جواب دینا ہوگا۔ البتہ شادی وہ واحد طریقہ ہے جس میں آپ بہت چالاکی سے بچ جائیں گے۔ اُس کی وجہ یہ ہے کہ ہمارا معاشرہ بہت سنگ دل ہے۔ اگر آپ شادی کے علاوہ کسی بھی دوسرے طریقے سے جان کی بازی لگائیں گے تو یہ آپ کو بُرا بھلا لگے گاجبکہ شادی وہ واحد راستہ ہے جس راستے پر چلتے ہوئے نہ صرف آپ کے خاندان کی بلکہ پورے معاشرے کی ہمدردیاں آپ کے ساتھ ہونگی۔
کسی نے سردار جی سے پوچھا، سردار جی اگر آپ نیوٹن کی جگہ باغ میں بیٹھے ہوتے اور سیب آپ کے سامنے گرتا تو آپ کیا کرتے۔ سردار جی نے جواب دیا۔
اُٹھا کر کھا لیتا۔
بس یہی وہ فارمولا ہے دوستو، جو میں آپ کو سمجھانے کی کوشش کررہا ہوں۔ اگر آپ کے اندر خود کشی کی خواہش ہے۔ آپ اپنی زندگی داؤ پرلگانایا خطرے میں ڈالنا چاہتے ہیں تو میرے بھائیوگلے میں پھندا ڈال کر یا کسی اور سنگین تھیوری یا خطرے میں ڈال کر زندگی کا خاتمہ مت کریں جب آپ کے پاس انتہائی سہل اور آسان طریقہ موجود ہے۔
شادی کریں جیسا کہ مشتاق احمد یوسفی صاحب نے کہا تھا۔
وہ زہر دے کر مارتی تو دنیا کی نظر میں آجاتی انداز قتل تو دیکھو، ہم سے شادی کر لی۔
تمام شادی شدہ دوستو ں کو شادی مبارک!
اوہ سوری خود کشی مبارک!!



 

Ahmed Naveed
About the Author: Ahmed Naveed Read More Articles by Ahmed Naveed: 47 Articles with 17524 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.