گونگا ٹوفیوں والا

یومِ باپ پر میری ایک فادر سے ملاقات ہوئی۔ وہ بہت افسردہ، رنجیدہ اور پریشان لگ رہا تھا۔ میں نے جب باتوں باتوں میں اُس کا غم جاننے کی کوشش کی تو وہ خاموش سا ہو گیا۔ جیسے اُس کے پاس کہنے کو کچھ نا ہو۔ عام طور پر ایسا نہیں ہوتا کہ جس کے پاس کہنے کو کچھ نا ہو وہ خاموش ہو جائے۔ در حقیقت خاموش وہ ہو جاتے ہیں یا اُنہیں چپ لگ جاتی ہے جنہیں کوئی گہرا صدمہ پہنچا ہو۔ ایسے لوگوں کے پاس کہنے کو بہت کچھ ہوتا ہے۔ کئی ہزار داستانیں انہیں چپ رہنے پر مجبور کر دیتی ہیں۔ یہ لوگ ٹوٹ چکے ہوتے ہیں۔ بکھر چکے ہوتے ہیں۔ کئی ہزار ٹکڑوں میں بٹے ہوئے اِن لوگوں کو یکجا کرنا اور پھر اُن کی تصویر مکمل کر کے اُس میں روح ڈالنا اور اُسے زبان دینا ایک پیچیدہ کام ہے اور یہ فن بھی کوئی کوئی جانتا ہے۔

وہ فادر بھی اِسی ٹوٹ پھوٹ کا شکا ر تھا۔ پریشان، دکھی، غم زدہ، بکھرا ہوا، کرچیوں میں بٹا ہوا۔ اندر سے شدید پریشان۔ اُس کے افسردہ چہرے سے لگ رہاتھا جیسے وہ کوئی سائیں ہے۔ اِس وقت اگر اُس کی داڑھی ہوتی اور وہ کسی مزار،حرم یا آستانے پر بیٹھ جاتا تو لوگ منتیں مرادیں مانگنے کے لئے اُس کے پاس آتے۔ اُس سے اپنے حق میں دعا ئیں کرواتے۔ لیکن ایسا ہر گز نہیں تھا۔ وہ ایک پڑھا لکھا باپ تھا۔ جس نے محنت اور جد و جہد کر کے اپنے بچوں کو پڑھایا تھا اور شاید یہ سلسلہ ابھی بھی جاری تھا۔ اُس مجبور اور بے کس باپ کو دیکھ کر میرے سینے میں کئی سوال اُٹھ رہے تھے۔ میں چاہ رہا تھا کہ اُ س سے بات کروں۔ اُس کے اندر کا غم جاننے کی کوشش کروں۔ یہ بھید پانے کی کوشش کرسکوں کہ اُس کے چہرے کی جھرئیوں اور بیچارگی میں کتنے نشیب چھپے ہوئے ہیں۔ جب مجھ سے رہا نہ گیا تو میں نے بات کر ہی ڈالی۔

آپ کے بال بہت اچھے اور گھنے ہیں۔ انہیں بنا کر رکھا کریں۔ آپ کی شخصیت اچھی لگے گی۔ میرے اس جملے پر اُس بندہ ئ خدا نے میری طرف ایک نظر دیکھا اور کچھ بھی جواب دئیے بغیر دوبارہ افسردگیوں میں غوطے کھانے لگا۔

اُس شخص کے بکھرے ہوئے بالوں میں گرد تھی، مٹی تھی، طویل مسافتوں کی کہانیاں تھیں۔ میں چونکہ خود ایک مڈل کلاس آدمی تھا۔ اِس لئے مجھے کچھ کچھ اندازہ ہو رہا تھا کہ وہ کن آزمائشوں سے گزرا ہو گا۔ وہ باپ آنکھوں سے نہیں رو رہا تھا لیکن اُس کے اندر کی رِم جھم کو میں دیکھ سکتا تھا۔ اُس کے اندر کا طوفان اُس کے اندر کی بارش کو مجھے باہر لانا تھا۔ میں نے ہمت نا ہاری اور کوشش کر کے پھر ایک سوال پوچھ لیا۔

آپ اس محلے کے نہیں لگتے۔ کہیں دور سے آئیں ہیں؟اُس شخص نے اس بار میرے سوال پر مجھے نظر اُٹھا کر بھی نا دیکھا۔ آج فادر ڈے تھا اور اولاد کے ہوتے ہوئے بھی کوئی شخص یوں تنہا افسردہ، غمگین اپنے پیاروں سے دور بیٹھا ہو۔ یہ کس قدر تکلیف دہ بات ہو سکتی ہے یہ یقینا کوئی باپ ہی جان سکتا ہے۔ میں چونکہ خود باپ تھااس لئے اُس فادر کے دکھ کو کچھ کچھ سمجھ رہا تھا۔ اُس باپ نے کتنی آسانیاں دی ہوں گی اپنی اولاد کو۔ ہزاروں خوشیاں، ہزاروں آسائشیں، آرام، سکون،اپنی تمام جوانی اُس نے غارت کر دی تھی صرف اپنے جگر کے ٹکڑے کو تعلیم دینے کیلئے۔ اُن کی خواہش اور فرمائشیں پوری کرنے کیلئے۔ کیسی کیسی سوچیں مجھے مجبور کر رہی تھیں کہ میں اُس شخص کو ٹٹولنے کی کوشش کروں۔ اُس کی زندگی کے لامتناہی سفر نے یقینا اُسے بہت تھکا دیا تھا۔ میں نے نظریں چُرا کر اُس کے پاؤں دیکھے تو اُس کے گھِسے ہوئے چپل دیکھ کر میرے دل کو شدید ٹھیس پہنچی۔

یہ وہ باپ تھا جس نے اپنی زندگی کی تمام خواہشوں کو بالائے طا ق رکھتے ہوئے اپنی چالیس پچاس سال کی کمائی اپنے بچوں کے پیروں میں ڈھیر کر دی تھی۔ لیکن آج اُس باپ کے پاؤں میں چھالے تھے اور گھسی ہوئی چپل۔ میرا دل چاہا کہ میں اُس شخص کا ہاتھ پکڑوں اور اُس کی خود غرض، بے وفا اولاد کے سامنے لیجا کر کھڑا کر دوں اور اُن سے کہوں۔ دیکھ ذرا غور سے اِس شخص کو۔ اِس کے بکھرے ہوئے بالوں کو دیکھو، اس کی گھسی پٹی چپل کو دیکھو، اس کے پاؤں کے چھالوں کو دیکھو۔ کیا اس دن کیلئے اس باپ نے تم لوگوں کو پال پوس کر اتنا بڑا کیا تھا کہ اس کا انجام یہ ہو۔ میرا دل چاہ رہا تھا کہ میں اُن سے سوال کروں، کیا یہ صلہ ہے اُس محنتی باپ کی پرورش کا، جس نے خود روکھی روٹی کھا کر تمہیں تر نوالہ کھلایا۔ جس نے ہر عید پر تمہیں نئے کپڑے پہنائے اور خود پرانے پہنے۔ جو خود دھوپ میں جلا اور تمہارے سروں پر سایہ دار شاخوں کی طرح چھاؤں بن کر کھڑا رہا۔ اُس شخص کے چہرے پر لکھے ایک ایک سوال کے جواب کی تلاش تھی مجھے۔ میں جانتا تھا کہ اُس پر بیتے ہوئے ہر سوال کا جواب ترش اور تلخ ہوگا۔ مجھے خدشہ تھا کہ کہیں میرے سوالوں سے گھبرا کر وہ شخص اُٹھ کر نا چلا جائے۔ کیونکہ ابھی تک اُس نے میرے کسی سوال کا جواب نہیں دیا تھا۔ میری سپرٹ برقرار تھی۔ میں ہمت ہارنے کیلئے تیار نہیں تھا۔ فادر ڈے پر صرف ایک باپ ہی دوسرے باپ کا دکھ درد جان سکتا ہے۔ اس لئے میرے دل پر بہت بھاری بوجھ تھا۔ میں چاہتا تھا وہ شخص اپنے سارے دکھ اور غم مجھے بتا کر ہلکا پھلکا ہو جائے۔ ایسا کرنے سے اُسے ایک نئی زندگی مل سکتی تھی۔ میں سائیکالوجسٹ کی طرح جس نقطہ نظراور زاویے سے سوچ رہا تھا۔ اُس طرح صرف اہلِ علم، دور اندیش، دانشور اور فلاسفر ہی سوچ سکتے تھے۔ میں خوش تھا کہ خدا نے مجھے ذہانت دی ہے۔ میں اپنی Wisdomسے دیوار کے پار، چہروں کے اُس طرف، دلوں کے اندر اور آنکھوں کے سمندر وں میں بھی جھانک لینے کی صلاحیت رکھتا تھا۔

آج فادر ڈے پر مجھے ایک ایسی ہی عظیم ہستی ملی تھی۔ جس کے چہرے پر پیغمبروں جیسا صبر تھا۔ میں اُس شخص کے صبر کو زبان دینا چاہتا تھا۔ جن فرعون جیسے بیٹوں نے اُسے چاہ یوسف میں گرایا تھا،میں اُسے وہاں سے نکال کر ایک با اختیار اور خوش و خرم باپ بنانا چاہتا تھا۔

فادر ڈے پر اِس سے اچھا کام نہیں ہو سکتا تھا۔ میں نے ہمت کر کے اُس شخص سے دوبارہ پوچھا۔ بھائی صاحب آپ کیوں پریشان ہیں؟ کس دکھ میں مبتلا ہیں آپ پلیز بتائیں تو سہی۔ شائد میں کوئی آپ کی مدد کر سکوں۔
اسی لمحے میرا بڑا بیٹا وسیم میرے قریب آکر مخاطب ہوا۔
اباّ جی یہاں کہاں بیٹھے ہوئے ہیں آپ؟ آپ کو بھی فارغ رہنے کے علاوہ اور کو ئی کام نہیں آتا، گھر چلیں۔ کیک لا کر رکھا ہوا ہے۔ آکر کاٹیں۔ سارے انتظار کر رہے ہیں گھر میں۔
وسیم نے پاس بیٹھے اُس شخص کو دیکھا اور دوبارہ مجھ سے مخاطب ہوا۔ ا با جی یہ گونگا ٹوفیوں والاہے۔ اس بیچارے کا کیا دماغ کھا رہے ہیں آپ۔ اُٹھیں گھر چلیں۔
گونگے ٹوفیوں والے نے مجھے گھور کر دیکھا اور غصے میں بولنے لگا۔ آ آ آ ں ں آ آ ں آں۔

 

Ahmed Naveed
About the Author: Ahmed Naveed Read More Articles by Ahmed Naveed: 47 Articles with 17663 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.