ایک گندہ کلچر

دوستوں کی محفل تھی۔ ہر سیاسی جماعت سے ہمدردی رکھنے والے دوست اس پارٹی کے ترجمان کی طرح اپنی اپنی پسند کی پارٹی کے بارے بڑ ے جوش و خروش سے اپنی رائے کاظہار کر رہے تھے۔سوشل میڈیا کی بات چلی تو چندلوگوں نے الزام لگایا کہ سیاست میں عمران خان نے پہلی بار گالی گلوچ کا کلچر پروان چڑھایا تھا۔وہ خود بھی دوسرے سیاست دانوں کو کم گالیاں نہیں نکالتا اور مزید یہ کہ اس کا میڈیا سیل تو اس معاملے میں حد سے بڑھ چکا۔یہ ایک غلط کلچر ہے جس کا بانی عمران خان ہے۔میں ہنس دیا۔ ہم جس پارٹی کو بہتر جانتے ہیں، اس کی خامیاں بھی ہمیں قبول ہوتی ہیں، وہ جو بھی کریں ہم اسے حق بجانب سمجھتے ہیں اور اس کی برائیوں کو بھی سپورٹ کرتے ہیں۔مگر جو پارٹی ہمیں قبول نہیں ہوتی ۔ اس کی ہر بات میں ہمیں ہر طرح کی برائی نظر آتی ہے۔گالی گلوچ کس پارٹی کا وطیرہ نہیں۔ 1988 کے الیکشن تھے۔ اس وقت بہت سی مذہبی جماعتیں اور ان کے وہ رہنما کہ جن کے بارے میرا خیال تھا کی یہ وہ لوگ ہیں کہ دامن نچوڑ دیں تو فرشتے وضو کریں۔ بڑی دلیری سے گالی گلوچ اور انتہائی گھٹیا الزامات لگانے میں مصروف تھے۔اس الیکشن میں ایسے ایسے پوسٹر سامنے آئے کہ جن کا ذکر بھی باعث شرم نظر آتا ہے۔اس وقت تو تحریک انصاف کہیں نظر نہیں آتی تھی۔وہ سارے کارنامے مذہبی جماعتیں، پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ انجام دے رہی تھیں۔

حال ہی میں ہونے والے کچھ واقعات نے ہمارے سیاسی نظام کی اخلاقی شکست وریخت اور اس کی انتہائی پستی کی نشان دہی کرتے ہیں۔ ایک سابق گورنر کی ایک صحافی خاتون کے ساتھ وڈیو۔ دونوں کی شکلیں بھی واضع ہیں۔ دونوں طرف سے انکار بھی کوئی ایسا نہیں نظر آیا۔ بلکہ خاتون صحافی کا یہ کہنا کہ اگر یہ سب کام باہمی رضامندی سے ہوا ہے تو کسی دوسرے کو اس پر اعتراض کی کوئی گنجائش نہیں۔اس سے زیادہ اخلاقی پستی کیا ہو سکتی ہے کہ اب لوگوں میں احساس زیاں بھی نہیں۔سیاسی جماعتوں کی طرف سے اپنے ایسے لیڈروں کے خلاف کوئی ایکشن تو بڑی بات بلکہ اس سارے عمل کو نظرانداز کیا جانا، اہل فکر کے لئے تشویش کا باعث رہا۔ فیصل آباد میں ایک سیاست دان آدھی رات گزرنے کے بعد اپنی ایک ساتھی خاتون سے ملنے کی کوشش میں اس کے گھر والوں اور نوکروں مار کھانے کے بعد بیان دیتے ہیں کہ میں تو پارٹی کی تنظیم سازی کے لئے گیا تھی۔ ساری پارٹی ان کے اس بیان پر فقط ہنستی ہے مگر کوئی ایکشن ان کے خلاف ہوتا نظر نہیں آتا۔ شاید ایسی تنظیم سازیوں کی بعض سیاسی پارٹیوں میں کھلی اجازت ہے ۔ آج ہر روز کسی نہ کسی سیاست دان کی جلوے دکھاتی وڈیو سوشل میڈیا کی زینت ہوتی ہے۔ کوئی انکار نہیں کرتا۔ اور اگر کرے بھی تو انداز انکار کا کم اور اقرار کا زیادہ ہوتا تھا۔یہ جو کچھ سیاسی گند میں نظر آتا ہے اس میں تحریک انصاف کا حصہ تو نہ ہونے کے برابر ہے

اعظم سواتی کی وڈیو اس کی بزرگ بیگم کے ساتھ سوشل میڈیا پر دکھائی گئی۔ یہ اخلاقی پستی کی پاتال ہے۔ میاں بیوی نے کوئی غیر اخلاقی تو نہیں کی۔ یہ چودہویں صدی تو نہیں کہ جب بیوی کے پاس جانا بھی (Under consent of the King) حکمرانوں کی مرضی سے ہوتا تھا۔مگر دکھانے والے نے اپنی ذہنی پستی کا سفاک مظاہرہ کیا۔آج کوئی بڑا ہوٹل، اور کوئی بڑا گیسٹ ہاؤس محفوظ نظر نہیں آتا۔ آپ کو کچھ اندازہ ہی نہیں ہوتا کہ آپ جہاں ٹھہر رہے ہیں وہاں آپ محفوظ بھی ہیں یا نہیں۔خفیہ کیمرے ہر جگہ نصب ہو سکتے ہیں اور ہو بھی رہے ہیں۔انہیں روکنے کے لئے کوئی حکومتی ادارہ حرکت میں نظر نہیں آتا۔اس سارے عمل کی روک تھام بھی کوئی مشکل نہیں۔ ہماری ساری پارٹیاں شخصی پارٹیاں ہیں۔ عمران خان، نواز شریف اور زرداری ، صرف یہ تین آدمی فیصلہ کر لیں کہ آئندہ سیاست میں گالی گلوچ کا عنصر نہیں ہوگا۔تو کسی کی مجال نہیں کہ آئندہ اس کلچر کے بارے بات کرے۔ ویسے سچ یہ ہے کہ گالی نکال بھی دیں تو بھی ہمارے ملک میں سیاستدان کوئی نہیں۔ سیاست کے نام پر فقط گند ہی گند ہے جس پر ہم گزارا کر رہے ہیں۔

ہمارے معاشرے میں بہت سے لوگ ایسے ہیں کہ جو گالی کے بغیر بات کر ہی نہیں سکتے۔ ہماری وزیر صحت جنابہ یاسمین راشد کے سسر ملک غلام نبی وزیر تعلیم ہوتے تھے۔وہ دو فقرے بھی گالی کے بغیر نہیں بول سکتے تھے۔ ایک عورتوں کا وفد ان سے بات چیت کر رہا تھا۔اتنے میں ایک صاھب آئے اور کوئی بات بتائی۔ ملک صاحب کو غصہ آ گیا۔ کہنے لگے اب میں تمہیں گالی بھی نہیں نکال سکتا ، معزز خواتین بیٹھی ہیں ورنہ تمہاری ماں اور بہن کی ایسی تیسی۔یہ ایسی تیسی بڑی شاندار اور جاندار گالی تھی مگر ملک صاحب محسوس کئے بغیردوبارہ عورتوں سے گفتگو میں مصروف تھے اور عورتیں ان کی سادگی پر مسکرا رہی تھیں۔

گالیوں سے ایک لطیفہ یاد آیا۔ ایک صاحب کو لاہور سے گجرات جانا تھا۔ گجرات میں ایک ضروری کام تھاجسے کرنا ان کے لئے بہت اہم تھا۔گاڑی میں بیٹھنے سے پہلے وہ گاڑی کے گارڈ کے پاس گیا۔ اسے اپنی مجبوری بتائی کہ بھائی میں بہت تھکا ہوا ہوں۔ یقیناً نیند آ جائے گی مگر مجھے گجرات جانا ہے۔ یہ سامنے والی سیٹ میری ہے۔ جب گجرات آئے تو براہ کرم دیکھ لینا میں سویا ہوا تو نہیں۔ اگر میں سویا ہوا ہو ں تو مجھے زبردستی اٹھا کر گاڑی کے باہر کر دینا۔ایک بات یاد رکھنا کہ کوئی شخص اگر مجھے نیند میں اٹھائے اور میری نیند پوری نہ ہوئی ہو تو میں نیند میں بہت گالیاں نکالتا ہوں۔ ان گالیوں کا تم نے نہ تو برا منانا ہے اور نہ ہی پرواہ کرنی ہے۔ بس مجھے اٹھا کے گاڑی سے باہر پھینک دینا ہے۔ جو گستاخی مجھ سے ہو اس کی میں ایڈوانس معافی مانگتا ہوں۔گارڈ نے وعدہ کیا اور گاڑی چل پڑی۔ گارڈ کو کہہ کر سونے والے مسافر کی آنکھ کھلی تو راولپنڈی کا سٹیشن آچکا تھا۔وہ غصے میں گارڈ کے پاس پہنچا اور لگا اسے گالیاں نکالنے۔گارڈ سر جھکائے اس کی گالیاں سنتا رہا۔پاس کھڑے ایک شخص نے کہا، بھائی وہ اس قدر گندی گالیاں نکال رہا اور تم کیسے بندے ہو اس سے احتجاج بھی نہیں کرتے۔ گارڈ نے پریشان نگاہوں سے اس کی طرف دیکھا اور کہنے لگا۔ بھائی یہ تو بہت معمولی گالیاں ہیں، کاش تم نے اس شخص کی گالیاں سنی ہوتیں جسے میں زبردستی گجرات سٹیشن پر پھینک آیا ہوں۔

Tanvir Sadiq
About the Author: Tanvir Sadiq Read More Articles by Tanvir Sadiq: 573 Articles with 443027 views Teaching for the last 46 years, presently Associate Professor in Punjab University.. View More