ماں نے مرنے سے پہلے بھائی کو بس سے باہر پھینکا۔۔۔ لسبیلہ حادثے میں بچنے والے دو بھائیوں کی داستان جس نے ہر کسی کو رًلا دیا

image
 
’مسافر کوچ جس طرح کھائی میں جا گری اور اس میں جو خوفناک آگ بھڑک اٹھی، اس میں میرے دو چھوٹے بھائیوں کا بچ جانا کسی معجزے سے کم نہیں ہے۔‘
 
گذشتہ اتوار بلوچستان کے ضلع لسبیلہ میں مسافرکوچ کے المناک حادثے میں قدرت اللہ نے اپنی والدہ، اکلوتی بہن اور دو بھائیوں سمیت خاندان کے چار افراد کو ہمیشہ لے کیے کھو دیا ہے۔ مگر ان کے دو بھائی اس حادثے میں بچ گئے۔
 
حادثے کا شکار ہونے والی مسافر کوچ بلوچستان کے ضلع پشین سے کراچی کے لیے روانہ ہوئی تھی اور اس میں کوئٹہ سے بھی مسافر سوار تھے۔
 
قدرت اللہ کے ’معجزانہ طور پر‘ بچ جانے والے دو بھائیوں میں سے آیت اللہ کی عمر ڈھائی سال اور دوسرے بھائی وحید اللہ کی عمر 15 سال ہے۔
 
image
 
ان کے مطابق وحید اللہ خود کسی طرح بس سے نکلنے میں کامیاب ہوئے تھے لیکن چھوٹے بھائی کو ’والدہ نے اپنی موت سے پہلے بس کی ٹوٹی ہوئی کھڑکی سے باہر پھینک دیا تھا۔‘
 
وحید اللہ نے بتایا کہ ’میں نے والدہ، بہن اور بھائیوں سمیت دیگر مسافروں کو بچانے کے لیے گاڑیوں کو روک کر لوگوں کو بلایا مگر خوفناک آگ کے باعث دو، تین افراد کے سوا میرے چار رشتہ داروں سمیت مسافروں کی اکثریت کو نہیں بچایا جاسکا۔‘
 
ان کا کہنا تھا کہ حادثے سے قبل ’والدہ نے کہا تھا ڈرائیور کو بتائیں گاڑی کی رفتار بہت زیادہ ہے، اسے کم کریں کیونکہ یہاں بچے بھی ہیں۔‘
 
’اکلوتی بہن پہلی بار کوئٹہ سے باہر کسی شہر کے لیے نکلی تھیں‘
قدرت اللہ نے افسردہ ہو کر بتایا کہ ان کی خالہ کا گھر کراچی میں ہے اور وہاں موجود نانی بیمار تھیں۔ ان کی والدہ اپنی ماں کی علالت اور اپنا چیک اپ کرانے کے لیے کراچی جا رہی تھیں۔
 
’پہلے جب بھی والدہ باہر جاتی تھیں تو وہ والد کے ساتھ جاتی تھیں لیکن یہ پہلا موقع تھا کہ وہ بہن اور چار بھائیوں کے ہمراہ کراچی جا رہی تھیں۔‘
 
انھوں نے بتایا کہ ’اکلوتی بہن کے علاوہ والدہ کے ہمراہ جو چار بھائی جا رہے تھے ان میں وحیداللہ اور آیت اللہ کے علاوہ ہلاک ہونے والے 18سالہ بھائی فریداللہ اور سات سالہ نمعت اللہ شامل تھے۔ فریداللہ سائنس کالج کوئٹہ میں فرسٹ ایئر پری میڈیکل کا طالب علم تھا جبکہ نعمت اللہ پرائمری کلاسوں میں تھا۔‘
 
قدرت اللہ نے بتایا کہ مسافر کوچ کے حادثے میں ہلاک ہونے والی بہن ’ہم آٹھ بھائیوں کی اکلوتی بہن تھیں اور انھوں نے میٹرک تک تعلیم حاصل کی ہوئی تھی۔‘
 
ان کا کہنا تھا کہ چونکہ بہن اکلوتی تھیں اس لیے گھر میں لوگ ان سے بہت زیادہ پیار کرتے تھے۔ ’ہم بھائیوں سے بھی بہت زیادہ پیار کرتی تھیں۔‘
 
ان کا کہنا تھا کہ ’ہماری بہن پہلے کبھی کسی اور شہر کے لیے نہیں نکلی تھی اور یہ پہلا موقع تھا کہ وہ کوئٹہ سے کراچی کے لیے باہر نکلیں۔ لیکن بہن گھر سے ایسی باہر نکلیں کہ ہم سے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے بچھڑ گئیں۔‘
 
image
 
’معلوم نہیں کہ اتنے خوفناک حادثے میں میرا حوصلہ کیسے برقرار رہا‘؟
لیڈی ریڈنگ ہسپتال میں زیرِ علاج پولیس اہلکاروں نے بتایا کہ ان کو ہسپتال پہنچ کر ہوش آیا۔
 
ان کا کہنا تھا کہ ’وحیداللہ نے ہمیں بتایا کہ کھائی میں گرنے کے بعد بس میں بالکل اندھیرا چھا گیا تھا۔ انھیں وہاں ایک سوراخ سے آسمان پر ایک ستارہ نظر آیا اور وہ اس سوراخ سے باہر نکل گیا۔‘
 
اس موقع پر وحیداللہ کا کہنا تھا کہ وہ اس بات پر حیران ہیں کہ اس خوفناک منظر میں ان کا حوصلہ کیسے برقرار رہا۔
 
’مجھے بس کے انجن کے قریب ہوا کے پائپوں کے ساتھ ایک سوراخ نظر آیا جہاں سے میں باہر نکلنے میں کامیاب ہوا۔بس سے نکلنے کے بعد میں نے دیکھا کہ میرا چھوٹا بھائی آیت اللہ بھی بس کے باہر پڑا ہے۔‘
 
ان کا کہنا تھا کہ ’چھوٹے بھائی کو اٹھا کر میں پل کی جانب بھاگا تاکہ روڈ پر گاڑیوں کو مدد کے لیے روک سکوں۔‘
 
’اپنی جانب سے چھوٹی کوشش کی لیکن والدہ اور دوسروں کو نہیں بچاسکا۔‘
 
وحید اللہ نے بتایا کہ ’بس کے کھائی میں گرنے کے بعد میں جو کچھ کرسکتا تھا وہ صرف یہ تھا کہ روڈ سے گزرنے والی گاڑیوں کو روک کر لوگوں سے مدد کی درخواست کروں۔‘
 
انھوں نے گاڑیوں کو روکنے کی کوشش کی مگر ناکام رہے۔ صرف ’ایک بس والا رُک گیا۔‘
 
جب انھوں نے بس کے ڈرائیور کو پل کے نیچے حادثے اور بس میں لگنے والی آگ کے بارے میں بتایا تو انھوں نے دوسروں گاڑیوں کو بھی روک لیا۔
 
’لوگ حادثے کا شکار ہونے والی بس کے قریب پہنچے تو وہ ایک عورت اور ایک بچے کے علاوہ ایک دو آدمیوں کو نکال سکے لیکن آگ تیز ہونے کے باعث باقی کسی کو نہیں نکالا جاسکا۔‘
 
انھوں نے بتایا کہ ’میں نے دیکھا کہ میری امی کے ہاتھ، سر اور کندھا مسافر کوچ کی کھڑکی سے باہر لٹکے ہوئے تھے۔‘
 
وحید اللہ نے اس موقع پر جو ویڈیو بنائی اس میں ان کے رونے اور چیخنے کی آواز بھی سنائی دے رہی ہے اور وہ یہ کہہ رہا ہے کہ ’یا اللہ ماں، بہن اور بھائیوں کو بچا لے۔‘
 
انھوں نے یہ ویڈیو اپنے والد کو آگاہ کرنے کے لیے بنائی ’لیکن وہاں ان کا نیٹ ورک کام نہیں کر رہا تھا۔‘
 
تو انھوں نے وہاں جمع لوگوں میں سے ایک شخص سے موبائل فون لے کر والد کو صورتحال سے آگاہ کیا۔
 
’میرے والد نے اس شخص کو ہمیں کوئٹہ پہنچانے کے لیے کہا جس پر ہمیں کوئٹہ پہنچا دیا گیا۔‘
 
image
 
حکومت سے گاڑیوں کی رفتار کو کم کرنے کے لیے اقدامات کی گزارش
قدرت اللہ نے بتایا کہ اس ناگہانی حادثے سے ان کا خاندان جس اذیت ناک صورتحال سے دوچار ہوا ہے اس کو الفاظ میں بیان نہیں کیا جاسکتا ہے۔
 
ان کا کہنا تھا کہ اسی طرح کئی اور خاندان اپنے پیاروں کو کھونے کی وجہ سے ’ہماری طرح غم اور دکھ میں مبتلا ہیں۔‘
 
’بچھڑنے والے پیارے واپس تو نہیں آسکتے لیکن حکومت کئی اقدام اٹھا کرآئندہ ایسے سانحات کو روک سکتی ہے۔‘
 
انھوں نے بتایا کہ معلوم نہیں کوئٹہ کراچی شاہراہ کب دو رویہ ہوگی لیکن حکومت گاڑیوں کی رفتار کو کم کرنے کے فوری طور پر اقدام کرسکتی ہے اور یہ بہت زیادہ مشکل کام نہیں ہے۔
 
انھوں نے یہ بھی شکایت کی کہ اتنا بڑا سانحہ ہوا لیکن حکومت بلوچستان کا کوئی نمائندہ کراچی نہیں گیا جہاں ہمارے پیاروں کی لاشیں پڑی ہوئی ہیں۔
 
’حکومت سے ہماری گزارش اتنی ہے کہ وہ ہمارے پیاروں کی لاشوں کا جلد سے جلد ڈی این اے ٹیسٹ کروائے اور انھیں کوئٹہ پہنچائے تاکہ ہم تدفین کر سکیں۔‘
 
Partner Content: BBC Urdu
YOU MAY ALSO LIKE: