ممتاز ادیبہ ٗ معروف افسانہ نگار آپا بانو قدسیہ کی یاد میں

بانو قدسیہ 28 نومبر 1928ء کو متحدہ پنجاب کے شہر فیروز پور میں پیدا ہوئیں۔ ان کا تعلق جاٹ خاندان کی چٹھہ شاخ سے تھا، جس کے بیشتر ارکان کا تعلق کھیتی باڑی اور زمینداری کے پیشے سے تھا۔ والدہ نے ان کا نام قدسیہ بانو رکھا لیکن وہ ادب میں آپا بانو قدسیہ کے نام سے معروف ہوئیں۔ ان کا پہلا افسانہ اس نام سے چھپا تھا۔والد کے انتقال کے بعد یہ خاندان گرداس پور منتقل ہوگیا ۔جہاں ان کی والدہ ایک سکول میں ہیڈمسٹریس کی حیثیت ملازم ہوگئیں۔ تعلیم کاابتدائی حصہ تو گرداس پور کے تعلیمی اداروں میں ہی حاصل کیا ۔ قیام پاکستان کے وقت آپ کا خاندان گوداس پور سے ہجرت کرکے لاہور میں قیام پذیرہوا ۔ انہوں نے مزید تعلیم کے حصول کے لیے گورنمنٹ کالج لاہور میں داخلہ لے لیا ۔یہاں پٹھان خاندان کا ایک فرد اشفاق احمد خان بھی ان کا ہم جماعت تھا۔ آپابانو قدسیہ نے لکھنے کی ابتداء 1947ء میں آزادی کے بعد کی۔ ان کے ذہن پر گورداس پور سے پاکستان تک کی ہجرت کے اثرات نمایاں تھے۔ جب ان کا تعارف اشفاق احمد خان سے ہوا تو وہ گورنمنٹ کالج لاہور کی آزاد فضا اور مخلوط تعلیم سے اعتماد کی دولت سے سرفراز ہو چکی تھیں۔ ایک مرتبہ انہوں نے اشفاق احمد سے کہا:’’آپ کی تو کتاب شائع ہو گئی ہے ۔براہ کرم کسی ایسے پرچے کا نام بتائیں جو میرا افسانہ بھی چھاپ دے۔‘‘اشفاق احمد نے ان سے افسانہ لیا اور ’’ادب لطیف‘‘ میں ’’واماندگی شوق‘‘ کے عنوان سے چھپوا دیا۔ بانو قدسیہ کی ادبی زندگی میں اشفاق احمد سے ان کی ملاقات بہت اہمیت کی حامل تھی۔ وہ اکثر کہا کرتی تھیں کہ اگر اشفاق احمد مجھے نہ ملتے تو میں بانو قدسیہ نہ ہوتی۔ ان ملاقاتوں میں ہی اشفاق احمد نے بانو قدسیہ کے تخلیقی اعتماد کو یہ کہہ کر پختہ کر دیا کہ’’نہ کسی ادیب سے ڈرنا اور نہ کسی تحریر سے ڈرنا۔‘‘چنانچہ انہوں نے اشفاق احمد کو ہمیشہ کے لیے استاد کا درجہ دیدیا لیکن وہ ایسے استاد بنے جنہوں نے اپنی فکر کو بانو قدسیہ کی تحریروں پر اثرانداز نہیں ہونے دیا۔اشفاق احمد اور بانو قدسیہ کی ادبی ملاقاتوں کا نتیجہ بڑا خوشگوار نکلا اور یہ 1956ء میں دونوں کی شادی پر منتج ہوا۔ جب اشفاق فلم بنانے لگے تو قدسیہ بانو کو پھر سے میدان میں اترنا پڑا۔ وہ سٹوڈیو جا پہنچیں اور وہاں ڈائریکٹر اور پروڈیوسر اشفاق احمد خاں کی اسسٹنٹ کی حیثیت سے کام کرنے لگی۔اردو میں تجرباتی نوعیت کا ایک ننھا سا خوبصورت رسالہ ’’داستان گو‘‘ 1957ء میں اشفاق احمد نے جاری کیا تو اس پر بانو قدسیہ کا نام بطور شریک مدیرموجود نہیں تھا لیکن دلچسپ بات یہ ہے کہ جب اس رسالے کے لئے مطلوبہ معیار کی تخلیقات میسر نہ آئیں تو اس کی ضخامت پوری کرنے کے لئے بہت سے مضامین آپا بانو قدسیہ خود لکھتیں، جو مختلف فرضی ناموں سے شائع ہوتے اور بعض اوقات تو سارا رسالہ ہی انہیں لکھ کر بھرنا پڑتا ۔ اشفاق احمد ہفت روزہ ’’لیل ونہار‘‘ کے مدیر مقرر ہوئے تو ’’داستان گو‘‘ کی ادارت آپابانو قدسیہ کے سپرد کر دی گئی۔ اس رسالے کے لئے انہوں نے متنوع اقسام کے مضامین لکھے مثلاً شکاریات کے حوالے سے انہوں نے ’’میر شکاری‘‘ کے فرضی نام سے مضامین لکھے‘ ایک پائے کا مضمون انہوں نے شہد کی مکھیوں اور ایک ’’چیتے‘‘ پر لکھا۔ ان کے ناولٹ ’’ایک دن‘‘ اور ’’پروا‘‘ اور ناول ’’موم کی کلیاں‘‘ بھی ’’داستان گو‘‘ میں ہی چھپے تھے۔داستان گو‘‘ کی خصوصی عطا یہ ہے کہ اس نے افسانہ نگارآپا بانو قدسیہ کو زندگی کے وسیع تر زاویوں پر نظر دوڑانے اور معاشرتی اور سماجی مسائل کو گہرائی سے دیکھنے کی تربیت دی اور ان کے باطن سے اس وسیع النظرادیبہ کو ابھارا جو ’’راجہ گدھ‘‘ جیسا ناول لکھ سکتا تھا۔ ’’داستان گو‘‘ بالآخر سرمائے کی کمی اور ادیبوں کے عدم تعاون کی وجہ سے 1969ء میں بند ہو گیا۔ پھر انہوں نے نشریات کے جدید ترین مواصلاتی ذرائع یعنی ریڈیو اور ٹیلی ویژن کے لئے ڈرامے لکھنے شروع کر دیئے۔ ان کے ڈرامے سماجی مسائل پر صحت مند انہ انداز میں نظر ڈالتے اور قدروں کی اہمیت بڑی خوبی سے اجاگر کرنے لگے۔ اس ابتدائی کامیابی کا نتیجہ یہ ہوا کہ بانو قدسیہ نے افسانے اور ٹی وی ڈرامے تیزرفتاری سے لکھے۔ اہم بات یہ ہے کہ اس کثرت نویسی کے باوجود انہوں نے اپنا معیار قائم رکھا اور ادب کے فنی تقاضوں کی پوری پوری بجاآوری کی۔ چنانچہ ادب کی دنیا میں اشفاق احمد اور بانو قدسیہ‘ دونوں کو ایک مثالی ادبی جوڑا بھی تسلیم کرلیا گیا۔ اس دوران بانو قدسیہ نے انیق‘ انیس اور اثیر خان کے نام سے تین بچوں کو جنم دیا اور ایک مثالی ماں کے فرائض بھی انجام دیئے، لیکن حقیقت یہ ہے کہ ان کا بنیادی تشخص ایک اعلیٰ پائے کی ادیبہ کا ہی رہا۔ جس نے ایک سینئر ادیب اور افسانہ نگار اشفاق احمد کے سائے میں فن کا سفر شروع کیا تھا اور ان کے احسانات کو ہر جگہ اور ہر طرح تسلیم بھی کیا۔ بعض لوگوں کا خیال تھا کہ بانو قدسیہ شاید اپنے عظیم شوہر اشفاق احمد کے دنیا سے رخصت ہونے کے بعد افسانے نہ لکھ سکیں گی لیکن ان کا ایک افسانہ ’’ہم سفر‘‘ ڈاکٹر صغریٰ صدف کے کتابی سلسلے ’’وجدان‘‘ کے شمارہ اپریل 2008ء میں شائع ہوا ہے۔بانو قدسیہ ایک باوفابیوی تھی اورایک عظیم ماں بھی۔ انہیں حکومت پاکستان کی جانب سے اعلیٰ ترین ایوارڈ ’’ستارۂ امتیاز‘‘ برائے ادب 1983ء بھی دیاگیا۔ دوحہ ’’قطر‘‘ ایوارڈ ان کا آخری اعزاز تھا- آپابانوقدسیہ کے مشہور قابل ذکر ناولوں اور کتابوں میں راجہ گدھ ‘ حاصل گھاٹ ‘ سامان وجود ‘ حوالے نام ‘ ناقابل ذکر ‘ ابن آدم ‘ پروا ‘ ایک دن ‘ ہمنوا تھے جو ‘فٹ پاتھ کی گھاس ‘امربیل شامل ہیں۔ آپا بانو قدسیہ 4فروری 2017ء کو اس دنیا سے رخصت ہوگئیں جن کے انتقال سے ادبی دنیا حقیقی معنوں میں ویران ہوگئی ۔بے شک ہم سب اﷲ کے لیے ہیں اور اسی کی جانب جانے والے ہیں۔





 

Aslam Lodhi
About the Author: Aslam Lodhi Read More Articles by Aslam Lodhi: 781 Articles with 665215 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.