رب العزت کی رضا میں راضی رہنا

میرے محترم اور معزز پڑھنے والوں کو میرا آداب
دنیا میں آنے کے بعد ہمیں سب سے پہلے یہ سمجھنا ہوگا کہ اللہ رب العزت نے ہمیں دنیا میں کیوں بھیجا
صرف اپنی عبادت کےلئے اور اس خالق کائنات کی رضا میں راضی رہکر ہر کام کرنے کے لئے اب اگر ہم صرف دنیا کو راضی کرنے میں لگ گئے تو ہمیں صرف دنیا ہی حاصل ہو گی اور اگر اللہ تبارک تعالی کو راضی کرنے میں لگ گئے تو ہمیں دنیا بھی ملے گی اور اللہ رب العزت کی رضا بھی اور اس میں ہی ہمارے لئے بہتری ہے ہمیں اس دنیا میں رب العزت نے زندگی گزارنے کا جتنا وقت دیا ہے وہ ہمیں صرف اس کی رضا میں گزارنے ہوں گے اور ہر حال میں راضی رہنا ہوگا چاہے دکھ ہو یاکوئی تکلیف اللہ رب العزت کا تحفہ سمجھ کر اس کی رضا میں راضی رہنا ہوگا کیوں کہ اس میں ہی ہماری کامیابی کا انحصار ہے ۔
میرے محترم اور معزز پڑھنے والوں حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ تعالی عنہ جو حضور صلی اللہ علیہ والیہ وسلم کے ماموں تھے اور بڑے بہادر اور دلیر تھے غزوہ احد میں حضور صلی اللہ علیہ والیہ وسلم تیر آپ رضی اللہ عنہ کو پہینکتے جاتے اور آپ رضی اللہ عنہ دشمنوں پر تیزی سے وار کرتے جاتے آپ رضی اللہ عنہ کا کوئی وار خالی نہ جاتا حضور صلی اللہ علیہ والیہ وسلم خوش ہوکر فرماتے " ہے کسی کے پاس ایسا ماموں تو بتائے " حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ تعالی عنہ کے بارے میں سرکار صلی اللہ علیہ والیہ وسلم نے فرمایا اے اللہ تبارک وتعالی یہ میرے مقبول ماموں ہیں ان کو وہ سب کچھ عطا کرنا جو یہ طلب کریں اور ان کی کوئی بھی دعا رد نہ ہو اپ رضی اللہ عنہ کے اخری عمر میں آنکھوں کی بینائی چلی گئی اور آپ رضی اللہ عنہ دیکھنے سے قاصر ہوگئے پھر آپ رضی اللہ عنہ نے جہاد کو چھوڑ کر مکہ میں سکونت اختیار کرلی ایک دفعہ بڑے جید علماء کرام کا ایک وفد آپ رضی اللہ عنہ کی بارگاہ میں حاضر ہوئے عرض کیا حضور اللہ تبارک وتعالی کی بارگاہ میں آپ رضی اللہ عنہ ایک مقبول بندے ہیں یہ جگہ بھی قبولیت دعا کی جگہ ہے تو آپ رضی اللہ عنہ اپنے رب العزت سے آنکھیں کیوں نہیں مانگ لیتے تو حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ نے پوچھا یہ بتائو مجھ نابینا کس نے کیا عرض کیا حضور اللہ رب العزت نے تو آپ رضی اللہ عنہ نے بڑا پیارا جواب عنایت کیا کہ جب میرا مالک میرے نابینا رہنے میں راضی ہے تو مجھے بھی اس کی رضا میں راضی رہنا چاہئے کیوں کہ جس میں میرا رب راضی اس میں میں راضی ۔
میرے محترم اور معزز پڑھنے والوں دنیا اور آخرت دونوں جہاں میں کامیابی کا راز صرف اور صرف اللہ تبارک وتعالی کی رضا میں راضی رہنے میں ہے حضرت ابراھیم علیہ السلام کو آگ میں ڈالے جانے کا واقعہ بہت مشہور و معروف واقعہ ہے جس کا قران مجید فرقان حمید میں تفصیل کے ساتھ ذکر آیا ہے لیکن میں موضوع کے اعتبار سے صرف اتنا کہوں گا کہ جب حضرت ابراھیم علیہ السلام کو کافی اوپر سے آگ میں پھینکا گیا تو فرشتے آسمان پر سجدہ ریز ہوکر کہنے لگے یااللہ دشمنوں نے تیرے خلیل کو آگ میں ڈال دیا حضرت ابراھیم علیہ السلام ابھی ہوا میں تھے تو حضرت جبرائیل علیہ السلام حاضر ہوئے عرض کیا کوئی حاجت ؟ تو فرمایا نہیں کوئی حاجت نہیں میں اپنے رب العزت کا محتاج ہوں اس کی رضا میں راضی ہوں پھر بارش برسانے والا فرشتہ حاضر خدمت ہوگیا کہ آپ کہیں تو بارش برسا کر اس کو ختم کردوں لیکن اس سے پہلے رب الکائنات کا حکم ہوا کہ " اے آگ میرے خلیل علیہ السلام پر ٹھنڈی ہوجا " آپ علیہ السلام کے آگ میں جانے سے سب کچھ جل کر راکھ ہوگیا لیکن حضرت ابراھیم کو گزند بھی نہیں پہنچا اللہ تبارک وتعالی کا فضل وکرم تھا کہ آپ علیہ السلام آگ جیسی چیز سے بھی محفوظ رہے نہ صرف یہ کہ آگ مثل گلزار ہوگئی بلکہ آگ کے اندر بھی آپ علیہ السلام کو نعمتیں عطا کی گئیں راوی کہتے ہیں کہ مسلسل چالیس دن آگ کے الائو میں رہنے کے بعد آپ علیہ السلام باہر آئے باہر آنے کے بعد آپ علیہ السلام نے فرمایا کہ میری زندگی میں اتنے خوشگوار دن اور راتیں کبھی نہیں گزریں جو میں نے وہاں گزاریں ۔
میرے محترم اور معزز پڑھنے والوں یہ ہوتا ہے اللہ رب العزت کی رضا میں راضی رہنے کا انعام اس لئے ہمیں بھی چاہئے کہ کتنی بھی تکلیف سے ہمیں گزرنا پڑے یا پریشانی کا سامنا ہو اگر ہم اس کو اللہ تبارک وتعالی کی رضا سمجھ کر راضی رہیں تو اس استقامت پر اللہ رب العزت ہمیں بھی اپنے بیش بہا انعامات سے نوازے گا ترمذی شریف کی ایک حدیث ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ والیہ وسلم نے ارشاد فرمایا دنیا میں کسی کی اتنی طاقت نہیں کہ وہ تمہیں کوئی نقصان پہنچائے اگر اللہ تبارک وتعالی کی رضامندی نہ ہوئی اور کوئی تمہیں کبھی نفا نہیں دے سکتا جب تک رب العزت کی مرضی نہ ہو تو پھر ہمیں کیوں کسی سے کچھ غرض ہو ہمیں تو صرف اپنے رب الکائنات سے غرض ہونی چاہئے اگر کسی کو رب العالمین نے بے پناہ مال و دولت سے نوازا ہوا ہے اور اس کے مقابلے میں آپ کے پاس اتنا مال نہیں تو یہ اس رب العزت کی مرضی اور مصلحت ہے آپ کو وہ خالق حقیقی وہ ہی دے گا جو وہ آپ کے لئے بہتر سمجھے گا ہوسکتا ہے زیادہ مال و دولت آپ کے لئے بہتر نہ ہو اس لئے اس نے آپ کو نہیں دیا کیوں کہ ایک بات زہن نشیں کر لیں کہ رب العزت جس انسان کے لئے جو بہتر سمجھتا ہے وہ ہی اسے عطا کرتا ہے کسی کو کم کسی کو زیادہ اس میں اس کی مرضی اور مصلحت کارما ہوتی ہے اسلئے اس کی رضا میں راضی رہنے عادت اپنا لیجیئے ۔

میرے محترم اور معزز پڑھنے والوں حضور صلی اللہ علیہ والیہ وسلم کے پاس ایک صحابی جن کا نام غالبا سالبہ رضی اللہ عنہ تھا حاضر ہوئے اور عرض کیا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ والیہ وسلم گزارا مشکل سے ہوتا ہے دعا کریں اللہ رب العزت میرے رزق میں اضافہ کردے آپ صلی اللہ علیہ والیہ وسلم نے اسے دیکھا اور فرمایا میرا خیال ہے اللہ رب العزت نے تجھے جس حال میں رکھا ہے وہ ہی تیرے لئے بہتر ہے تو اس کی رضا میں راضی رہ تو اس صحابی نے عرض کیا نہیں بس آپ صلی اللہ علیہ والیہ وسلم دعا فرمائیں تو پھر میرے پیارے مصطفی صلی اللہ علیہ والیہ وسلم نے یہ ہی بات دہرائی لیکن جب حضرت سالبہ رضی اللہ عنہ نے ضد کرتے ہوئے تیسری مرتبہ عرض کیا تو حضور صلی اللہ علیہ والیہ وسلم نے فرمایا کہ اچھا جا اللہ رب العزت تیرے مال میں برکت عطا کرے ۔

میرے محترم اور معزز پڑھنے والوں بس پھر کیا تھا چار بکریاں خریدی تو اس سے ریوڑ کے ریوڑ ہوگئے پھر کچھ بکریاں بیچ کر گائے خرید لی تو گائے کا ریوڑ کا ریوڑ ہوگیا پہلے فجر اور عشاء کا ناغہ شروع ہوگیا پھر جب کام زیادہ بڑھ گیا تو جگہ چھوڑ کر شہر سے باہر بڑی جگہ لےلی تو صرف جمعہ رہ گیا وقت گزرتا گیا زکواہ کا ٹائم آیا تو سرکار صلی اللہ علیہ والیہ وسلم نے حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کو بھیجا جائو اس سے کہو ڈھائی فیصد تمہاری زکواہ بنتی ہے ادا کرو اب وہ صحابی پریشان ہوگئے سوچنے لگے کہ مال تو بہت ہے زکواہ بھی زیادہ ہوگی تو عرض کیا کہ اے ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ آپ ابھی جائیں حضور صلی اللہ علیہ والیہ وسلم سے کہنا کہ میں خود حاضر ہوجائوں گا حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے واپس اکر حضور صلی اللہ علیہ والیہ وسلم سے ساری بات عرض کردی بعد میں حضرت سالبہ رضی اللہ عنہ کو احساس ہوا کہ یہ میں نے کیا کردیا میں نے حضور کے بھیجے ہوئے پیغام کو واپس کردیا بس وہ دوڑے ہوئے آئے اور حضور صلی اللہ علیہ والیہ وسلم کی بارگاہ میں حاضر ہوگئے کہ میں سارا مال لے آیا ہوں قبول کرلیں اور مجھے معاف کردیں تو سردار انبیاء صلی اللہ علیہ والیہ وسلم نے فرمایا کہ میں تجھےمعاف تو کردیتا ہوں لیکن اب تیرا مال کسی طرح بھی قبول نہیں میں نے تجھے کہا تھا کہ اللہ رب العزت نے جس حال میں رکھا ہے اس کی رضا میں راضی رہ لیکن تونے ضد کی بس اب تیرے مال کی ہمیں کوئی حاجت نہیں اس نے بہت منت سماجت کی لیکن حضور صلی اللہ علیہ والیہ وسلم نے مال لینے سے انکار کردیا یہاں تک کہ حضور صلی اللہ علیہ والیہ وسلم کا ظاہری وصال ہوگیا ۔

میرے محترم اور معزز پڑھنے والوں اس کے بعد حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ کا زمانہ آیا ان سے بھی حضرت سالبہ رضی اللہ عنہ نے منت کی لیکن حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے یہ کہکر مال نہ لیا کہ جو مال میرے آقا و مولا صلی اللہ علیہ والیہ وسلم نے لینے سے انکار کیا وہ میں کیسے لے سکتا ہوں یہاں تک کہ حضرت سالبہ رضی اللہ عنہ کا وصال حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالی عنہ کے زمانے میں ہوا لیکن ان کا مال کسی نے بھی قبول نہ کیا۔

میرے محترم اور معزز پڑھنے والوں اللہ رب العزت کی رضا میں راضی رہنے میں ہی ہماری بقا ہے شیطان مردود اکثر ہمارے دماغ میں یہ بات ڈال دیتا کہ فلاع کے پاس فلاع چیز ہے میرے پاس نہیں ہے کیا میں اس چیز کا اللہ تبارک وتعالی کے نزدیک حقدار نہیں تھا لیکن اگر ہم اس بات کو مثبت پہلو میں دیکھیں تو ہمیں سوچنا چاہئے کہ فلاع چیز اگر ہمارے پاس نہیں ہے تو ہمارے لئے بہتر نہیں ہوگی اسی لئے اللہ تبارک و تعالی نے وہ چیز ہمیں نہیں دی کیوں کہ اللہ تبارک وتعالی ہر انسان کو وہ ہی نعمت عطا کرتا ہے جو اس کے لئے بہتر ہوتی ہے اگر ہم اس بات کو سمجھ لیں اور دل میں تہ کرلیں کہ ہمارا رب ہمیں ہر وہ شہ کبھی نہیں دیتا جو ہمارے لئے بہتر نہ ہو اس وجہ سے یہ کہا گیا کہ وہ مالک مولا جس حال میں رکھے اس میں اس کی رضا سمجھ کر راضی رہیں ۔

میرے محترم اور معزز پڑھنے والوں ایک بزرگ تھے اللہ تبارک وتعالی کے قرب سے مالامال اور عشق مصطفی صلی اللہ علیہ والیہ وسلم جن کے دل میں کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا اللہ تبارک وتعالی نے آزمائش میں لے لیا یہ دیکھنے کے لئے کہ آیا میری رضا میں راضی بھی ہے یا نہیں اور انہیں ایسا مرض لاحق ہوگیا کہ ان کے جسم میں بڑے عجیب و غریب زخم ہوگئے آہستہ اہستہ ان زخموں پر کیڑے نمودار ہونا شروع ہوگئے ایک دفعہ اللہ تبارک وتعالی کے ذکر میں مشغول تھے تو ایک کیڑا زخم سے نکل کر زمین پر آگرا بزرگ نے بڑے پیار سے اسے اٹھاکر واپس اپنے جسم کے اس زخم پر رکھتے ہوئے عرض کیا کہ تو کیوں گرتا ہے جب تیرے رزق کے لئے میرے رب العزت نے میرے جسم میں زخم پیدا کئے ہیں تو تجھے وہیں رہنا ہوگاشاید اللہ رب العزت کی رضا اس میں ہی ہو اور میں اس کی رضا پر راضی ہوں اب دیکھیں اللہ رب العزت پر توکل بھروسہ یقین اور اعتماد کتنا مظبوط ہے ۔

میرے محترم اور معزز پڑھنے والوں ہمیں ہر حال میں اپنے رب العزت پر پختہ یقین اور بھروسہ کے ساتھ اس کی رضا میں راضی رہنا ہوگا اسی میں ہماری دنیا اور آخرت دونوں میں کامیابی ہوگی انشاءاللہ ۔
اللہ تبارک وتعالی سے دعا ہے کہ وہ ہمیں اپنی رضا میں ہروقت اور ہر حال میں رہنے کی توفیق عطا فرمائے۔
آمین آمین بجاہ النبی الکریم صلی اللہ علیہ والیہ وسلم

 

محمد یوسف راہی
About the Author: محمد یوسف راہی Read More Articles by محمد یوسف راہی: 112 Articles with 78241 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.