خوف خدا

میرے محترم اور معزز پڑھنے والوں کو میرا آداب
حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ میں نے حضور صلی اللہ علیہ والیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا کہ " دو آنکھوں کو آگ کبھی نہیں چھوئے گی ایک وہ آنکھ جو اللہ تبارک وتعالی کے خوف سے روئی اور دوسری وہ آنکھ جس نے اللہ تبارک و تعالی کی راہ میں پہرہ دے کر رات گزاری ۔( اس حدیث کو امام ترمذی نے روایت کیا ہے اور اسے حسن قرار دیا ہے )۔

ایمان کے مکمل ہونے کی اہم دلیل دل میں خوف خدا کا ہونا لازمی ہے دنیاوی زندگی کا سکون اور آخرت کی زندگی میں نجات کا ذریعہ اللہ تبارک وتعالی کا خوف اور اس کے حبیب صلی اللہ علیہ والیہ وسلم کا دل میں عشق ہے ۔ان دو چیزوں کے بغیر انسان کا ایمان نا مکمل ہے اللہ تبارک وتعالی کا خوف ہی اصل میں ہمارے کامل ایمان ہونے کا ٹھوس ثبوت ہے اور یہ ہماری اصل زندگی یعنی آخرت کی زندگی میں اجر کا سبب ہے ۔
میرے محترم اور معزز پڑھنے والوں قران مجید کی سورہ الرحمن کی آیت نمبر 46 میں ارشاد باری تعالی ہے ترجمہ کنز الایمان " کہ جو قیامت کے روز اللہ کے سامنے کھڑا ہونے سے ڈرا اس کے لئے دو جنتیں ہیں "

روز قیامت کا برپا ہونا ایک حقیقیت ہے اور جو قیامت پر یقین نہیں رکھتا وہ اہل ایمان نہیں ہے بروز محشر ہماری نجات کا واحد ذریعہ دنیا میں پرہیز گاری اور اللہ تبارک وتعالی کے بتائے ہوئے وہ راستے جن کی نشاندہی ہمارے پیارے نبی صلی اللہ علیہ والیہ وسلم نے کی اس پر چلنا ہے اور دل میں خوف خدا قائم کرنا ہے اگر ہم تاریخ اسلام کا مطالعہ کریں تو ہمیں معلوم ہوگا کہ تمام انبیاء کرام ، صحابہ کرام ، تابعین ، اولیاء کرام اور بزرگان دین اپنے اپنے دلوں میں بے پناہ اللہ کا خوف رکھتے تھے یعنی وہ لوگ وہ ہستیاں جنہیں دنیا میں ہی جنت کی بشارت مل گئی لیکن خوف خدا کی وجہ سے وہ زاروقطار اللہ تبارک وتعالی کی بارگاہ میں آنسو پہاتے رہے ۔

میرے محترم اور معزز پڑھنے والوں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ جب اللہ تبارک وتعالی کے محبوب حضور صلی اللہ علیہ والیہ وسلم قران مجید کی تلاوت فرماتے اور عذاب کے ذکر والی آیات آجاتی تو آپ زاروقطار روپڑتے اور کئی دفعہ کئی آیت کی تقرار کرتے اور روتے رہتے اب غور فرمائیں کہ جس ہستی پر یہ قران نازل ہوا جن کے لئے اس پوری کائنات کو تخلیق کیا گیا جو دو جہاں کے مالک تھے اگر وہ اپنے رب کے خوف سے اتنا ڈرتے تھے تو پھر ہماری کیا وقعت ہماری کیا حیثیت ؟ قران مجید میں کئی انبیاء کرام کے خوف خدا میں مبتلہ ہونے کا ذکر آیا ہے ۔

میرے محترم اور معزز پڑھنے والوں حضرت داتا گنج بخش الہجویری نے اپنی شہرہ آفاق کتاب " کشف المحجوب " میں خوف کی تعریف اس طرح کی ہے کہ خوف اس مکروع چیز کو کہتے ہیں کہ جس کی وجہ سے دل میں ناگواری کا گزر ہو اور کچھ گم ہوجانے کا اندیشہ ہو یعنی جب قران میں جہنم کا ذکر آتا ہے تو اللہ تبارک وتعالی اپنے بندوں کو گناہوں کے سبب ملنے والے عذابات کا ذکر کرکے ہمیں خوف میں مبتلہ کرتا ہے اور یہ بتاتا ہے کہ گناہوں میں مبتلہ ہوگئے تو تمہارا ایمان تم سے چھین لیا جائے گا اور بروز محشر تمہیں شرمندگی ہوگی لیکن پھر جہنم تمہارا مقدر ہوگی ۔

اللہ تبارک وتعالی نے ہماری رہنمائی اور تربیت کے لئے اپنے نبیوں کو دنیا میں بھیجا جنہوں نے ہمیں دنیا میں زندگی گزارنے کے صحیح اصول و ضوابط وضع کرکے دئیے اللہ تبارک وتعالی نے قران کریم میں اپنی پچھلی امتوں کے گناہوں کے سبب ان پر ہونے والے عذابات کا ذکر کرکے ہمیں تنبیہ کی ہے کہ ہم اس سے عبرت حاصل کریں اور یہ جان لیں کہ وہ ہر جگہ ہر وقت اور ہر حالت میں ہمیں دیکھ رہا ہے جو اچھا اور نیک عمل کرے گا اس جزا و سزا بھی اس کے ہاتھ میں ہے اور جو گناہوں میں زندگی گزارے گا تو پھر اس کا عذاب بہت سخت ہے ۔

میرے محترم اور معزز پڑھنے والوں ایک نوجوان اور خوبصورت لڑکی ایک یونیورسٹی میں پڑھنے کے لئے روزانہ اکیلی جاتی اور اکیلی واپس آجاتی ایک دن چھٹی سے کچھ دیر پہلے موسم تبدیل ہوا اور اچانک کالی گھٹائیں آئیں اور دیکھتے ہی دیکھتے بارش شروع ہوگئی سردی کے دن تھے اسلئے ہر کوئی بارش سے بچنے کی تدبیر کرنے لگا یونیورسٹی کی چھٹی ہوگئی تھی لیکن سردی اس بارش میں کوئی جائے تو کیسے لیکن کوشش کرکے وہ لڑکی باہر آئی اور آہستہ آہستہ چلنے لگی اچانک بادل زور دار آواز سے گرجا اور وہ ڈر کے مارے ایک گھر کے باہر کھڑی ہوگئی جب اس کا جسم کانپنے لگا تو مجبوری میں اس نے دروازہ کھٹکھٹایا تو وہاں سے ایک نوجوان لڑکا باہر آیا اور اسے اندر لے گیا اس کی یہ حالت دیکھ کر اس نے لڑکی کو کمبل دی اور وہ لڑکی آرام سے بیٹھ گئی معلوم ہوا کہ وہ لڑکا بھی اسی یونیورسٹی میں پڑھتا ہے اور یہاں اکیلا رہتا ہے ایک کمرہ برآمدہ اور باتھروم اس کا کل گھر تھا اس لکڑی کو کانپتا ہوا دیکھکر اس لڑکے نے ہیٹر رکھ دیا تاکہ کمرہ گرم ہوجائے اور جب تک کمرہ گرم ہوا اس لڑکی کی آنکھ لگ گئی کچھ دیر بعد بارش تھم چکی تھی جب لڑکے نے لڑکی کو سوتے ہوئے دیکھا تو شیطان نے اسے بہکانا شروع کردیا جس کی وجہ سے اس کو وہ لڑکی بہت حسین اور خوبصورت دکھائی دینے لگی شیطان اس کے دل میں وسوسہ ڈالنے میں لگ گیا اچانک لڑکی کی آنکھ کھلتی ہے اور جب وہ اپنے آپ کو اس طرح سوتے ہوئے دیکھتی ہے تو گھبراکر اٹھ جاتی ہے اور بغیر کچھ کہے وہاں سے باہر کی طرف بھاگنے لگتی ہے برآمدے میں اس نے لڑکے کو بے ہوش پایا لیکن وہ گھبراہٹ کے عالم میں دوڑنے لگتی ہے یہاں تک کہ گھر پہنچ کر اپنے والد کی گود میں سر رکھ کر لیٹ گئی جو اسے ساری رات شہر کے کونے کونے میں تلاش کرتا رہا ۔

میرے محترم اور معزز پڑھنے والوں اس لڑکی نے سارا ماجرا من وعن اپنے والد کو سنادیا اور کہا کہ خدا کی قسم میں نہیں جانتی کہ جتنا وقت میری آنکھ لگی رہی اتنے عرصے میں میرے ساتھ کیا ہوا اور کیا کیا گیا یہ سن کر اس کا والد غصے میں اٹھتا ہے اور یونیورسٹی پہنچ جاتا ہے جب معلوم کرتا ہے تو پتہ چلتا ہے کہ ایک لڑکا غیر حاضر ہے جو بیمار ہے اور ہسپتال میں داخل ہے وہ ہسپتال پہنچ جاتا ہے تاکہ وہیں اس لڑکے سے اپنی بیٹی کا انتقام لے سکے کافی دیر تلاش کے بعد جب وہ اس کے کمرے میں پہنچا تو کیا دیکھتا ہے کہ اس کے دونوں ہاتھوں کی انگلیوں پر پٹیاں بندھی ہوئی تھی ڈاکٹروں نے بتایا کہ جب اسے ہمارے پاس لایا گیا تو اس کے دونوں ہاتھ جلے ہوئے تھے تو اس لڑکی کے والد نے اس نوجوان لڑکے سے پوچھا کہ تمہیں قسم ہے بتائو یہ سب کیسے ہوا اس نے اپنے آپ کو ظاہر نہیں کیا تھا تو اس لڑکے نے کہا کہ گزشتہ رات بارش کی وجہ سے ایک لڑکی نے میرے گھر میں پناہ لی تھی اس کی حالت سردی میں بارش میں بھیگ جانے کی وجہ سے خراب تھی اس لئے میں نے اسے پناہ دی اور اس کی اس حالت کے سبب میں نے اسے کمبل دیا اور سلادیا اس کے بعد مجھے شیطان نے بہت بہکایا جب بھی مجھے برا خیال آتا میں اپنی ایک انگلی جلادیتا اور یوں میرا پورا ہاتھ جل گیا اور میں بے ہوش ہوگیا میں ہسپتال کیسے پہنچا مجھے نہیں معلوم ۔

میرے محترم اور معزز پڑھنے والوں یہ سن کر لڑکی کے والد کو حیرانی ہوئی اور اس نے بلند آواز میں چلا کر کہا کہ اے لوگوں گواہ رہنا میں نے اپنی بیٹی کا نکاح اس پاک دامن نوجوان سے کردیا ہے جس کے دل میں اللہ تبارک وتعالی کا اتنا خوف ہے کہ اس کی طاقت سے شیطان کو بھی شکست دی اور گناہ سے بھی باز رہا ۔ہم دیکھتے ہیں کہ ہمارے والدین اپنے بچوں پر اپنا رعب اور ڈر تو بٹھا دیتے ہیں لیکن اللہ تبارک تعالی کا خوف پیدا نہیں کرتے اس کی وجہ سے بچے اپنی وہ خواہشیں جو والدین کے سامنے پوری نہیں کرسکتے تو چھپ چھپ کر پوری کرتے ہیں اور اللہ تبارک تعالی کا خوف دل میں نہیں ہوتا تو کھلے عام گناہوں کے مرتکب ہوتے نظر آتے ہیں کیوں کہ والدین نے ان کے دلوں میں اللہ تبارک وتعالی کے خوف کی بجائے اپنا رعب ، خوف اور دبدبہ بٹھایا ہوا ہوتا ہے اور حکم کی نافرمانی کے سبب ملنے والی سزا کا ڈر بٹھایا ہوا ہوتا ہے ۔

میرے محترم اور معزز پڑھنے والوں حضرت ابی کعب رضی اللہ عنہ نے حضور صلی اللہ علیہ والیہ وسلم سے پوچھا کہ حضور تقوی یعنی اللہ کا ڈر کسے کہتے ہیں تو آپ صلی اللہ علیہ والیہ وسلم نے فرمایا کہ کبھی کانٹوں والے جنگل سے گزرے ہو ؟ عرض کیا ہاں تو فرمایا کیسے گزرتے ہو ؟ عرض کیا جب کانٹیں دیکھتا ہوں تو اپنا جسم اور کپڑے بچا کر نکلتا ہوں تاکہ کپڑے پھٹ نہ جائے اور جسم پر کوئی زخم نہ آئے تو آپ صلی اللہ علیہ والیہ وسلم نے فرمایا بس یہ ہی اللہ کا ڈر یعنی خوف ہے گویا معلوم یہ ہوا کہ اگر ہم کوئی بھی کام کرتے ہوئے یہ سوچ لیں کہ اللہ رب العزت ہمیں دیکھ رہا ہے وہ ہماری شہرگ سے زیادہ قریب ہے اور اس کا خوف اگر ہم اپنے اوپر طاری کرلیں تو اسے خوف خدا کہتے ہیں ہمارے ہر کام میں اس رب الکائنات کا خوف ہمارے ساتھ ہوگا تو ہمارا کام نیکی کا کام ہوگا اور یہ اخرت میں ہماری نجات کا سبب ہوگا۔

میرے محترم اور معزز پڑھنے والوں حضرت اخف بن قیس رحمتہ اللہ علیہ ایک بہت جید تابعی بزرگ گزرے ہیں ایک دفعہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی محفل میں بیٹھے ہوئے تھے تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے پوچھا کہ کیا تم مجھے بتاسکتے ہو کہ جاہل کسے کہتے ہیں ؟ ( ہمارے یہاں آجکل ان پڑھ انسان کو جاہل مانا جاتا ہے ) تو آپ علیہ رحمہ نے عرض کیا کہ جو دنیا کی خاطر اپنی آخرت تباہ کردے تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ جو کسی دوسرے کے لئے اپنی آخرت برباد کردے وہ دنیا کا سب سے اجہل انسان ہے ( سب سے زیادہ ان پڑھ اور کسی بھی معاملے کی کوئی بھی معلومات نہ ہو اسے اجہل کہتے ہیں ) اگر دل میں اللہ تبارک وتعالی کا خوف اور آخرت پر پختہ یقین ہو کہ مجھے وہاں جاکر ہر چیز کا حساب دینا ہے تو وہ کبھی بھی کوئی گناہ کرنے کی ہمت نہیں کرے گا ۔

میرے محترم اور معزز پڑھنے والوں اللہ تبارک وتعالی کے خوف کو قران و حدیث اور بزرگان دین کی تعلیمات کی روشنی میں سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں سورہ فاطر کی آیت نمبت 28 میں اللہ رب العزت فرماتا ہے کہ اللہ تبارک وتعالی کے وہ ہی بندے اللہ رب العزت سے ڈرتے ہیں جو علم والے ہیں ۔
سورہ العمران آیت نمبر 175 ترجمہ کنزالایمان
" اور مجھ سے ڈرو اگر ایمان رکھتے ہو"
سورہ البقرہ آیت نمبر 40 ترجمہ کنزالایمان
" اور خاص میرا ہی ڈر رکھو اور ایمان لائو "
سورہ الملک آیت نمبت 12 ترجمہ کنزالایمان
" بیشک وہ جو بے دیکھے اپنے رب سے ڈرتے ہیں
ان کے لئے بخشش اور بڑا ثواب ہے"
آیئے اب ہم احادیث کی روشنی میں اللہ رب العزت کے خوف کو سمجھیں۔
حضور صلی اللہ علیہ والیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ جب مومن کی آنکھ سے اللہ تعالی کے خوف سے آنسو جاری ہوجائیں چاہے وہ مکھی کے پر کے برابر ہی کیوں نہ ہو اور پھر وہ چہرے کے ظاہری حصے تک آجائے تو رب العزت اسے جہنم پر حرام کردیتا ہے جب مومن کا دل اللہ تبارک وتعالی کے خوف سے لرتا ہے تو اس کی خطائیں اس طرح جھڑتی ہیں جیسے کسی درخت سے پتے جھڑتے ہیں ( شعب الایمان )۔
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ والیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ تبارک وتعالی ارشاد فرماتا ہے کہ مجھے اپنے عزت و جلال کی قسم میں اپنے بندوں پر دو خوف جمع نہیں کروں گا اور نہ ہی دو امن جمع کروں گا یعنی جو لوگ دنیا میں مجھ سے بے خوف رہے انہیں قیامت میں خوف میں مبتلہ کردوں گا اور جو دنیا میں مجھ سے ڈرتا رہا قیامت میں اسے امن میں رکھوں گا ۔( شعب الایمان )۔
میرے محترم اور معزز پڑھنے والوں یاد رکھیئے جب کوئی انسان اللہ تبارک وتعالی سے ڈرتا ہے تو اللہ رب العزت ہر کسی کے دل میں اس کا ڈر اور خوف پیدا کردیتا ہے پھر اس کو کسی کا خوف نہیں ہوتا سوائے اللہ رب العزت کے لیکن جو دنیا میں اللہ رب العالمین سے ڈرتا نہیں ہے اس کے دل میں خدا کا خوف نہیں ہوتا تو رب العزت اس کے دل میں ہر چیز کا خوف پیدا کردیتا ہے چھری کے استعمال سے ہاتھ کے کٹنے کا خوف گاڑی میں بیٹھے ہوئے کسی حادثے کے ہوجانے کا ڈر اپنے مال اور جان کے لٹ جانے کا خوف یعنی وہ سوائے اللہ رب العزت کی ذات کے سب سے خوف کھاتا ہوگا اور ایسے خوف کے شکار لوگ اکثر نفسیاتی مریض بھی بن جاتے ہیں ۔

میرے محترم اور معزز پڑھنے والوں جب انسان گناہوں کے دلدل میں دھنستا چلاجاتا ہے تو اسکے دل سے خوف خدا نکل جاتا ہے اپنے عیش و عشرت والی زندگی میں اسے صرف اپنا آپ نظر آتا ہے اگر ہمیں اپنی اس دنیاوی اور عارضی زندگی اور ہمیشہ قائم رہنے والی یعنی موت کے بعد کی زندگی دونوں میں سرخرو ہونا ہے تو دل میں خوف خدا پیدا کرنا ہوگا عشق مصطفی صلی اللہ علیہ والیہ وسلم پیدا کرنا ہوگا اگر اللہ تبارک وتعالی کے خوف سے ایک آنسو بھی ہماری آنکھوں سے نکل گیا تو ہمارا بیڑا پار ہوجائے گا بہادر شاہ ظفر نے کیا خوب فرمایا ۔
ظفر ادمی اس کو نہ جانئے گا
وہ ہو کیسا ہی صاحب فہم وذکا
جسے عیش میں یاد خدا نہ رہی
جسے طیش میں خوف خدا نہ رہا

یعنی اپنی دنیاوی زندگی کے عیش و آرام میں محو ہوکر جسے خدا کی یاد ہی نہ آئی اور اس خوشی کے طیش میں اس کے دل سے خوف خدا بھی جاتا رہا ایسے آدمی کو تم بہت عقلمند اور سمجھدار نہ سمجھو بس بروز محشر اس کے لئے بڑا سخت عذاب ہے ۔

اللہ رب العزت سے دعا ہے کہ وہ ہمیں اپنا خوف عطا کردے اپنے خوف سے آنسو جاری کرنے والی آنکھیں عطا کردے
آمین آمین بجاہ النبی الکریم صلی اللہ علیہ وسلم

 

محمد یوسف راہی
About the Author: محمد یوسف راہی Read More Articles by محمد یوسف راہی: 112 Articles with 78192 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.