توہین ِقرآن کا جرم؟

پاکستان میں جوکلچرفروغ پارہاہے اس کے ہولناک نتائج سامنے آرہے ہیں کچھ گروہ خود ہی جج ،خود وکیل بن کر قانون کوہاتھ لے کر خود جلاد بن کر سزادینے پر تل جاتے ہیں جنہوں نے کبھی نماز نہیں پڑھی وہ بھی توہین قرآن یا مقدس ہستیوں کی توہین پر مرنے مارنے پراتر آتے ہیں پنجاب کے ضلع ننکانہ صاحب کے علاقہ واربرٹن میں بربریت کی ایک اور مثال قائم کردی گئی مشتعل ہجوم نے تھانہ پر دھاوا بول کر توہین قرآن کے ملزم کو قتل کر کے جلا دیا مشتعل لوگ اتنے غضب ناک تھے کہ ایس ایچ او سمیت پولیس ملازمین نے تھانے سے بھاگ کر جانیں بچائیں، ملزم توہین قرآن کے الزام میں تھانے میں بند تھا۔ وزیراعظم ،نگران وزیراعلی پنجاب سمیت پولیس کے اعلی حکام نے واقعہ کا نوٹس لیتے ہوئے تحقیقات کا حکم دے دیا۔وزیر اعظم شہباز شریف نے کہا کہ پولیس نے پر تشدد ہجوم کو کیوں نہیں روکا؟ انہوں نے کہا کہ کسی کو قانون پراثر انداز ہونے کی اجازت نہیں اور امن او امان ہر صورت مقدم رکھنا چاہیے،نگران وزیر اعلی پنجاب محسن نقوی نے واربرٹن میں پیش آنے والے واقعہ کا سخت نوٹس لیتے ہوئے انسپکٹر جنرل پولیس سے رپورٹ طلب کر لی ہے۔ واقعہ کی تحقیقات کے لئے 3رکنی اعلیٰ سطح کی انکوائری کمیٹی 48 گھنٹے میں رپورٹ وزیراعلیٰ کو پیش کرے گی۔ اس سے پہلے جنوبی پنجاب کے شہر احمدپور شرقیہ پھرسیالکوٹ اور اب واربرٹن میں مشتعل ہجوم حرمت ِ قرآن کے جرم میں ملزمان کو ازخود سزا دے کر قتل کرچکاہے معلوم ہوا ہے کہ واربرٹن میں مبینہ طور پر سندرانہ ٹاؤن کے رہائشی35سالہ وارث نامی شخص پر الزام تھا کہ اس نے جادو ٹونے کے لئے قرآن پاک کا استعمال کرتے ہوئے ر مبینہ طور پر قرآنی اوراق کی بے حرمتی کی۔مقامی لوگوں نے الزام لگایا کہ ملزم وارث نے قر آن پاک کے اوراق پر اپنی سابقہ بیوی کی تصاویر چسپاں کرکے جادو ٹونہ کیا اور اوراق گلیوں میں پھینک دیئے جس پر مذکورہ شخص کو پولیس کے حوالے کردیا گیا تاہم جب لوگوں کواس واقعہ کی اطلاع ملی توسینکڑوں مشتعل افراد نے تھانہ واربرٹن کے باہر احتجاج اور نعرے بازی کی اور مشتعل مظاہرین نے پولیس سے گرفتار ملزم انکے حوالے کرنے کا مطالبہ کرتے ہوئے تھانے پر دھاوا بول دیااور تھانہ کی بلڈنگ میں گھس کر فرنیچر،کمپیوٹر وغیرہ سمیت دیگر سامان توڑ دیا۔ مشتعل مظاہرین نے ملزم کو حوالات سے نکال کر برہنہ کرکے سڑکوں پہ گھسیٹااس پر ڈنڈے برسائے اور تشدد کر کے مار ڈالا۔ مقامی لوگوں کا کہنا ہے کہ ملزم وارث 2019 ء میں اسی طرح کی بیحرمتی کے واقعے میں ملوث تھا، پولیس نے ملزم کو گرفتار کیا تھا، وہ 2022 میں رہا ہو کرآیا تھا، ملزم نے دوبارہ مقدس اوراق کی بیحرمتی کا ارتکاب کیا آ پی او شیخوپورہ کا کہنا تھا کہ مشتعل افراد نے ملزم کی لاش کو آگ لگانے کی بھی کوشش کی، پولیس نے انہیں منتشر کیا اور لاش اپنی تحویل میں لے لی اس حوالہ سے کچھ علماء کا کہنا ہے کہ ہ ننکانہ صاحب میں توہین مذہب کے ملزم کا قتل ظالمانہ فعل ہے، جن مجرموں نے یہ کام کیا حکومت پنجاب انہیں گرفتار کرے ان مجرموں کا مقدمہ انسداد دہشت گردی کی عدالت میں چلایا جائے، کسی گروہ، فرد یاجماعت کو یہ حق نہیں کہ قانون ہاتھ میں لے پاکستان میں انصاف کیلئے عدالتیں موجود ہیں کسی بھی شخص کو قانون ہاتھ میں لینے کی اجازت نہیں دی جاسکتی اس طرح ملک میں زبردست انارکلی پھیلنے سے خانہ جنگی کی سی صورت ِ حال پیداہو سکتی ہے بلاشبہ اس میں کوئی دوسری رائے نہیں ہوسکتی کہ مقذس ہستیوں کی حرمت اور الہامی کتابوں کا تقدس ہر شخص پر فرض ہے اس لئے کسی بھی شخص قانون کو ہاتھ میں نہیں لینا چاہیے الر کسی نے کئی جرم کیا ہے تو اس کے لئے عدالتیں موجود ہیں جب تک ملزم کوصفائی کا موقعہ نہیں دیا جاتا انصاف نہیں ہوسکتا مقذس ہستیوں کی حرمت اور الہامی کتابوں کی توہین ناقابل ِ معافی جرم ہے ایسے لوگوں کو عبرت کی مثال بنا دینا چاہیے لیکن اس کے لئے ریاست کوہی حق حاصل ہے کہ وہ اپنے قوانین پر عمل کرے تاکہ عوام میں اشتعال پیدا نہ ہو۔
 

Ilyas Mohammad Hussain
About the Author: Ilyas Mohammad Hussain Read More Articles by Ilyas Mohammad Hussain: 474 Articles with 353453 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.