آہ ...... امجد اسلام امجد بھی اس دنیا سے رخصت ہوگئے

 استاد ٗ ممتاز شاعر ٗڈرامہ نویس اور کالم رائٹر
آہ ...... امجد اسلام امجد بھی اس دنیا سے رخصت ہوگئے
معروف شاعر ، ادیب، ڈرامہ و کالم نگار امجداسلام امجد 78 برس کی عمر میں 10 فروری 2023ء بروز جمعہ المبارک انتقال کرگئے۔امجد اسلام امجد کا انتقال دل کا دورہ پڑنے کے باعث ہوا ۔امجد اسلام امجد 4 اگست 1944 کو لاہور میں پیدا ہوئے ، انہوں نے 1964 میں پنجاب یونیورسٹی سے ایم اے(اردو) پاس کیا اور درس وتدریس سے منسلک ہوگئے ، اگست 1975 میں امجد اسلام امجد کو پنجاب آرٹ کونسل کا ڈپٹی ڈائریکٹر مقرر کیا گیا۔انہوں نے ’اردو سائنس بورڈ‘ اور ’چلڈرن لائبریری کمپلیکس‘ سمیت متعدد سرکاری اداروں میں سرکردہ عہدوں پر ذمے داریاں نبھائیں ، ریڈیو پاکستان سے بطور ڈرامہ نگار چند سال وابستہ رہنے کے بعد امجد اسلام امجد نے پی ٹی وی کے لیے کئی ڈرامہ سیریلز لکھیں اور کتابیں بھی تخلیق کیں۔ جن میں برزخ ، عکس ، ساتواں در، فشار، ذراپھر سے کہنا (شعری مجموعے)، وارث، دہلیز، سمندر (ڈرامے)، آنکھوں میں تیرے سپنے (گیت) ، شہردرشہر (سفرنامہ)، پھریوں ہوا ، رات، وقت ، اپنے لوگ ، یہیں کہیں شامل ہیں۔امجد اسلام امجد نے شاعر، ڈرامہ نگار اور نقاد کی حیثیت سے شہرت حاصل کی، امجداسلام امجد کا شعری مجموعہ برزخ اورجدیدعربی نظموں کے تراجم عکس کے نام سے شائع ہوئے مزید برآں افریقی شعراکی نظموں کا ترجمہ کالے لوگوں کی روشن نظمیں کے نام سے شائع ہوا۔علاوہ ازیں تنقیدی مضامین کی ایک کتاب ’تاثرات‘ بھی ان کی تصنیف کردہ ہے۔امجد اسلام امجد کی نظم و نثر میں 40 سے زیادہ کتابیں زیورِ طبع سے آراستہ ہو چکی ہیں جبکہ وہ اپنی ادبی خدمات کے صلے میں ’صدارتی تمغہ حسن کارکردگی‘ اور ’ستارہ امتیاز‘ کے علاوہ پانچ مرتبہ ٹیلی ویژن کے بہترین رائٹر، 16 گریجویٹ ایوارڈ اور دیگر متعدد ایوارڈ حاصل کرچکے ہیں
***************
ممتاز شاعر اور ڈرامہ نگار امجد اسلام امجد کی زندگی میں جناب عمران نقوی نے روزنامہ پاکستان کے ہفت روزہ میگزین "زندگی" کے لیے ایک انٹرویو کیا تھا ۔جو انہوں کی زندگی اور تعلیم تدریس اور ادبی کاوشوں کے بہت خوب احاطہ کرتا ہے ۔ جناب عمران نقوی جو اب دنیا میں نہیں رہے ان سے شکریے کے بعد ان کا امجد اسلام امجد مرحوم سے کیا جانے والا انٹرویو قارئین کی خدمت میں پیش کیا جا رہا ہے :-
.................
آیئے امجد اسلام امجد سے گفتگو کرتے ہیں۔
سوال: کہاں اور کب پیدا ہوئے‘ لکھنے لکھانے کی طرف کب مائل ہوئے؟
امجد اسلام امجد: 4 اگست 1944ء کو لاہور میں میری پیدائش ہوئی۔ 44 فلیمنگ روڈ ہمارا آبائی گھر تھا جو براری منزل نامی کٹڑی نما کمپاؤنڈ تھا۔ ہمارے ہمسائے" آقا بیدار بخت " انتہائی پڑھے لکھے تھے۔ ان کے گھر ادبی کتابیں اور رسالے کثرت سے آتے تھے۔ آقا صاحب نے ازراہ شفقت مجھے ان سے استفادہ کرنے کی کھلی چھٹی دے رکھی تھی۔ پھر والد گرامی محمد اسلام صاحب کو جاسوسی ناول پڑھنے کا شوق تھا۔ آنہ لائبریری سے یہ ناول میں ہی لایا کرتا تھا۔ یہ لائبریری موچی دروازے میں ہواکرتی تھی۔ یہاں سے میں نے کتابیں لے کر ابن صفی اور شفیق الرحمن کو بہت پڑھا۔ اس طرح مجھے بچپن ہی سے پڑھنے کا چسکا پڑ گیا جس نے زندگی بھر میری مدد اور رہنمائی کی۔ چھٹی میں جب مسلم ماڈل سکول میں داخل ہوا تو تعلیم ابھی کاروبار نہیں بنی تھی۔ ہیڈماسٹر ایم اے عزیز صاحب تھے۔ سکول کا مجموعی ماحول علمی اور ادبی تھا۔ نویں جماعت میں مجھے "نشان منزل " میگزین کا ایڈیٹر بنا دیا گیا۔ یہاں سے بہت اچھے کرکٹر بھی پیدا ہوئے۔ اداکار محمود اسلم کے والد اسلم صاحب وہاں ڈرائنگ ٹیچر ہوا کرتے تھے۔
پہلا ڈرامہ میں نے ساتویں جماعت میں لکھا۔ یہ سکول کی کاپی کے تقریباً ستر صفحات پر مشتمل تھا۔ ڈرامے کا نام ’’بہن اور ملکہ‘‘ رکھا تھا۔ یہ نام کیوں رکھا تھا یہ آج تک سمجھ میں نہیں آیا۔ میری ایک ہی خالہ تھیں جو دو سال کی عمر میں نابینا ہو گئی تھیں۔ وہ ہمیں کہانیاں بہت سناتی تھیں۔ میں ان سے جو کہانیاں سنتا انہیں نمک مرچ لگا کر سکول میں سنا دیتا تھا۔ ایک ماسٹر صاحب نے میرا نام کہانیوں والی مشین رکھا ہوا تھا۔
سوال: آپ کو شاید کرکٹ کا جنون بھی تھا؟
امجد اسلام امجد: جنون کیا باقاعدہ کرکٹر تھا۔ آف سپنر اور مڈل آرڈر بیٹسمین۔ اسلامیہ کالج سکول لائنز کا کلر میرے پاس ہے۔ اس وقت فرسٹ کلاس میں کل سات ٹیمیں تھیں۔ بی اے میں اردو میں سکالرشپ آ گیا۔ فیس 12 روپے اور سکالرشپ 50 روپے ماہوار ملنا تھا لیکن اس صورت میں کہ میں اردو میں داخلہ لوں۔ میرے اردو کی طرف آنے کی ایک وجہ یہ بھی تھی۔ میں نے اوریاینٹل کالج پنجاب یونیورسٹی میں داخلہ لے لیا۔ دوسرے یہ کہ صرف وہ لوگ یونیورسٹی کی ٹیم میں کھیل سکتے تھے جو یونیورسٹی کے ڈائریکٹ سٹوڈنٹ ہوں یعنی اوریاینٹل کالج‘ ہیلی کالج اور لاء کالج والے طالب علم یونیورسٹی کی نمائندگی نہیں کر سکتے تھے۔ نمائندگی صرف وہ طلبہ کر سکتے تھے جو وی سی کے تحت شعبوں میں زیرتعلیم ہوں جبکہ مذکورہ کالجز کے الگ پرنسپل ہوتے تھے‘ وی سی صاحب ان کے بعد آتے تھے۔ سو یہ بھی ایک موڑ آیا اور میں کرکٹ چھوڑ کر اردو کی طرف چلا گیا۔سوال: اگر آپ کرکٹر بنتے تو……؟
امجد اسلام امجد: اپنے جسم کے لحاظ سے دو چار سال ہی چل سکتا تھا۔ یہ وہ دور تھا جب نذیر جونیئر کھیلتے تھے ان سے پہلے حسیب احسن وغیرہ تھے۔
سوال: کیا آپ پاکستان کا آؤٹ سٹینڈنگ کرکٹر تھے؟
امجد اسلام امجد: عمران خان۔ اگرچہ بہت سے کرکٹرز اس کو چھو کر نکلتے ہیں۔ میں ایک بار عمران سے آؤٹ ہو چکا ہوں اور کئی دفعہ اسے بولڈ کر چکا ہوں۔ پہلے وہ اتنا اچھا بیٹسمین نہیں تھا۔ اس کی بیٹنگ 70ء کے اواخر میں بہتر ہوئی ہے۔ ایک میچ میں میں نے تینوں کزنز عمران‘ ماجد اور جاوید برکی کو آؤٹ کیا ہوا ہے۔ آصف اقبال‘ سرفراز نواز‘ شفقت رانا وغیرہ کے ساتھ بھی کھیلا ہوا ہوں۔ ایک دلچسپ واقعہ سن لیں۔ ماجد خان کے بڑے بھائی اسد جہانگیر جو آئی جی سندھ کے عہدے سے ریٹائر ہوئے ہیں‘ مجھ سے ان کی 35 برس کے بعد ملاقات ہوئی۔ انہوں نے پہلا جملہ جو مجھے کہا وہ یہ تھا ’’سر! آف بریک ہو رہی اے؟‘‘
سوال: اپنے تدریسی کیریئر کے حوالے سے کیا کہنا چاہیں گے؟
امجد اسلام امجد: سارا تدریسی کیریئر ایم اے او کالج میں گزرا ہے۔ جب میں نے ایم اے او کالج جوائن کیا اس وقت کرامت حسین جعفری صاحب نئے نئے پرنسپل بنے تھے۔ 15 ستمبر 1968ء کو بطور لیکچرر میں نے اپنے کیریئر کا آغاز کیا۔ اس سے ایک دن پہلے میرا انٹرویو ہوا جو میری زندگی کا پہلا انٹرویو تھا۔ ایم اے کرنے کے بعد سول سروس کا امتحان دیا۔ کوالیفائی کر لیا تھا لیکن نمبر پیچھے تھے۔ اس لئے الحمد اﷲ افسر نہ بن سکا۔
یونیورسٹی کے زمانے میں ہی میری بہت سی نظمیں پاپولر ہو چکی تھیں۔ ایک نظم تھی ’’ہوائے شہر وفا شعاراں‘‘ یہ اینٹی ایوب خاں تھی۔ 67ء میں یہ میری پہلی آزاد نظم تھی۔ اس سے پہلے غزلیں یا پابند نظمیں لکھ چکا تھا۔
سوال: آپ نے شاعری میں کسی سے اصلاح لی؟
امجد اسلام امجد: نہیں۔
سوال: یہ فخر سے کہہ رہے ہیں یا معذرت کے انداز میں؟
امجد اسلام امجد: فخر کے ساتھ۔ میں نے کسی کی شاگردی اختیار نہیں کی۔ اگرچہ بہت سوں سے متاثر ضرور ہوا ہوں۔ ان سے بہت کچھ سیکھا بھی ہے۔ بی اے میں ’’شمع تاثیر مشاعرہ‘‘ کا جنرل سیکرٹری تھا۔ انہی دنوں حلقہ ارباب ذوق میں آنا شروع کیا۔ تھوڑے ہی عرصے بعد حلقہ کا جوائنٹ سیکرٹری اور پھر جنرل سیکرٹری منتخب ہوا۔ 1968ء میں سائیکل سے ویسپا پر آیا پھر لمبریٹا لے لیا۔ 1986ء میں پہلی کار سوزوکی خریدی۔
سوال: ٹی وی کی طرف کب آئے؟
امجد اسلام امجد: 1968-69ء میں پی ٹی وی جانا شروع کیا۔ یونیورسٹی پروگرام میں شریک ہوتا تھا۔ بی اے میں ریڈیو پر یونیورسٹی پروگرام کیا کرتا تھا۔ یہاں محمد اسلام شاہ پروڈیوسر ہوتے تھے۔ عتیق اﷲ شیخ اور جمیل ملک سے دوستی یہیں سے شروع ہوئی۔ پہلا ڈرامہ ریڈیو کے لئے لکھا۔ 73ء میں میرا پہلا ڈرامہ پنڈی ٹی وی سے چلا۔ گویا مجھے ٹی وی کو یہ باور کرانے میں پانچ سال لگے کہ میں ڈرامہ لکھ سکتا ہوں۔ اس دوران میری غزلیں اور گیت بھی ریکارڈ ہوتے رہے۔ 23 مارچ 75ء کو جب میرا ڈرامہ ’’خواب جاگتے ہیں‘‘ چل رہا تھا تو اسی روز میری شادی بھی ہو رہی تھی۔
اس کے بعد غلام عباس کے افسانے" کن رس " کی ڈرامائی تشکیل کی اور" یانصیب" کلینک لکھا۔ یہ دونوں کنور آفتاب نے پروڈیوس کئے تھے۔ 1978ء میں ریاض بٹالوی کے اخباری فیچروں پر مشتمل ایک سیریز ’’ایک حقیقت…… ایک افسانہ‘‘ میں سارے کھیل لکھے۔
سوال: شاعری بھی ساتھ ساتھ چلتی رہی؟
امجد اسلام امجد: 1961ء میں نیم ادبی قسم کے رسالوں میں چھپنا شروع ہوا۔ 1966ء میں نقوش‘ فنون‘ اوراق‘ سیپ‘ نیا دور وغیرہ میں غزلیں اور نظمیں چھپنے لگیں۔ پہلا مجموعہ اس کے بھی 8 سال کے بعدشائع ہوا۔ میں ان نوجوانوں سے جو کا تا اور لے بھاگی کے مصداق جلد شعری مجموعے چھپوا لیتے ہیں کہوں گا کہ محنت کریں‘ بہت محنت کریں تب جا کر کتاب چھپوانے کا سوچیں۔
سوال: احمد ندیم قاسمی صاحب سے ملاقات کب ہوئی؟
امجد اسلام امجد: 1965ء کے اواخر میں میری ملاقات احمد ندیم قاسمی صاحب سے ہوئی۔ اس کے بعد ان کی شفقت اور رہنمائی میرے ساتھ ساتھ رہی جس کے لئے میں ہمیشہ ان کا ممنون رہوں گا۔ قاسمی صاحب کے توسط سے ہی بڑے بڑے شاعر‘ ادیبوں اور مشاہیر سے ملنے کا موقع ملا۔ جن سے میں نے بہت کچھ سیکھا۔ خاص طور پر فلسطینی مزاحمتی شاعری کے ترجموں پر مشتمل مجموعہ ’’عکس‘‘ جو 76ء میں شائع ہوا اور اسے رائٹرز گلڈ ایوارڈ بھی ملا یہ بھی قاسمی صاحب کی صحبت کی عطا تھی۔ میری ملاقات محمد کاظم سے ہوئی جو جدید عربی زبان وادب کے بہت بڑے عالم ہیں۔ اسی طرح علی عباس جلالپوری‘ رشید ملک‘ محمد خالد اختر‘ اختر حسین جعفری سے بھی ملاقاتیں رہیں۔ ان لوگوں کی صحبتیں ہی میری تنقیدی کتاب ’’نئے پرانے‘‘ کا محرک بنی جس میں میں نے کلاسیکی شعرأ کو پڑھنے کی کوشش کی ہے۔ اب جو میری ہم عصر دوستیاں ہیں وہ اسی دور اور انہی محفلوں میں قائم ہوئی تھیں۔ ان دنوں ’’فنون‘‘ کا دفتر بائبل سوسائٹی کے سامنے اور انار کلی میں احسان دانش صاحب کے گھر کے قریب تھا۔
سوال: ڈرامہ ’’وارث‘‘ کی تخلیق کا کچھ پس منظر؟
امجد اسلام امجد: طالب علمی کے زمانے سے ہی احساس رہتا تھا کہ مخلوق کیوں کیڑے مکوڑوں کی طرح زندگی گزار کر ختم ہو جاتی ہے۔ ’’وارث‘‘ میں میں نے اسی سوال کو پیش کرنے کی کوشش کی ہے۔ ’’وارث‘‘ کی مقبولیت نے مجھے ایک عام لکھنے والے سے ایک غیرمعمولی لکھنے والا بنا دیا۔ اس کے بعد سے اب تک میں شاعری اور ڈرامہ ساتھ ساتھ لکھتا چلا آ رہا ہوں۔ کئی سالوں سے کالم بھی لکھ رہا ہوں۔
سوال: ایک تاثر یہ ہے کہ ٹی وی ڈرامہ آج تک ’’وارث‘‘ کے سحر سے نہیں نکل سکا۔ آپ کا کیا خیال ہے؟
امجد اسلام امجد: میرے خیال میں یہ کوئی ایسی غیرمعمولی بات نہیں۔ جب بھی کوئی بڑا کام ہوتا ہے اس کا سایہ فوراً بعد ہونے والے کام پر اور بعض صورتوں میں اس سے بھی زیادہ دیر تک قائم رہتا ہے۔ بالکل اسی طرح جس طرح کسی بڑے شاعر کے آنے کے بعد اس کا اثر قائم رہتا ہے۔
سوال: آپ نے کالم بھی لکھے‘ یہ تجربہ کیسا رہا ہے؟
امجد اسلام امجد: 1984ء میں ایک سال امروز اخبار میں کالم لکھے پھر امروز اخبار بند ہو گیا۔ 92ء میں روزنامہ جنگ میں لکھنا شروع کیا۔ 11 سال تک وہاں لکھتا رہا۔ پھر ایک سال ’’جناح‘‘ میں لکھا اور کئی سالوں سے روزنامہ ایکسپریس میں لکھ رہا ہوں۔ میرے کالم اس حوالے سے نمایاں حیثیت رکھتے ہیں کہ سماجی‘ ادبی‘ تاریخی حوالے سے لکھتا ہوں۔ آج کل چونکہ سیاسی کالموں پر زور ہے اس لئے میرے کالم مختلف نظر آتے ہیں۔
سوال: آپ بنیادی طور پر ایک مجلسی آدمی ہیں۔ آپ کے جملے اور چٹکلے احباب کو برسوں یاد رہتے ہیں لیکن کیا وجہ ہے کہ آپ مزاح لکھنے کی طرف نہیں آئے؟
امجد اسلام امجد: بدقسمتی سے یہ معاشرہ جس میں ہم رہ رہے ہیں اس میں زیادہ جن چیزوں کا قحط ہے ان میں سے ایک برداشت بھی ہے۔ لہٰذا آپ اگر بامقصد مزاح لکھنا چاہتے ہیں تو اس کو برداشت کرنے کے قابل بھی ہونا ضروری ہے۔ مزاح سے کسی نہ کسی دم پر پاؤں ضرور پڑتا ہے۔ ہم نے اپنے معاشرے میں شیطان اور فرشتے کی گروہ بندی تو کر دی ہے لیکن انسان درمیان سے غائب کر دیا ہے۔ اسی طرح جس طرح بلیک اینڈ وائٹ صرف بلیک اینڈ وائٹ نہیں ہے۔ زندگی اس ’’گرے ایریا‘‘ میں ہوتی ہے۔ جہاں روشنی اور تاریکی ساتھ ساتھ چلتے ہیں اور یہی وہ ایریا ہے جہاں خالص مزاح اور بامقصد طنز کے پودے جڑ پکڑتے۔
سوال: سوال تو پرانا ہے لیکن چلیں‘ آپ نثری نظم کیوں لکھتے ہیں؟
امجد اسلام امجد: اظہار کے کئی طریقے ہوتے ہیں۔ میں اسے اپنے لئے پسند نہیں کرتا۔ اکا دکا نظموں سے قطع نظر اس نوع کی تحریر نے مجھے متاثر بھی نہیں کیا۔ جس طرح نثری نظم لکھنے والوں کا حق ہے کہ وہ لکھیں یا نہ لکھیں اسی طرح پڑھنے والوں کا بھی یہ حق ہے کہ وہ نثری نظم پسند کریں یا نہ کریں۔ اس طرح کی بحث کو محشر بدایونی نے اس طرح سمیٹ دیا ہے:
اب ہوائیں ہی کریں گی روشنی کا فیصلہ!!
جس دیئے میں جان ہو گی وہ دیا رہ جائے گا
سوال: ایک بحث اکثر ہمارے ہاں چلتی ہے کہ غزل کا ماضی اور نظم کا مستقبل شاندار ہے‘ اس حوالے سے آپ کا کیا مؤقف ہے؟
امجد اسلام امجد: میں یہ سمجھتا ہوں کہ آج بھی اور آنے والے کل میں بھی اچھے غزل گو غزل کے مستقبل کو روشن رکھ سکتے ہیں۔ جہاں تک اس بات کا تعلق ہے کہ خیال کو نظم میں مربوط انداز میں پیش کیا جاتا ہے اور چونکہ یہ مستقبل میں مقبول ہونے والا طریقہ یا انداز ہے اس لئے اس کا مستقبل روشن ہے تو میں یہ کہوں گا کہ اگر غیرمعمولی صلاحیت والے نظم نگار پیدا نہ ہوئے تو یہ صنف سخن اپنی نوع یا ساخت کی وجہ سے کوئی اعلیٰ مقام نہ حاصل کر سکے گی۔
سوال: مزاحمتی اور احتجاجی ادب میں کتنا فرق ہے؟
امجد اسلام امجد: مزاحمتی ادب تاریخی حوالے سے انہی قوموں یا علاقوں میں پیدا ہوتا ہے جہاں کے عوام کسی غیرملکی یا زبردستی سے ٹھونسے گئے نظریے کے خلاف ردعمل کے طور پر خود بھی مزاحمت کر رہے ہوں۔ بصورت دیگر باقی کا سارا ادب احتجاجی ادب ہی کہلائے گا۔
سوال: ہم بحیثیت قوم جس بحران سے گزر رے ہیں اس دوران اس حوالے سے تخلیق پانے والے نثری ومثنوی تخلیقات مزاحمتی ادب کہلائیں گی یا احتجاجی؟
امجد اسلام امجد: یہ زیادہ سے زیادہ احتجاجی ادب ہے۔ اس کا مزاحمتی ادب سے کوئی تعلق نہیں۔ یہاں اس بات کی وضاحت بھی ضروری ہے کہ ادیب اور سوچنے والے لوگ اپنے موجودہ نظاموں کے خلاف احتجاج کرتے چلے آئے ہیں کہ دراصل یہی رویہ ہر زبان وادب کی جان ہوتا ہے۔
سوال: ایک صاحب کا کہنا ہے کہ بڑا ادب‘ ترقی پسند تخلیق کر پائے نہ اسلام پسند؟
امجد اسلام امجد: انجمن ترقی پسند مصنّفین تو ختم ہو چکی‘ ترقی پسند تحریک جاری ہے۔ ویسے میں ذاتی طور پر ادب کو اس طرح کے حصوں میں تقسیم کرنے کے حق میں نہیں ہوں۔ اگر کوئی اپنے کرافٹ کو اچھی طرح سمجھتا اور جانتا ہو تو وہ اچھا ادب تخلیق کر سکتا ہے۔ اس کی بہت سی مثالیں ہمارے اردو ادب میں موجود ہے۔
سوال: اردو میں سفرناموں کی بہتات نے اس صنف کو کمزور نہیں کر دیا؟
امجد اسلام امجد: کسی بھی چیز میں جب دودھ کی لسی بنائیں گے تو اس طرح کی صورت حال تو سامنے آئے گی۔ اب غزل بھی بری لکھی جا رہی ہے۔ سفرناموں کی بہتات کے باوجود اچھا لکھنے والے انگلیوں پر گنے جا سکتے ہیں۔ جدید سفرناموں میں مستنصر حسین تارڑ‘ عطاء الحق قاسمی‘ مختار مسعود بہت اچھے سفرنامہ نگار ہیں۔
سوال: شہزاد احمد نے کہا ہے کہ اردو کو سرکاری زبان نہیں بنانا تو کم ازکم اس کا اعلان ہی کر دیا جائے‘ آپ اس ضمن میں کیا کہیں گے؟
امجد اسلام امجد: میں ان کے کہے کی تائید کرتا ہوں۔ ان حاکموں کو شرم آنی چاہئے جنہوں نے نفاذ اردو کے وعدے کئے۔
سوال: ایم اے او کالج میں تدریس سے آغاز کرنے والا سفر‘ ڈائریکٹر نصاب پر آ کر ختم ہوتا ہے‘ کیسا رہا یہ سفر‘ کون سا پڑاؤ آسان اور زیادہ خوش کن تھا؟
امجد اسلام امجد: ہر سفر میں سب کے اپنے اپنے مزے تھے۔ پڑھانے کے علاوہ تین چار جگہوں پر کام کیا تھا۔ کوئی جگہ ایسی نہ تھی جہاں میں نے ’’ان ایزی‘‘ محسوس کیا ہو۔
سوال: بطور ایک ماہر تعلیم بتایئے گا کہ ہمارا بنیادی تعلیمی مسئلہ کیا ہے؟
امجد اسلام امجد: ہم قومی نصب العین متعین نہیں کر پائے۔ آزادی کے باوجود انگریزی کی Legacy کو برقرار رکھا گیا جس کا مقصد کلرک پیدا کرنا تھا۔ جب ہم پاکستان میں زندہ اور خوبصورت معاشرہ بنانے کا سوچیں گے جو اپنے ماضی کے زندہ حصے سے رشتہ آرا ہوں گے جو حال کی تفہیم کر سکے اور مستقبل کے لئے ایسے خواب دیکھ سکے جو قومی امنگوں کے ترجمان ہوں تو جو بھی نظام تعلیم ان خطوط پر استوار ہو وہ یقینا مثالی‘ تعمیری اور تخلیقی ہو گا۔
سوال: آپ کے خیال میں وطن عزیز کو سب سے زیادہ نقصان کس طبقے نے پہنچایا؟
امجد اسلام امجد: کسی ایک طبقے پر سارا الزام رکھنا حقائق کے خلاف ہو گا۔ اس میں سیاست دان‘ فوج اور جدید سرمایہ دار طبقہ اسی ترتیب سے شامل ہیں اور ان میں اندرونی لڑائیوں کے باوجود عوام کے خلاف کارروائیوں کے ضمن میں ایک طرح کی مفاہمت پائی جاتی ہے۔
یہاں میں ایک چیز کی وضاحت ضرور کرنا چاہوں گا کہ ان طبقوں کے استحصال کی ایک وجہ ہمارے عوام کی جہالت‘ غربت اور غلامی کے اثرات بھی ہیں۔ سو اگر ہم صدق دل سے اپنے معاشرے کی بھلائی اور ترقی چاہتے ہیں تو ہمیں تالی دونوں ہاتھوں سے بجانا ہو گی یعنی ظالم طبقے کے استحصال کے خلاف آواز اٹھانے کے ساتھ ساتھ عوامی شعور‘ تعلیم اور خوشحالی پر بھی زور دینا ہو گا۔ بصورت دیگر استحصال کا یہ روپ بدل بدل کر اسی طرح ہمارے معاشرے کو تہس نہس کرتا رہے گا۔
سوال: ارض پاک کی وسعتوں میں اب جو جمہوری موسم اترا ہوا ہے اس کی خوشبو آپ کو کیسی لگ رہی ہے؟
امجد اسلام امجد: گزشتہ 50 برس سے یہی ڈرامہ تین بار کھیلا جاتا رہا ہے۔ ایک فوجی آمر دس بارہ سال حکومت کر کے مسائل کا ڈھیر چھوڑ کر منظر سے ہٹتا ہے اور ہمارے نیم تربیت یافتہ سیاست دان اس تجربے سے کچھ سیکھنے کے بجائے اسی ڈرامے کی دوسری اور پھر تیسری قسط چلواتے ہیں۔ سو اگر موجودہ جمہوریت کی یہ روشنی ہمارے آج کے سیاست دانوں کے دماغ روشن نہ کر سکی تو مجھے ڈر ہے کہ خدانخواستہ ہمیں پھر اسی ڈرامے کی ایک نئی قسط نہ دیکھنی پڑے۔
سوال: آپ نے مزاح لکھا تو نہیں سنا اور دیکھا تو ہو گا۔ ہمارے مزاح نگاروں کو کون سمجھائے کہ میاں بیوی کے جھگڑوں کے علاوہ بھی بہت سے موضوعات مزاح کے لئے موجود ہیں؟
امجد اسلام امجد: دوسرے شعبوں کی طرح مزاح نگاری میں بھی دو نمبر لوگ گھس آئے ہیں۔ جو مزاح اور پھکڑ پن کا فرق نہیں جانتے۔ آج نثر میں مشتاق احمد یوسفی اور نظم میں انور مسعود اور چند ایک مثالیں ایسی ہیں جن کی طرف ہمیں دیکھنا چاہئے۔ دو نمبر لوگوں کو ختم کرنے کا بہترین طریقہ تو یہ ہے کہ ایک نمبر لوگوں کو سامنے لایا جائے۔




 

Aslam Lodhi
About the Author: Aslam Lodhi Read More Articles by Aslam Lodhi: 781 Articles with 665611 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.