میرے استاد، میرے بے لوث دوست اور میرے محسن امجد اسلام امجد

تحریر: محمد سعید جاوید
اس روز امجداسلام امجد خوب سج دھج کے اپنے رب کے حضور جانے کے لئے تیار ہوئے تھے۔ تب بظاہر وہ بہت سکون اور اطمینان سے محو استراحت تھے ، لگتا تھا کہ جیسے اس روز انہوں نے آ خری قسط ادا کر کے اپنی زندگی کے سارے قرض اتار دیئے ہوں ۔

ابھی چند ہی روز قبل وہ حرمین شریف ہو کر آئے تھے، جہاں انہوں نے مسجد نبوی کے صحن میں روضہ رسول کے سامنے وہیل چئیرپر بیٹھ کر آبدیدہ آنکھوں کے ساتھ جذبات سے بھرائی ہوئی آواز میں اپنی ہی لکھی ہوئی نبی ﷺ کی شان میں ایک نعت پڑھی تو وہاں موجود سامعین کی آنکھوں سے آنسو بہہ نکلے اور بے ساختہ ان کے ہونٹوں سے امجد صاحب کی صحت اور سلامتی کی دعا نکلی۔ وہ اس دن جسمانی طور پر کمزور دکھائی دیئے۔ لیکن اﷲ کو ان کی یہ ادا اس قدر پسند آئی کہ انہیں اپنے پاس بلانے کا فیصلہ کر لیا ۔ارض مقدس سے واپس آ کر انہوں نے ابھی ٹھیک طرح سے اپنا سامان بھی نہیں کھولا تھا کہ اﷲ کی جانب سے بلاوہ آن پہنچا، حیل و حجت کی گنجائش نہ تھی، ان کا رخت سفر ایک بار پھر باندھ چکا تھا ۔سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر وہ اس منزل کی جانب روانہ ہوگئے ،جہاں سے واپسی ممکن نہیں ہوتی۔

ہر وقت ہنسنے، مسکرانے اور قہقہے بکھیرنے والے امجداسلام امجداس دن بہت خاموش تھے۔ جب ایسی پیشیاں پڑتی ہیں تو وہاں بڑے ادب ، احترام ، عاجزی اورشائستگی کے ساتھ حاضر ہونا پڑتا ہے۔ بڑے بھاری اور دکھی دل کے ساتھ ان کوآخری سفر پر روانہ کرکے میں سارا راستہ سوچتا رہا کہ کیا واقعی ہم اب وہ میٹھی اور قہقہوں سے بھرپور گفتگو دوبارہ نہیں سن سکیں گے۔ گھر پہنچا تو یادوں کا ایک سیلاب امڈ آیا ، حسرت سے اس جگہ کو دیکھتا رہا، جہاں وہ میرے گھر بیٹھا کرتے تھے۔ پھر میں اپنی تصویروں کی البم کھول کر بیٹھ گیا اور ان کی تصویریں دیکھنے لگا تو آنکھیں بھر آئیں اور میں حال کی سیڑھیوں سے اتر کر کچھ برس پیچھے چلا گیا۔

2013ء سے پہلے میں امجد صاحب کو ایک با کمال شاعر عظیم مصنف اور بہترین ڈرامہ نگار کی حیثیت سے تو جانتا تھا لیکن ان سے ملاقات نہیں ہو پائی تھی اس لئے ان کی بشری خوبیاں سامنے نہ آ سکیں، کیونکہ میں پچھلے پچیس برس سے حصول روزگار کے لیے بیرون ملک مقیم تھا۔ پھر جب میری پاکستان واپسی ہوئی ۔تو قدرتی طور پر میری دلی خواہش تھی کہ کہ میری اس اولین تحریرکے دیباچہ کے لئے وطن عزیزکے نامور شعراء، ادباء اور صحافیوں میں سے کوئی میری رہبری کے فرائض انجام دے دے۔ اس سلسلے میں اردوصحافت کے روشن مینار جناب الطاف حسن قریشی اور تحقیق کی دنیا کے ہر دلعزیز محقق جناب محمد حنیف شاہد نے بڑی محبت سے میری یہ خواہش پوری کر دی۔اپنے ایک دوست کے توسط سے یہ خواہش اپنے دل میں لیے پاکستان کے نامور ادیب ،شاعر اور بہترین ڈرامہ نگار جناب امجد اسلام امجد کے گھر بھی جا پہنچے۔ انہوں نے بہت خوشدلی سے ہمیں خوش آمدید کہا ۔ اپنی بے پایاں مصروفیات سے وقت نکال کر وہ ہم سے ایسے ملے جیسے صدیوں سے بچھڑے ہوئے دوست ملتے ہیں ۔ ہم نے اپنا مدعا بیان کیا تو انہوں نے نہ صرف کتاب کا دیباچہ لکھنے کی حامی بھر لی بلکہ ہر طرح کے تعاون کی یقین دہانی بھی کرواتے ہوئے اپنی بیش قیمت آراء سے بھی نواز دیا۔ جس میں سب سے پہلا مشورہ انہوں نے جو دیا وہ یہ تھا کہ میں اپنی کتاب کو ، جس کا نام میں نے ـ’’ لوٹا رہا ہوں میں ‘‘ تجویز کیا تھا اور اسی نام سے اس کا ٹائٹل بھی بنوا لیا تھا ، کسی اور نام سے بدل دوں۔ اس کی انہوں نے جو توضیح دی وہ مجھے بہت مناسب لگی اور مجھے احساس ہوا کہ واقعی یہ نام پاکستانی معاشرے میں الجھن اور تمسخر کا باعث بنے گا۔میں نے عرض کیا کہ پھر آپ کوئی نام بتا دیں۔ وہ کہنے لگے۔ سعید صاحب اس کا دوسرا نام بھی آپ ہی رکھیں گے کیونکہ اگر میں اس کا نام تجویز کروں گا تو آپ کو ساری زندگی قلق رہے گا کہ آپ کی تحریر کردہ کتاب کا نام کسی دوسرے نے رکھا تھا۔ اس کے بعدمیری نظروں میں ان کا احترام اور بڑھ گیا ۔ کہنے لگے کہ میں آپ کی یہ مدد کر سکتا ہوں کہ آپ اپنی پسند کے کچھ نام لے آئیں تو میں ان میں سے ایک نام منتخب کر دوں گا۔اگلے دن میں نے کوئی تیس کے قریب ناموں کی فہرست بنا کر انہیں پیش کردی۔جومیرے مطابق اس کتاب کے نام ہو سکتے تھے۔ انہوں نے ان ناموں کو بغور دیکھا اور ان میں سے ایک نام ’’اچھی گزر گئی ‘‘ کا انتخاب کیا ۔کہنے لگے یہ مناسب رہے گا ۔کیونکہ اس میں خدا کا شکرانہ بھی ادا ہوتاہے، کیونکہ آپ کی کتاب ایک اوسط زندگی کا احوال اور ایک عام سے انسان کی جہد مسلسل کی داستان بھی ہے۔غرض کہ جناب امجد اسلام امجد صاحب کے مشورے کے مطابق کتاب کا ایک نیا ٹائٹل بنوایا گیا ۔ اس دوران نہ صرف انہوں نے کتاب کا بغور مطالعہ کرلیا بلکہ ایک خوبصورت دیباچہ بھی تحریر کردیا جس میں انہوں نے اپنی مشہور زمانہ نظم ’’ سیلف میڈ لوگوں کا المیہ بھی شامل کردی۔ اس کے بعد انہوں نے فرمایا یہ میری طرف سے آپ کی کتاب کے لئے ایک تحفہ ہے۔میں شکر گزار نظروں سے ان کو دیکھتا رہا اور وہ مسکراتے رہے۔

اس کے بعد ہم دونوں نے ایک دوسرے کو اچھے دوستوں کی طرح اپنا لیا۔ اور ہم باقاعدگی سے اپنی خوشیوں اور غم میں شریک ہوتے رہے۔ ان کا اکثر میرے گھر میں آنا جانا لگا رہتا تھا، اور بھی مشترکہ دوست اس محفل میں موجود ہوتے تھے۔ ان کی آپس میں خوش گپیاں چلتی رہتیں ۔ اس دوران سب ہنستے مسکراتے تھے لیکن سب سے بلند قہقہہ امجد اسلام امجد کا ہی ہوتا تھا، اپنے ہم عصروں ، خصوصاً جب وہ الطاف حسن قریشی کے ساتھ ہوتے تو پرانی یادیں تازہ کر کے خوب فرحاں و شاداں ہوتے۔ وہ جہاں بیٹھتے تھے اپنی خوبصورت باتوں سے سب کو اپنا مداح بنا لیتے تھے اور خود محفل کی جان بن جایا کرتے تھے۔عام زندگی میں بھی ان کا رویہ بہت شفقت بھرا ، عاجزانہ، دوستانہ اور حقیقت پسندانہ ہوتا۔ ہر ایک کی عزت کرتے تھے اور پیار سے اس کا نام لے کر بلاتے ۔اکثر شاعروں کے بر عکس وہ کبھی بھی اس وقت تک اپنا خوبصورت کلام نہ سناتے تھے جب تک کہ ان کو اس کے لئے کہا نہ جاتا ۔ پھر جب شروع کرتے تو ایک سماں باندھ دیتے تھے اور پھر یہ کیسے ممکن ہے کہ ان کا کلام سنے بغیر کسی محفل کا اختتام ہو جائے ۔ عام حالات میں وہ اتنے ـــ’’غیر شاعر‘‘ ہوتے تھے کہ وہ کسی طرح سے بھی امجد اسلام امجد نہیں لگتے تھے ۔ بلکہ دنیا داری ، ہنسی مذاق اور روز مرہ کی گفتگومیں کبھی اس بات کا احساس ہی نہیں ہوتے تھے اور نہ ہی ان میں کسی قسم کا احساس تفاخر پایا جاتا تھا۔

جب بھی ان کے گھر جانا ہوتا تو وہ بڑے تپاک سے ملتے اور اپنی مصروفیات بھول کر زیادہ سے زیادہ وقت مہمانوں کے ساتھ رہتے۔ ناگواری کا کوئی تاثر ان کے چہرے پر نہ آتا ۔ان کی جو خوبی مجھے بہت بعد میں جا کر سمجھ آئی، وہ یہ تھی کہ جو کوئی بھی ان سے ملتا ان کے اخلاق اور اخلاص کا گرویدہ ہوجاتا ہے، پھر وہ ایک مدت تک یہی سمجھتارہتا تھا کہ وہ صرف میرے ہی دوست ہیں ۔ میں بھی بہت عرصے تک ایسا ہی محسوس کرتا رہا ۔ بعد میں پتہ چلا کہ ان کے تو ہزاروں مداح ہیں اور ہر ایک کو انہوں نے ایک دوست کا رتبہ دے رکھا ہے۔ میں نے جب ان کو اپنی کتاب کا مسودہ دیباچہ لکھنے کے لئے دیا تو اس میں شامل کئی اشعار ان کے اپنے ہی تھے جن کا مجھے علم نہ تھا اور ان میں سے بھی کچھ میں نے غلط لکھ دئیے تھے۔ یہ ان کی عظمت اور بڑا پن تھا کہ انہوں نے اس کا برا نہیں منایا اور چپ چاپ ان کی تصحیح کر دی۔

انہوں نے جو نظمیں، غزلیں ، نعتیں اور دوسری شاعری کی ،وہ ہر ایک صاحب دل کی زبان اور دل پر نقش ہوگئی ۔اور وہ گفتگو کے دوران اکثر ان کی شاعری سے حوالے دیا کرتے تھے۔ ان کی ہر نظم ایک الگ تاثر لئے ہوتی ۔ان میں سے کچھ تو اتنی پر اثر اور جذباتی ہیں کہ انسان گھنٹوں بیٹھا اس کی لفاظی اور جملوں کی خوبصورت ترتیب کے بارے میں سوچتا رہتا ہے۔ میرے کچھ دوستوں کو تو ان کی طویل نظمیں اب تک یاد ہیں اور انہیں سناتے وقت جذبات کی رو میں بہہ جاتے ہیں ۔ نوجوانوں نے ان کی تحریروں سے بڑا کچھ سیکھا ہے۔ جب وہ لاہور یونیورسٹی میں پروفیسر تھے تو انتظامیہ نے ان کو شور و غل سے دور ایک علیحدہ کمرے کا انتظام کر دیا تھا جہاں وہ سکون سے بیٹھ کر اپنی شاعری کی نوک پلک درست کیا کرتے تھے۔

ڈرامہ نگاری کی بات نکلی ہے تو ان کا شاہکار ڈرامہ ’’ وارث ‘‘ کسے بھول سکتا ہے۔ جس کے نشر ہونے کے وقت سارے شہر سنسان ہو جایا کرتے تھے ۔ میں تو ان دنوں بیرون ملک مقیم تھا ،اس لئے اس زمانے کے دستور کے مطابق ہمیں تو کوئی ایک آدھ ہفتے کے بعد اس کی قسط ویڈیو پر دیکھنا نصیب ہوتی تھی۔ تب تک بے چینی سے اس کی کیسٹ کا انتظار رہتا تھا۔اس کی چند قسطیں دیکھنے کے بعد اندازہ ہو چکا تھا کہ یہ ڈرامہ اتنا مقبول کیوں ہوا ۔ اس کی کہانی اور منظر نگاری پر امجد اسلام امجد کی گرفت ہی بہت مضبوط تھی۔ اس ڈرامے میں چوہدری حشمت کا کردار ادا کرنے والا محبوب عالم لڑکپن سے ہی میرا بہت پیارا دوست تھا۔ وہ عالم شباب میں ہی اس جہاں سے رخصت ہوگیا تھا۔امجد صاحب سے جب محبوب عالم سے اپنی اس نسبت اور دوستی کا ذکر ہوا تو وہ بھی بہت رنجیدہ نظر آئے۔

چونکہ میری پہلی کتاب کی تیاری میں ان کی مدد اور تجاویز شامل حال رہیں ، اس لئے میں بعد میں بھی اپنی شائع ہونے والی ہر کتاب ان کو پیش کرتا رہا ہوں ۔ اسی طرح وہ اپنی نئی کتاب مجھے عنایت کیا کرتے تھے۔

امجد صاحب پر لکھنے کے لئے بہت کچھ ہے اور بہت سے دوست ان پر لکھیں گے بھی۔ لیکن سب میں ایک قدر تو یقیناً مشترک ہوگی کہ ہر کوئی ان کی شاعری کے ساتھ ساتھ ان کے اخلاق، بہترین کردار اور خلوص کا ذکرضرور کرے گا۔آج جبکہ وہ ہمارے درمیان نہیں ہیں تو میں ان کے بغیر بہت اداس ہوں اور ان کی کمی شدت سے محسوس کر رہا ہوں ۔ جب بھی کسی محفل میں جاتا تھا تو وہاں سب شریک محفل یہی کہتے تھے کہ وہ ان کے بہت عزیز دوست ہیں ، لیکن آج ان کو کھو کر وہ سب ہی دوست آزردہ ہیں۔ دعا ہے کہ اﷲ ان کو اپنی رحمتوں کے حصار میں لے کر ان کی آخرت کا سفر آسان کردے-
نوٹ۔ میری کتاب کے لئے انہوں نے یہ نظم مجھے دی تھی۔

سیلف میڈ لوگوں کا المیہ
یہ نہیں کہ ان کو اِس روز وشب کی کاہش کا
کچھ صلہ نہیں ملتا
مرنے والی آسوں کا خوں بہا نہیں ملتا
زندگی کے دامن میں جس قدر بھی خوشیاں ہیں
سب ہی ہاتھ آتی ہیں، سب ہی مل بھی جاتی ہیں
وقت پر نہیں آتیں، وقت پر نہیں ملتیں
یعنی اِن کو محنت کا اجر مِل تو جاتا ہے
لیکن اس طرح جیسے
قرض کی رقم کوئی، قسط قسط ہو جائے
محمد سعید جاوید نے یہ قسطیں ادا بھی کی ہیں او روصول بھی اور اس ساری کہانی کو انھوں نے ہمارے لیے قلم بند بھی کر دیا ہے۔مجھے یقین ہے کہ میری طرح آپ بھی اس کتاب کے مطالعے سے لطف اندوز ہوں گے۔ آخر میں پیرومرشد مرزا غالب کا ایک شعر محمد سعید جاوید اور آپ سب کی نذر ؂
ہر نفَس ہر یک نَفس جاتا ہے قسطِ عمر میں
حیف ہے اُن پر جو کہویں ’’زندگانی مفت ہے‘‘


امجد اسلام امجد
ستارۂ امتیاز
صدارتی تمغہ برائے حسن کارکردگی

 

Aslam Lodhi
About the Author: Aslam Lodhi Read More Articles by Aslam Lodhi: 781 Articles with 665678 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.