مفتی مجیب اشرف اعظمی رحمۃ اللہ علیہ: ایک عظیم شخصیت

مفتی مجیب اشرف اعظمی رحمۃ اللہ علیہ
لاک ڈاؤں کے ہوش ربا دور میں اہل سنت کے جن مقتدر علماے کرام نے اس جہان فانی کو خیر باد کہا ان میں ایک اہم نام اشرف الفقہا ، شیخ طریقت حضرت علامہ مفتی محمد مجیب اشرف اعظمی رضوی رحمۃ اللہ علیہ کا ہے ،جہان اہل سنت میں آپ کی شخصیت محتاج تعارف نہیں ،آپ گونا گوں محاسن وکمالات کے حامل، علم وعمل کے جامع،خلوص وللہیت کے پیکر ، فقہ وافتا کے رمز شناس اوردعوتِ دین کے بیکراں جذبات سے سرشار تھے۔آپ کی علمی ودینی خدمات کا دائرہ انتہائی وسیع ہے،آپ صحیح معنوں میں ہمہ جہت شخصیت کے حامل تھے، آپ اہل سنت کے تمام حلقوں میں اداب واحترام کی نگاہ سے دیکھے جاتے تھے ، علمی وجاہت کا یہ عالم تھا کہ جس محفل میں ہو تے صدر نشیں ہو تے ، جس علاقے میں تشریف لے جاتے وہاں عشق رسول کی خوشبوئیں بکھیرتے، اہل سنت کے استحکام کے لیے تدبریں فرماتے ،حسب ضرورت مساجد، مدارس اور مکاتب قائم فر ماتے ، وہاں کے علما کو منظم کر نے کی کوشش فر ماتے ، بدمذہبوں کی تردید وابطال کے لیے حتی الوسع جد وجہد فر ماتے اور مسلک اعلیٰ حضرت کی تر ویج و اشاعت کے لیے ہمہ وقت کوشاں رہتے، گویا آپ کی زندگی کا ایک ایک لمحہ دین متین کی سرخ روئی اور علم وادب کی تر ویج واشاعت کے لیے وقف تھا ۔

علم وادب کی سر زمین ، مدینۃ العلماء گھوسی آپ کا آبائی وطن تھا، اپنے عہد کے بڑے جلیل القدر اور عبقری اساتذہ کی درس گاہوں سے آپ نے کسبِ فیض کیا تھا ، جس کے اثرات آپ کی شخصیت میں نمایاں تھے ، شارح بخاری حضرت علامہ مفتی شریف الحق امجدی رحمۃ اللہ علیہ ، شہزادۂ صدر الشریعہ حضرت علامہ رضاء المصطفیٰ امجدی رحمۃ اللہ علیہ ، شیخ العلما مفتی غلا جیلانی علیہ الرحمہ ، حضرت علامہ مفتی ثناء اللہ امجدی علیہ الرحمہ ، علامہ مفتی تحسین رضا خاں صاحب بریلوی علیہ الرحمہ جیسے کبار اساتذہ کی توجہات اور فیوض و بر کات نے آپ کی شخصیت میں چار چاند لگادیے تھے ، سعادت مندی آپ کے اندر فطری طور پر ودیعت تھی ۔

تحصیل علم سے فراغت کے بعد آپ نے جب میدان عمل میں قدم رکھا تو کام یابیاں آپ کے قدم چومتی گئیں ، امامت ، خطابت ،تدریس ، تصنیف ، فتاویٰ نویسی ، دعوت وتبلیغ ، تنظیم وتحریک ہر میدان میں آپ کے گراں قدر کار نامے انجام دیے ،جامعہ عر بیہ ناگ پور اور جامعہ امجدیہ ناگ پور میں آپ نے تدریس کی بساط بچھائی اور علم کا دستر خوان سجا یا ، آپ کے خوان علم سے سیکڑوں تلامذہ نے خوب خوب استفادہ کیا ، آج آپ کے تلامذہ کی ایک بڑی جماعت ملک وبیرون ملک دین وسنیت کے بقا واستحکام کے لیے کام کررہے ہیں ، تلامذہ کی ایک بڑی جماعت اہم درس گاہوں کی مسند تدریس کی رونق بڑھارہے ہیں۔

آپ تاج دار اہل سنت ،مفتی اعظم ہند ، علامہ مصطفیٰ رضا نوری بریلوی قدس سرہ کے دست گرفتہ تھے ، تاحین ِ حیات ان کا گن گاتے رہے ، ان کے خانوادے کے ساتھ اپنی وابستگی کو مضبوط رکھا ، ان کے مشن کو اپنا مشن بنایا ، ان کی تحریک کو اپنی تحریک بناکر اس کو سینچنے اور سنوار نے کاکام کیا ، ان کی نسبت کو اپنے لیے افتخار کا باعث سمجھا ، فکررضا کی پاسبانی کاکام بڑے ذوق شوق کے ساتھ کیا ، کہیں بھی مصلحتوں کے سایے میں اپنے آپ کو کمزور ہو نے نہیں دیا ، جب ضرورت پڑی جرأ ت وہمت کے ساتھ میدان عمل میں اتر پڑے اور معر کہ سر کر کے ہی دم لیا، آپ کا شمار دیار ہند کےان جیالوں میں ہو تا ہے جنھوں وقتی اور جذباتی ہنگاموں سے اپنا دامن بچاکر بہت ہی اعتدال کے ساتھ اپنے دینی ، علمی اور تبلیغی مشن کو آگے بڑھانے میں اپنی ساری توانائی صرف کی ، ور نہ غیر ضروری ہنگاموں میں پڑ کر کتنے علما نے اپنے آپ ضائع کر لیا، اپنا بھی نقصان کیا اور جماعت کو بھی مشکل حالات کا شکار بنادیا۔
حضرت اشرف الفقہا کی ایک بڑی خوبی یہ تھی کہ وہ مشکل حالات کو اپنے خدا داد فکر وبصیرت سے اپنے موافق کر لیا کرتھے ، معاملہ فہمی اور قوت فیصلہ ایک بڑی خوبی ہوا کرتی ہے ، خاص طور سے جن افراد کے کاندھوں پر قوم کی قیادت ورہنمائی کا ذمہ ہو ،انھیں بہر حال معاملہ فہم ، فکر وتدبر کا حامل اور بے پناہ ضبط وتحمل کا عادی ہو نا چاہیے ، ور نہ بسا اوقات عجلت پسندی اور ناعاقبت اندیشی سے بڑا دینی وجماعتی نقصان ہو جاتا ہے۔ حضرت اشرف الفقہا فکر وتدبر اور ضبط وتحمل کے اعلیٰ معیار پر فائز تھے ، آپ کی قربت سے فیض یاب ہو نے والے متعدد علما نے بتایا کہ آپ مشکل سے مشکل حالات پر بھی قابو پا نے پر قادر تھے ، معاملہ فہمی میں اپنی مثال آپ تھے ، خاص طور سے آپ کی سر پرستی میں چلنے والے اداروں میں جب نامساعد حالات پیدا ہو تے تو آپ کو اطلاع دی جاتی ،آپ مکمل ذمے داری کے ساتھ ان معاملات کو حل فرماتے، حکمت وتدبر سے کام لیتے ہو ئے بڑی آسانی کے ساتھ مسائل کا تصفیہ فر مادیتے۔
آپ کےحلقہ بگوشوں کا بیان ہے کہ آپ اساتذہ کے انتخاب میں بھی انفرادی شان رکھتے تھے،شخصیت شناسی کا جوہر آپ کے اندر بدرجۂ اتم موجود تھا ، دوچار مجلسوں سے آپ اساتذہ کی خوبیوں کا پتہ لگالیتے تھے، تقرری سے قبل خود مطمئن ہو لیتے ، پھر تقرری کا عمل مکمل فرماتے ،اصاغر علما کی حوصلہ افزائی میں فراخ دلی سے کام لیتے ، خاص طور سے نوجوان علما کو حوصلہ افزا کلمات کے ساتھ ساتھ دعاؤ ں سے بھی نواز تے ، ان کی حسن کار کردگی کو سراہتے اور مزید بہتر کار کردگی کے لیے نصیحتیں فر ماتے ، یقینا آپ کا یہ وصف آپ کو اپنے اقران ومعاصرین میں ممتاز کرتا ہے ۔

عام طور جو علما تبلیغی مصروفیات اور کسی ادارے کی قیادت وسر براہی کی ذمے داریوں میں گھرے ہو تے ہیں ، ان کے لیے تصنیف وتالیف کا کام مشکل ہو تا ہے، کیوں کہ تصنیف وتالیف کے لیے جس اطمینا ن وسکون اور یکسو ئی کی ضرورت ہو تی ہے ، وہ انھیں میسر نہیں ہوپاتی ، خاص طور سے شیوخ طریقت جو اکثر مختلف علاقوں کے دورے پر ہوتے ہیں ، ان کے لیے یہ کام اور مشکل ہو جاتا ہے ۔ حضرت اشرف الفقہا کی دینی ،علمی اور تبلیغی مصروفیات کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہے ، متعدد اداروں کی صحیح معنوں میں سر پرستی ، خود ایک اہم ادارے کی قیادت وسربراہی ،تدریسی وانتظامی ذمے داریاں ، مختلف علاقوں کی دینی ومذہبی تقریبات میں شرکت ، ان ساری اہم مصروفیات کے باوجود آپ قلم حق رقم سے درج ذیل تصانیف معرض وجود میں آئیں ، جو یقینا آپ کی علم دوستی اور علمی ذوق وشوق کا آئینہ دار ہے :
[۱]تحسین العیادۃ [بیمارپُرسی کی خوبیاں][۲]حضور مفتیِ اعظم پیکرِ استقامت وکرامت [۳] خطبات کولمبو[۲۰۰۲ء میں سری لنکا کے تبلیغی دورے میں ہوئے خطبات کامجموعہ][۴]ارشاد المرشد یعنی بیعت کی حقیقت [۵]مسائل سجدۂ سہو [۶]تابشِ انوار مفتی اعظم۔ یہ کتابیں ابھی غیر مطبوعہ ہیں:[۱]المرویات الرضویہ فی الاحادیث النبویہ[۲]تنویرالعین [انگوٹھابوسی کا شرعی ثبوت][۴]تنویرالتوقیر ترجمہ الصلاۃ علی البشیر النذی۔[ مضمون مولانا غلام مصطفی قادری برکاتی ، سہ ماہی پیغام مصطفیٰ اتر دیناج پور شمارہ جنوری تا مارچ ۲۰۲۱ء]

حضرت اشرف الفقہا علیہ الرحمہ جماعت اہل سنت کے ایک معتمد مفتی تھے، فقہ وافتا سے آپ کا گہرا لگاؤ تھا ،آپ کی فقہی کمالات کے اعتراف اور اعزاز میں ۲۰۰۹ء میں حضرت علامہ ارشد القادری علیہ الرحمۃ والرضوان کے عرس کے موقع پر قائد اہل سنت ایوارڈ اور ’’ اشرف الفقہا ‘‘ تکریمی خطاب سے نوازا گیا ،یہ تکریمی خطاب آپ کی شخصیت پر اس قدر بھایا کہ آج ہر جانب آپ کو اسی خطاب سے یاد کیا جاتا ہے ۔ مسرت کی ہےکئی جلدوں پر مشتمل آپ آپ کے گراں قدر فتاوے زیر ترتیب ہیں ، اللہ کرے یہ فتاوے جلد منظر عام پر آئیں ، اور متلاشیان حق کو ان سے استفادے کا موقع ملے۔

جامعہ اشرفیہ مبار ک پور میں مجلس شرعی کے زیر اہتمام منعقد ہو نے والے فقہی سیمیناروں میں بارہاان کی زیارت اور ملاقات کا شرف حاصل ہوا، باوقار،بارعب اور متانت وسنجید گی ، خوش روئی وخوش اخلاقی کا پیکر پایا ،سمیناروں میں کئی بار آپ کی علمی گفتگو ، گراں قدر تاثرات اور مثبت خیالات بھی سننے کاموقع ملا ، ہر بار متاثر ہوا اور ان کا احترام دل میں بڑھتا گیا ، اہل علم کی یہی شان بھی ہوا کرتی ہے ۔
حضرت اشرف الفقہا علیہ الرحمہ اب بظاہر ہمارے در میان نہیں ہیں ، لیکن ان کا مشن ، ان کی تحریک ، ان کے ادارے ، ان کی تعمیر کردہ مساجد ومکاتب انہیں ہمیشہ ہمارے در میاں زندہ رکھیں گے ، ان کے ناقابل فراموش دینی و علمی کار نامے ہمیشہ زندہ وتابندہ رہیں گے ۔


 

محمد ساجدرضا مصباحی
About the Author: محمد ساجدرضا مصباحی Read More Articles by محمد ساجدرضا مصباحی: 56 Articles with 94094 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.