ام المومنین حضرت ام حبیہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا حیات مبارکہ کے تابندہ نقوش

ازواج مطہرات رضوان اللہ تعالیٰ علیھن اجمعین دنیا کی وہ خوش نصیب اور پاکیزہ ترین خواتین ہیں ، جنھیں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے حبالۂ عقد میں آنے کا شرف حاصل ہوا، قرآن کریم متعدد مقامات پر ازواج مطہرات کا ذکر جمیل موجود ہے ، سورۃ الاحزاب میں ازواج مطہرات کو’’امہات المومنین ‘‘ قرار دیا گیا ہے ، ارشاد فر مایا گیا :
اَلنَّبِيُّ اَوْلٰى بِالْمُؤْمِنِيْنَ مِنْ اَنْفُسِهِمْ وَ اَزْوَاجُهٗۤ اُمَّهٰتُهُمْ١ؕ [ الاحزاب /۶]
ترجمہ:یہ نبی مسلمانوں کا ان کی جان سے زیادہ مالک ہے اور اس کی بیبیاں اُن کی مائیں ہیں ۔
اس آیت کریمہ کے تحت تفسیر معالم التنزیل میں محی السنۃ ابو محمد الحسین بن مسعود البغوی [ متوفی ۵۱۶ھ] فرماتے ہیں :
’’نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواجِ مطہرات کو مومنوں کی مائیں فرمایا گیا، لہٰذا تعظیم و حرمت میں اور ان سے نکاح ہمیشہ کے لیے حرام ہونے میں وہی حکم ہے جو سگی ماں کا ہے جب کہ اس کے علاوہ دوسرے احکام میں جیسے وراثت اور پردہ وغیرہ، ان کا وہی حکم ہے جو اجنبی عورتوں کا ہے یعنی ان سے پردہ بھی کیا جائے گا اور عام مسلمانوں کی وراثت میں وہ بطورِ ماں شریک نہ ہوں گی،نیز امہات المومنین کی بیٹیوں کو مومنین کی بہنیں اوران کے بھائیوں اوربہنوں کو مومنین کے ماموں ، خالہ نہ کہا جائے گا۔‘‘[معالم التنزیل للبغوی ، الاحزاب، تحت الآیۃ: ۶، ۳ / ۴۳۷، ملخصاً]
امہات المومنین کی عظمت وفضیلت کا اعلان عام قرآن کریم کی اس آیت مبارکہ میں بھی موجود ہے :
يٰنِسَآءَ النَّبِيِّ لَسْتُنَّ كَاَحَدٍ مِّنَ النِّسَآءِ اِنِ اتَّقَيْتُنَّ فَلَا تَخْضَعْنَ بِالْقَوْلِ فَيَطْمَعَ الَّذِيْ فِيْ قَلْبِهٖ مَرَضٌ وَّ قُلْنَ قَوْلًا مَّعْرُوْفًاۚ۰۰۳۲
ترجمہ:اے نبی کی بیویو!تم اور عورتوں جیسی نہیں ہو۔اگرتم اللہ سے ڈرتی ہو تو بات کرنے میں ایسی نرمی نہ کرو کہ دل کا مریض آدمی کچھ لالچ کرے اورتم اچھی بات کہو۔
حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما اس آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں:
’’اس سے مراد یہ ہے کہ اے میرے حبیب صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی ازواجِ مطہرات!میری بارگاہ میں تمہاری قدر دوسری نیک خواتین کی قدر جیسی نہیں ہے بلکہ تم میری بارگاہ میں زیادہ عزت والی ہو اور میرے نزدیک تمہارا ثواب زیادہ ہے۔[ خازن، الاحزاب، تحت الآیۃ: ۳۲، ۳ / ۴۹۸]
ازواج مطہرّات رضوان اللہ تعالیٰ علیھن اجمعین کی عظمت شان کا تذکرہ احادیث کریمہ بھی جا بجا ملتا ہے ۔سردست ہمیں ازواج مطہرات میں سے اُم المومنین حضرت اُم حبیبہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی حیات مبارکہ کے کچھ گوشوں پر روشنی ڈالنی ہے ۔
ام المومنین حضرت ام حبیبہ رضی اللہ عنہا نہایت عابدہ، زاہدہ، صابرہ، شاکرہ، طاہرہ خاتون تھیں ۔ خشیت الٰہی اور فکر آخرت میں سرشار رہا کرتی تھیں ۔ حُبِّ رسول اور وفا شعاری آپ کے رگ و پے میں رچی بسی تھی۔ عرب کے مشہور قبیلہ کی شہ زادی ہونے کے باوجود اسلام پر دوام واستحکام کے لیے ہجرت حبشہ میں طرح طرح کےمصائب سے دوچار ہوئیں ،اجنبی وطن ، خاوند کا ارتداد،انتہائی بے یار و مددگار اور تنہا رہ جانے کے باوجود اسلام پر ثابت قدم رہنا آپ کا امتیازی وصف ہے۔آپ کی سیرت طیبہ امت کی خواتین کے لیے مشعل راہ اورنمونۂ عمل ہے۔
ام المؤمنین حضرت ام حبیبہ رضی اللہ عنہاکا اسم گرامی رملہ بنت صخر ہے جب کہ بعض نے آپ کا نام ہند بنت صخر کہا ہےاور بعض نے آپ کا نام ہبیرہ بتایا ہے۔لیکن اکثر سوانح نگاروں نے آپ کا نام رملہ ہی لکھا ہے۔ آپ کی کنیت ام حبیبہ ہے جو کہ آپ کی صاحب زادی حبیبہ رضی اللہ تعالیٰ عنہابنت عبیداللہ کی طرف منسوب ہے۔ حبیبہ رضی اللہ عنہاکی پیدائش کے بعد آپ نام کی بجائے کنیت سے معروف ہوئیں حتیٰ کہ احادیث نبویہﷺ میں بھی کنیت کے ساتھ ہی آپ کی تمام مرویات موجود ہیں۔[ ابن حجر عسقلانی ،تہذیب التہذیب ،ج:۶ ،ص: ۵۹۴]
حضرت ام حبیبہ رضی اللہ عنہاقریش کے مشہور خاندان بنو عبدالشمس سے تعلق رکھتی ہیں۔ آپ نسب نامہ اس طرح ہے:
رملہ بنت ابوسفیان بن حرب بن امیہ بن عبد شمس بن عبد مناف بن قصی بن کلاب بن مره بن کعب بن لوئی۔
والدہ کی طرف سے سلسلہ نسب کچھ یوں ہے:
رملہ بنت ام صفیہ بنت ابی العاص بن امیہ بن عبدشمس بن عبد مناف ۔
والد اور والدہ دونوں کی طرف سے پانچویں پشت میں جا کر آپ کا سلسلہ ٔ نسب رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے نسب سے مل جاتا ہے۔[ الطبقات الکبریٰ لابن سعد، ج:۸، ص: ۷۶]
ام المومنین حضرت ام حبیبہ رضی اللہ عنہ کے والد گرامی حضرت ابو سفیان رضی اللہ عنہ صخر بن حرب مکہ کے مشہور سردار تھے،وہ عام الفیل سے دس برس قبل پیدا ہوئے۔ قریش مکہ کا سب سے بڑا نشان جس کا نام عقاب تھا، ان کے پاس ہوا کرتا تھا۔حضرت ابو سفیان رضی اللہ عنہ ابتداے اسلام میں اسلام کے سخت مخالف تھے، فتح مکہ کے موقع پر مشرف بہ اسلام ہو ئے اور غزوۂ حنین وطائف میں شرکت کی ، ایمان لانے کے بعد آپ نے سرکار دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت جاں نثاری کا حق ادا کیا ۔[ اسدالغابہ فی تمییز الصحابۃ ، ج: ۲، ۲۹۳]
ام المومنین حضرت ام حبیبہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ ابتداے اسلام میں اپنے شوہر اول عبید اللہ بن جحش کے ساتھ ایمان لائیں ، مسلمانوں پر کفار مکہ کا ظلم وجبر جب حد سے سوا ہوگیا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مسلمانوں کو حبشہ کی طرف ہجرت کرنے کی اجازت دے دی ، حبشہ ہجرت کی اجازت ملنے پر مسلمانوں کا ایک مختصر سا قافلہ حبشہ چلا گیا ،اس قافلہ میں بارہ مرد اور چار عورتیں شامل تھیں، جن میں سیدنا عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ اور آپ کی زوجہ محترمہ سیدہ رقیہ رضی اللہ عنہابنت رسول اللہﷺبھی شامل تھے ۔ اس قافلے کے بعد مسلمانوں کے ایک دوسرے قافلے کو بھی حبشہ کی طرف ہجرت کرنا پڑا، جس میں ایک سو ایک مسلمان شامل تھے۔ توقع کے مطابق حبشہ کے بادشاہ نجاشی نے مسلمانوں سے بہترین سلوک کیا، اگرچہ کفار مکہ نے حبشہ تک مسلمانوں کا پیچھا کیا، مگر نجاشی نے مسلمانوں کو ان ظالموں کے ہاتھ واپس نہ کیا بلکہ مسلمانوں کو نہایت اعزاز و اکرام کے ساتھ پناہ دی۔ مہاجرین کے اس دوسرے قافلے میں ام المومنین حضرت ام حبیبہ رضی اللہ عنہا اور ان کے خاوند عبیداللہ بن جحش بھی شامل تھے ،حبشہ میں قیام کے دوران ہی ان کے یہاں ایک بیٹی حبیبہ پیدا ہوئی، اسی صاحب زادی کے نام پر حضر ت رملہ رضی اللہ عنہا کی کنیت ام حبیبہ پڑ گئی۔
انہی دنوں کا واقعہ ہے، کہ ایک رات خواب میں ام حبیبہ رضی اللہ عنہا نے اپنے خاوند عبیداللہ بن جحش کو نہایت ہی بھیانک شکل و صورت میں دیکھا۔ آپ فر ماتی ہیں :
رأیت فی المنام کان زوجی عبید اللہ بن جحش بأسوء صورۃ فزعت فاذا بہ قد تنصر
یعنی میں نے اپنے شوہر عبید اللہ بن جحش کو بری صورت میں دیکھا تو میں گھبرا گیا پس وہ منکر اسلام ہو کر نصرانی ہو گیا۔
طبقات ابن سعد میں اس پورے خواب کو ان الفاظ میں بیان کیا گیا ہے :
قالت أم حبیبة رضی الله عنها: رأيت فی النوم عبید الله زوجی بأسوأ صورة وأشوهها ففزعت و قلت: تغیرت والله فاذا هو یقول حیث أصبح: یا أم حبیبة! انی نظرت فی الدین فلم أری دینا خیرا من النصرانية وکنت قد دنت بها، ثم دخلت فی دین محمد صلى الله عليه وسلم وقد رجعت إلی النصرانيه، فقلت: والله ماخیر لک فأخبرته بالرؤيا التي رأيته فلم یحفل بها واکب علی الخمر حتی مات قالت فأری فی النوم کانّ آتیا یقول: یا أم المومنین، ففزعت فأولتها أن رسول الله صلى الله عليه وسلم یتزوجنی۔[ الطبقات، ج:۸، ص:۷۷]
یہ خواب سچ ثابت ہوا، عبید اللہ بن جحش شراب کا عادی ہو گیا، عیسائیوں کے صحبت میں رہنے لگا ، کچھ دنوں میں مرتد ہو کر اسلام سے پھر گیا ، عیسائیت ہی کی حالت میں دنیا سے چلا گیا ۔حضرت ام المومنین ام حبیبہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے لیے یہ سخت آزمائش کا دور تھا ، وطن سے ہجرت ، پھر دیار غیر میں شوہر کا ارتداد، یہ انتہائی کرب ناک موقع تھا ، لیکن حضرت ام حبیبہ رضی اللہ عنہا صبر وشکیپ کا پیکر بنی رہیں ،آزمائش کی اس گھڑی کا جرأت مندی کے ساتھ مقابلہ کیا اور اسلام کے دامن سے اسلام سے اپنا رشتہ مستحکم رکھا۔ عبید اللہ جحش نے آپ کو عیسائیت کی طرف لانے کی ہر ممکن کوشش کی ، لیکن آپ کے ثبات واستقلال میں ذرہ برابر کمی نہیں آئی ۔
جیساکہ طبقات ابن سعد کی روایت میں ہے کہ ام المومنین حضرت ام حبیبہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے حبشہ میں قیام کے دوران خواب دیکھا کہ ایک شخص مجھے ’’ام المومنین ‘‘ کہہ کر پکاررہا ہے، آپ فر ماتی ہیں کہ میں نے اس خواب کی تعبیر یہ لی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم مجھ سے عقد فر مائیں گے ، یہ خواب سچ ثابت ہوا، سرکار دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عمر بن امیہ ضمری رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو حبشہ کے بادشاہ نجاشی کے پاس حضرت ام حبیبہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے لیے نکاح کا پیغام لے کر بھیجا ، نجاشی نے اپنی لونڈی ابرہہ کے ذریعہ ام المومنین حضرت ام حبیبہ رضی اللہ عنہا کے پاس نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا پیغام نکاح پہنچایا، حضرت ام حبیبہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے لیے یہ بڑا شرف تھا بلکہ گزشتہ تمام غموں کا مداوا تھا، لہذا آپ اس پیغٖام نکاح سے بے حد خوش ہو ئیں اور لونڈی ابرہہ کو انعام واکرام سے نوازا ، اپنا کنگن اور اچاندی کی انگو ٹھی اتار کر انہیں دے دیا اور اللہ کا شکر اداکیا ، حضرت ام حبیبہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے خالد بن سعید بن العاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو اپنا وکیل بنایا ، نجاشی نے نکاح کی مجلس منعقد کی جس میں حضرت جعفر بن ابو طالب رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور دوسرے مسلمان شریک ہو ئے ۔
نجاشی نے خطبہ پڑھا:
ألحمد للہ الملک القدوس السلام المومن المھیمن العزیز الجبار المتکبر۔ أشھد أن لاإلہ إلااللہ وأشھد أن محمد ا عبدہ ورسولہ أرسلہ بالھدی ودین الحق لیظھرہ علی الدین کلہ ولوکرہ المشرکون ۔ أما بعد! فقد أجبت الیٰ مادعیٰ رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم وقد أصدقتھا أربع مأۃ دیناراً۔
ترجمہ: تمام تعریفیں اللہ کے لیے ہیں جو مالک ، قدوس ، سلامتی دینے والا ، ڈرانے والا غالب، ٹوٹے دلوں کو جوڑ نے والا ہے ، میں گواہی دیتا ہوں اللہ کے سوا کوئی معبو د نہیں اور بے شک حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم اس کے بندۂ خاص اور رسول ہیں ، اللہ تعالیٰ نے آپ کو ہدایت اور دین حق کے ساتھ بھیجا تاکہ آپ کے دین کو تمام دین پر غالب فر مادے اگر چہ مشرکوں کو یہ ناپسند ہے ۔ اس کے بعد میں قبول کر تاہوں اس چیز کو جس کی طرف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دعوت دی ،میں نےحضرت ام حبیبہ کا حق مہر چار سو دینار اداکیا ۔
حضرت خالد بن سعید بن العاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے درج ذیل خطبہ ارشاد فر مایا :
ألحمد للہ أحمدہ وأستعینہ وأستغفر اللہ وأشھد أن لا الہ الاللہ وحدہ لاشریک لہ وأشھد أن محمد اعبدہ ورسولہ أرسلہ بالھدی ودین الحق لیظھرہ علی الدین کلہ ولوکرہ المشرکون ۔أما بعد! فقد أجبت إلیٰ مادعیٰ رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم وزوجتہ أم حبیبۃ بنت أبی سفیان ، فبارک اللہ لرسول اللہ صلی اللہ علیہ فیھا۔[الاصابہ، ج:۸، ص:۱۴۱]
ترجمہ: تمام تعریفیں اللہ جل شانہ کے لیے ہیں ، میں اس کی حمد کرتا ہوں اور اس کی مدد طلب کرتاہوں ، اور گناہوں کی مغفرت چاہتاہوں ، اور گواہی دیتا ہوں کہ بے شک اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی معبو نہیں اور بے شک حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے خاص بندے اور اس کے رسول ہیں ، اللہ تعالیٰ نے آپ کو ہدایت اور دین حق کے ساتھ بھیجا تاکہ آپ کے دین کو تمام دین پر غالب فر مادے اگر چہ مشرکوں کو یہ ناپسند ہے ۔اس کے بعد میں قبول کر تاہوں اس چیز کو جس کی طرف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دعوت دی ، لہذا میں نے ام حبیبہ بنت ابو سفیان کا نکاح حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے کیا ۔اللہ تبارک و تعالیٰ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر کثرت سے بر کتیں نازل فرمائے ۔
مجلس کے اختتام پر نجاشی نے کہا:
إن من سنۃ الأنبیا إذا تزوجو ا أن یوکل طعام علی التزویج۔
یعنی انبیاے کرام کی سنت سے ہے نکاح کے مو قع پر کھانا کھلایا جائے ،لہذا نجاشی نے کھانا منگوایا اور حاضرین کو کھانا کھلایا۔ [ سبل الہدیٰ والرشاد ، ج:۱۱، ص: ۱۹۳]
دوسرے روز صبح حضرت ام حبیبہ رضی اللہ عنہانے ابرہہ کو بلایا اور اس سے کہا، کہ کل میں نے تمہیں نبی کریمﷺکے طرف سے پیغام نکاح کی خوشی میں جو کچھ میرے پاس تھا وہ دیا تھا وہ اس عظیم خوش خبری کے لیے ناکافی تھا ،لیکن میں اس وقت خالی ہاتھ تھی ،اب یہ پچاس دینار لو اور اپنی ضرورت پوری کرو، ابرہہ نے سونا لینے سے انکار کر دیا، بلکہ ایک تھیلی نکالی، جس میں سیدہ ام حبیبہ رضی اللہ عنہا کا عطاکردہ زیور تھا، اُس نے واپس کرتے ہوئے کہا :
’’بادشاہ نے مجھے قسم دی ہے کہ میں آپ رضی اللہ عنہا سے کچھ بھی نہ لوں اور جو کچھ آپ رضی اللہ عنہا نے مجھے دیا ہے،میں اس کو واپس کر دوں پھر اگلے دن ابرہہ بہت ساری خوشبوئیں اور مختلف تحفے تحائف لے کر آئی اور سیّدہ رضی اللہ عنہا کی خدمت میں پیش کیے،نیز اس نے اپنے ایمان لانے کا اظہار کرتے ہوئے کہا: ’’وقد اتبعت دین محمد رسول الله صلى الله عليه وسلم، واسلمت لله وأن تقرئ رسول الله صلى الله عليه وسلم من السلام‘‘۔میں نے دین محمدصلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع کی ہے اور میں نے اللہ تعالیٰ کے لیے اسلام قبول کیا ہے، آپ نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کو میری طرف سے سلام عرض کیجیے گا اور یہ بھی بتائیے گا کہ میں آپ کے دین ہی کی پیروی کرتی ہوں۔‘‘[ الطبقات لابن سعد، ج:۸ ، ص: ۷۸]
مدراج النبوۃ میں ہے:
’’جب رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو اس عقد کے استحکام کی خبر پہنچی تو رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت شر جیل رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو ام المومنین حضرت ام حبیبہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کو مدینہ منورہ لانے کے لیے بھیجا، نجاشی نے حضرت شرجیل رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ہمراہ عزت وتکریم کے ساتھ ام المومنین رضی اللہ تعالیٰ عنہا کو مدینہ بھیج دیا ، مدینہ منورہ پہنچنے کے بعد رسول اکرم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے ان سے زفاف فر مایا ، جب رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو نجاشی کے اسلام کی اطلاع ہو ئی تو آپ نے جواب میں فر مایا ورحمۃ اللہ وبرکاتہ ۔‘‘[ مدارج النبوۃ ، ج: ۲، ص: ۴۲۳]
حضرت ام حبیبہ رضی اللہ عنہا انتہائی نیک فطرت ، صالح اور مضبوط ایمان کی مالک تھیں ، محبت رسول آپ کے رگ رگ میں بسی تھی ، عظمت رسول کی پاسبانی کا فریضہ آپ نے کس انداز میں انجام اس کا اندازہ اس سے لگا یا جا سکتا ہے کہ آپ کے والد حضرت ابوسفیان جو ابھی مسلمان نہیں ہوئے تھے، ایک دفعہ مدینہ منورہ آئے۔ ان کے آنے کا مقصد نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ملنا اور صلح کی میعاد کو بڑھانے کے بارے میں گفتگو کرنا تھا اور عہد کو مضبوط کرنا تھا ، مدینہ منورہ میں اپنی صاحب زادی حضرت ام حبیبہ رضی اللہ عنہا کے گھر پہنچے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بستر مبارک پر بیٹھنے لگے تو سیدہ ام حبیبہ رضی اللہ عنہا نے فوراً بستر لپیٹ لیا۔ ابوسفیان نے پوچھا : بیٹی تو نے بستر کیوں لپیٹ دیا، کیا تو نے بستر کو میرے قابل نہ سمجھا ؟ یا میں بستر کے قابل نہ ہوں؟آپ نے جواب دیا:بل ھو فراش رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وأنت امرؤ نجس مشرک ۔یعنی یہ نبی کریمﷺ کا پاکیزہ بستر ہے اورآپ ناپاک اور مشرک ہیں،اس پر ایک مشرک نجس نہیں بیٹھ سکتا۔ اس پر ابوسفیان نے کہا:لقد اصابک بعدی شر تو میرے بعد شر میں مبتلا ہو گئی ہے۔ [الاصابہ فی تمییز الصحابۃ ،ج:۸ص:۱۴۲]
ام المومنین حضرت ام حبیبہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے ۶۵؍ احادیث کریمہ مروی ہیں ، ان میں سے دو متفق ہیں ، ایک صحیح مسلم میں اور باقی دیگر کتب احادیث میں ہیں ، آپ سے حدیث روایت کر نے والوں میں آپ کی صاحب زادی حبیبہ ، بھائی معاویہ اور عتبہ ، بھتیجا عبد اللہ بن عتبہ بن ابو سفیان ، ا مغیرہ بن اخنس ثقفی صفیہ بنت شیبہ، زینب بنت ام سلمہ، عروہ بن ز بیر وغیرہ شامل ہیں۔[الاصابہ فی تمییز الصحابۃ ،ج:۸ص:۱۴۲]
حضرت ام المومنین ام حبیبہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا انتہائی تقویٰ شعار اور عبادت وریاضت کی دل دادہ تھیں ، صحیح مسلم میں آپ ہی سے مروی ایک حدیث پاک ہے :
عَنْ أُمِّ حَبِيْبَةَ تَقُوْلُ: سَمِعْتُ رَسُوْلَ اللهِ ﷺ يَقُوْلُ: مَنْ صَلَيَّ اثْنَتَي عَشْرَةَ رَکْعَةً فِي يَوْمٍ وَ لَيْلَةٍ بُنِيَ لَهُ بِهِنَّ بَيْتٌ فِي الْجَنَّةِ، قَالَتْ أُمُّ حَبِيْبَةَ فَمَا تَرَکْتُهُنَّ مُنْذُ سَمِعْتُهُنَّ مِنْ رَسُوْلِ اللهِ ﷺ.
ام المومنین حضرت ام حبیبہ رضی الله عنہا بیان کرتی ہیں کہ میں نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا جو مسلمان بندہ ہر روز الله تعالیٰ کے لیے بارہ رکعات نفل پڑھے گا اس کے لیے جنت میں گھر بنایا جائے گا۔ حضرت ام حبیبہ رضی الله عنہا فرماتی ہیں میں نے اس دن کے بعد کبھی بھی یہ بارہ رکعات ترک نہیں کیا ۔[صحیح مسلم ، کتاب: صلاة المسافرين و قصرها، باب: فضل السنن الرا تبۃقبل الفرائض و بعدهن و بيان عددهن]
فکر آخرت کے حوالے سے بھی حضرت ام حبیبہ رضی اللہ تعالٰی عنہا کی حیات مبارکہ جملہ مسلمین ومسلمات کے لیے نمونۂ عمل ہے ، ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فر ماتی ہیں کہ جب حضرت ام حبیبہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے وصال کا وقت ہوا تو آپ نے مجھے بلواکر فر مایا :
قد یکون بیننا مایکون بین فتحللینی من ذلک فحللتھا واستغفرت لھا۔
یعنی میرے اور آپ کے مابین وہ تعلقات تھے جو سوکنوں کے آپس میں ہوا کرتے ہیں ، پس آپ اپنے حقوق میرے لیے حلال فر مادیں یعنی مجھے معاف فرمادیں ،پس میں نے معاف کردیا اور استغفار کیا ، اس پر آپ نے فر مایا :
سررتنی سررک اللہ۔
یعنی آپ نے مجھے خوش کردیا اللہ آپ کو خوش کرے ۔ حضرت عائشہ فر ماتی ہیں ، اسی طرح آپ نے حضرت ام سلمہ کو بھی بلوا کر کہا ۔[الاصابہ فی تمییز الصحابۃ ،ج:۸ص:۱۴۲]
ام المومنین حضرت ام حبیبہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے وصال کے سلسلے میں متعدد اقوال ہیں ، الاصابۃ میں ہے کہ آپ کا وصال مدینہ منورہ میں ۴۴ھ کو ہوا ،ابن سعد اور ابو عبید نے اسی کو ترجیح دی ہے ، مدارج النبوۃ میں شیخ محقق نے بھی اسی کو صحیح قرار دیا ہے ، آپ جنت البقیع شریف میں مدفون ہیں ۔[الاصابہ فی تمییز الصحابۃ ،ج:۸ص:۱۴۲، سبل الہدی والرشاد،ج:۱۱،ص:۱۹۶]


 

محمد ساجدرضا مصباحی
About the Author: محمد ساجدرضا مصباحی Read More Articles by محمد ساجدرضا مصباحی: 56 Articles with 94088 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.