فلسطین اور مسلم ممالک کی بے حسی

فلسطین پر اسرائیلی جارحیت اور مسلم ممالک کی بے حسی کی انتہا

مسئلہ فلسطین سے تو آپ سب بخوبی واقف ہوں گے. پچھلے کئی سالوں سے خاص کر رمضان المبارک کے بابرکت اور باسعادت مہینے میں فلسطین میں اسرائیل کا ظلم و جبر عروج پر ہے. آج 4 اپریل 2023 کو ایک بار پھر اسرائیل نے ماہ مقدس میں مسجد اقصٰی پر ظلم و جبر کی انتہا کی لیکن صد افسوس کہ غیر مسلم تو دور کسی مسلمان ملک کے حکمرانوں نے آواز تک نہ بلند کی اور نہ مظمت کی.

اسلامی ممالک کے درمیان موجود یہودی ملک فلسطین پر بدمعاشی اور ظلم کرتا ہے لیکن مسلمان ممالک میں زرہ قوت مدافعت تک نہیں ہے کہ اس کو روکا جائے. ان تمام ممالک کے حکمرانوں کا ایمان عیاشی اور سکون سے وابستہ ہوگیا ہے اس لئے اللہ تبارک و تعالی نے طاقت ایمانی چھین کر انکی غیرت ختم کر دی ہے.

مسجد الاقصی، جسے الاقصیٰ مسجد یا صرف الاقصیٰ بھی کہا جاتا ہے، ایک اسلامی مقدس مقام ہے جو یروشلم کے پرانے شہر میں واقع ہے۔ قبلہ اول ہونے کی وجہ سے یہ مکہ میں مسجد الحرام اور مدینہ میں مسجد نبوی کے بعد اسلام کا تیسرا مقدس ترین مقام ہے۔

خود مسجد الحرام الشریف کے نام سے مشہور بڑے احاطے کے اندر واقع ہے جس میں چٹان کا گنبد اور دیگر اہم اسلامی اور تاریخی مقامات بھی ہیں۔ الحرام الشریف مسلمانوں اور یہودیوں دونوں کی طرف سے قابل احترام ہے، اور مسابقتی دعووں اور مذہبی اہمیت کی وجہ سے کئی سالوں سے کئی تنازعات اور تناؤ کا مقام رہا ہے۔
اس پورے کمپاونڈ کو ’الاقصی مسجد‘ کہا جاتا ہے۔ تقریباً 35 ایکڑ رقبے پر محیط اس مقام کو یہودی ’ٹیمپل ماؤنٹ‘ کہتے ہیں جبکہ ’ڈوم آف دی راک‘ کو بھی یہودی مذہب میں مقدس ترین مقام کا درجہ دیا گیا ہے۔

مسلمانوں کا ماننا ہے کہ یہاں کئی پیغمبروں نے عبادت کی جن میں حضرت ابراہیم، حضرت داؤد، حضرت سلیمان، حضرت الیاس اور حضرت عیسیٰ شامل تھے۔

مسلمانوں کا اعتقاد ہے کہ مسجد اقصیٰ کی تاریخ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے سے ملتی ہے، جن کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ آپ صل اللہ علیہ وسلم نے سنہ 620 میں رات کے ایک معجزاتی سفر میں اسراء اور معراج کے نام سے جانا ہے۔ اسی لیے اسے مسلمانوں کے لیے بہت مقدس سمجھا جاتا ہے۔

دوسری جانب یہودیوں کا ماننا ہے کہ شاہ سلیمان نے تین ہزار سال قبل پہلی یہودی عبادت گاہ اسی مقام پر تعمیر کیا تھا

صدیوں کے دوران مسجد میں بہت سی تبدیلیاں اور تزئین و آرائش ہوئی ہے، اور یہ اپنی پوری تاریخ میں مسلمانوں کی عبادت اور ثقافت کا مرکز رہی ہے۔

اسرائیل سے چار ممالک کی سرحدیں ملتی ہیں۔ اردن، شام، لبنان اور مصر۔ اردن کی آبادی تریسٹھ لاکھ ہے۔ شام کی آبادی دو کرود چوبیس لاکھ ہے۔ اور لبنان کی آبادی چوالیس لاکھ ہے۔ اور مصر کی آبادی اٹھ کرود پینتالیس لاکھ ہے۔

اور غزا سے صرف مصر کی کل بارہ کلومٹر کی سرحد ملتی ہے۔ اس کے علاوہ غزا سے کوئی زمینی راستہ نہیں ملتا۔ اور تازترین اطلات کے مطابق یہ بارہ کلومٹر کی زمینی حدود بھی سیل کی جا چکی ہے۔ یعنی اب غزا کے لوگوں کے پاس موت کے علاوہ فرار کا کوئی دوسرا راستہ نہیں ہے۔

اور اسرائیل کی کل آبادی بیاسی لاکھ ہے۔ جو کہ صرف ہمارے کراچی کی آبادی کا سینتیس فیصد حصہ بنتی ہے۔ اور اسرائیل کے پڑوسی مسلم ممالک کی کل تداد 11 کرود چھیتر لاکھ ہے۔ اور اسرائیل کی کل آبادی اس کے پڑوسی مسلم ممالکی آبادی کا صرف سات فیصد حصہ بنتی ہے۔ اگر اس کو میں سادہ لفاظ میں بیان کروں تو یوں ہوگا کہ سو مسلمانوں کو صرف سات اسرائیلی حصہ میں آتے ہیں۔ اس کے باوجود ہمارے مسلمان اس قدر کمزور ہو چکے ہیں کہ صرف باتوں اور مظمت سے کام چلا رہے ہیں، بلکہ اب یہ کہنا بھی غلط نہ ہو گا کہ اللہ تبارک تعالیٰ نے ان سے مظمت کرنے کی بھی توفیق چھین لی ہے۔

ان سب ممالک کا مظمت تک محدود رہنا دیکھ کر یہ بات کہنا غلط نہ ہوگی کہ اگر 313 کا ایمان نہ ہو تو پھر ستاون ممالک احتہاد بھی کچھ نہیں کر سکتا۔

صفحۂ دہر سے باطل کو مٹایا کس نے
نوع انساں کو غلامی سے چھڑایا کس نے
میرے کعبے کو جبینوں سے بسایا کس نے
میرے قرآن کو سینوں سے لگایا کس نے
تھے تو آبا وہ تمہارے ہی مگر تم کیا ہو
ہاتھ پر ہاتھ دھرے منتظر فردا ہو

اللہ تعالیٰ مسلم ممالک کو آپس میں اتفاق و اتحاد نصیب فرمائے اور ان کو غیرتِ ایمانی نصیب کرے.

اے میرے رب فلسطین پر خصوصی کرم فرما اور ان کی غیب سے مدد فرما کر آزادی جیسی نعمت سے نواز. آمین
 

Ahsan Khalil
About the Author: Ahsan Khalil Read More Articles by Ahsan Khalil: 11 Articles with 5079 views (born 13 October 2001) is a Pakistani writer and columnist. He completed his Fsc from Army Public School and College Jarrar Garrison... View More