شہرہ آفاق کالم نگار ، ساٹھ سے زائد کتابوں کے مصنف (دسویں قسط)

ملک کی اہم علمی، ادبی ، معاشرتی شخصیات اور پاک فوج کے شہیدوں پر لکھناآپ کا محبوب مشغلہ رہا
غریب گھرانے میں پیدا ہونے کے باوجود آپ نے غربت کو اپنے راستے کی دیوار نہیں بننے دیا
آپ دو سال روزنامہ جرات،چھ ماہ روزنامہ دن ، تین سال روزنامہ پاکستان ، دو سال پشاور کے ارود اخبار آج اور چودہ سال نوائے وقت میں ہفتہ وار کالم لکھتے رہے
آپ کا دو مرتبہ تمغہ حسن کارکردگی کے لیے حکومت پنجاب کی جانب سے نام تجویز کیا گیا لیکن ایوارڈ نہ مل سکا
آپ کو 2007ء میں اردو کالم نگاری کا پہلا ٹیٹرا پیک ایوارڈ (پچاس ہزار کا چیک)حاصل کرنے کا اعزاز بھی حاصل ہے
آپ کی گیارہ کتابیں صوبہ پنجاب ، گیارہ خیبرپختونخوا اور گیارہ کتابیں آزاد جموں و کشمیر کے تعلیمی اداروں کی لائبریریوں اور بپلک لائبریریوں کے لیے منظور ہو ئیں
انٹرویو ۔ شہزاد چودھری

نوٹ ۔قارئین کرام پچھلی قسط سے آگے سفرنامہ حضرت حاجی شیرمحمدؒ دیوان چاولی کا بقیہ حصہ یہاں سے پڑھیں ۔

ہمارے ہاتھوں میں تھامی ہوئی تسبیح درود شریف کے دانے مسلسل گرا رہی تھی اور قلب وذہن میں عشق رسول ﷺ کا ایک طوفان برپا تھا۔ لاہور سے کچھ ہی دور جا کر ہلکی ہلکی بارش شروع ہو گئی اور بارش نے موسم کو مزید خوشگوار بنا دیا۔ سڑک کے دونوں جانب لہلہاتے ہوئے کھیت اور جھومتے ہوئے درختوں کی قطاریں اپنی خوبصورتی کا بخوبی احساس دلا رہی تھیں۔ قدم قدم پر اﷲ کی وحدانیت اور اس کے جاہ وجلال کی نشانیاں بکھری پڑی تھیں۔ سفری تھکان اور کسی بوریت کے بغیر ہم دس بجے ساہیوال پہنچ گئے۔ بارش تو تھم چکی تھی لیکن موسم میں خوشگواری کا عنصر ابھی قائم تھا۔ نصف گھنٹہ یہاں ٹھہرے، چونکہ مقامی لوگوں نے بتایا کہ عارف والا روڈ انتہائی خراب ہے۔ اس لیے پیرومرشدؒ کی اجازت سے یہ طے پایا کہ چیچہ وطنی سے براہ راست بورے والا کی ویگن پکڑی جائے۔ اس طرح ہم بس پر سوار ہوکر گیارہ بجے چیچہ وطنی جا پہنچے ۔ چند دوستوں کی جانب سے اس بات کا احساس دلایا گیا کہ صبح کا ناشتہ نہ ہونے کی وجہ سے پیٹ میں بھوک کا طوفان برپا ہے اور مزید سفر اختیار کرنے سے پہلے کچھ کھا پی لیا جائے۔ جب یہ بات پیرومرشد ؒ تک پہنچی توانہوں نے حکم دیا کہ کوئی صاف ستھراہوٹل تلاش کیا جائے جس میں صفائی کا خاطر خواہ خیال رکھا جاتا ہو۔

یوں ہم ٹھنڈی نہر کے کنارے چلتے چلتے چیچہ وطنی شہر کے مین بازار میں جا پہنچے۔ اب سورج اپنی مکمل آب وتاب کے ساتھ چمک رہا تھا۔ اسی لیے یہاں چہل قدمی کرنے کے لیے ہمیں سایہ دار درختوں کی تلاش کی ضرورت محسوس ہوئی۔ چہل قدمی کرتے کرتے ہم اس قدر شہر میں گھس آئے کہ واپس جانے کے لیے تانگے کا استعمال لازمی نظر آنے لگا لیکن جب پیرومرشد ؒ ساتھ ہوں تو فکر کی کس بات کی۔؟ اس شہر کے وسط میں ساتھ ساتھ ہمیں دو ہوٹل ایسے دکھائی دیئے جو کسی حد تک معقول تھے۔ گرم گرم روٹیاں‘ اچھے پکے ہوئے ’’چنوں‘‘ کے ساتھ کھائیں اور بھوک کی وجہ سے جنہیں کھانے میں بہت لطف آیا۔

حسن اتفاق سے میں جو بریف کیس اپنے ساتھ لایا تھا۔ بس میں ہی اس کے ہینڈل کا پیچ کھلنے کی بنا پر وہ ٹوٹ گیا۔ اب اسے ایک ہاتھ سے پکڑنے کی بجائے دونوں ہاتھوں سے پکڑنا پڑتا تھا۔ منشا بھائی ‘ ہدایت بھائی اور شاہد بھائی کی عقیدت مندی اور میرے ساتھ والہانہ محبت کے اظہار نے مجھے بریف کیس نہیں پکڑنے دیا اور انہوں نے خود ہی یہ ذمہ داری سنبھال لی۔اور مجھے یہ موقع فراہم کیا کہ میں پیرومرشد ؒ کے ساتھ ساتھ چلتے ہوئے ان کی پیاری پیاری باتیں سنتارہوں۔ پیربھائیوں کی اس مہربانی نے مجھے بے حد متاثر کیا جس کا میں جتنا بھی شکریہ ادا کروں کم ہے۔

بارہ بجے کا ناشتہ‘ دوپہر کا کھانا ہی تصور کیا گیا اور یہ بالخصوص حضرت صاحب کی جانب سے تھا۔ جب پیٹ بھر کر کھانا کھا لیا تو یکدم مجھے خیال آیا کہ میرا ایک دوست ’’ڈاکٹر طارق‘‘ یہاں گورنمنٹ ہسپتال میں ڈینٹل سرجن لگا ہوا ہے، کیوں نہ اس سے بھی مل لیا جائے لیکن جب میں نے اپنی خواہش کا اظہار حضرت صاحب سے کیا تو انہوں نے مزید یہاں وقت ضائع کرنے سے منع کردیا کہ پہلے ہی کافی وقت یہاں صرف ہو چکا ہے اور ابھی ہم منزل سے بہت دور ہیں۔ میں نے سعادت مندی اسی میں سمجھی کہ اب ہمیں واپسی کا سفر اختیار کرنا چاہیے۔ تانگہ لینے کے بجائے حضرت صاحب کی رفاقت بلکہ قیادت میں ہم ایک بار پھر نہر کے ساتھ ساتھ بس اڈے کی جانب رواں دواں تھے۔ راستے میں ایک جگہ پر تربوز بھی کھایا جو بہت لذیذ تھا، جس نے کھانا ہضم کرنے میں بڑی مدد کی۔ تقریباً دو گھنٹے یہاں ٹھہرنے کے بعد 1 بجے بذریعہ ویگن ہم بورے والا کے لیے روانہ ہوئے۔ تقریباً ایک گھنٹے کی مسافت کے بعد ہم بورے والا جاپہنچے۔ یہاں سے ایک تانگہ کرائے پر لیا۔ میں اپنے پیربھائیوں سمیت پچھلی نشست پر بیٹھ گیا جبکہ پیرومرشد ؒ ‘ صوفی صاحب اور حاجی شریف صاحب اگلی نشست پر موجود تھے۔ اب پیر ومرشد ؒ تانگے والے سے مخاطب تھے کہ حضرت حاجی شیر محمد دیوان چاولی ؒ کی کرامات اور معجزوں کے بارے میں کچھ بتائے۔ تانگے والے نے بتایا کہ ان بزرگوں کو دیوان اس لیے کہا جاتا ہے کہ انہوں نے اپنی زندگی میں حضور صلی اﷲ علیہ وسلم کو دیکھا اور پنکھے سے ہوا بھی دی تھی۔ مزید یہ بھی بتایا کہ یہاں ذہنی توازن کھونے والے مریضوں کی اکثریت ٹھیک ہو جاتی ہے۔ دور دور سے لوگ اپنے عزیز و اقارب کو (جو ذہنی مریض ہوتے ہیں) سنگل باندھ کر لاتے ہیں اور وقت مقررہ پر ٹھیک ہو کر اپنے اپنے گھروں کو لوٹ جاتے ہیں۔ جب تانگہ‘ بسوں کے اڈے پر (جو بورے والا ٹیکسٹائل ملز کی دیوار کے ساتھ ہی تھا) پہنچا تو ہمیں اترنے کے لیے کہا گیا۔ ہم نے چاروں طرف نظر دوڑائی تو ہمیں کسی جانب بھی مزار شریف نظر نہ آیا تو ہم نے حیرانگی سے تانگے والے سے پوچھا کہ بھائی مزار شریف کہا ں ہے؟ تانگے والے نے بتایا کہ یہ تو وہ جگہ ہے جہاں سے حضرت حاجی شیر محمد دیوان چاولی ؒ کے دربار پر جانے کے لیے بسیں چلتی ہیں۔ یہاں سے بس ملے گی جو آپ کو دریائے ستلج کے مغربی کنارے پر موجود مزار شریف پر پہنچائے گی۔ اس وقت تقریباً دو سوا دو کا وقت تھا اور نماز ظہر کا وقت بھی ہو چکا تھا۔ پیرومرشد ؒ نے یہیں پر نماز ظہر پڑھنے کا حکم دیا ۔ نماز ادا کر کے جب ہم اڈے پر پہنچے تو ایک بس روانگی کے لیے بالکل تیار تھی‘ سواریوں سے بالکل بھر چکی تھی۔ ہم نے کنڈیکٹر سے درخواست کی کہ بھائی ہمیں بے شک سیٹ نہ دو لیکن ہمارے پیر ومرشد ؒ کے لیے ایک سیٹ ضرور خالی کروا دو۔ اس طرح پیرو مرشد ؒ کے ساتھ ساتھ ہم سب کو بیٹھنے کے لیے نشستیں مل گئیں اور 12 کلومیٹر کا سفر گھنٹہ بھر میں طے ہوا۔ ٹوٹی پھوٹی سڑک اور جگہ جگہ رکنے کی وجہ سے ہم قصبہ حضرت حاجی شیر محمد دیوان چاولی ؒ ساڑھے تین بجے پہنچے۔

بس سے اتر کر جب پہلی نظر مزار مبارک پر بنے ہوئے گنبد پر پڑی (جس کا رنگ سفید تھا جس پر خربوزے کی مانند نیلی لکیریں لگی ہوئی تھیں) تو مزار والے بزرگ کی روحانیت اورپرواز کا اندازہ بھی ہوگیا۔ آنکھوں کے راستے جسم میں پیوست ہونے والی جذباتی کیفیت نے پورے جسم میں طوفان برپا کر دیا۔ زبان سے وہ الفاظ جاری تھے جو میرے دلی جذبات کی بخوبی ترجمانی کررہے تھے۔ حالانکہ میرا دامن ایک فقیر بچے نے پکڑ رکھا تھا جو مجھ سے کچھ پیسوں کا تقاضا کر رہا تھا لیکن میں نے اپنی تمام تر توجہ اس سفید گنبد پر مرکوز کر رکھی تھی اور پہلی ہی نظر میں اپنی دلی دعائیں مانگنا چاہتا تھا۔ کیونکہ بزرگوں سے سنا ہے کہ جب کسی اﷲ والے سے نگاہیں اور دل مل جائے تو مزید کسی انتظار کے بغیر حال دل سنا دینا چاہیے۔ شاید یہی وہ لمحہ قبولیت کے لیے مخصوص ہوتا ہے۔ یہاں سے گزرنے کے بعد محکمہ اوقاف کے بنے ہوئے بیت الخلا اور چند غسل خانے نظر آئے‘ صرف ایک کو چھوڑ کر باقی سب کے دروازے غائب تھے۔ شرم و حیا سے لبریز کوئی بھی انسان یہاں نہانے سے گریز ل کرتاتھا کیونکہ یہاں بے پردگی کے واضح امکانات تھے۔

میں چونکہ صبح گھر سے نہا کر ہی آیا تھا اور دوران سفر بارش کی آمد نے بھی موسم کی تلخی کو بڑی حد تک کم بھی کر دیا تھا ، اس لیے نہانے کی کوئی خاص ضرورت محسوس نہیں ہو رہی تھی لیکن جب پیرومرشد نے بذات خود غسل کرنے کے بعد سب کو ایسا کرنے کا حکم دیا تو مجھے بھی غسل کرنا پڑا۔ لیکن میرے پیر بھائیوں نے اپنی چادر ڈال کر پردے داری کااہتمام کر دیا تھا۔ چنانچہ اسی طرح سب دوستوں نے غسل کیا اور مزار مبارک پر حاضری کے لیے قطار باندھے چل دیئے۔ جب مزار مبارک کے بالکل سامنے پہنچے تو کتبے پر لکھے ہوئی یہ عبارت دیکھ کر میری عقیدت میں اور اضافہ ہو گیا کہ یہ بزرگ 30 ہجری کو پیدا ہوئے اور 131ہجری ان کی یوم شہادت ہے۔ اس طرح یہ بزرگ حضور صلی اﷲ علیہ وسلم کے زمانے میں پیدا ہوئے اور اسلام بھی قبول کیا۔ جب قبر مبارک کے پاس پہنچے تو ایسے لگ رہا تھا جیسے ہم روحانیت کے سمندر میں اتر آئے ہیں اور ہر جانب کیف و سرور کی طغیانی دکھائی دے رہی تھی۔ اپنے وجود کو بھلا کر جب ہم ان بزرگوں کے قدموں میں کھڑے ہوئے تواس لمحے پیرومرشد مراقبے میں تھے تو یہاں موجود تمام لوگوں کی آنکھیں نم تھیں اور ہم سب روحانیت کے سمندر میں غوطہ زن تھے اور جسم کے اندر عجیب سے کپکپی طاری تھی ،جیسے بجلی کا کرنٹ ہمارے جسم میں دوڑ رہا ہو۔ جب پیرومرشد نے بلند آواز میں دعا مانگنی شروع کی تو لوگوں نے دھاڑیں مار کر رونا شروع کر دیا۔ اندر سے ہم اس قدر ٹوٹ چکے تھے کہ اپنا وجود بھی محسوس نہیں کر پا رہے تھے اور آنکھوں سے آنسوؤں کی جھڑیاں جاری تھیں۔ اپنے گناہوں‘ لغزشوں اور کوتاہیوں پر بے تحاشا ندامت محسوس کر رہے تھے اور دل ہی دل میں اپنی بخشش کی دعائیں مانگ رہے تھے اور ان بزرگوں کا واسطہ دے کر رب ذوالجلال کی خوشنودی طلب کر رہے تھے اور اس حالت میں اس قدر لطف آ رہا تھا کہ اس کا اظہار الفاظ میں نہیں کیا جا سکتا۔ جب دعا سے فارغ ہوئے تو روحانی پیاس بجھ چکی تھی اور طبیعت اس قدرخوش باش ہو چکی تھی کہ اب کہیں اور جانے کی گنجائش نظر نہیں آتی تھی۔ یہ ان بزرگوں کی نظر عنایت ہی تو تھی کہ خالی کاسہ ایک ہی نظر میں بھر دیا۔ یہیں پر غیرشناسا لوگوں نے پیرومرشد کے ہاتھ چومنے شروع کر دیئے اور گلے لگ کر زار و قطار رونے لگے۔ ایسا دکھائی دیتا تھا کہ پیرومرشد کی کشش نے یہاں موجود اجنبی لوگوں کو بہت حد تک متاثر کیا ہے۔ یہاں سے نکل کر جب ہم بابا فرید ؒ کا وہ کنواں دیکھنے کے لیے گئے جس میں بابا فرید شکر گنج ؒ بارہ سال کچے دھاگے سے لٹکے رہے تھے تو راستے میں ایک درمیانی عمر کا آدمی پیرومرشد کو دیکھ کر خودبخود ہمارے پاس آ گیا اور حضرت صاحب کے ہاتھ چوم کر کہنے لگا کہ آپ یہاں کیسے تشریف لائے، پھر اپنی شناخت کروانے لگا۔ پیرومرشدنے اس شخص کو ساتھ لیا جو یہاں کے تقریباً سبھی تبرکات اور مزارت کے بارے میں خاصی جان پہچان رکھتا تھا ۔ کچے راستے کے دائیں بائیں موٹی کچی دیواریں تھیں اور بڑے بڑے کھلے احاطے بھی دکھائی دیئے جو اس وقت بالکل خالی تھے۔ شاید یہ احاطے عرس کے دنوں کے لیے مخصوص تھے۔ جاتے ہوئے دائیں جانب ایک بڑا مندر نظر آیا تو حیرانگی سے اس کے بارے میں پوچھا۔ اس کے تھوڑے ہی فاصلے پر ہی ایک چار دیواری کے اندر وہ کنواں بھی دیکھنے کو نصیب ہوا جو بابا فرید گنج شکرؒ سے منسوب تھا۔ اس کنویں پر عورتیں پانی نکال کرگاگروں اور برتنوں میں محفوظ کر رہی تھیں۔ ہم نے بھی حسب توفیق تبرکاً پانی پیا اور ایک بوتل (جو صرف اسی مقصد کے لیے لاہو رسے خالی لائی گئی تھی) میں یہ پانی محفوظ کر لیا۔
پانی نکالنے کے فرائض محمد منشا اور ہدایت خان نے انجام دیئے اور بعد میں یہ بوتل ہدایت خان کی حفاظت میں لاہور تک پہنچی۔ یہاں سے فارغ ہو کر ہمیں ایک مینار والی چھوٹی سی مسجد میں لے جایا گیا جس کے بارے میں یہ مشہور ہے کہ یہاں حضور صلی اﷲ علیہ وسلم اپنی اونٹنی پر خود تشریف لائے تھے اور یہاں اونٹنی کے پاؤں اور پیٹ کے نشان بھی موجود تھے-
( جاری ہے )
 

Aslam Lodhi
About the Author: Aslam Lodhi Read More Articles by Aslam Lodhi: 781 Articles with 666121 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.