اس نظام میں سیاسی کارکن کہاں کھڑا ہے؟

دنیا میں یہ مشہور ہے کہ پاکستانی سیاست کے متعلق کوئی حتمی دلیل یا اس پر حرف آخر کوئی بات بیان نہیں کی جا سکتی. کیونکہ ان 75 سالوں میں اس مُلک میں کئی بحران آئے اور اتنا کچھ بھی بہا کے لے گے اس سے نہ ہماری سیاسی جماعتیں، نہ کارکنان اور نہ ہی اسٹیک ہولڈر سمجھ پائے. جبکہ سیاست میں نہ تو کوئی بات حرف آخر ہوتی ہے اور نہ ہی کوئی مستقل حریف یا حلیف لیکن اس مسلمہ حقیقت کے باوجود پاکستانی سیاست کا اونٹ کسی بھی کروٹ نہیں بیٹھتا یہ اس مُلک کی بدقسمتی نہ کہیں تو کیا کہیں. ان 75 سالوں میں پاکستان کی تمام سیاسی ، مذہبی ، فرقہ وارانہ، لسانی ، وغیرہ جماعتیں کیوں ادارہ نہ بن سکیں، جو مختلف مفادات کے لیے باآسانی اپنی خدمات پیش کرتیں آئی ہیں۔ دنیا میں جو سیاسی جماعتیں ادارہ ہوتی ہیں . اس میں آئین اور نظریہ لیڈر یا رہنما پر اثر انداز ہوتا ہے، ہر اہم فیصلے کسی نظام کے تحت ہوتے ہیں، جماعت کے تمام فیصلوں اور ان کے فیصلوں پر کس طرح عمل ہوا یا نہ ہونا غرض ہر اہم فیصلوں ریکارڈ رکھا اور پرکھا جاتا ہے، جو جماعت ممبران کے مطالبے پر فراہم کیا جاتا ہے. تاکہ وہ اندازہ لگائیں کہ فیصلے لیے یا لیے گئے ہیں وہ جماعت کے آئین، نظریے اور مفاد میں ہوئے یا نہیں۔ پاکستان کی گزشتہ دہائیوں سے مسلم لیگ ن، پیپلز پارٹی ، جمیعت علمائے اسلام ، عوامی نیشنل پارٹی ، متحدہ پاکستان ، جماعت اسلامی اور نوازئیدہ جماعت پی ٹی آئی وغیرہ اپنے دور اقتدار و حزب اختلاف میں پارلیمنٹ میں اپنی خدمات دیتی آئی ہیں اور دے رہی ہیں . پھر بھی ان جماعتوں کے کارکنان میں کوئی تنظیم و نظام کا نہ ہونا ہمارے جمہوری کلچر کا ایک منہہ بولتا ثبوت ہے. سوائے ایک جماعت اسلامی میں کچھ تھوڑا بہت نظام وہ تنظیم کا کچھ بہتر و منظم نظام تھا. اب وہ بھی ضیاء کے دور اقتدار میں نظام مصطفی کی تحریک میں بھٹو کو اقتدار سے ہٹانے اور ضیاء کی حمایت سے عوام خاص کر ملک کے بڑے شہروں میں نہ نئے ووٹر اور نہ ہی نئے سپورٹر سے محروم ہوگئی کیونکہ جب لیڈر شپ اوپر ہی اوپر اہم فیصلے کردئے جو عوام کے خیالات سے مطابقت نہ رکھتے ہوں تو ووٹر وہ سپورٹر اپنے ووٹ کو بھی اور اپنی حمایت کو بھی اپنے ساتھ قید کرلیتا ہے. کچھ تو کنارہ کشی کرلیتے ہیں اور بیشتر دوسرے ٹریک پر اپنا سفر کی شروعات کردیتے ہیں . اس جماعت کا ووٹر اور سپورٹر کا یہ ہی خاموش احتیجاج ہے. اس جماعت کے مرکزی عہدیدران کے لیے یہ لمحہ فکریہ ہے. پاکستان کی ہر سیاسی و سماجی جماعت و تنظیم کا کارکن اپنے آپ کو ان جماعتوں میں ایک فاضل پرزہ سمجھتا ہے.( گاڑی میں استعمال ہونے والا پرزہ نہیں ) اس رویے کی اہم وجہ بیشتر ہمارا طبقاتی نظام تعلیم و ہماری ثقافت و کلچر ہے ۔ اس ہی رویے سے ہر جماعت کے رہنماء بھرپور فائدہ اُٹھارہے ہیں اور اُٹھاتے رہینگےاور مُلک کی تمام سیاسی مذہبی، فرقہ روانہ، مسلکی، لسانی و سماجی تنظیمیں و جماعتیں اپنے کارکنوں سے غُلامانہ و بھیڑ بکریوں کی طرح برتاؤ کرتی ہیں اور کرتی آرہی ہیں . پاکستان کی ہر جماعت گزشتہ دہائیوں اور موجودہ حزب اقتدار وحزب اختلاف جماعت اپنے اپنے کارکنان کو صاف اور شفاف الیکشن کی تیاری میں تو استعمال نہیں کرتیں بلکہ انہیں اس طرح کی تر غیب و تربیت دی جاتی ہیں کہ الیکشن میں دھاندلی کس طرح کی جاتیں اور کس وقت زیادہ مفید ہے دھاندلی کے لیے.اس وقت انہیں کارکنان کی اخلاقیات یا ضمیر انہیں اس پر نادم اور ملال نہیں کرتا بلکہ ان کی نظر میں صرف بزور طاقت کا حصول ہی ان سیاسی جماعتوں کی سب سے اہم منزل ہے، جس کا خمیازہ ہر حکمران کو اپنے دور حکمرانی میں عرصہ 3 سالہ اپنے دور اقتدار میں مُلک میں بحران کے نام پر کبھی لانگ مارچ کی صورت میں تو کبھی ریلیوں و دھرنے تو کبھی مختلف سرکاری اداروں کے گھیراؤ میں نظر آتا ہے. اور ان حرکتوں سے اکثر اوقات سیاسی نظام کا کیواڑ بھی بھیڑ دیا گیا ہے. اس سے جہاں ملکی سیاسی نظام میں قفل بھی لگا اور کبھی مفادات کے چولے جھولیوں کے ساتھ اقتدار کا تاج مختلف رہنماؤں نے اپنے سر بھی سجایا. مگر سیاسی کارکنان کی تربیت جب رہنماء کے مفادات کے چولے کے ساتھ تختہ اقتدار میں سراب کی طرف پہلا قدم رکھتے ہوئے کارکنان نے اپنے دیدوں سے پرکھا تو پھر یہ کارکنان بھی ان سرابوں کے پیچھے دوڑنے لگے مگرکسی بھی رہنما و عہدیداران نے ان کے بھیجے میں یہ اخلاقیات کا امرت دھارا نہ اُنڈیلہ کیونکہ چاہے رہنماء ہو یا عہدیداران ان کے خود کےاخلاقیات کا گراف سمندر کی لہروں کو پکڑنا جیسا ہے. ایسے میں ہر جماعت کے کارکنان سے کیا گلہ ہر جماعت کے کارکنان ان لوگوں کے لیے اپنی جماعت پر ٹکٹ دینے پر بھی آواز نہیں اٹھاتے جب کہ سب کو ان کی وجہ شہرت اپنے حلقوں میں پچکاریوں کے دھابے پر ان ناموں سے( کہیں دادا تو کہیں بھائی تو کہیں پہلوان جانی و پہچانی جاتی ہیں ) اس سے نتیجہ اخذ کرلو اگر اس طرح کے لوگ ہر جماعت میں ان کی اکثریت نہیں تو اقلیت میں بھی نہیں ہوتی . یعنی ہر جماعت میں تقریبا %25 فیصد وہ ٹکٹ ہولڈر ہوتے ہیں جن کی وجہ شہرت مختلف ایکٹیویٹی میں کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہوتی مگر ہمارے مُلک میں ایک کلچر بن گیا ہے. جو جتنا داغدار وہی ہے علاقہ کا مائی باپ اپنے آپ کو سمجھتا ہے. یہ بھی ہماری 75 سال سے دیا گیا ہوا وہ طبقاتی نظام تعلیم کی دین ہے، جہاں اخلاقیات کی تربیت کسی اہمیت کی حامل نہیں۔ موجودہ کرپٹ نظام صرف پارٹی مالکان نے نہیں بنایا بلکہ پارٹی کارکنان بھی اس گناہ میں برابر کے شریک سفر ہیں. ہر سیاسی جماعت اپنے تیئں یہ سمجھ بیٹھی کہ دوسری سیاسی جماعت کے کارکنان ان کے جلسے کو رونق بخشیں تو ہمارے جانے کی کیا ضرورت ، تیسری یہ کہ کل تک انفرادی جلسوں میں یہی قائدین اور ان کے کارکنان دوسری سیاسی جماعت کو گالیاں تک دیتے تو آج کیسے ممکن تھا کہ اسی سیاسی جماعت کے قائد کے لئے زندہ باد کے نعرے لگاتے.

سیاسی جماعتوں کو بھی اب سبق سیکھنا چاہئے۔کب تک پکڑ دھکڑ کی سیاست چلے گی۔کب تک مقدمات اور پیشیاں سیاستدانوں کا مقدر رہیں گی۔ کب تک اقتدار کے چند سال مزے لینے کے بعد فرش سے عرش پر آتے ہی وفاداریاں بدلنے کی لائین میں لگے رہو گے. دنیا بھر میں اپنی بھی اور مُلک کی رسوائی کا پیش خیمہ بنے رہوگے. آخر کب تک اندر اور باہر کا کھیل چلے گا. اس وقت پاکستان کے موجودہ نظام میں جو خرابیاں ہیں ان کو ہر سیاسی جماعت ایک ساتھ بیٹھ کر نظام میں جو خرابیاں ہیں ان کو درستگی کی طرف لیکر جائیں. اور یہ ہر سیاسی جماعت کی لیڈر شپ پر واضع کریں کہ وہ اپنے اپنے کارکنان پر تشدد ، انتہا پسندیگی ، جذباتی طرز طریقہ سیاست سے دور رہیں. یہ تبدیلی صرف ملک میں ہی نہیں ہوگی بلکہ سیاسی کارکن کو بھی اپنا رویہ جمہوری بنانا ہوگا اور اس کی ابتدا پارٹی کے اندر جمہوری روایات قائم کرنے سے ہوگی۔
 

انجئنیر! شاہد صدیق خانزادہ
About the Author: انجئنیر! شاہد صدیق خانزادہ Read More Articles by انجئنیر! شاہد صدیق خانزادہ: 233 Articles with 82892 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.