شہداء پاکستان ہم آپ سے شرمندہ ہیں

یوم تکریم شہداء پاکستان!

شہادت کی موت ہر مومن کی اولین خواہش ہوتی ہے۔سیدنا انس بن مالک رضی اﷲ عنہ سے مروی ہے کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا!قیامت کے دن جنتیوں میں ایک شخص حاضر کیا جائے گا اور اس سے سوال کیا جائے گا کہ اے آدم کے بیٹے !تو نے اپنا مکان کیسا پایا؟وہ کہے گا میرے رب بہترین مکان ہے پھر اﷲ تعالیٰ فرمائے گا مانگ اور خواہش کروہ کہے گا کہ اے میرے رب !مجھے دنیا میں واپس بھیج تاکہ ترے رستے میں دس مرتبہ قتل کیا جاؤں۔(سند صحیح سنن نسائی 3162)یہ ایک شہید کی خواہش ہوگی۔شہادت ایک عظیم رتبہ اور بہت بڑا مقام ہے جو قسمت والوں کو ملتا ہے۔شہادت کا مقام نبوت کے مقام سے تیسرے درجے پر ہے جیسا کہ ارشادباریٰ تعالیٰ ’’تو ایسے اشخاص بھی ان حضرات کے ساتھ ہوں گے جن پر اﷲ تعالیٰ نے انعام فرمایا یعنی انبیاء اور صدیقین اور شہداء اور صالحین اور یہ حضرات بہت اچھے رفیق ہیں ۔(سورۃ النساء69)یہ حقیقت ہے کہ شہید کی موت قوم کی حیات ہے اپنے وطن سے والہانہ محبت کرنا بھی فرض بھی اور انسانی فطرت بھی جس طرح جب صحابہ کرام ؓ مکہ کو چھوڑ کرمدینہ جانا پڑا تھا تو وہ مکہ کے فراق اور ہجر میں بہت تڑپا کرتے تھے اور اشعار بھی پڑا کرتے تھے ۔بلکہ رحمت کائنات ﷺ بذات خود جب مکہ چھوڑ رہے تھے تو چشماں مقدس فراق مکہ میں پرنم تھیں ۔واقعات وحوادثات اس بات پر شاہد ہیں کہ مکہ سے اس محبت کی وجہ جہاں ایک طرف یہ تھی کہ وہاں بیت اﷲ تھا وہاں پر دوسری وجہ یہ بھی تھی اس سے انہیں ایک علاقائی فطری مانوسیت بھی تھی ویسے بھی اپنی گلی ،محلہ ،شہر ،علاقہ اور ملک سے ایک انس سا پیدا ہوجانا فطری جذبہ ہے اس سے کسی صورت انکار ممکن نہیں ۔پاکستان ایک مقدس دھرتی ہے کیونکہ اس میں ہزاروں شہداء کا مقدس لہو شامل ہے ۔آئے روز یہ اﷲ کے سپاہی وطن کی حفاظت کرتے ہوئے اپنی جانوں کے نذرانے پیش کرتے رہتے ہیں ۔تبھی تو یہ ملک قائم ہیں اور ہم ہیں ورنہ دشمن کب کا ہمیں تر نوالہ سمجھ کر نگل چکا ہوتا ۔

غازیوں ،شہیدوں سے محبت کرنا عین سنت ہے اور سنت نبوی ﷺ سے محبت اور اس کی پیروی کرنے والے سے اﷲ تعالیٰ خود محبت فرماتا ہے چنانچہ یہی وہ غازی وشہید اور وطن کے مجاہد ہیں جن کے بارے میں اﷲ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ’’بے شک اﷲ دوست رکھتا ہے انہیں جو اس کی راہ میں لڑتے ہیں صف باندھ کر گویا وہ عمارت ہیں سیسہ پلائی دیوار ‘‘(سورۃ الصف آیت 4)ایک اور مقام پر اﷲ تعالیٰ ان مجاہد ین کی حرمت بیان فرماتا ہے ۔’’اس لیے انہیں جو پیاس یا تکلیف یا بھوک اﷲ کی راہ میں پہنچتی ہے اور وہ ایسی جگہ قدم رکھتے ہیں جس سے کافروں کو غیظ آئے اور جو کچھ کسی دشمن کا بگاڑ تے ہیں اس سب کے بدلے ان کے لیے نیک عمل لکھا جاتا ہے ۔بے شک اﷲ تعالیٰ نیکی کرنے والوں کا اجر ضائع نہیں کرتا ۔‘‘(سورۃ التوبہ 120)آج ہم اپنے شہداء اپنے محافظوں سے نفرت کا اظہار یاان کی مخالفت کرکے براہ راست اﷲ کے کلام سے نفرت اوراس کے حکم کی مخالفت کے مرتکب ہورہے ہیں اور ساتھ پیغمبرکائنات ﷺ کے فرامین سے بھی منہ موڑ رہے ہیں ۔ایک بات ذہن نشین کر لینی چاہیے کہ اﷲ تعالیٰ کے بعد اگر ملک وملت کا کوئی محافظ ونگہبان ہے تو وہ ہماری مایہ ناز پاک فوج ہے جس کی موجودگی میں ہم اور ہماری اولادیں وجائیدادیں محفوظ ومامون ہیں ۔وہ آنکھیں جو جوریاست کے تحفظ کے لیے جاگتی ہیں وہ اﷲ تعالیٰ کو بے حد پسند ہیں ۔اﷲ کی راہ میں ’’رباط‘‘پہرہ دینے کی فضیلت ،سیدنا ابو ہریرہؓ دشمن کی سرحد کے قریب پڑاؤ ڈالنے والی(سرحدوں پر پہرہ دینے والی) فوج میں موجود تھے ۔کہ( لوگ کسی خبر کی وجہ سے )کسی گھبراہٹ کا شکار ہوئے اور ساحل کی طرف چلے گئے ،پھر کہا گیا کہ کوئی خوف نہیں تو لوگ آگئے اور سیدیا ابو ہریرہ ؓ کھڑے تھے ۔ایک آدمی آپؓ کے پاس سے گزرا اور کہا سیدنا ابو ہریرہؓ سے پوچھا آپ کیوں کھڑے ہیں ؟توآپؓ نے فرمایا !میں نے پیغمبر کائنات ﷺ کو یہ فرماتے سنا ہے کہ اﷲ کی راہ میں ایک پہرہ دینا حجرہ اسود کے قریب لیلۃ القدر کے قیام سے بہتر ہے‘‘۔ایک اور حدیث مبارکہ ،سیدنا سہل بن ساعدی ؓ سے روایت ہے کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا ’’اﷲ کی راہ میں ایک دن مورچے پر رہنا دنیا ومافیھا سے بہتر ہے ۔جنت میں تم میں سے کسی کے کوڑا رکھنے کی جگہ تمام دنیاومافیھا سے بہتر ہے اور کسی شخص کا صبح یا شام کے وقت اﷲ کی راہ میں چلنا ساری دنیا ومافیھا سے بہتر ہے ۔وہ قدم جوجذبہ شہادت کے لیے اٹھتے ہیں ،خون کا قطرہ زمین پر گرنے سے پہلے انہیں جنت کی دہلیز تک لے جاتے ہیں ۔چند روز قبل وطن عزیز میں ایک سیاسی پارٹی کے ورکرز کی طرف سے شہدا ء کی یادگاروں ،انکے مجسموں اور تصاویر کی بے حرمتی کی گئی جو کہ ایک تکلیف دہ امر ہونے کے ساتھ باعث شرمندگی بھی تھا ،کہ وہ عظیم لوگ جنہوں نے اس وطن کی خاطر اپنی جانوں کے نذرانے دے دئیے ہم کو انکا مشکور وممنون ہوچاہیے تھا مگر افسوس کہ چنداقتدار کے پجاری سیاست دانوں کے جھوٹے پراپیگنڈے میں آکر اپنے محافظوں اور وطن پر قربان ہونے والوں کے خلاف ایک گھناؤنی سازش کا حصہ بن بیٹھے ہیں۔کیپٹن کرنل شیرخان شہیدؒ کے مجسمے کا کیا قصور تھا ؟کہ جس کی بہادی اور شجاعت کا تو دشمن معترف تھا اور ہے ۔یہ بات ناقابل یقین ہے بہت کم ایسادیکھنے کو ملا ہے کہ دشمن کی فوج اپنے مقابل کے کسی فوجی کی بہادری کی داد دے اور اپنے حریف سے یہ کہے کہ فلاں فوجی (جوان) کی بہادر کی قدر کرنی چاہیے ،مگر ایسا ہوچکا ہے 1999ء کی کارگل جنگ کے دوران ایسا ہی واقعہ پیش آیا جب ٹائیگر ہل کے محاذ پر پاکستانی فوج کے کپتان کرنل شیرخان نے اتنی بہادری کے ساتھ جنگ کی کہ مخالف بھارتی فوج نے بھی ان کی شجاعت کا اعتراف کیا ۔اس لڑائی کی کمانڈ سنبھالنے والے بر یگیڈیئر ایم ایس باجوہ نے اپنے ایک انٹرویو میں بتایا کہ جب یہ جنگ ختم ہوئی تو میں اس افسر کی بہادری کا قائل ہوچکا تھا،میں 71ء کی جنگ بھی لڑ چکا ہوں ۔میں نے کبھی اتنا بہادر ،نڈر انسان نہیں دیکھا ۔باقی سارے پاکستانی فوجی پاجاموں میں تھے اور وہ تنہا ٹریک سوٹ میں تھا۔بریگیڈئیر باجوہ کہتے ہیں۔وہ بڑی بے جگری سے لڑا،اور شہید ہوگیا۔حملے کے بعد ہم نے وہاں تیس پاکستانی فوجیوں کی لاشوں کوعزت کے ساتھ دفنایا ۔لیکن میں نے اپنے پورٹرز بھیج کراس شیرجوان کی لاش کو نیچے منگوایا اور ہم نے اسے بریگیڈ ہیڈ کوارٹر میں رکھا ۔جب تلاشی لی گئی تو علم ہوا اس جوان کا نام کپتان کرنل شیرخان تھا ،واقعی ہے شیر تھا ۔جب کیپٹن شیر خان کی لاش واپس کرنے کا موقع آیا تو میں انکی جیب میں کاغذ کا ایک پرزہ رکھ دیا جس پر میں نے لکھا تھا :12این ایل آئی کے کپتان کرنل شیر خان انتہائی بہادری سے لڑے اور انہیں انکا حق دیا جانا چاہیے۔بریگیڈئیر باجوہ کہتے ہیں کہ جب مجھے علم ہوا کہ کیپٹن کرنل شیر خان کو پاکستان کا سب سے بڑا فوجی اعزاز ’’نشان حیدر‘‘سے نوازا گیا ہے تو مجھے بڑی خوشی ہوئی ۔دشمن بھی خاندانی ہوچاہیے ،دشمن تھا مگر خاندانی تھا اور آج اپنے ہیں مگر غدار اور منافق ہیں جو کام دشمن نہ کرسکا وہ اپنوں نے کردیا ۔افسوس صدافسوس ۔کیپٹن کرنل شیر خان ہم شرمندہ ہیں کہ ہم آپکی دی ہوئی قربانی کی قدر نہ کرسکے ۔اس کیپٹن کرنل شیر خان شہید ؒکے مجسمے کا کیاقصور تھا ؟یہی کہ وہ اﷲ کا سپاہی پانچ دن بھوکے پیاسے رہ کر اپنے ملک وقوم کی حفاظت کرتے ہوئے جام شہادت نوش فرماگئے،اور قوم کو حیات بخش گئے۔یہ حقیقت ہے کہ جو قومیں اپنے محسنوں کی قربانیوں کو بھلادیتی ہیں پھر ذلت ورسوائی انکا مقدر بن جاتی ہے۔جی ایچ کیو پر حملہ ،کورکمانڈر ہاؤس پرحملہ ،پشاور ریڈیو پاکستان کی عمارت پر حملہ ،آگ لگانا،ایمبولنس کو روک مریض اتار کر ایمبولنس کو آگ لگانا،مسجد کو نذر آتش کرناجناح ہاؤس کو آگ لگانے کا مقصد اس ملک میں انتشار پیدا کرنا اور اپنی ہی عوام کو اپنی ہی فوج کے خلاف کھڑا کرنا اور دشمن کے ناپاک ارادوں کی تکمیل کرنا نہیں تو اور کیا ہے؟۔پاکستان کی تاریخ میں 9مئی ایک سیاہ دن کے طور پر یاد رکھا جائے گا۔یہ کیسی محب وطن سیاسی جماعت ہے کہ اپنے چند حواریوں کو اپنوں کے ہی خلاف بغاوت پر اکسارہی ہے۔جی ایک کیو پر حملہ پاکستان کی سا لمیت پر حملہ ہے ۔یہ چند دشمن کو کیا پیغام دینا چاہتے ہیں یہی کہ وہ انکی سہولت کاری کا فرض بخوبی سرانجام دے رہے ہیں ۔کبھی امریکہ پر حکومت گرانے کا الزام تو کبھی سابق آرمی چیف سمیت تمام افواج کو نشانہ بنانا یہ اقتدار کے نشے کی آخری حد نہیں تو اور کیا ہے؟ایک اور اہم بات خود کو ملک کی سب سے بڑی محب وطن سیاسی جماعت ہونے کا دعویٰ کرنے والے پی ٹی آئی نے ملک کے اندر بے ادبی اور فحاشی کلچر کو آخری حد تک فروغ دیا ہے ۔جس طرح مولانا فضل الرحمن جیسے سیاسی بصرت رکھنے والے علماء کو غلط نام سے پکارنا اور اپنے جلسوں میں نیم عریاں ڈانس ،اپنی زوجہ محترمہ کو پردوں میں رکھنا اور قوم کی بیٹیوں کو سڑکوں پر نچوانا ،پتہ نہیں کہ یہ قوم کب سمجھیں گی؟ ۔برحال قومی املاک(اور شہداء کی یادگاروں) کو نقصان پہچانے والوں کے خلاف آرمی ایکٹ کے تحت مقدمات کا دائر ہونا بہت اچھا اقدام ہے ،ہم اپنی پاک فوج کے ساتھ کھڑے تھے ،کھڑے ہیں اور کھڑے رہیں گے۔انشاء اﷲ ۔ایسے قومی مجرموں کو قرار واقعی سزادی جانی چاہیے تاکہ آئندہ کوئی غدار میرے ملک کی طرف آنکھ اٹھا کر نہ دیکھ سکے۔

Naseem Ul Haq Zahidi
About the Author: Naseem Ul Haq Zahidi Read More Articles by Naseem Ul Haq Zahidi: 193 Articles with 139258 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.