مجھے میری تلوار میرا قلم چاہیے

یوم آزادی صحافت کے روز میں معمول کے مطابق دفتر میں میز پر پڑے اخبار میں یوم آزادی صحافت کے متعلق خبریں اورمضامین پڑھ رہا تھا کہ میرے بہت ہی پیارے مخلص اور عقیدت و احترام سے پیش آنے والے حرمین الشریفین کے ہم سفر صحافت میں دلچسپی رکھنے والے دوست رانا شاہد حسین کی کال آئی کہ میں آپ کے پاس آرہا ہوں تھوڑی دیر کے بعد وہ میرے دفتر میں آگئے اور ان کے ہاتھ میں ایک خوبصورت گفٹ پیک ڈبہ تھا جو انھوں نے مجھے دیتے ہوئیکہا کہ یہ میری طرف سے یوم آزادی صحافت کے موقع پر آپ کے لیے تحفہ ہے میں نے شکریہ کے ساتھ ڈبہ کھولا تو اس میں بہت قیمتی موبائل فون تھا جبکہ تحفہ لیتے ہوئے اور کھولتے ہوئے میرے ذہن میں آرہاتھا کہ اس ڈبہ میں کوئی خوبصورت علمی و ادبی کتاب ہو گئی میں نے حیران ہو کر پوچھا رانا صاحب یہ کیا ہے تو انھوں نے اس موبائل فون کیفوائد بیان کرنا شروع کر دیئے کہ دنیا کے کسی بھی حصہ سے رابط کیا جاسکتا ہے ایک دوسرے کی آواز سنی جا سکتی ہے تحریری و تصویری آڈیو ویڈیو پیغام بھیجے جا سکتے ہیں یہ دنیا کی ہر طرح کی معلومات فراہم کرتا ہے پڑھنے لکھنے میں مدد فراہم کرتا ہے۔اس کے اور بھی بہت سے فوائد ہیں مثلاً آپ کو قلم اور کاغذ گھڑی ٹارچ لائٹ وغیرہ پاس رکھنے کی ضرورت نہیں یہ کیمرہ فلم ٹیپ ریکارڈر اور دیگر سمعی و بصری آلات کا بھی کام دیتا ہے آپ کو قلم سے لکھنے کی ضرورت نہیں آپ بولتے جائیں یہ خود ہی لکھتا ہے یعنی یہ بہت مفید اور کار آمد ہے۔میرا دوست گفتگو کیے جا رہا تھا لیکن میں بہت گہری سوچوں میں گم سم سوچ رہا تھا کہ یہ کیسا آلہ ہے جس نے ہم سیقلم اور کتاب کو چھین لیا ہے ہماراادب ہمارا تلفظ و آملا کو اس نے برباد کر دیا ہے ہماری کتابیں الماریوں میں پڑی پڑی دیمک کی نظر ہو چکی ہیں جبکہ ہماری دینی علمی ادبی تاریخی ثقافتی تربیتی تحقیقی اور لطائف پر مبنی کتب کو یہ آلہ کھا گیا ہے ہمارے آرام و سکون محبت و شفقت ادب واحترام کو اس نے فنا کر دیا ہے نسل نو کو تباہی کے دہانے پر پہنچا دیا ہے جبکہ کتاب کی اہمیت تو رب العزت نے اپنے جلیل القدر انبیاء علیہم السلام پر آسمانی کتب تورات انجیل زبور اور قرآن مجید بھیج کر بتا دی گئی ہے کتاب تو ہمارے دین و ایمان کی گواہی ہیاور ایمان لانے والوں کے لیے شرط ہے کہ وہ آسمانی کتابوں پر ایمان لانے کا دل و زبان سے اقرار کریں کتاب تو اللّٰہ کی طرف سے رحمت و شفا ہے اور کامیابی کا ذریعہ ہے کتاب کے بغیر تو گمراہی ہے کتاب روشنی اور سیدھا راستہ دکھاتی ہے کتاب میں ہی تو وہ سب کچھ لکھ دیا گیا ہے کتاب میں دنیا و آخرت کی تمام کامیابیوں کے طریقے اور تفصیلات لکھ دی گئی ہیں وہ کتاب ہی تھی جسے سن کرصحابہ کرام رضوان اﷲ اجمعین نے دنیا کو فتح کر لیا تھا اور آخرت میں بھی کامیابی حاصل کرلی لیکن ہم کتاب کو چھوڑ کر دنیا و آخرت میں ناکام ہو رہیہیں۔کتاب قرآن کریم کو تو مضبوطی سے پکڑنے کا حکم ہے لیکن ہم چھوڑ کر رسوا ہو رہے ہیں۔اقبال نے کیا خوب کہا ہے۔
وہ زمانے میں معزز تھے مسلماں ہو کر
ہم خوار ہوئے تارک قرآں ہو کر

اس آلہ کی ایجاد سے قبل تعلیم یافتہ و ان پڑھ سبھی لوگ شادی کے موقع پر بیٹیوں کو جہیز میں قرآن مجید کے ساتھ دیگر دینی کتب (بہشتی زیور۔جنتی زیور)جیسی روزمرہ زندگی کے مسائل پر لکھی ہوئی کتب ضرور دیتے تھے تاکہ بیٹی کو تمام رشتوں کی قدر و منزلت اور زندگی میں پیش آنے والے مسائل کا علم ہو اور وہ خوشی و غمی میں ان مسائل و مصائب سے بخوبی نمٹ سکے لیکن اب یہ ہمارا بہترین رسم و رواج بھی ختم ہو گیا ہے۔

کتاب کیا ہے اپنے وسیع تر مفہوم میں ہر وہ تحریر جو کسی شکل میں محفوظ کی گئی ہو کتاب کہلاتی ہے گویا مٹی کی تخیاں ہڈیوں چمڑے درختوں کی چھال لکڑی کے تختوں پر پتھر کی بنی سیلٹوں پر جو تحریر محفوظ کئی گئی ہے وہ کتاب ہے یہ کاغذ اور دیگر چیزوں پر بھی ہو سکتی ہے کتاب لکھے اور چھاپے گئے کاغذوں کے مجموعہ کو کہتے ہیں۔جبکہ کتاب بہترین دوست اور ساتھی ہے۔لیکن اس آلہ نے تو ہمارا کوئی دوست اور ساتھی نہیں چھوڑا ہمیں اکیلا کر دیا ہے

اس آلہ نے تو ہمیں کہیں کا نہیں چھوڑا ہم اس آلہ میں اس قدر کھو گئے ہیں کہ دن رات کی تمیز نہیں رہی اور نہ ہی اپنے آپ کا ہوش بس عالم مدہوشی میں وقت ضائع کر رہے ہیں نہ دنیا نہ آخرت
نہ ادھر کے رہے نہ ادھر کے رہے
نہ خدا ہی ملا نہ وصالِ صنم

یہ علم و ادب کا دشمن ہے کیونکہ علم کے لیے قلم و کتاب ضروری ہے جیسا کہ خالق کائنات نے ارشاد فرمایا سورہ العلق ترجمہ۔ یعنی حق تعالٰی نے علم سکھایا قلم سے۔ یعنی علم سیکھنے کے لئے قلم ضروری ہے کیونکہ اس کے بغیر علم حاصل نہیں کیا جاسکتا جیسا کہ اﷲ تعالٰی نے ارشاد فرمایا ہے سورہ قلم آیت نمبر 1 ترجمہ۔ن قسم ہے قلم کی اور اس کی جو کچھ لکھنے والے لکھتے ہیں۔ اﷲ تعالٰی نے قلم کی قسم کھا کر قلم کی اہمیت اور اس سے لکھنے والوں کی فضیلت بیان کی ہے اﷲ تعالٰی اگر انسان کو قلم ایجاد کرنے اور لکھنے کی صلاحیت نہ بخشتا تو دنیا میں اس طرح علم کی ترویج نہ ہو پاتی۔قلم ایک ایسا ذریعہ ہے جس کے ساتھ ہر بات کو طویل مدت تک محفوظ رکھا جا سکتا ہے جس کے ذریعے دنیا کی تاریخ حساب وکتاب دینی مسائل ہر قسم کے علوم اگلی نسلوں تک پہنچائے جاتے ہیں۔ حضرت عبادہ بن الصامت رضی اﷲ تعالٰی عنہ روایت کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا کہ سب سے پہلے حق تعالٰی نے قلم پیدا فرمایا اور اس کو حکم دیا کہ لکھ قلم نے عرض کیا کیا لکھوں تو حکم دیا گیا تقدیر الہٰی کو۔قلم نے حکم کے مطابق ابد تک یعنی آخر تک جس کی کوئی انتہا نہیں ہونے والے تمام واقعات اور حالات کو لکھ دیا (جامع ترمذی)قلم کیا ہے قلم کے معنی یعنی وہ چیز جس سے بحکمِ تعالٰی قیامت تک کی ہر شے کی تقدیر لکھی جائے گی۔ جبکہ قلم کی تعریف اس طرح کی گئی ہے یعنی قلم اس کامل اور قابلِ فہم تجزیاتی صلاحیت کو کہتے ہیں جو انسان کو کسی مادی یا غیر مادی شے کے منفی یا مثبت پہلوؤں سے روشناس کراتی ہے اور قلم اس مادی شے کا نام بھی ہے جس سے عموماً لفظوں کو تحریری شکل دی جاتی ہے۔ حضرت قتادہ رضی اﷲ تعالٰی عنہ نے فرمایاکہ قلم اﷲ تعالٰی کی بڑی نعمت ہے جو اس نے اپنے بندوں کو عطا فرمایا ہے۔ کیونکہ تعلیم کا سب سے پہلا اور اہم ذریعہ قلم و کتاب ہے۔ یہ موبائل فون آنے سے قبل ایک دوسرے کو قلم اور دینی و ادبی کتب تحفہ میں دی جاتی تھی حتیٰ کہ سکولوں کالجوں میں بھی انعامات قلم و کتاب پر مبنی ہوتیتھے اور والدین عزیز رشتہ دار اور دوست احباب بھی تحفہ میں قلم و کتاب ہی دیتے تھے جس کی وجہ سے علم و ادب پروان چڑھ رہا تھا اور قلم و کتاب کی اہمیت سے سب آگاہ تھے۔ اور تعلیم یافتہ فرد کی سب بڑی نشانی اس کی جیب میں قلم ہوتی تھی حتیٰ کہ کم پڑھے لکھے لوگ بھی جیب میں رعب و دبدبے کے لیے قلم رکھتے تھے اور سرکاری و نجی اداروں میں قلم کو زنجیروں میں باندھ کر رکھا جاتا تھا لیکن اب قلم کسی تعلیم یافتہ کی جیب میں بھی نظر نہیں آتا حتیٰ کہ کسی سرکاری آفیسر سے دستخط بھی کروانے ہوں تو قلم تلاش کرنا پڑتا ہے کوئی ہے جو ہمارا گم شدہ قلم و کتاب واپس کر دے کاش یوم آزادی صحافت کے موقع پر میرا دوست مجھے قلم و کتاب کا تحفہ پیش کرتا جس سے میرے علم و ادب اور طاقت میں اضافہ ہوتا کیونکہ دنیا میں دو قوتیں ہیں ایک تلوار اور دوسرا قلم۔ جبکہ قلم تلوار سے زیادہ طاقتور ہے۔
کانپتے ہیں اس کی ہیبت سے سلاطین زمن
دبدبہ فرماں رواؤں پر بیھٹاتا ہے قلم۔
 

Ch Abdul Khaliq
About the Author: Ch Abdul Khaliq Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.