تَھوک اور تھُوک

قیام پاکستان کے وقت بانیان پاکستان اور ہمارے باپ دادا کی ہجرت کو75برس بیت گئے لیکن مخصوص سیاسی شخصیات کی ایک جماعت سے دوسری جماعت میں ہجرت کاکوئی وقت مقرر نہیں،ہماری سیاست میں جوزیادہ" بَکتا "ہے وہ زیادہ" بِکتا "ہے۔ پنڈی سے چوہان نامی کردار جوچندروز بیشترتک کپتان کواپنابھگوان مان رہا تھا وہ اب اس پر بہتان باندھ رہا ہے، تعجب ہے ان عناصر کے نام نہادضمیر پارٹی چھوڑنے کے بعدکیوں جاگتے ہیں ۔ان سیاسی پرندوں کی باربار ہجرت نے جمہوریت کونحوست زدہ کردیا ہے، یہ "مالی پیدوار" کیلئے ملک میں بدحالی کاراستہ ہموار اور سیاسی عدم استحکام پیداکرتے ہیں۔کوئی حال مست اورکوئی مال مست ہوتا ہے۔ شعبدہ بازفطری طورپر دغاباز ہوتے ہیں ،کوئی با صفا اپنی وفا نیلام نہیں کرتا ۔انتخابات کاموسم ابھی شروع نہیں ہوا لیکن موسمی پرندے پی ٹی آئی کی منڈیروں سے اڑان بھررہے ہیں ،کہا جارہا ہے کپتان کے مقرب لوگ پی ٹی آئی کوچھوڑ گئے لیکن ووٹرز نے ابھی تک پی ٹی آئی نہیں چھوڑی ۔جس طرح لوگ دنیا چھوڑ جاتے ہیں لیکن دنیا کوکسی قسم کافرق نہیں پڑتا،اس طرح جوخواتین وحضرات مبینہ دھونس دباؤ پر پی ٹی آئی چھوڑدیں گے تواس سے اس جماعت کی سیاسی اورعوامی حیثیت پرکوئی خاص اثر نہیں پڑے گا۔ضیائی آمریت کے دورمیں ذوالفقارعلی بھٹو کوتختہ دار پرلٹکایا گیا تو کچھ بزدل برج زمین بوس ہوگئے اورباقی زیرزمین چلے گئے تھے۔پرویزمشرف نے نوازشریف کاتختہ الٹایا تونیچے سے "کوہ قاف " لیگ برآمدہوئی۔یادرکھیں اگر فوجی آمر سیاسی پارٹیاں ختم کرنے میں کامیاب نہیں ہوئے توشہبازشریف بھی پی ٹی آئی کونابود نہیں کرسکتا۔صرف اورصرف ووٹ سے سیاسی اداروں کو ابھار ا یا موت کے گھاٹ اتاراجاسکتا ہے ۔ سیاست میں عداوت ہمارے سیاسی نصاب کااہم باب ہے ،کوئی منتقم مزاج اچھا منتظم نہیں ہوسکتا ۔بدقسمتی سے آج بھی ہماری ریاست میں انتقامی سیاست کاسورج سوانیزے پرہے ۔کافی دیرسے مائنس کپتان کی گردان سن رہے تھے ،اب اس پر کام تیز کردیا گیا ہے ۔ہمارے ملک میں صرف جانوروں کوڈنڈے سے نہیں ہانکا جاتا بلکہ مخصوص سیاستدانوں کو بھی اَدھر اُدھر کرنے کیلئے ڈنڈی ماری جاتی ہے۔ سیاستدان کمزور نہیں لیکن ان کی کمزوریاں بہت زیادہ ہیں لہٰذاء وہ زیادہ دیرتک کھڑے نہیں رہ سکتے۔

یادرکھیں سیاست ایک صحتمند صنف ہے لیکن مخصوص سیاستدان اپنی بیمار ذہنیت سے اس کو مسلسل پراگندہ کر رہے ہیں۔پراگندہ سیاست کادھندہ زیادہ دیرتک نہیں چلتا، اگرسیاستدان ایک دوسرے کوراستہ نہیں دیں گے توریاست شاہراہ ترقی پرگامزن نہیں ہوگی ۔ہم سیاست کوجس قدر فعال کریں گے ہمارا ملک اس قدر خوشحال ہوگا۔ریاست کیلئے ریاستی اداروں کی طرح سیاسی اداروں کادم بھی غنیمت ہے ، ریاستی اورسیاسی اداروں کیخلاف مہم جوئی ملک دشمنی تصور کی جائے گی ۔ معلوم نہیں سیاستدانوں نے سیاست میں نفرت کا زہرگھولنااورایک دوسرے کی ٹانگیں کھینچنا کس سے سیکھا ، سیاستدان توایوان سمیت کسی ناں کسی پلیٹ فارم پرآپس میں اکٹھے اورایک دوسرے کی خوشی غمی میں شریک ہوجاتے ہیں لیکن ان کے بیانات سے پیداہونیوالی شدید نفرت نے قوم کے درمیان نفاق کی جولکیر کھینچی ہے وہ اب کون مٹائے گا ۔

جواندرسے کمزور ہواسے باہر سے ضرب لگانا اورگرانا آسان ہوجاتا ہے،ہروہ حکمران جوکانوں کاکچا اورپیٹ کا ہلکا ہو اس کااقتدار پائیدار نہیں ہوسکتا،جو حکمران اندرونی ٹوٹ پھوٹ اور سازشوں کی پرواہ نہیں کرتے وہ بیرونی سازش کے نتیجہ میں فوری ڈھیر ہوجاتے ہیں۔ہمارے ہاں متعدد حکمرانوں کواندرونی وبیرونی سازشوں کے" زور اورزر" کی بنیادپراقتدار سے ہٹایا گیا۔جانیوالے حکمرانوں کی سیاسی غلطیوں سے آنیوالے حکمران کچھ نہیں سیکھتے۔ہمارے دیکھتے دیکھتے بے رحم موت نے کئی سیاسی شخصیات کو قبورمیں اتاردیا اور اس وقت متعدد بوڑھے سیاستدان کسی وقت بھی لقمہ اجل بن سکتے ہیں لیکن ان کے نزدیک بوڑھا پاکستان کسی دورمیں بھی قابل رحم نہیں رہا۔تعجب ہے جو اپنی اپنی سیاست بچانے کیلئے اکٹھے ہوجاتے ہیں وہ ہماری مقروض ریاست کی بقاء کیلئے متحد ومستعد کیوں نہیں ہو تے۔اگر پی ڈی ایم نامی اتحادی حکومت معاشی اصلاحات کے نام پرپاکستانیوں کو"ڈیم فول" بناسکتی ہے تو اقتدارمیں شریک یہ طبقہ پاکستان کی آبی ضروریات کیلئے "ڈیم " کی تعمیر کیلئے متفق کیوں نہیں ہوتا،میں پھر کہتاہوں جوسیاستدان عوام کانبض شناس نہیں وہ فرض شناس بھی نہیں ۔کوئی سرمایہ دارسیاستدان پاکستان کانجات دہندہ اورپاکستانیوں کیلئے سرمایہ افتخار نہیں ہوسکتا۔مادروطن کے دامن سے مفلسی کاداغ صرف وہ مٹاسکتا ہے جس نے اس کاذائقہ چکھا ہوگا۔جوحکومت مایوس اورمفلس عوام کو بنیادی حقوق نہیں دے سکتی وہ انہیں عزت تو دے لیکن جوخودعزت دارنہ ہووہ دوسروں کو کیا خاک عزت دے گا ۔یادرکھیں کوئی بندوق بردارکسی آدم زاد سے اس کی دولت تو چھین سکتا ہے لیکن عزت و ہ سوغات ہے جو چھینی نہیں جاسکتی ۔اگر اقتدار چھن جائے تودوبارہ مل جاتا ہے لیکن جس شخصیت پر سے ایک بار اعتبار اٹھ جائے توپھر اس کی ذات پرانگلیاں اٹھنا شروع ہوجاتی ہیں۔ اپنے پاس اقتدار واختیار ہوتے ہوئے بھی کوئی شعبدہ باز حکومت کے کسی شعبہ کوبہتر نہیں بناسکتا ۔جس حکمران کی زبان زہراگلتی ہو اس کاکام نہیں بولتا،1985ء سے اب تک جوبھی حکومت میں آیا وہ اپنے مدمقابل کیخلاف زہراگلتا رہا اور اس کافوکس اقدامات کی بجائے بیانات پرتھا۔بھارت میں پاکستان کیخلاف نفرت کوہوادینے کی بنیاد پرمینڈیٹ ملتا ہے جبکہ پاکستان میں سیاستدان چاردہائیوں سے ووٹرز کومائل اورقائل کرنے کیلئے ایک دوسرے کے وجود سے شدید نفرت کاڈھول پیٹ رہے ہیں۔ سیاستدانوں کی باہمی نفرت کی شدت سیاست کے بعدریاست کیلئے بھی خطرہ بن گئی ہے، آزادی اظہار کی آڑ میں عدم برداشت ہرگز برداشت نہیں کی جاسکتی ۔ہمارے ہاں حکمران بھی حکومت اورڈیلیور کرنے کی بجائے سیاست کرتے اورڈینگیں مارتے ہیں ۔اس سیاست نے1971ء کے بعد ایک بار پھر ریاست کومنقسم کردیاہے ،یادرکھیں ریاست کی بقاء کیلئے عہدحاضر کے طرزسیاست کونابود کرنا جبکہ دفاعی قیادت کوپھونک پھونک کرقدم زمین پررکھنا ہوگا۔

کپتان نے بھی سیاست سے نابلد ایک دنیادار خاتون کی باتوں پرکان دھرتے ہوئے اپنی جماعت کے دوچار بردباروں کوباری باری دیوار سے لگاتے ہوئے بزدار کوتخت لاہور پربٹھادیاتھا،میں کپتان سے پوچھتا ہوں آج بزدار کہاں اوراس وقت پی ٹی آئی کے قائدین وکارکنان جس پرآشوب دورسے گزررہے ہیں اس میں جماعت کی بقاء کیلئے بزدار کاکیاکردار ہے ،بزدار کاوجود پی ٹی آئی کیلئے ایک بوجھ تھا جوآج مزید بوجھ بن گیا۔عثمان بزدار کووزیراعلیٰ پنجاب بنانے کی سفارش درحقیقت کپتان کیخلاف سازش تھی جوکامیاب ہوگئی ۔کپتان نے پنڈی کے چوہان اور ڈی جی خان کے عثمان بزدار پرانحصار کیا اورنتیجہ بھگت لیا ۔عمران خان کواقتدار سے ہٹانے کیلئے مبینہ سازش میں کون کون شریک تھا اس بحث میں الجھنا وقت کاضیاع ہے لیکن موصوف نے اپنی سیاست کو اپنے آمرانہ طرزسیاست سے شدید نقصان پہنچایا۔دوصوبوں کی اسمبلیاں توڑنا ،"جس شاخ پربیٹھے اس کوکاٹنا تھا" ۔کپتان آج بھی اپنی سیاست پرخودکش حملے کرنے سے باز نہیں آرہا، وہ انتخابات کی " رَٹ "کی چھوڑ کرریاست کی" رِٹ" اورعوامی ایشوز پربات کیوں نہیں کرتا ۔کپتان کوبتاناچاہتا ہوں،"اوربھی غم ہیں زمانے میں الیکشن کے سوا" ۔کیاکپتان کے پاس سیاست کیلئے الیکشن کے سوا کوئی آپشن نہیں ،وہ معیشت کی بربادی ،عدم برداشت،بیروزگاری،مفلسی اورمہنگائی پربات کیوں نہیں کرتا۔

ارباب اقتدار کی خدمت میں عرض ہے !ریاست کے بغیر سیاست اور سیاست کے بغیر ریاست کی کوئی قدر و قیمت نہیں، یاد رکھیں سیاست وہ ستون ہے جس کو ریزہ ریزہ کرنے سے ریاست کی عمارت زمین بوس ہوسکتی ہے۔ متحدہ حکومت میں شریک مداری کپتان سے اس کے حواری چھین سکتے ہیں لیکن عمران خان سے اس کی منفردشناخت اور عالمی شہرت نہیں چھینی جا سکتی۔ کوئی حکومت سیاست کو کمزور کرکے ریاست کو طاقتور نہیں بناسکتی۔ ریاستی اداروں کی طرح سیاسی اداروں کی مضبوطی بھی ناگزیر ہے۔ سیاسی اداروں میں نقب لگانا ریاست کیخلاف راست اقدام تصور ہوگا۔حکومت ریاستی طاقت کے زورپر پی ٹی آئی کے" امیدوار" توڑ سکتی ہے لیکن" امید" توڑنا اس کے بس کی بات نہیں۔جوپارٹی چھوڑ رہے ہیں ،بلے کے بغیران کے پلے کیا ہے ۔مٹھی بھر کینیڈیٹ چھوڑتے ہیں توچھوڑ دیں لیکن پی ٹی آئی کے ووٹرز نے ابھی تک اپنے کپتان کاہاتھ اورساتھ نہیں چھوڑا ۔ کمزور ساتھی توڑنے سے عمران خان ٹوٹ جائے گا، یہ انتہائی احمقانہ خیال ہے۔ جس طرح ایک کے بعد ایک لوگ مقدمات اور قیدوبند کے ڈر سے پی ٹی آئی سے اپنا تعلق توڑ رہے ہیں اس سے حکومت مزید ایکسپوز ہوگئی ہے۔ جس نے "پی ٹی آئی" کی" پٹائی" کرنے کی نیت سے" تَھوک" کے حساب سے مقدمات بنائے تھے اورپھر سیاسی وفاداریاں تبدیل کرنیوالی سیاسی شخصیات کوکلین چٹ دیتے ہوئے" تھُوک" کرچاٹ لیا۔ اِدھر عمران خان سے تعلق ختم اُدھر ایف آئی آر ختم، اس سے زیادہ فوری انصاف اور کیا ہوسکتا ہے لیکن اس "طرزِ انصاف "سے "تحریک انصاف" ختم نہیں ہوگی۔آپ مختلف نام سے آٹھ دس تحریک انصاف میدان میں اتارسکتے ہیں لیکن اس طرح کپتان کی تحریک انصاف کو میدان سے نکال یاپچھاڑنہیں سکتے ۔


 

Muhammad Nasir Iqbal Khan
About the Author: Muhammad Nasir Iqbal Khan Read More Articles by Muhammad Nasir Iqbal Khan: 140 Articles with 90098 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.