شہرہ آفاق کالم نگار ، ساٹھ سے زائد کتابوں کے مصنف محمد اسلم لودھی (16ویں قسط )

ملک کی اہم علمی، ادبی ، معاشرتی شخصیات اور پاک فوج کے شہیدوں پر لکھناآپ کا محبوب مشغلہ رہا
غریب گھرانے میں پیدا ہونے کے باوجود آپ نے غربت کو اپنے راستے کی دیوار نہیں بننے دیا
آپ دو سال روزنامہ جرات،چھ ماہ روزنامہ دن ، تین سال روزنامہ پاکستان ، دو سال پشاور کے ارود اخبار آج اور چودہ سال نوائے وقت میں ہفتہ وار کالم لکھتے رہے
آپ کا دو مرتبہ تمغہ حسن کارکردگی کے لیے حکومت پنجاب کی جانب سے نام تجویز کیا گیا لیکن ایوارڈ نہ مل سکا
آپ کو 2007ء میں اردو کالم نگاری کا پہلا ٹیٹرا پیک ایوارڈ (پچاس ہزار کا چیک)حاصل کرنے کا اعزاز بھی حاصل ہے
آپ کی گیارہ کتابیں صوبہ پنجاب ، گیارہ خیبرپختونخوا اور گیارہ کتابیں آزاد جموں و کشمیر کے تعلیمی اداروں کی لائبریریوں اور بپلک لائبریریوں کے لیے منظور ہو ئیں


سوال ۔ لودھی صاحب لاہور واپسی پر آپ کے معمولات کیا تھے ۔ نوکری حاصل کرنے کی جدوجہد کہاں تک پہنچی ؟
اسلم لودھی ۔ شہزاد صاحب ۔لاہور چھاؤنی میں واپسی کے فورا بعد ملازمت ملنے کے امکانات تو ہے نہیں تھے ۔اس لیے ریلوے کوارٹروں اور کچی آبادی قربان لائن کے کچھ دوستوں کے ہمراہ کرکٹ کھیلنا شروع کر دی ۔جس کی کچھ تفصیل پچھلی قسط سے شروع ہو چکی ہے۔
.....................
جس زمانے کی میں بات کررہا ہوں اس وقت ریلوے کوارٹروں میں اگر کوئی شادی بیاہ کی تقریب ہوتی یا کسی کاانتقال ہوجاتا تو بابے ماشکی سے چار آنے کے حساب سے پانی کی دو چار مشکیں منگوا لیا کرتے تھے ۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ بابا ماشکی ننگے پاؤں گنگا آئس فیکٹری کی اکلوتی مسجد کے قریب واقع کنویں سے ربڑ کے بوکوں کے ذریعے پانی نکال کر پہلے اپنی ماشک بھرتے،، بھر ننگے ہی پاؤں پی ڈبلیو ڈی کی دیوار کے ساتھ ساتھ چلتے ہوئے ریلوے کوارٹروں تک پانی کی بھری ہوئی مشک لے کر آتے اور گھر کے تمام برتن پانی سے بھر دیا کرتے ۔
اسی بابے ماشکی کا بیٹا اسلام الدین جو اس وقت بہت تیز باولر تھا اور اکثر اس کی گیند یں چہرے کے برابر آیا کرتی تھی ۔ چونکہ اس وقت کرکٹ میں ہلمٹ ایجاد نہیں ہوا تھا اور اگر ایجاد ہوتا بھی تو ہماری ٹیم کے پاس اتنے پیسے کہاں سے آتے جس سے وہ ہلمٹ خرید لیتی۔ہماری ٹیم کے پاس تونئی گیندخریدنے کے لیے بھی پیسے نہیں ہوا کرتے تھے ۔جب بھی کسی دوسری ٹیم کے ساتھ میچ طے ہوتا تو ایک شام پہلے تمام کھلاڑیوں سے دو دو روپے اکٹھے کرکے میچ کے لیے نئی گیند خرخرید لی جاتی ۔اگر خدانخواستہ بلا ٹوٹ جاتا تو کئی کئی مہینے ٹیم کے پاس بلا خریدنے کے لیے پیسے نہیں ہوا کرتے تھے ۔ بہرکیف جب ہماری اور گنگا آئس فیکٹری کی کرکٹ ٹیمیں ٹیکنکل ٹریننگ انسٹی ٹیوٹ( ٹی ٹی سی) کی ڈونگی گراؤنڈ میں میچ کھیلنے کے لیے اکھٹی ہوئیں تو دونوں ٹیموں کے کپتان ٹاس کرنے کے لیے وکٹ پر کھڑے ہوئے ۔ بد قسمتی سے ہماری ٹیم ٹاس ہار گئی اور گنگا آئس فیکٹری کی ٹیم نے ٹاس جیت کر ہمیں بیٹنگ کی دعوت دے دی ۔ ہماری ٹیم کے کھلاڑیوں کو پتہ تھا کہ گنگا آئس فیکٹری ٹیم کے اسلام الدین اور احمد علی باونسر بہت مارتے ہیں، ان سے بچنا اس لیے مشکل تھا کہ باولر کا نشانہ وکٹ کی بجائے سامنے کھڑے بیٹسمین کا ناک ہوا کرتاتھا ۔ جبکہ ان کے مقابلے کے لیے ہمارے پاس مینا گھسی مار اورعبدالشکور تھا ۔ جو بظاہر گیند تو خاصی تیز پھینکتا لیکن اس کی گیند ٹھپہ کھاکر اوچھلنے کی بجائے زمین پر تیزی سے رینگتی ہوئی وکٹوں میں جا گھستی ۔ ابتدائی کھلاڑی کے طور پر مینا گھسی مار اور میرے بڑے بھائی اکرم( جو ٹیم کے کپتان تھے) اوپننگ کرنے کے لیے وکٹ پر جاپہنچے اور ایک ماہر کھلاڑی کی طرح پچ کو دبا کر دیکھنے لگے۔ پھر وکٹ کے چاروں اطراف نظریں گھماکر ایسے دیکھا جیسے ان کا پہلی ہی گیند پر چھکا مارنے کا ارادہ ہو ۔جب ایمپائر نے باولر کو گیند پھینکنے کی اجازت دے دی تو اسلام الدین کافی دور سے بھاگتے ہوا آیا اور اس نے گولی کی رفتار سے ایسے گیند پھینکی جس نے ٹھپہ کھاکر مینا گھسی مار کی ناک پر جا کر دم لیا ۔کرکٹ کی تیز گیند لگنے سے مینے گھسی مار کی ناک سے خون بہنے لگا ۔ہم سب میچ تو بھول گئے ۔ ہمیں مینے گھسی مار کی ناک کی پڑگئی ۔اس وقت ہمارے پاس ٹوٹی پھوٹی سائیکل ہی ہواکرتی تھی ۔اسی پر مینے گھسی مار کو بیٹھا کر گنگا آئس فیکٹری کے بازار میں جا پہنچے جہاں اس وقت ایم بی بی ایس ڈاکٹر تو موجود نہیں ہوتا تھا ایک ہومیوپیتھک ڈاکٹر صفدر کا کلینک مسجد کے قریب ہوا کرتا تھا ۔ اس نے مینے گھسی مار کی ناک سے خون صاف کیا اور کچھ دوائی لگا کراس پرکچھ پٹی باندھ دی ۔مینے گھسی مار کی ٹوٹی ہوئی ناک کو دیکھ کر ہماری ٹیم کا کوئی کھلاڑی بیٹنگ کے لیے وکٹ پر جانے کو تیا رنہیں تھا ۔اس لیے میچ وہیں ختم کرنا پڑا ۔ لاہور چھاؤنی ریلوے کوارٹروں کی کرکٹ ٹیم کا میچ کسی ایسی ٹیم سے پڑ گیا جو والٹن ایئرپورٹ کے قریب ہی سیمنٹ کی پچ پر میچ کھیلتی تھی ۔ جب ہماری ٹیم والٹن ایئر پورٹ کے قریب کچے اور کشادہ گراؤنڈ میں پہنچی تو یہ دیکھ کر سب کے ہوش اڑ گئے کہ یہاں تو میچ سیمنٹ والی پچ پر کھیلا جائے گا ۔یہ ہماری زندگی کا اس اعتبار سے ایک منفرد میچ تھا -کیونکہ ہم نے آج تک سیمنٹ کی پچ پر نہ تو کبھی پریکٹس کی تھی اور نہ ہی کبھی میچ کھیلنے کا تجربہ ہوا تھا ۔جب ٹاس ہوا تو ہماری ٹیم کے حصے میں بیٹنگ آئی ۔حسن اتفاق سے ان دنوں اوپننگ کھلاڑی کی حیثیت سے میں ہی نہ صرف بیٹنگ کے لیے جاتا تھا بلکہ پہلے اوور کا سامنا بھی مجھے ہی کرنا پڑتا ۔آجکل ایل بی ڈبلیو کی شکل میں آوٹ ہونے سے کھلاڑی ڈرتے ہیں ۔اس وقت ایل بی ڈبلیو کا ہمیں کو ئی خطرہ نہیں ہوا کرتا تھا کیونکہ ائمپائر بھی بیٹنگ ٹیم کا ہی ہوا کرتا تھا ۔اس زمانے میں وکٹوں میں آتی ہوئی گیند کو دونوں ٹانگیں جوڑ کر بیٹ کے پیچھے اس لیے رکھنا پڑتا تھا کہ تیز گیند نکل کر کہیں وکٹوں سے جا نہ لگے ۔
مجھے یاد ہے کہ جہاں آجکل 299اپرمال پراردو سائنس بورڈکا دفتر موجود ہے۔ اس دفتر کے ساتھ والی کوٹھی میں ایک ایسی فیملی رہتی تھی جس کے بیٹے جاوید اور پرویز کبھی سیدن شاہ کالونی کی کرکٹ ٹیم کی جانب سے میچ کھیلا کرتے تھے، کبھی کبھار وہ ہماری ٹیم میں بھی شامل ہو جاتے ۔ چونکہ یہ دونوں بھائی اچھے کھلاڑی تھے، اس لیے وہ جس ٹیم میں بھی شامل ہوتے ،وہ ٹیم والے اپنی خوش قسمتی تصور کرتے تھے ۔ ایک مرتبہ فورٹریس سٹیڈیم کی گراؤنڈ میں سیدن شاہ کالونی کی کرکٹ ٹیم کا میچ ہو رہا تھا ۔ پرویز جو جاوید کا چھوٹا بھائی تھا وہ بیٹنگ کے لیے کریز پر موجود تھا جبکہ اس کا بڑا بھائی جاوید ائمپانگ کے فرائض انجام دے رہا تھا ۔مخالف ٹیم کے تیز باولر کی ایک گیند پرویز کے پیڈوں کو اس وقت جا لگی جب وہ اس گیند کو ہٹ مارنے لگا تھا ۔ ہٹ تو نہ لگی لیکن مخالف ٹیم کی جانب سے ایل بی ڈبلِیو کی زور دار اپیل ہوئی ۔ جاوید جو امپائرنگ کے فرائض انجام دے رہا تھا ۔اس نے شہادت کی انگلی کھڑی کردی ۔ جس کا مطلب تھا کہ پرویز ایل بی ڈبلیو آؤٹ ہو چکا ہے ۔پرویز اور جاوید چونکہ اوپر نیچے کے بھائی تھے۔ اس لیے ایک دوسرے کے ساتھ خاصے فری بھی تھے ۔ پرویز نے ہاتھ میں بلا اٹھایا اورجاوید کو مارنے کے لیے اس کے پیچھے بھاگا ۔ میچ تو وقتی طور پر رک گیا لیکن دونوں ٹیم کے کھلاڑیوں کے لیے ایک تماشا کھڑا ہوگیا ۔ جاوید آگے آگے بھاگ رہا تھا اور پرویز بلا ہاتھ میں پکڑے اسے مارنے کے لیے پیچھے دوڑ رہا تھا۔گراؤنڈ میں موجود تمام لوگوں نے یہ تماشا دیکھا اور خوب انجوائے بھی کیا ۔ یہ تماشا اس وقت ختم ہوا۔ جب جاوید نے یہ کہہ دیا کہ پرویز آؤٹ نہیں ہے ۔مخالف ٹیم کی اپیل مسترد کی جاتی ہے ۔یہ واقعہ بتانے کا مقصد یہ تھا کہ جس طرح آجکل گراؤنڈ میں کھڑے دو ائمپائروں کی مدد کے لیے تیسرا ائمپائر ٹی وی کے سامنے بیٹھا ہوتا ہے جو ویڈیو ریورس کرکے سلو موشن میں دیکھ کر فیصلہ کرتا ہے کہ گیند نے بلے کو چھویا ہے کہ نہیں ۔ ہمارے زمانے میں ایسا کوئی تکلف نہیں کیا جاتا تھا ، بلکہ ہمارے پڑوسی ملک بھارت کے ائمپائر جس کا کا نام دھوتی والا تھا، جو بھاری بھرکم جسامت کا مالک تھا ،جس ملک کی ٹیم بھی بھارت کا دورہ کرتی تو اس کا پہلا مطالبہ یہی ہوتا کہ بھارت کے دھوتی والا ائمپائر کے فیصلے ہمیں قبول نہیں ۔ چونکہ اس دور میں ہر میزبان ملک کو یہ حق حاصل ہوتا تھا کہ وہ جس کو چاہے اپنے میچز کی ائمپائرنگ کی ذمہ داری سونپ دے ۔یہی وجہ ہے کہ بھارت میں میچز کھیلنے کے پہنچنے والی کوئی بھی کرکٹ ٹیم، بھارتی کرکٹ ٹیم سے جیت نہیں سکتی تھی ۔
..................
بہرحال والٹن ایئرپورٹ کے قریب سیمنٹ کی پچ دیکھ کر سب کے ہاتھوں کے طوطے اڑ گئے تو میرے بڑے بھائی سوچ میں پڑگئے کہ وہ مجھے اوپننگ کرنے کے لیے کیسے بھیجیں ۔ایک جانب بھائی اکرم کی فکرمندی تو دوسری جانب میں خود بھی خاصا پریشان تھا ،کیونکہ مجھے اس بات کا علم تھا کہ سیمنٹ کی پچ پر جیسے ہی گیند گرتی ہے تو اس کیرفتار پہلے سے دوگنی ہو جاتی ہے ۔اس گیند پر شارٹ مارنی تو دور کی بات ہے اس سے بچنا محال ہو جاتا ہے۔مسئلہ یہ بھی تھا کہ کوئی کھلاڑی اوپننگ پر جانے کے لیے تیار نہ تھا ۔ سب کا یہی موقف تھا کہ اسلم لودھی ہر میچ میں اوپننگ کرتے ہیں ،اس مرتبہ بھی وہی اوپننگ کریں ۔ جب بھائی اکرم نے بھی اصرار کیا تو میں پیڈ وغیرہ باندھ کر بلا ہاتھ میں پکڑ کر دوسرے کھلاڑی کے ساتھ چلتا ہوا وکٹ پر جا پہنچا ۔ دوسری جانب مخالف ٹیم کا فاسٹ باولر باولنگ کے لیے سٹارٹ لے رہا تھا ۔میں نے ائمپائر سے گارڈ لیا اور بیٹ کو دونوں ہاتھوں سے مضبوطی سے پکڑ کر دونوں ٹانگوں کو کچھ اس طرح اکٹھا کر لیا کہ جتنی بھی تیز گیند کیوں نہ ہو ،وہ یہاں سے گزر کے وکٹوں میں جا نہیں سکتی ۔ باولر نے جب پہلا گیند کروایا تو وہ باؤنسر تھا ، اور میرے سر کے اوپر سے گزر گیا،جس پر میں نے شکر ادا کیا ۔ جب دوسرا گیند پھنکا تو وہ تیزی سے میرے بیٹ کی جانب بڑھاتو میں نے آنکھیں بند کرکے بیٹ آگے کردیا اور بیٹ کا کنارہ لے کر گیند سلیپ کے درمیان سے باؤنڈری لائن پار کرگیا ۔ائمپائر نے چوکے کا اشارہ کردیا ۔ گراؤنڈسے باہر کھڑے ہوئے ہماری ٹیم کے کھلاڑیوں میں زبردست جوش و خروش پیدا ہوا۔ جبکہ میں دل ہی دل میں دعاکررہا تھا ۔اے اﷲ تیزباؤلر کے ظلم سے محفوظ ہی رکھنا۔کہیں ایسا نہ ہوا کہ اس کا تیز گیند میرے ماتھے پر جا لگے اور ساری دنیا کے سامنے میری بے عزتی ہو جائے ۔باؤلر نے جب تیسرا گیند پھینکا توجو میرے بائیں کندھے کے برابر اونچائی پر تھا ، قدرت نے مجھے حوصلہ دیا اور میں نے اپنے آپ کو بچانے کے لیے جیسے ہی بلا اس تیز گیند کے سامنے رکھا تو اس سے چھو کر گیند لیگ پر باؤنڈ ی لائن کراس کرگیا ۔کسی تیز باؤلر کو ابتدائی اوور میں اوپر نیچے دو چوکے پڑ جانا بدشگونی تصور کیا جاتا تھا ۔اس کے باؤلر کو اپنی لینتھ بھول گئی اور اﷲ نے مجھے شارٹ مارنے کی ہمت اور توفیق بھی عطا کردی ۔اس طرح ہماری ٹیم نے بغیر کوئی وکٹ کھوئے چالیس سکو ر کرلیے ۔اس پر میں تو باؤنڈر ی پر کیچ دے بیٹھا لیکن میرے بعد آنے والے کھلاڑیوں نے بہترین بیٹنگ کے ایسے جوہر دکھائے کہ وہ میچ ہم آسانی سے جیت گئے ۔
( جاری ہے)
 

Aslam Lodhi
About the Author: Aslam Lodhi Read More Articles by Aslam Lodhi: 781 Articles with 666085 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.