کیمرے نے میرے لمبے بال دیکھ کر پکڑ لیا... ایران میں حجاب کے بغیر ڈرائیونگ کرنے پر کار ضبط کرنے کی دھمکی

image
 
ایران میں خواتین اُس لازمی ڈریس کوڈ کو نافذ کرنے کے لیے حکام کی جانب سے ٹیکنالوجی کے استعمال کی تازہ کوششوں کی مخالفت کر رہی ہیں جو ملک بھر میں مسلسل احتجاج کا مرکز بنا ہوا ہے۔

اپریل میں، قومی پولیس کے سربراہ احمد رضا رادان نے ایک ’سمارٹ‘ پروگرام شروع کرنے کا اعلان کیا تھا جس میں نگراں کیمروں کے ذریعے ان خواتین کی نشاندہی کی جائے گی جو جرمانے یا قید کی دھمکی کے باوجود اپنا سر نہیں ڈھانپیں گی یعنی حجاب نہیں پہنیں گی یا مناسب لباس نہیں پہنیں گی۔

انہوں نے خبردار کیا کہ جو خواتین دوسری بار حجاب کے قانون کی خلاف ورزی کریں گی ان کو عدالتوں میں بھیجا جائے گا اور جن کاروں یا ٹیکسیوں میں بغیر حجاب والی خواتین سفر کریں گے انہیں ضبط کر لیا جائے گا۔

تاہم، اس کے اعلان سے سوشل میڈیا پر طنزیہ ردعمل سامنے آیا، جس میں خواتین نے ملک بھر میں عوامی مقامات پر بغیر حجاب کی اپنی تصاویر اور ویڈیوز پوسٹ کیں۔
 
image
 
’یہ ٹیکنالوجی مہم کامیاب نہیں ہے‘
پچھلے کچھ سالوں میں لوگوں نے اپنی کاروں کے اندر ڈریس کوڈ کی خلاف ورزیوں کے بارے میں انتباہی پیغامات موصول ہونے کی اطلاع دی ہے جن کی ٹریفک کنٹرول کیمروں سے شناخت کی جا رہی ہے۔

لیکن یہ پہلا موقع ہے کہ حکام نےاس سلسلے میں کاریں ضبط کرنے یا لوگوں پر جرمانے کی دھمکی دی ہے۔

ایک خاتون نے بی بی سی کو بتایا: ’مجھے ایک ماہ قبل ایک ایس ایم ایس موصول ہوا تھا جس میں میرا لائسنس پلیٹ نمبر بتایا تھا۔ میں اپنی خواتین دوستوں کے ساتھ دمغان شہر کے روڈ ٹرپ پر گئی تھی ہم نے اپنی گاڑیوں میں حجاب نہیں پہنا ہوا تھا‘۔

دوسرے لوگوں نے بھی اسی طرح کے پیغامات موصول ہونے کی اطلاع دی ہے، جس میں انہیں متنبہ کیا گیا ہے کہ اگر وہ دوبارہ حجاب کے بغیر عوامی مقامات پر دکھائی دیے تو ان کی کاریں ضبط کر لی جائیں گی۔ پیغامات میں ایک ویب سائٹ کا لنک بھی شامل ہیں جہاں وہ مبینہ جرمانے کے خلاف اپیل کر سکتے ہیں۔

ایک شخص نے بتایا کہ انہیں ایک پیغام بھیجا گیا تھا جس میں ان کی گاڑی کی لائسنس پلیٹ اور وہ مقام درج تھا جہاں انہوں نے کسی خاص دن گاڑی چلائی تھی، سوائے اس کے کہ میں اس وقت اور اس جگہ وہ کسی خاتون کے ساتھ نہیں تھے‘۔ انہوں نے مزید کہا کہ میں تنہا تھا ان کے کیمرے درست نہیں ہیں‘۔

اس شخص نے، شناخت ظاہر نہ کرنے کی شرط پر، بی بی سی کو ایک تصویر بھیجی جس میں دکھایا گیا کہ ان کے بال کچھ لمبے ہیں۔

مردوں نے یہ بھی اطلاع دی ہے کہ اپریل کے اعلان کے بعد انہیں پولیس کی جانب سے بظاہر اندھا دھند پیغام موصول ہو رہے ہیں جس میں کہا گیا تھا: ’ حجاب کے قانون کا احترام اور اس پر عمل کرنا لازمیح ہے‘۔

لوگ اب اس کا مذاق بنا رہے ہیں، ایک شخص نے انسٹاگرام پر لکھا: ’کیا آپ کی ٹیکنالوجی اتنی سمارٹ ہے‘؟

بعض وکلاء کا کہنا ہے کہ پولیس اور عدلیہ کا یہ نیا اقدام غیر قانونی ہے۔

محسن برہانی نے ٹوئٹر پر لکھا، ’حجاب نہ پہننے کی وجہ سے کاروں کو ضبط کرنے کی آئین میں کوئی قانونی گنجائش نہیں ہے اور یہ ایک جرم ہے۔اس کے جواب میں عدلیہ نے ’عوام میں بغیر حجاب کے نکلنا جرم ہے‘۔
 
image

’ہم مہسا امینی کو نہیں بھولے‘
دریں اثنا، خواتین نے کہا ہے کہ سزا کے بڑھتے ہوئے خطرے کے باوجود وہ لازمی حجاب کے خلاف اپنی لڑائی جاری رکھنے کے لیے تیار ہیں۔

سیمنان شہر کی ایک نوجوان خاتون نے کہا کہ ’گزشتہ چند مہینوں میں بہت سی نوجوان جانیں ضائع ہو چکی ہیں اب ہم پیچھے نہیں ہٹ سکتے‘۔

وہ گزشتہ ستمبر حراست میں مہسا امینی کی موت کے بعد شروع ہونے والے مظاہروں کوبے دردی سے دبانے کا حوالہ دے رہی تھیں۔ 22 سالہ مہسا کو اخلاقی پولیس نے مبینہ طور پر’غلط طریقے سے‘ حجاب پہننے کے الزام میں حراست میں لیا تھا۔

اس کے بعد سے، بہت سی خواتین نے مظاہروں کے دوران اپنے اسکارف کو جلا دیا یا انھیں ہوا میں لہراتے ہوئے ’عورت، زندگی اور آزادی‘ کے نعرے لگائے۔ تقریباً نو ماہ گزرنے کے بعد، وہ اب بھی اس نظام کو ختم کرنے کے لیے لڑ رہے ہیں جو ان کی ذاتی اور عوامی زندگیوں کو کنٹرول کرتا ہے۔

تہران سے تعلق رکھنے والی ایک خاتون نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا ’یہ ایک اسلامی آمریت ہے، اس کے بنیادی ستونوں میں سے ایک خواتین پر جبر اور کنٹرول کرنا ہے، یہی وجہ ہے کہ لازمی حجاب کے خلاف جنگ ایک ایسی چیز ہے جو واقعی اس نظام کی بنیاد کو ہلا کر رکھ دیتی ہے‘۔

ایک اور خاتون نے کہا: ’میں یہ دکھانا چاہتی ہوں کہ 'عورت، زندگی، آزادی' تحریک اب بھی زندہ ہے اور ہم مہسا امینی کی موت کو نہیں بھولے ہیں‘۔
 
image

'خواتین ہتھیار نہیں ڈالیں گی'
حقوق نسواں کی ایک کارکن، جنہیں مظاہرے شروع ہونے کے بعد سے گرفتار کر لیا گیا تھا لیکن اب وہ ضمانت پر رہا ہے، نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا ’ گزشتہ چند مہینوں میں جو کچھ میں نے دیکھا ہے، اسے دیکھ کر لگتا ہے کہ خواتین ہتھیار نہیں ڈالیں گی۔ خواتین ان نئی دھمکیوں سے بے خوف نظر آتی ہیں‘۔

ان کا یہ بھی خیال تھا کہ حکام نے خود کو ایک مشکل صورتحال میں ڈال دیا ہے۔

"’یہی وجہ ہے کہ حکومت نے اس لڑائی میں پولیس کو آگے کر دیا ہے، لیکن انہوں نے اپنے دائرہ اختیار میں اضافہ نہیں کیا اور نہ ہی انہیں خواتین کے خلاف لڑنے کے لیے زیادہ طاقت دی ہے‘۔

حکومت کے وفاداروں کی جانب سے بھی نئی پالیسی کی مخالفت کی جا رہی ہے۔

اسلامی انقلابی گارڈ کور کے سابق اعلیٰ کمانڈر حسین عالی کا کہنا ہے کہ ’حجاب کے معاملے میں پولیس کو آگے کرنے سے عوام اور ریاست کے درمیان دراڑ ہی بڑھے گی ،ہم نے دیکھا کہ اخلاقی پولیس کی کاروائیوں نے کس طرح کا ردعمل پیدا کیا اور حجاب کے بغیر خواتین کی تعداد میں اضافہ ہو گیا‘۔
 
Partner Content: BBC Urdu
YOU MAY ALSO LIKE: