یونان حادثے کا اصل ذمہ دار کون اور پاکستانیوں کی اموات کیسے ہوئیں؟

image
 
ماؤں کی آنکھیں آنسو بہا بہا کر پتھرا چکی ہیں۔۔ بہنیں اداس ویران چہروں کے ساتھ بھائیوں کے راستوں میں پلکیں بچھائے بیٹھی ہیں۔ بوڑھے باپ نوجوان بیٹوں کی لاشوں کو دیکھنے کیلئے پہاڑ جیسا حوصلہ پیدا کرنے کی کوشش کررہی ہیں۔ پاکستان کا کوئی شہر ایسا نہیں جہاں اس وقت سوگ کی کیفیت نہ ہو۔

بڑے بڑے خواب آنکھوں میں سجاکر یورپ جانے والے پاکستانی کشتی کے نچلے ڈیک میں قید تھے۔ جہاں حادثے کی صورت میں زندہ رہنا ناممکن تھا۔ کئی روز تک سمندر میں پھنسے پاکستانی پیاس سے بلکتے رہے۔ پاکستانی کشتی کے عملے سے پانی مانگتے یا نچلے ڈیک سے نکلنے کی کوشش کرتے تو انہیں بدسلوکی کا نشانہ بنایا جاتا۔

یونان میں کشتی کے حادثے کی وجہ سے آج پورا ملک سوگوار ہے۔ یہ حادثہ کیسے پیش آیا اور اس سے جڑے وہ تمام حقائق جو آپ جاننا چاہتے ہیں۔۔ ہم آپ کو بتائیں گے۔
 
 
بات کریں یونان میں ہونے والے کشتی کے حادثے کی تو یہ پہلا حادثہ نہیں ہے۔۔ چند ہفتے پہلے بھی یونان میں ہی ایک کشتی ڈوبنے سے درجنوں پاکستانی جان گنوا بیٹھے تھے۔

حالیہ حادثے کے حوالے سے انتہائی خوفناک انکشافات سامنے آئے ہیں۔ یہ واقعہ منگل اور بدھ کی درمیانی شب پائلوس کے جنوب مغرب میں پیش آیا تھا۔ یہ دل دہلا دینے والا سانحہ بحیرہ روم کے سب سے گہرے مقام " کنویں " میں پیش آیا۔ کشتی لیبیا کے شہر توبروک سے روانہ ہو کر اٹلی جا رہی تھی لیکن پیلو پونیس کے قریب بین الاقوامی پانیوں میں غرقاب ہو گئی۔

اس کشتی میں 7 سو سے زائد افراد سوار تھے۔ جن میں سے بیشتر کی موت ہوچکی ہے جبکہ پانچ سو سے زائد افراد کی تلاش جاری ہے۔ جن کے بارے میں اقوام متحدہ کا کہنا ہے کہ انہیں بھی مردہ تصور کیا جائے۔

اس بدقسمت کشتی پر شام، مصر، افغانستان ، فلسطین اور پاکستان کے شہری سوار تھے۔ حیرت اور افسوس کی بات تو یہ ہے کہ اس خطرناک سفر میں بچے اور خواتین بھی شامل تھیں۔ اب تک کی اطلاعات کے مطابق متعدد پاکستانیوں کی زندگیاں بچائی جاچکی ہیں۔ تاہم سیکڑوں پاکستانیوں کی اموات کی اطلاعات ہیں۔

حادثے کے حوالے سے آگے بڑھنے سے پہلے آپ کو بتاتے چلیں کہ پاکستان کہ بہتر مستقبل کی تلاش میں ملک سے فرار کا سلسلہ نیا نہیں ہے۔ کوئی ماں کے زیور بیچتا ہے۔۔ کوئی گھر تک گروی رکھ دیتا ہے ہر سال لاکھوں افراد پاکستان کے حالات سے مایوس ہوکر باہر چلے جاتے ہیں۔

نوجوانوں کے بڑی تعداد میں بیرون ملک جانے کی کئی وجوہات ہیں تاہم سب سے بڑی وجہ روزگار کی کمی ہے۔ پاکستان میں تعلیم کو تو ویسے ہی اہمیت نہیں دی جاتی تو ٹیکنیکل تعلیم کا تو تصور ہی محال ہے۔
پاکستان میں بینظیر انکم سپورٹ جیسے خیراتی کاموں کیلئے تو اربوں روپے مختص کردیے جاتے ہیں لیکن تعلیم اور روزگار کیلئے کوئی اقدام نہیں اٹھایا جاتا اس لئے نوجوان مستقبل سے مایوس ہوکر اپنی زندگیاں داؤ پر لگانے کیلئے بھی تیار ہوجاتے ہیں۔
 
image

تعلیم و ہنر رکھنے والوں کو تو قانونی طریقے سے باہر جانے کا راستہ مل جاتا ہے لیکن جن کے پاس تعلیم یا ہنر کی سند نہیں ہوتی وہ ایجنٹس کے ہاتھ لگ جاتے ہیں جہاں سے لالچ اور موت کا ایک خوفناک کھیل شروع ہوتا ہے۔

معلومات نہ ہونے کی وجہ سے نوجوان ایجنٹس کا آسان شکار بن جاتے ہیں۔ ایجنٹ 25 سے 50 لاکھ روپے تک لے کر نوجوانوں کو موت کے حوالے کردیتے ہیں۔

پاکستان کے ہر شہر میں یہ ایجنٹ موجود ہیں۔ ۔ پاکستان سے ایران۔۔ ایران سے ترکی۔۔ لیبیا یا یونان جانے کیلئے انتہائی خطرناک اور دشوار گزار راستوں سے گزرنا پڑتا ہے۔

کئی جگہوں پر ایجنٹس کی سیکورٹی فورسز کے ساتھ سیٹنگ ہوتی ہے لیکن کئی جگہوں پر فورسز ایسے لوگوں پر بے دریغ گولیاں برسا دیتی ہیں۔ اور مرنے والوں کی لاشیں اٹھانے والا بھی کوئی نہیں ہوتا۔

جنگلوں میں جانور۔۔ مافیا گینگ اور خود ایجنٹس کے نمائندے کئی بار ڈنکی لگانے والوں کو جان سے مار دیتے ہیں۔ راستے میں کوئی بیمار ہوجائے تو اس کو گولی مار دی جاتی ہے۔

پاکستان میں یونان جانے کی کوشش میں جان گنوانے والوں کے غم میں یوم سوگ منایا جارہا ہے اور ایجنٹس کیخلاف کریک ڈاؤن شروع ہوگیا ہے۔ لیکن حقیقت میں ایسے حالات پیدا کرنے والوں اور مستقبل پر سوالیہ نشان لگانے والوں کو کوئی مورد الزام نہیں ٹھہراتا۔۔

اس حادثے کیلئے ایجنٹس کے ساتھ ساتھ وہ لوگ بھی ذمہ دار ہیں جنہوں نے ملک میں ایسے حالات پیدا کئے کہ نوجوان مایوس ہوکر زندگی داؤ پر لگانے کو بھی تیار ہوجاتے ہیں۔۔

اس حادثے پر بھی اگر ہم نے سبق سیکھ کر اپنے ملک میں نوجوانوں کیلئے روزگار کے مواقع نہ پیدا کئے تو ہمارے نوجوان اسی طرح ایجنٹس کے ہاتھ لگ کر اپنی زندگیاں گنواتے رہیں گے اور حکومت صرف یوم سوگ اور مذمت کرکے اپنی ذمہ داری پوری کرتی رہے گی۔
YOU MAY ALSO LIKE: