شہرہ آفاق کالم نگار ، ساٹھ سے زائد کتابوں کے مصنف محمد اسلم لودھی - (21ویں قسط )

ملک کی اہم علمی، ادبی ، معاشرتی شخصیات اور پاک فوج کے شہیدوں پر لکھناآپ کا محبوب مشغلہ رہا
غریب گھرانے میں پیدا ہونے کے باوجود آپ نے غربت کو اپنے راستے کی دیوار نہیں بننے دیا
آپ دو سال روزنامہ جرات،چھ ماہ روزنامہ دن ، تین سال روزنامہ پاکستان ، دو سال پشاور کے ارود اخبار آج اور چودہ سال نوائے وقت میں ہفتہ وار کالم لکھتے رہے
آپ کا دو مرتبہ تمغہ حسن کارکردگی کے لیے حکومت پنجاب کی جانب سے نام تجویز کیا گیا لیکن ایوارڈ نہ مل سکا
آپ کو 2007ء میں اردو کالم نگاری کا پہلا ٹیٹرا پیک ایوارڈ (پچاس ہزار کا چیک)حاصل کرنے کا اعزاز بھی حاصل ہے

سوال ۔ لودھی صاحب کیا آپ نے 1965ء کی جنگ مکمل ہوش میں دیکھی ہے یا ابھی کمسن تھے ،پاک بھارت جنگ کے حوالے سے آپ کے ذہن میں جو واقعات ہیں وہ ہمارے قارئین سے شیئر کریں؟
اسلم لودھی ۔ شہزاد چودھری صاحب پاک بھارت جنگ کے وقت میری عمر صرف دس سال تھی ،دس سال کا بچہ کتنا بڑا ہوتا ہے اور نہ ہی اسے قومی معاملات کے بارے میں کچھ علم ہوتا ہے ، میں سمجھتا ہوں یہ مجھ پر میرے رب کا کرم ہے کہ اس نے مجھے اتنا شعور عطا فرمایا کہ میں نے جاگتی آنکھوں سے پاک بھارت جنگ کو نہ صرف دیکھا بلکہ پاک بھارت جنگ کے ابتدائی ہیر و میجر شفقت بلوچ ( جس نے ایک سو دس جوانوں سے ایک ہزار جوانوں پر مشتمل بھارتی فوج کے ایک بریگیڈ جس میں ٹینک ، توپیں بھی شامل تھیں )اس بھارتی بریگیڈ کو نہ صرف تباہ کردیا بلکہ ہڈیارہ ڈرین سے ایک قدم بھی آگے نہیں بڑھنے دیا ۔جنرل موسی خاں نے میجر شفقت بلوچ ے بھارتی فوج کو صرف دو گھنٹے روکنے کی درخواست کی تھی لیکن دنیا کی عسکری تاریخ گواہ ہے کہ میجر شفقت بلوچ کی قیادت میں ایک سو دس جوانوں نے بھارتی بریگیڈ کو دس گھنٹے تک روکے رکھا۔یہ حیرت انگیز جنگ لاہور کے برکی محاذ پر لڑی گئی ۔
.................
بہرکیف جیسے ہی فضا میں صدر پاکستان ایوب خاں کی گرجدار آواز گونجی۔تو مجھ سمیت تمام پاکستانیوں کی رگوں میں دوڑنے والے خون میں جذبہ جہاد اور جذبہ شہادت کی شدت پیدا ہوئی لیکن ہمارے کان ریڈیو کی آواز کی جانب مرکوز تھے ۔ عزیز ہم وطنو ۔ السلام علیکم ۔ دس کروڑ پاکستانی عوام کی آزمائش کا وقت آپہنچا ہے ۔ بھارتی فوج نے آج علی الصبح مملکت پاکستان کی حدود میں لاہور کے محاذ پر حملہ کردیا ہے ۔ انہوں نے اپنی روایتی بزدلی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اس مسافر ٹرین پر بمباری کی ہے جو وزیرآباد ریلوے اسٹیشن پر کھڑی تھی ۔ کشمیر میں بھارت کا جارحانہ اقدام دراصل پاکستان پر حملے کا آغاز تھا۔ بھارت نے قیام پاکستان کے فوری بعد ہمارے خلاف جن معاندانہ عزائم کی پرورش کی تھی آج اس کا عملی ثبوت مہیا کردیا ہے ۔بھارتی حکمرانوں نے پاکستان کو کبھی دل سے قبول نہیں کیا ۔گزشتہ اٹھارہ سال کے دوران بھارت کی جنگی تیاریوں کا مقصد پاکستان کے خلاف کارروائی کرنا تھا ۔اب بھارتی حکمرانوں نے کسی رسمی اعلان جنگ کے بغیر اپنی روایتی بزدلی اور عیاری سے کام لیتے ہوئے اپنی فوجوں کو پاکستان کی مقدس سرزمین میں داخل ہونے کا حکم دیا ہے۔اب وقت آگیا ہے کہ ہم دشمن کو دندان شکن جواب دیں اور بھارتی سامراجیت کو کچل کے رکھ دیں ۔حالانکہ دشمن کا مقابلہ کرنے کے لیے لاہور کے بہادر شہریوں کا سب سے پہلے انتخاب کیا ہے۔تاریخ ان جوانمردوں کے کارنامے اس عبارت کے ساتھ زندہ رکھے گی کہ یہی وہ لوگ ہیں جنہوں نے دشمن فوج کی تباہی کے لیے آخری ضرب لگائی ۔پاکستان کے دس کروڑ عوام جن کے دلوں میں لاالہ الااﷲ محمد الرسول اﷲ کے مقدس کلمات بسے ہوئے ہیں ۔اس وقت تک چین سے نہیں بیٹھیں گے جب تک بھارتی توپوں کے دھانے ہمیشہ کے لیے خاموش نہ کردیں ۔ بھارتی حکمران نہیں جانتے کہ انہوں نے کس جری قوم کو للکارا ہے ۔ پاکستانی قوم جو اپنے عقائد کی سربلندی اور اپنے مقصد کی صداقت پر کامل ایمان رکھتے ہیں ۔اﷲ کے نام پر فرد واحد کی طرح متحد ہوکر دشمن کے خلاف جنگ آزما ہونگے ۔نوع انسانی کو اﷲ کی یہ بشارت ہے کہ حق کا ہمیشہ بول بالا ہوتا ہے۔ہنگامی حالت کا اعلان کردیا گیا ہے ۔جنگ شروع ہو چکی ہے ۔ہمارے صف شکن سپاہی دشمن کو پسپا کرنے کے لیے آگے بڑھ رہے ہیں۔پاک فوج کا ہرافسر اور جوان ایک ناقابل شکست جذبہ اور غیر متزلزل ارادے کا مالک ہے ۔ ان شا اﷲ یہ دشمن کو کچل کے رکھ دینگے ۔حکومت پاکستان پوری طرح تیار ہے اور اس کے تمام وسائل موجودہ صورت حال سے مقابلے کے لیے وقف ہونگے ۔
میرے عزیز ہم وطنو۔ آزمائش کی اس گھڑی میں آپ کو بالکل پرسکون رہنا ہو گا۔ہم میں سے ہر فرد کو ایک عظیم فریضہ ادا کرنا ہے، جس کے لیے عقیدے کی پختگی اور والہانہ سپردگی درکار ہے ۔خدائے بزرگ و برتر ہمیں اپنی رحمت سے کامیابی عطا فرمائے گا۔حق کی فتح ہوگی۔دشمن پر کاری ضرب لگانے کے لیے تیار ہوجاؤ کیونکہ شکست اور تباہی اس باطل بھارتی قوم کا مقدر ہے ۔جس نے تمہاری سرحدوں پر سر اٹھایا ہے ۔مردانہ وار آگے بڑھو اور دشمن پر ٹوٹ پڑو ۔خدا تمہار حامی و ناصر ہو۔ پاکستان زندہ باد ۔

صدر پاکستان کی تقریر کا ایک ایک لفظ ہر پاکستانی کے دل میں کچھ اس طرح اتر رہا تھا کہ رگوں میں دوڑانے والا خون مجبور کررہا تھا کہ ساری قوم بھی سرحد پر پہنچ کر بھارتی فوج پر ٹوٹ پڑے ۔حالانکہ میری عمر اس وقت دس سال تھی لیکن قدرت کا یہ کمال دیکھیں مجھے پاک بھارت جنگ کی ایک ایک بات یاد ہے ۔ میں نے اپنی آنکھوں سے ہزاروں لوگوں کو جن کے ہاتھ میں لاٹھیاں اور بندوقیں تھیں ، ٹرکوں اور بسوں پر سوار ہوکر سرحد کی جانب جاتے ہوئے سب نے دیکھا ۔ لیکن جیسے ہی میدان جنگ کے قریب پہنچے تو پاکستانی فوجیوں نے اپنے شہریوں کے جذبہ جہاد کو سراہتے ہوئے کہا آپ لوگ واپس جاؤ ۔جب تک پاک فوج ایک جوان بھی زندہ ہے، بھارتی فوج کو لاہور پر قبضہ نہیں کردینگے ۔ اس کے بعد لاہور کے غیور شہریوں نے چاولوں کی دیگیں پکار کر جنگ میں مصروف فوجیوں کے مورچوں تک پہنچا کر پاک فوج سے اپنی محبت کا والہانہ اظہار کردیا ۔کہ لاہور کے عوام اپنی فوج کے شانہ بہ شانہ اور کندھے سے کندھا ملاکر کھڑے تھے ۔یہی وجہ ہے کہ پاک فوج کے ہر افسر اور جوان نے اپنے سے دس گنا بڑی فوج کو شکست دے کر نہ صرف دنیاکی عسکری تاریخ میں اپنا نام سنہرے لفظوں میں لکھوا لیا بلکہ بھارتی فوج اور بھارتی حکمرانوں کو یہ بتا دیا کہ پاکستان ان کے لیے ترنوالہ ہرگز نہیں ہے ۔میدان جنگ میں تعداد اور اسلحی قوت کی بجائے انسانی جذبوں کو عسکری پیمانے پر ماپا جاتا ہے ۔
پاک بھارت جنگ سے کافی بعد میری ملاقات پاک فوج کے اس عظیم ہیرو سے ہوئی جن کا نام میجر شفقت بلوچ تھا۔ انہوں نے مجھے یہ بتا کر حیران کردیا کہ 6ستمبر 1965ء کو ہماری بین الاقوامی سرحد خالی تھی ۔ سرحد پر پاک رینجر کے جوان تو موجود تھے لیکن نہ تو وہ بھارتی فوج کے بڑھتے ہوئے قدموں کو روک سکتے تھے بلکہ ان کی ذمہ داری صرف سمگلنگ روکنا تھی ۔جبکہ پاک فوج کا بڑا حصہ وادی کشمیر میں بھارتی فوج سے پرسرپیکار تھا اور وہاں بھارتی فوج کے خلاف انہیں پے درپے کامیابیاں حاصل ہو رہی تھیں ۔پاک فوج چھمب جوڑیاں کی طرف تیزی سے پیش قدمی کر رہی تھی ۔مقبوضہ کشمیر کی آزادی اب زیادہ دور دکھائی نہیں دے رہی تھی ۔ صرف چند گھنٹوں کا فاصلہ درمیان میں حائل تھا اگر بھارتی فوج لاہور پر حملہ آورر نہ ہوتی تو مقبوضہ کشمیر آزادہو چکا ہوتا ۔ اس وقت پاکستانی انٹیلی جنس کے مطابق بھارتی فوج جالندھر کے قریب موجود تھی اور اسے بین الاقوامی سرحد تک پہنچنے کے لیے کم از کم 48گھنٹے درکار تھے ۔لیکن حقائق اس کے بر عکس تھے ۔میجر شفقت بلوچ نے مجھے بتایا کہ جس شام چھمب کی فتح کی خبر ریڈیو پر نشر ہوئی تو اس وقت لاہور چھاؤنی کے سروسز آفیسرز کلب میں کئی نوجوان فوجی آفیسر خوش گپیوں میں مصروف تھے جبکہ کلب کی گراؤنڈ میں میجر شفقت بلوچ اپنے ساتھیوں کے ہمراہ بیس بال کا میچ کھیل رہے تھے ۔ادھر چھمب پر پاک فوج کے قبضے کی خبر نشر ہوئی اور ادھر آفیسر کلب میں جوش جذبات میں نعرے گونجنے لگے ۔ ان نعروں کی گونج میجر شفقت بلوچ تک بھی پہنچی ۔انہوں نے مشرق کی جانب چہرہ کرکے ایک زور دار نعرہ لگایا ۔کچھ دیر بعد فضا میں ٹھہراؤ آیا تو ایک فوجی آفیسر بولا ہمارے سینئرز کو لاہور کی فکر کرنی چاہیئے ایسانہ ہو کہ بھارتی سورمے ادھر آ نکلیں ۔
5 ستمبر 1965ء کو جب میجر شفقت بلوچ بیس بال کا میچ کھیل کر آفیسر کلب واپس پہنچے تو کمانڈنگ آفیسر نے انہیں اپنے دفتر بلایا اور حکم دیا کہ آج رات دس بجے آپ اپنی کمپنی ( جو ایک سو دس جوانوں پر مشتمل ہے ) لے کر ہڈیارہ کی جانب روانہ ہونگے ۔بی آر بی نہر تک کمپنی ٹرکوں پر سفر کرے گی ۔ پھر وہاں سے پیدل چلتے ہوئے ہڈیارہ ڈرین تک جائیں گے ۔بریگیڈ کمانڈر اگلی صبح وہاں پہنچ کر دفاعی حکمت کے مطابق مورچے وغیرہ کھودنے کی ہدایات دینگے ۔رات کے دس بجتے ہی میجر شفقت بلوچ کی قیادت میں ایک سو دس جوانوں کی 17۔ پنجاب کی ڈی کمپنی روانہ ہو کر پہلے بی آر بی نہر کے مغربی کنارے پر پہنچی ۔ پھر وہاں سے پیدل ہی چلتے ہوئے ہڈیارہ ڈرین پہنچی تو اس وقت آدھی رات گزرچکی تھی ۔ میجر شفقت بلوچ نے چند ایک جوانوں کی حفاظتی ڈیوٹی لگا کر باقی جوانوں کو زمین پر ہی آرام کرنے کا حکم دیا ۔ اس رات نہ سردی تھی اور نہ گرمی تھی ،موسم خوشگوار تھا ۔ ہڈیارہ ڈرین کے اس پار ہڈیارہ گاؤں کے لوگ اپنے گھروں کے باہر چارپائیاں بچھا کر گہری نیند کے مزے لے رہے تھے ۔ہڈیارہ نالے کے مغربی کنارے کے قریب ہی ایک رہٹ والا کنواں تھا ۔کنوئیں کے قریب ہی ایک بوھڑ کا درخت تھا ۔ میجر شفقت بلوچ آرام کی غرض سے یہاں لیٹ گئے ۔ ابھی کچھ وقت ہی گزرا تھا کہ ہڈیارہ گاؤں کی مسجدوں سے اذان فجر کی صداؤں نے میجر شفقت بلوچ کو بیدار کردیا ۔ آپ نے صاف پانی سے وضو کیا اور نماز فجر کی ادائیگی کے لیے نیت کرنے ہی لگے تھے کہ ایک زور دار دھماکے کی آواز نے انہیں حیران کردیا۔ آپ نے اپنے وائرلیس آپریٹر کو حکم دیا کہ سرحد پر تعینات پاک رینجر سے رابطہ کرکے حالات سے آگاہی حاصل کرے ۔ جیسے ہی وائرلیس کے ذریعے پاک رینجر سے رابطہ ہوا تو رینجر کے جوان کے یہ الفاظ سنائی دیئے کہ سر بھارتی فوج نے حملہ کردیا ہے اور وہ تیزی سے لاہور کی جانب بڑھ رہی ہے ۔اس کے ساتھ ہی رابطہ منقطع ہوگیا ۔ اس کے بعد مشین گن اور مارٹر کا فائر شروع ہوگیا ۔میجر شفقت بلوچ نے فوری طور پر وائرلیس پر بریگیڈ ہیڈ کوارٹر رابطہ کیا تو جو بی آر بی نہر کے مغربی کنارے پر تھا ۔وہاں بریگیڈمیجر بی ایم ضمیر سے بات ہوئی تو انہیں یقین نہ آیا کہ بھارتی فوج تیزی سے بی آر بی نہر کی جانب بڑھ رہی ہے ۔میجر بی ایم ضمیر نے میجر شفقت بلوچ کو کہا آپ خود جا کر کنفرم کریں کہ حالات کیا ہیں ۔ میجر شفقت نے اپنی جیب پر بیٹھ کر ہڈیارہ نالہ عبور کیا اور یڈیارہ گاؤں سے کچھ آگے جا ہی رہے تھے کہ کھیتوں سے ایک نوجوان نکل کر اچانک جیپ کے سامنے کھڑا ہوگیا۔ وہ رینجر کا جوان تھا ۔ اس نے بتا یا کہ بھارتی فوج تیزی سے ادھر ہی پیش قدمی کرتی ہوئی آرہی ہے ، اگر آپ آگے گئے تو آپ بھارتی فوج کے ہاتھوں گرفتار ہو سکتے ہیں ۔یہ سنتے ہی میجر شفقت وہاں سے واپس مڑے اور بریگیڈ کمانڈر کو تمام صورت حال سے آگاہ کیا کہ بھارتی فوج نے لاہور کے برکی سیکٹر پر حملہ کردیا ہے۔
بریگیڈکمانڈر( جو ابھی سو رہے تھے )انہوں نے میجر شفقت بلوچ کو ہدایت کی کہ آپ جتنی دیر تک بھارتی فوج کو روک سکتے ہیں، رکیں ،یہ آپ کا پاکستانی قوم پر احسان ہوگا۔ حیرت کی بات تو یہ تھی کہ پاک فوج کا بڑا حصہ کشمیر میں بھارتی فوج سے برسرپیکار تھا لیکن لاہور سمیت تمام بین الاقوامی سرحد بالکل خالی پڑی ہوئی تھی ، یہاں پاک فوج کے لڑاکے یونٹ تعینات نہیں تھے ۔ بعد میں پتہ چلا کہ بھارتی فوج کی جیپ جس میں بھارتی فوج کے افسر سوار تھے وہ واہگہ سرحد عبور کرکے باٹا پور تک آ گئی ۔اسے یہاں کسی رکاوٹ کا سامنا نہیں کرنا پڑا تو وہی جیپ شالیمار باغ تک چلی آگئی ۔ قدرت کا یہ کمال دیکھیں کہ ان کے دل میں یہ خوف پیدا ہوگیا کہ شاید انہیں گھیرے میں نہ لیا جارہا ہے ۔ اس لیے وہ وہیں سے واپس چلے گئے اور جاتے ہوئے باٹا پور سے لاہورکی ڈبل ڈیکر بس کو اغوا کرکے امرتسر لے گئے جبکہ باٹا شوز کی فیکٹری جو اس وقت باٹا پور میں ہی تھی ، بنی بنائی جوتیاں بھی بھارتی فوجی اٹھا کر اپنے ساتھ لے گئے اور امرتسر پہنچ کر بھارتی ریڈیو کے ذریعے یہ خبر نشر کردی کہ بھارتی فوج نے لاہور پر قبضہ کرلیا ہے ۔ ثبوت کے طور پر پاکستان کی ڈبل ڈیکر بس ایک چوراہے میں کھڑی کردی گئی۔ جسے فخریہ انداز میں دیکھنے کے لیے بھارتی شہری قطار در قطار پہنچ گئے ۔
(جاری ہے)
 

Aslam Lodhi
About the Author: Aslam Lodhi Read More Articles by Aslam Lodhi: 781 Articles with 665685 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.