قصور وار کون

زندگی چاہے جیسے بھی ہوں گزارنے پڑتی ہے۔اپ خوش ہو یا نا خوش زندگی گزاریں گے۔لیکن زندگی گزارنے کیلئے کچھ طریقے ہمیں سکھائیں گئے ہیں۔کہ اگر آپ اس پر چلے گے تو کامیاب رہے گے اور اگر اس سے ہٹ کر زندگی گزارنے کا سوچ لیا تو آپ ناکام رہے گے۔ہم تو الحمد اللہ مسلمان ہیں،ہمارے لئے تو ہمارے پیارے پیغمبر حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم رول ماڈل ہے۔ہمارے معاشرے میں کچھ کوتاہیاں ہیں۔وہ کہتے ہیں نا کہ ہم ڈنڈے کے مسلمان ہیں۔ہم میں سے س کی بھی ہاتھ کچھ آجاتی ہے تو سیدھا ہڑپ کر جاتے ہیں۔میرے کہنے کا مقصد یہ ہے کہ آج کل حکومت نے تقریباً زیادہ تر چیزیں سستا کردی ہے اور اس کا مقصد یہ ہے کہ عوام کو کچھ ریلیف مل سکے۔اب حکومت نے تو اعلانات کئے ہیں اور ہر چیز کی قیمت بھی واضح کردی ہے کہ فلاں چیز اتنے کا اور فلاں اتنے کا ہے۔حکومت نے تو اپنی ذمہ داری پوری کرلی لیکن لوکل سطح پر کوئی دکاندار اس پر عمل نہیں کرتا وہ اس پر راضی نہیں ہے۔راضی کیوں نہیں ہے وہ کہتے ہیں کہ نہیں یہ چیزیں تو میں نے مہنگے قیمت پر لائے ہیں ہم کیسے سستے قیمت پر فروخت کرے گے۔لیکن جب کسی چیز کی قیمت بڑھتی ہے یعنی حکومت کی طرف سے کوئی چیز مہنگی کردی جاتی ہے تو پھر دکاندار کو اسلام اور شریعت یاد اجاتا ہے کہ میں نے سستے قیمت پر لایا ہے لیکن حکومت نے مہنگی کردی تو یہ تو پھر جائز ہے۔تو مقصد یہ ہے کہ ہم ہر چیز میں صرف فائدے کو دیکھتے ہیں۔ٹھیک ہے فائدے کو تو دیکھتے ہیں لیکن یہ بھی دیکھنا ہوتا ہے کہ یہ سود میں آتے ہیں۔لیکن ہم نے کبھی اس پر دھیان ہیمہیں دیا۔اب پیٹرول سستا تو کرایوں میں کمی کا اعلان ہوچکا ہے اور سرکاری طور پر کرایہ نامے جاری کئے گئے ہیں لیکن کوئی گاڑی والا اس کو نہیں مانتے وہ بس آپنی من مانیاں کرتے ہیں۔نہ وہ گاڑی والے کرایہ نامہ رکھتے ہیں اور نہ ہی اس کو مانتے ہیں۔تو آپ مجھے بتائے کہ قصور وار کون ہے؟ ہم خود ہی ہے نا۔حکومت اعلان بھی کرتے ہیں اور ساتھ میں انتظامیہ کو الرٹ جاری کرتے ہیں کہ چیک آپ ضرور کریں۔میں سمجھتا ہوں کہ حکومت نے اعلان کیا اور باقاعدہ طور پر نوٹیفیکیشن جاری کیا تو پھر ہمیں اس پر عمل کرنا چاہیئے۔اگر ہم اس طرح کی باتوں پر عمل نہیں کریں گے تو یہ کھلا عام سود میں آتا یے۔جب فائدہ ہوں تو اسلام کی باتیں یاد ہے لیکن جب اس میں جب تھوڑا فائدہ نہ ہوں تو مجھے کچھ پتہ نہیں۔جو بھی ہوں چاہے وہ دکاندار ہوں،ڈرائیور ہوں وہ حکومت کی باتوں کو ماننے سے انکار کرتا ہے وہ کھلے عام اللہ سے جنگ کرتا ہے۔یہ باتیں ہم معمولی سمجھتے ہیں لیکن یہ معمولی ہرگز نہیں ہے اس قسم کی باتوں پر سوچنا چاہیئے۔ایسے افراد کبھی بھی اپنے کاروبار میں کامیاب نہیں ہونگے۔

 

Sadiq Anwar Mian
About the Author: Sadiq Anwar Mian Read More Articles by Sadiq Anwar Mian: 10 Articles with 4458 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.