انسانوں کے ساتھ رہنے والا پرندہ، کوّا

قابیل اور ہابیل حضرت آدمؑ کے بیٹے تھے۔قابیل نے اپنے بھائی ہابیل کو قتل کر دیا۔دنیا کا یہ پہلا قتل تھا،پہلی لاش تھی اور پہلی تدفین بھی ہونی تھی۔قابیل اپنے بھائی کی لاش کو اپنی پیٹھ پر لاد کر ٹہلتا رہا۔اس کی سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ اس لاش کاوہ کیا کرے؟ تبھی انہوں نے دو کووں کو لڑتے ہوے دیکھا۔اس لڑائی میں ایک کوا مرگیا۔تو دوسرے کوے نے اپنی چونچ سے ایک کڈھا کھودا اور مرے ہوئے کوے کو اس گڑھے میں ڈال کر مٹی سے ڈھک دیا۔قابیل نے بھی ایسا ہی کیا اوراپنے بھای کو دفن کر دیا۔ اس طرح سے کوے نے ابن آدم کو تدفین کا طریقہ سکھایا۔اسی وقت سے کوا ،کان کو ناگوار لگنے والی کاؤں کاؤں کی آواز کے ساتھ انسانوں کے بیچ رہتا چل آ رہا ہے۔

کوے بڑے چالاک ہوتے ہیں۔ان کی چالاکی کے سلسلہ کا ایک لطیفہ بہت مشہور ہے۔’ایک کوے نے اپنے بچے سے کہا کہ دیکھو! یہ دو پیر والے انسان بڑے خطرناک ہوتے ہیں،ان سے ہوشیار رہنا جیسے ہی یہ زمین سے ڈھیلہ اُٹھانے کے لیے جھکیں، فوراً اُڑ جانا۔نئی نسل کے بچے بھلے وہ کوے کے ہی کیوں نہ ہوں، ہوشیار ہوتے ہیں، کہنے لگا اگر وہ ڈھیلہ گھر سے ہی لیکر آئے تو؟‘۔ کوا سمجھ گیا اب اس کو مزید تعلیم کی ضرورت نہیں ہے ۔ اپنی ہوشیاری کے باوجود ہی کوئل اس کو بہت آسانی سے بیوقوف بنا دیتی ہے۔کوئل انڈا ضرور دیتی ہے لیکن گھونسلہ نہیں بناتی۔ اپنے انڈے کوے کے گھونسلے میں دے آتی ہے جسے کوا اپنے انڈے سمجھ کر سیتا ہے۔

کوے اور انسان ساتھ ساتھ رہتے چلے آرہے ہیں لیکن ہم کووں کے بارے میں کیا کیا جانتے ہیں سب سے پہلے اس پر غور کرتے ہیں۔ دنیا بھر میں کووں کے۴۰؍ اقسام پائے جاتے ہیں۔ ’کورویڈیا خاندانCorvidae family))‘ سے انکا تعلق ہوتا ہے ۔ویسے تو بھارت میں کووں کے 6؍اقسام پائی جاتی ہیں لیکن ڈاکٹر سالم علی جو چڑیوں کے ماہر مانے جاتے ہیں، انھوں نے صرف دو قسم کے ہی کووں کا ذکر کیا ہے ایک تو گھریلو اوردوسرا جنگلی۔ارسطو نے اپنی کتاب ’’لغوت الحیوان‘‘ میں کوے کی چار قسمیں بتائی ہیں جو رنگوں کی بنیاد پر ہوتی ہیں۔

آسمان میں اُڑنے والے پرندوں میں کواسب سے زیادہ عقلمند ہوتا ہے۔اس کی چونچ، سر، پیر، پر اور دُم سیاہ ہوتے ہیں صرف گردن سرمئی رنگ کی ہوتی ہے۔ کوے کے دماغ کی بناوٹ انسانوں سے ملتی جلتی ہے۔اس کی ہوشیاری سات سال کی عمر کے بچے جیسی ہوتی ہے۔یہ بہت پھرتیلے اور غضب کی یاداشت والے ہوتے ہیں۔ان کو نقصان پہنچانے والے کسی انسان کا چہرہ اگر اپنے دماغ میں بٹھا لیا تو کبھی بھولتے نہیں ہیں بلکہ اپنی برادری کے کووں کو بھی پہچان کرا دیتے ہیں۔ ان کی عمر دس سے پندرہ سال کی ہوتی ہے اور آسٹریلےٗن کوا 22؍سال تک زندہ رہتا ہے۔

کوے کا سائنسی نام ہے’ کاروس براچئر ہینچوس (Corvus brachyrhynchos)‘۔انٹارکٹکا کو چھوڑ کر کوے دنیا کے ہر کونے میں پائے جاتے ہیں۔دنیا کا سب سے چھوٹا کوا ’میکسکو‘ میں پایا گیا جس کا وزن محض 40؍گرام ہوتا ہے۔اس کے برعکس ’اتھوپیا‘میں دنیا کا سب سے بڑا کوا پایا گیاجس کی لمبائی 65؍سنٹی میٹراور وزن 1.5؍کلو ہوتا ہے۔

اس کی نظر بہت تیز ہوتی ہے جو اسے خوراق اور دشمنوں سے آگاہ کرتی ہے۔خاص طور سے انسان سے محتاط رہتا ہے۔اور خطرے کی صورت میں کائیں کائیں کر کے اپنی برادی کو اکٹھا کر لیتا ہے۔یہ اپنے انڈوں اور بچوں کی بڑی حفاظت کرتا ہے۔آس پاس میں چیل اور بلّی کو دیکھتے ہیں تو ان پر حملہ آور ہو جاتے ہیں اور ان کو بھاگنے پر مجبور کر دیتے ہیں۔اگر کوئی انسان اس کے گھونسلے سے انڈا نکالنے کی کوشش کرے تو کوے چونچ مار مار کر لہو لہان کر دیتے ہیں۔

کوا کچا اور پکا ہوا گوشت بڑے شوق سے کھاتا ہے، بلکہ جس طرح چین کا باشندہ یعنی ’چینی‘ہر وہ چیز کھاتا ہے جو اس کو اچھی لگتی ہو اُسی طرح کوا بھی مردار، سڑی گلی چزیں سب کھا لیتا ہے،اس کو سب اچھا لگتا ہے۔دودھ کی پتیلی سے ڈھکّن ہٹا کردودھ پی جاتا ہے۔بچوں کے ہاتھوں سے روٹی، بسکٹ وغیرہ چھین کرکھا جاتا ہے۔کچھ کوے کمزور بچھڑے اور پڑوں کا تازہ گوشت کھانے کی لالچ میں ماردیتے ہیں۔اگر کوئی سخت چھلکے والی چیز مل گئی ہے اور اس کو توڑ نہیں پا رہے ہیں تو اس کو اس سڑک پر ڈال دیں گے جہاں زیادہ گاڑیاں چل رہی ہوں۔تھوڑی دیر میں چھلکا ٹوٹ جاتا ہے اور گودی نکل آتی ہے۔جب لال بتّی پر ٹرافک رُک جاتی ہے تو یہ گودی کو کھا لیتا ہے۔

پہلے کے بنے ہوئے مکانوں میں آنگن بھی ہوتے تھے اور منڈیر بھی ہوا کرتی تھی۔ان پر کوا جب بیٹھ کر کاؤں کاؤں کرتا تھاتو یہ سمجھا جاتا تھا کہ کوئی مہمان آنے والا ہے۔اب مکانوں میں نہ آنگن ہوتے ہیں نہ منڈیر۔ہندو دھرم میں کوے کی بات کی بڑی اہمیت ہے۔کہتے ہیں کہ مذہبی کتاب ’پُران‘میں اس کو جنّت کا سب سے قریبی پرندہ مانا جاتا ہے۔شرادھ میں اس کی پوجا کی جاتی ہے۔اپنے مُردوں کو کھانا ان کی ہی معرفت کھلایا جاتا ہے۔ہندو ایسا مانتے ہیں کہ شخص مر کر کوا کی شکل میں پہلا جنم لیتا ہے۔ان کی یہ بھی آستھا ہے کہ کوے کو کھانا کھلانے سے ان کے مرحومین کو کھانا ملتا ہے۔ایک تھالی میں طرح طرح کے پکوان سجا کر چھت پر رکھ دیتے ہیں۔اگر کوا جلد ہی کھانے آجاتا ہے تو سمجھا جاتا ہے کہ ان کے ’پوروج‘ بہت خوش ہیں۔اور اگرکسی کے یہاں کوئی کوا دیر تک کھانے نہیں آتا ہے تو سمجھا جاتا ہے کہ’پوروج‘ ناراض ہیں اور ہاتھ جوڑ کرمعافی مانگی جاتی ہے۔پیڑوں کے کٹان اور دیگر وجوہات کی بنا پرشہروں سے کوے ختم ہو رہے ہیں۔ایسی صورت میں سارا سارا دن تھالی چھتوں پر رکھی رہ جاتی ہے پھر یہ تھالی گائے یا دیگر جانوروں کو کھلا دی جاتی ہے۔

ان حالات پر طنزکرتے ہوئے سنت کبیرؔداس کا ایک دوحہ ہے:
’’زندہ باپ کوئی نہ پوجے مرے بعد پُجوائے :: مٹھی بھر چاول لیکر کوے کوباپ بنائے‘‘

کووں کی زندگی سے بہت دلچسپ باتیں منصوب ہیں۔جب کوئی کوا زخمی ہو جاتا ہے یا مرنے والا ہوتا ہے تو سارے کوے مل کر اس پر حملہ کرتے ہیں اور اُسے جلدی ہی مار دیتے ہیں۔کوا اپنی مادہ کے لے بہت وفادار ہوتا ہے،ایک بار جس سے جسمانی تعلق قائم کر لیتا ہے زندگی بھردونوں ساتھ رہتے ہیں۔جب مادہ انڈے سیتی ہے تو نر ان کی حفاظت کرتا ہے۔نرو مادہ دونوں مل کر اپنے بچے کو پالتے ہیں۔

کوے اپنی ادالت بھی منعقد کرتے ہیں۔ اگر کسی کوے نے کسی بچہ کوے سے اس کاکھانا چھین کر کھا لیا ہے تو گھیرا باندھ کر کوے بیٹھتے ہیں، پنچایت کرتے ہیں اور مجرم کوے کو سزا دیتے ہیں۔

کوے کا ذکر ہر معاشرے کے قصے کہانیوں میں ملتا ہے،کئی شاعروں نے اسے اپنے کلام کا حصہ بنایا ہے اور کئی لوک گیت اور فلمی گانوں میں اس کا ذکر موجود ہے۔جیسے ’’جاجا رے کاگا۔۔۔۔‘‘، ’’جھوٹ بولے کوا کاٹے ۔۔۔۔۔۔۔‘‘ وغیرہ۔کچھو مشہور شاعروں نے اپنے اشعار میں کوے کا ذکر کیا ہے۔’’ہر شاخ پر الّو بیٹھے ہیں،انجام گلستاں کیا ہوگا‘‘کے خالق شوقؔ بہرائچی کے ایک شعر سے ابتدا کی جاتی ہے۔

دلچسپ ہو سکا نہ کبھی شیخ کا بیان
کوّا غریب مرغِ خوش الحاں نہ ہو سکا
شوقؔ بہرائچی

بادل امڈے ہیں آگ برسے گی
باغ مہکے ہیں زاغ بولیں گے
احمد ندیم قاسمی

پھر کاگا بولا میرے گھر کے آنگن میں
پھر امرت رس کی بوند پڑی تھی تم یا دآئے
ناصر کاظمی

دل شکستہ کیوں نہ ہوں شاہین و باز
ہیں فضا میں پُر فشاں زاغ و زغن

فرید تنویر
دن دہاڑے کبوتروں کا عشق
پانی پانی ہیں شرم سے کوّے
عقیل جامد

مکّار نے ہر حال میں سیدھے کیے الّو
کوئل کے سہارے پہ سدا کاک رہے ہیں
!خواجہ جاوید اختر

جس طرح کوّا دنیا کے ہر خطہ میں پایا جاتا ہے اسی طرح ،یہ دعویٰ تو نہیں کیا جا سکتا کہ ہر شاعر نے اپنے کلام میں کّوے کو عزت بخش کر اپناکلام معتبر بنایا ہو،لیکن بہت سے شاعروں نے ایسا کیا ہے یہاں تک کہ شاعر مشرق علامہ اقبالؔ کے کلام میں بھی کوّا موجود ہے۔

ہوئی نہ زاغ میں پیدا بلند پروازی
خراب کر گئی شاہیں بچے کو صحبت زاغ
علامہ اقبال

شاعری کے علاوہ ہندی اردو اور انگریزی ادب میں بھی بہت سے محاورے استعمال کیے گئے ہیں۔ مثال کے طور پر کچھ محاورے دیے جا رہے ہیں: ۱) پڑھوں میں انپڑھ جیسے بگلوں میں کوا یعنی بڑے لوگوں میں چھوٹوں کی حیثیت کیا ہے؟
۲) دولت منڈیر کا کوا ہے یعنی دولت کبھی ایک جگہ نہیں رکتی۔
۳) کوا چلا ہنس کی چال تو اپنی بھی چال بھول گیا ۔
۴) کوا کان لے گیا۔
۵) کوے کوسا کریں کھیت پَکا کریں۔
انگریزی ادب میں بھی کوے کو خاصی جگہ دی گئی ہے کچھ مثالیں ذیل میں پیش ہیں:
۱) be up with the crows یعنی کوے کی طرح صبح اُٹھنا اور کام پر لگ جانا۔
۲) as the crow flies یعنی کوّا ہمیشہ ایک سیدھی لائن میں اُڑتا ہے۔

سائنس دانوں نے بھی کوے کو نہیں چھوڑا’کیمبرج یونیورسٹی کے مسٹر کرسٹوفربرڈ اور اس کی ٹیم نے اپنے ایک سائنسی تجربے میں’پیاسا کواکہانی ‘ کی تصدیق کی جس میں کوے نے گھڑے میں کنکر ڈال کر پانی پی کر اپنی پیاس بجھائی تھی۔اسی طرح برمنگھم یونیورسٹی کے ماہرین کی ایک ٹیم کو جنگلی کووں پر 1800 گھنٹوں سے زیادہ کی ویڈیورکارڈنگ کے ذریعے یہ معلوم ہوا کہ درختوں کے تنوں اور چھوٹے چھوٹے سوراخوں سے اپنی خوراک نکالنے کے لیے کئی طرح کے اوزار استعمال کرتا ہے۔ اس کے اوزار نوکدار تنکے اور اسی طرح کی دوسری چیزیں ہوتی ہیں اور وہ خوب اچھی طرح جانتا ہے کہ کس جگہ کے لیے کس سائز کا اوزار مناسب رہے گا۔

کوے کی ذہانت سائنس دانوں کی توجہ کا خاص مرکز ہے اور دنیا بھر کی مختلف یونیورسٹیوں میں اس حوالے سے اس پر تجربات کیے جاتے ہیں۔جاپان کی ٹوکیو یونیورسٹی آف ایگری کلچرمیں ماہرین کی ایک ٹیم نے کووں پر دلچسپ تجربات کیے۔تجربات کے لیے انھوں نے سدھائے ہوئے کووں کے بجائے جاپان کے شہروں اور قصبوں میں پائے جانے والے چار جنگلی کوے لیے اور ان کو ایسی عورتوں اور مردوں کی رنگین تصویریں دکھائی گئیں جن کے سر کے بال چھپا دیے گئے تھے تاکہ ان کے جنس کے تعین میں مشکل پیش آئے۔ اکثر جاپانی مردوں کی داڑھی مونچھ نہیں ہوتی ہے اور اگر جاپانی مردوں اور عورتوں کے سر کے بال ڈھانپ دیے جائیں تو ان کی شناخت میں دقت پیش آ سکتی ہے۔

سائنس دانوں نے دو دو کووں کے دو گروپ بنائے، ایک گروپ کو عورت کی تصویر جبکہ دوسرے کو مرد کی تصویر چننے کی تربیت دی۔اس تربیت کے دوران جب کوے صحیح تصویر چنتے تھے تو انعام کے طور پر انہیں پنیر کا ایک ٹکڑا کھانے کے لیے دیا جاتا تھا۔اس کے بعد ان تصویروں میں مزید بہت سی تصویریں شامل کر د ی گئیں اور انہیں تاش کے پتوں کی طرح پھینٹ دیا گیا تاکہ کوے ان کی ترتیب بھول جائیں۔تجربوں کے دوران چار میں سے تین کووں نے ہر بار صحیح تصویر کا انتخاب کیا اور ان کی شناخت سو فی صد تک درست رہی جبکہ چوتھے کوے نے د س میں سے سات بار با لکل درست انتخاب کیا۔ ماہرین ٹیم کا کہنا ہے کہ ان تجربات سے انہیں یہ معلوم ہوا کہ کوے عورت اور مرد میں چاہے ان کا حلیہ بدل ہی کیوں نہ دیا جائے بخوبی تمیز کر سکتے ہیں۔

کسی نے یہ تجربہ کیا جس کاویڈیو انٹرنٹ پر موجود ہے۔دو جار لیے گئے جس میں ایک چوڑے منہ اور ایک چھوٹے منہ والا تھا۔دونوں میں پانی آدھے سے زیادہ بھردیا گیا اور دونوں جار کے پانی کی سطح ایک سی رکھی گئی۔ان میں پانی کی سطح پرکوے کے کھانے لائق کوئی چیز ڈالی گئی ۔ایک کوا آیا اور دونوں جار سے کھانے والی چیزکو پکڑنا چاہالیکن کامیاب نہیں ہواکیونکہ سطح نیچی تھی۔پاس میں ہی موٹے موٹے کنکر پڑے تھے، کوے نے ایک کنکر اُٹھا کر بڑے منہ والے جار میں ڈالا ۔ دوسراکنکر اُس نے چھوٹے منہ والے جار میں ڈالا، اس کے بعد دو تین کنکر اور اسی جار میں ڈالے۔پانی کی سطح اوپر آئی اور اُس نے کھانے والی چیز کو اپنی چونچ میں دبایا اور اُڑ گیا۔ اس تجربہ سے یہی ثابت ہوا کہ کوے کو پانی کی سطح کے اتار چڑھاؤ کا بھی پوری طرح سے علم ہے۔

Shamim Iqbal Khan
About the Author: Shamim Iqbal Khan Read More Articles by Shamim Iqbal Khan: 4 Articles with 2165 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.