لکھاری کی کہانی

عصرِ حاضر میں ایک لکھاری کا بڑا مسئلہ اپنی تحاریر کو کتاب کی صورت میں شائع کروانا ہے۔ قلم و قرطاس کی اہمیت اس ڈیجیٹل دور میں بھی قائم و دائم ہے۔ نیٹ پر جتنا بھی لکھ لیں ،اسے کتابی صورت میں ڈھالنے سے ہی وہ سارا کام محفوظ رہتا ہے ،کہیں بطور حوالہ بھی پیش کیا جاسکتا ہے اور آئندہ نسلوں کے لئے لائبریری میں بھی رکھا جاسکتا ہے مگر کیا کریں اس مہنگائی کا ،جب بھی کسی لکھاری نے کتاب شائع کروانے کا سوچا تو اخراجات کی طویل فہرست اس کے سامنے رکھ دے گی۔

چند اداروں نے یہ اچھا حل نکالا ہے کہ اپنے حلقہء اثر کے لکھاریوں میں ،سب سے ایک قلیل رقم اکٹھی کر کے ان کی تصانیف کو ایک ہی کتاب میں شائع کردینے کی صورت نکالی ہے۔اس طرح نہ صرف سب کی تحاریر ،کتاب میں محفوظ ہو جاتی ہیں اور لکھاری کو مہنگائی کا مسئلہ ھی حل ہوتا دکھائی دیتا ہے جو کتاب کی اشاعت میں بڑی رکاوٹ تھا۔

کتاب بہترین دوست اور تنہائی کی ساتھی بھی ہے اور فروغ_علم میں صدقہء جاریہ بھی۔حال ہی میں ایسی کاوش" چراغ ادبی لائبریری" کی جانب سے محترمہ آئمہ درانی نے کی ۔ آپ نے مختلف لکھاریوں سے "سو لفظی کہانیاں " طلب کر کے انھیں کتابی شکل میں شائع کیا ہے۔ ایک کہانی کو سو لفظوں میں بیان کرنا واقعی ایک فن ہے ۔یہ دریا کو کوزے میں بند کرنے کے مترادف ہے لیکن ادب کے شناور ،اس بحر_ فن میں اترے ہیں۔ ابھی یہ کتاب میرے زیر_ مطالعہ ہے ۔ اس میں زیادہ تر نوجوان لکھاریوں کی کہانیاں موجود ہیں ،جنھیں پڑھتے ہوئے بے ساختہ علامہ اقبال کا یہ شعر یاد آگیا:

نہیں ہے نا امید اقبال اپنی کشت ویراں سے
ذرا نم ہو تو یہ مٹی بہت زرخیز ہے ساقی !

الحمدللہ ،اس کتاب میں میری بھی پانچ کہانیاں شائع ہوئی ہیں۔