* سمندر کے بیچ منجدھار میں کشتی کا سفر بنا موت کا پیغام •

یونان کے سمندر میں غیرقانونی یورپ کے سفر میں کشتی ڈوبنے سے سیکڑوں پاکستان کی ہلاکت جبکہ یونانی کوسٹ کارڈ نے اب تک 12 پاکستانیوں سمیت 104 افراد کو زندہ بچایا ہے۔

کشتی میں سوار افراد میں سے متعدد کا تعلق پاکستان اور پاکستان کے زیر انتظام کشمیر سے تھا۔ پاکستانیوں کی اموات پر آزاد کشمیر اور پاکستان میں ایک دن یوم سوگ منایا گیا. جبکہ وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) کی جانب سے ( جو اپنی توانائی سیاسی رہنماؤں کی گرفتاری و کریک ڈاؤن میں مصروف سفر تھی اس کو فی الحال پس پُش ڈال کر ) انسانی اسمگلروں کے خلاف ملک گیر کریک ڈاؤن کی شروعات کردیں ( کب تک )۔

یونانی پرنٹ و الیکٹرونک میڈیا میں آنے والی خبروں اور شائع ہونے والی خبروںسے پتہ چلتا ہے کہ کشتی میں 700 کے قریب مسافر سوار تھے۔ پاکستان کی ڈیڑھ سال سے اندرونی مُلکی سیاسی و معاشی حالت سے اکثریت پڑھا لکھا نوجوان مایوسی اور فرسٹریشن کا شکار اپنے ملک میں اپنا اور اپنی فیملی کا مستقبل ایسے تاریک نظر آتا ہے تو وہ اپنی اور اپنی فیملی کی بہتر زندگی کے لیے غیر قانونی یورپ وغیرہ جانے کا فیصلہ کیا، کیونک پاکستان میں جس طرح کا سیاسی کلچر گزشتہ دو دہائیوں سے مُسلط ہے اس میں سفارش، رشوت و اقراباروی کا دور دورہ ہے ہر ادارہ میں میرٹ کا جنازہ نکلوا ہے. نااہل و سفارشی نان ٹیکنیکل ماما چاچاوں کا ہر ادارہ میں غلبہ ہے.

ایسے میں پاکستان کے بہترین دماغ لاکھوں کی تعداد میں جن کو زرائع حاصل تھے. وہ جائز طریقے سےیورپ ، آسٹریلیا، امریکہ و کینیڈا اور مڈل ایسٹ روانہ ہوچکے تھے. اور جن بیچاروں کے پاس جائز طریقے نہیں تھے وہ بیچارے نوجوان اس طرح کے غیر قانونی طریقوں سے اپنی اور اپنے خاندان کی زندگی بہتر بنانے کی جستجو میں اس طرح کے طور طریقے استعمال کرتے ہیں. اس میں ان کے والدین و رشتہ دار بھی ان کے اس شریک سفر میں ان کا ساتھ دیتے ہیں.

ان کے کیے اپنی جمع پونجی، زمین جائداد و زیورات بیچ کر بھی ان کی مدد کرتے ہیں کہ بس کسی طریقہ سے دیار غیر پہنچ جائے یہ زر زمین تو پہنچ کر کچھ سالوں میں ہی بن جائینگی.

آزاد کشمیر، سیالکوٹ، گجرانوالہ، گجرات، لالہ موسی، راولپنڈی، شیخو پورہ، ملتان ، سوات، وغیرہ میں عام ہے.ان علاقوں میں ہر تیسرا گھر کا ایک فرد دیار گیر میں کچھ قانونی اور اکثریت ان کی غیر قانونی طریقوں سے جاچکے ہیں. ان ہی کو دیکھ کر ان علاقوں کے غریب اور مڈل کلاس کے نوجوان اپنا مستقبل بنانے کے چکر میں ایجنٹ کے ہاتھوں چڑھ جاتے ہیں اور یہ بھی رُخصت سفر کی کمر کس لیتے ہیں.

ان کو کیا معلوم کے سمندر بڑا ظالم ہے کبھی بپھر جائے تو رحم نہیں کرتا یونان کے کوسٹ گارڈوں کی طرح. کشمیر کے مختلف علاقوں کے 100 سے زائد اور گجرانوالہ کے علاقے کے 30 کے لگ بھگ لوگ سوار تھے، جن کا اب تک کوئی نہیں علم نہیں۔ ان سب کے گھر والے کوئی معجزہ کا انتظار کررہے ہیں.

اللہ ان کی اُمیدوں کو بر لائے. پاکستان کے وفاقی ادارے کو معلوم بھی ہوتا ہے کہ کس علاقہ سے انسانوں کی اسمگلنگ ہورہی ہے اور کون کون سہولت کار ہیں مگر کبھی بھی برائے نام ایکشن ہوئے مگر کچھ دن کے بعد رہا ہوکر پھر ڈھٹائی سے یہ کام شروع کرنے لگ گئے.

جبکہ علاقہ مکین اپنے اپنے علاقوں کو ان ایجنٹ کے نام تک بتارہے تھے جو یہ کام کررہے تھے حادثے کا شکار ہونے والے افراد کو لے جانے والے انسانی اسمگلروں کا تعلق گجرات اور گجرانوالہ سے ہے، ان ایجنٹوں کے کئی آلہ کار بنڈلی گاؤں میں موجود ہیں اور بڑھی ڈھٹائی ے یہ اپنا کام کررہے ہیں.

کوئی پوچھتا تک نہیں جو پوچھنے والے ہیں وہ بھی ان کے پارٹنر بنے ہوئے ہوتے ہیں. کشتی میں سوار ایک پاکستانی اپنے زندہ بچنے کے بعد بتایا کہ اس نے آزاد کشمیر کے ایجنٹ طلعت اور منڈی بہاءالدین کے ایجنٹ ساجد وڑائچ کو 22 لاکھ روپے دیے. ایک اور پاکستانی مسافر کے افسوسناک انکشافات بھی سامنے اٗئے اس کا تعلق گوجرانوالہ سے تھا۔

محمد حمزہ نامی مسافر نے بتایا کہ 400 مسافروں کی گنجائش والی کشتی میں تقریبا 750 مسافروں کو زبردستی سوار کروایا گیا تھا.

غیر مُلکی خبروں کے مُطابق پاکستانی تارکین وطن کو کشتی کے نچلے ڈیک پر رکھا گیا تھا جس کی وجہ سے ھادثے کی صورت میں ان کا زندہ رہنا تقریباً ناممکن تھا۔ جبکہ دیگر افراد کو جہاز کے اوپری حصے پر رکھا گیا تھا جو قدرے محفوظ جگہ تھی۔ ( ایٹمی مُلک کے انسانوں کی قدر دیار غیر میں کس طرح ہوتی ہے.)

اگر پاکستانی کشتی کے عملے سے پانی مانگتے یا نچلے ڈیک سے نکلنے کی کوشش کرتے تو انہیں تشدد کا نشانہ بنایا جاتا۔ کشتی کے حالات اتنے خراب تر تھے کہ اس میں تازہ پانی ختم ہو گیا تھا، جس کے نتیجے میں چھ افراد پہلے ہی اپنی جان گنواچکے تھے۔ جہاز کا انجن سمندر میں جانے کے تقریباً تین دن بعد ہی کام کرنا چھوڑ دیا تھا ، یعنی یہ کشتی ڈوبنے سے پہلے کئی دنوں تک بغیر کسی مدد کے تیرتی رہی تھی۔

حالیہ برسوں میں یونان، اٹلی یا دیگر یورپی ممالک کی جانب سے حادثات کے بعد تارکینِ وطن کے ریسکیو کرنے میں کوتاہی اور عدم دلچسپی اور اس میں جان بوجھ کر ناکامی عام ہوتی جارہی ہے۔ متواتر اس طرح کے خوفناک اور اندوہناک واقعات آئےدن پرنٹ اور الیکٹرونک سامنے آرہے ہیں جن میں تارکینِ وطن بہتر زندگی کی خواہشات دلوں میں لیکر اور خطرات سے بھرپور ایڈونچرز مول لے کر یورپی ممالک جاتے ہیں۔

اس وقت خود یورپ کے بہت سے ممالک کی معیشتیں خود مشکلات کا شکار ہورہی ہیں۔ یونان اور اٹلی ، فرانس وزغیرہ ممالک میں کورونا اور بعد میں حکمرانوں کی غلط پالیسیاں سے ان ممالک میں بےروزگاری میں متواتر اضافہ ہورہا ہے، جس کی وجہ ان مُلکوں کی معیشتیں زوال کی جانب جارہی ہیں۔ ان ممالک میں ملازمت کے مواقع میں بتدریج کمی کے باعث زیادہ تر پاکستانی ان کشتیوں کے ذریعے غیرقانونی سفر کا خطرہ مول لے رہے ہیں۔

اس وقت پاکستانی عوام میں اور خاص کر نوجوانوں میں یہ مہم سرکاری لیول اور پرائیوٹ لیول پر معلوماتی مہم سے آگاہ کیس جائے اور اسطرزح کے سفر کرنے کے خطرات کے حوالے سے آگاہ کیا جاسکے بلکہ یورپ پہنچنے پر جو زندگی ان کی منتظر ہوگی اس حوالے سے بھی خبردار کیا جائے۔ جیسے جیسے مصنوعی ذہانت اور گھر سے کام کرنے کی وجہ سے افرادی قوت میں کمی آئی ہے، یورپی ممالک، برطانیہ، اور امریکا جیسی ترقی یافتہ صنعتی اور ان کی جمہوریتیں بھی زوال کی جانب جارہی ہیں۔

ان تمام ممالک میں کم ہنرمند سیکٹر میں روزگار کا بحران پیدا ہونے والا ہے۔ اس وقت ان ممالک وغیرہ میں اسٹورز نے کیشیئر اور شیلف میں سامان رکھنے والوں کی خدمات حاصل کرنا بند کردی ہیں کیونکہ یہ تمام کام اب خودکار ہوچکے ہیں. مستقبل کی ممکنہ صورتحال اس وقت پورے یورپ کو پریشان کررہی ہے کیونکہ اتنی بڑی آبادی کو آمدنی کے ذرائع مہیا کرنا ان کے لیے انتہائی مشکل سے مشکل ترین بنتا جارہا ہے۔

اس وقت پاکستانی حکمرانوں کو ایسا قانون بنانا چاہیے ان ایجنٹوں کو قانون کے دائرے میں اور ان سے ملے ہوئے جو بھی سرکاری یا نجی ادارے انسانوں کی اسمگلنگ میں مشتمل ہو ان کو عدالت کے کٹہرے میں لاکر سزا دلوائیں جب تو یہ انسانوں کے اسمگلر پاکستان سے راہ فرار اختیار کرینگے.

انجئنیر! شاہد صدیق خانزادہ
About the Author: انجئنیر! شاہد صدیق خانزادہ Read More Articles by انجئنیر! شاہد صدیق خانزادہ: 267 Articles with 84147 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.