(حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کی جامع صفات)

اگرمیری دس بیٹیاں بھی ہوتیں تو میں ایک کے بعد دوسری سے تمہارا نکاح کردیتا کیونکہ میں تم سے راضی ہوں۔ (معجم اوسط،ج4،ص322،حدیث:6116) نبیِّ رحمت ﷺکے یہ اعزازی اور رضامندی کے کَلِمات طیبات مسلمانوں کے اس عظیم خیر خواہ، ہمدرد اورغم گُسار ہستی کےلئے ہیں جسے خلیفۂ سوم امیرالمؤمنین حضرت سیّدُنا عثمانِ غنی رضیَ اللہُ تعالٰی عنہ کے نام سے جانا جاتا ہے۔آپ رضیَ اللہُ تعالٰی عنہ واقعہ عام الفیل کےچھ سال بعدمکّۂ مکرّمہ میں پیدا ہوئے۔ (الاصابہ،ج 4،ص377)آپ رضیَ اللہُ تعالٰی عنہ اُن خوش نصیبوں میں سے ہیں جنہوں نے ابتداہی میں حضور ﷺ کی پکار پر لَبَّیْک کہا۔ (معجم کبیر،ج1،ص85، حدیث:124)آپ رضیَ اللہُ تعالٰی عنہ نے رحمتِ عالَم ﷺ کی دو شہزادیوں رضیَ اللہُ تعالٰی عنہما سے یکے بعد دیگرے نکاح کرکے ذُوالنُّورین 2 نور والےکا لقب پایا، حضرت سیّدنا لُوط علیہِ السَّلام کے بعد آپ رضیَ اللہُ تعالٰی عنہ سب سے پہلی ہستی ہیں جنہوں نے رِضائے الٰہی کی خاطر اپنے اہلِ خانہ کے ساتھ ہجرت فرمائی۔(معجم کبیر،ج1،ص90، حدیث: 143) اور ہجرت بھی ایک نہیں بلکہ دو دفعہ کی (تاریخ ابن عساکر ،ج39،ص8) آپ ر ضیَ اللہُ تعالٰی عنہ نے دنیا میں قراٰنِ کریم کی نَشْر و اِشاعت فرما کر اُمّتِ مُسْلِمہ پر احسانِ عظیم کیا اور جامعُ القراٰن ہونے کااِعزازپایا ۔
حضور ﷺ کے دوست:۔ ’’حضرت عبداﷲ بن عمر رضی اﷲ عنہما سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : ہر نبی کا اس کی امت میں کوئی نہ کوئی دوست ہوتا ہے اور بے شک میرا دوست عثمان بن عفان ہے۔

الحديث رقم 63 : أخرجه الديلمي في الفردوس بمأثور الخطاب، 3 / 335، الحديث رقم : 5008، و أبو نعيم في حلية الأولياء، 5 / 202، عن أبي هريرة جامع القرآن خلیفہ سوم حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کے بے شمار فضائل و مناقب و صفات ہیں یہاں مختصرا چند صفات کو جانتے ہیں۔

اگر میری دس بیٹیاں بھی ہوتیں تو میں ایک کے بعد دوسری سے تمہارا نکاح کردیتا کیونکہ میں تم سے راضی ہوں۔ (معجم اوسط،ج4،ص322،حدیث:6116) نبیِّ رحمت ﷺکے یہ اعزازی اور رضامندی کے کَلِمات طیبات مسلمانوں کے اس عظیم خیر خواہ، ہمدرد اورغم گُسار ہستی کےلئے ہیں جسے خلیفۂ سوم امیرالمؤمنین حضرت سیّدُنا عثمانِ غنی رضیَ اللہُ تعالٰی عنہ کے نام سے جانا جاتا ہے۔آپ رضیَ اللہُ تعالٰی عنہ واقعہ عام الفیل کےچھ سال بعدمکّۂ مکرّمہ میں پیدا ہوئے۔ (الاصابہ،ج 4،ص377)آپ رضیَ اللہُ تعالٰی عنہ اُن خوش نصیبوں میں سے ہیں جنہوں نے ابتداہی میں حضور ﷺ کی پکار پر لَبَّیْک کہا۔ (معجم کبیر،ج1،ص85، حدیث:124)آپ رضیَ اللہُ تعالٰی عنہ نے رحمتِ عالَم ﷺ کی دو شہزادیوں رضیَ اللہُ تعالٰی عنہما سے یکے بعد دیگرے نکاح کرکے ذُوالنُّورین 2 نور والےکا لقب پایا، حضرت سیّدنا لُوط علیہِ السَّلام کے بعد آپ رضیَ اللہُ تعالٰی عنہ سب سے پہلی ہستی ہیں جنہوں نے رِضائے الٰہی کی خاطر اپنے اہلِ خانہ کے ساتھ ہجرت فرمائی۔(معجم کبیر،ج1،ص90، حدیث: 143) اور ہجرت بھی ایک نہیں بلکہ دو دفعہ کی (تاریخ ابن عساکر ،ج39،ص8) آپ ر ضیَ اللہُ تعالٰی عنہ نے دنیا میں قراٰنِ کریم کی نَشْر و اِشاعت فرما کر اُمّتِ مُسْلِمہ پر احسانِ عظیم کیا اور جامعُ القراٰن ہونے کااِعزازپایا ۔

افعال سیئہ سے بالکل اجتناب آپ رضیَ اللہُ تعالٰی عنہ نے زمانۂ جاہلیت میں بھی نہ کبھی شراب پی، نہ بدکاری کے قریب گئے،نہ کبھی چوری کی نہ گانا گایا اور نہ ہی کبھی جھوٹ بولا۔(الریاض النضرۃ،ج2،ص33،تاریخ ابن عساکر،ج 39،ص27،225)
(امت میں سب سے زیادہ حیا دار)
’’حضرت عائشہ رضی اﷲ عنہا بیان کرتی ہیں کہ حضور نبی اکرم ﷺمیرے گھر میں (بستر پر) لیٹے ہوئے تھے، اس عالم میں کہ آپ ﷺکی دونوں مبارک پنڈلیاں کچھ ظاہر ہو رہی تھیں، حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے اجازت طلب کی تو آپ ﷺ نے اجازت دے دی اور آپ ﷺ اسی طرح لیٹے رہے اور گفتگو فرماتے رہے، پھر حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اجازت طلب کی توآپ ﷺ نے اجازت دے دی۔ جبکہ آپ ﷺ اسی طرح لیٹے رہے اور گفتگو فرماتے کرتے رہے، پھر حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے اجازت طلب کی تو حضور نبی اکرم ﷺ اٹھ کر بیٹھ گئے اور اپنے کپڑے درست کر لئے۔ محمد راوی کہتے ہیں کہ میں یہ نہیں کہتا کہ یہ ایک دن کا واقعہ ہے۔ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ آ کر باتیں کرتے رہے، جب وہ چلے گئے تو حضرت عائشہ رضی اﷲ عنہا نے عرض کیا۔ یا رسول اﷲ ﷺ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ آئے تو آپ ﷺنے ان کا فکر و اہتمام نہیں کیا، حضرت عمر رضی اللہ عنہ آئے تب بھی آپ صلی اﷲ علیک وسلم نے کوئی فکر و اہتمام نہیں کیا اور جب حضرت عثمان رضی اللہ عنہ آئے تو آپ ﷺ اٹھ کر بیٹھ گئے اور اپنے کپڑے درست کر لئے؟ آپ ﷺ نے فرمایا : میں اس شخص سے کیسے حیاء نہ کروں جس سے فرشتے بھی حیاء کرتے ہیں۔‘‘

الحديث رقم 2 : أخرجه مسلم في الصحيح، کتاب فضائل الصحابة، باب من فضائل عثمان بن عفان، 4 / 1866، الحديث رقم : 2401، و ابن حبان في الصحيح، 15 / 336، الحديث رقم : 6907، و أبو يعلي في المسند، 8 / 240، الحديث رقم : 6907، و البيهقي في السنن الکبريٰ، 2 / 230، الحديث رقم : 3059.
حضور ﷺ کے دوست:۔
’’حضرت عبداﷲ بن عمر رضی اﷲ عنہما سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : ہر نبی کا اس کی امت میں کوئی نہ کوئی دوست ہوتا ہے اور بے شک میرا دوست عثمان بن عفان ہے۔
الحديث رقم 63 : أخرجه الديلمي في الفردوس بمأثور الخطاب، 3 / 335، الحديث رقم : 5008، و أبو نعيم في حلية الأولياء، 5 / 202، عن أبي هريرة
مال غنیمت میں حصہ:۔ ’’حضرت عبداللہ بن عمر رضی اﷲ عنہما بیان کرتے ہیں کہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ جنگ بدر میں حاضر نہ ہوئے تھے (اس کی وجہ یہ تھی کہ) آپ رضی اللہ عنہ کے عقد میں حضور نبی اکرم ﷺ کی صاحبزادی تھیں اور وہ اس وقت بیمار تھیں۔ حضور بنی اکرم ﷺ نے فرمایا : اے عثمان بے شک تیرے لئے ہر اس آدمی کے برابر اجر اور اس کے برابر (مال غنیمت کا) حصہ ہے جو جنگ بدر میں شریک ہوا ہے۔

الحديث رقم 58 : أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب فرض الخمس، باب إذا بعث الامام رسولاً، 3 / 1139، الحديث رقم : 2962، و في کتاب فضائل الصحابة، باب مناقب عثمان بن عفان، 3 / 1352، الحديث رقم : 3495، و في کتاب المغازي، باب قول اﷲ إن الذين تولوا منکم يوم التقي الجمعان، 4 / 1491، الحديث رقم : 3839، و عظيم آبادي في عون المعبود، 7 / 283.
عادل:۔ ’’حضرت عبید اللہ بن عدی بن خیار کا بیان ہے کہ مجھ سے حضرت مسور بن مخرمہ اور حضرت عبد الرحمن بن اسود رضی اﷲ عنہما نے کہا کہ آپ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ سے ان کے رضاعی بھائی ولید بن عقبہ کے بارے میں گفتگو کیوں نہیں کرتے جبکہ لوگوں کو ولید کے بارے میں شکایات ہیں پس میں نے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ سے ملنے کا ارادہ کیا۔ یہاں تک کہ وہ نماز کے لئے نکلے میں نے کہا : مجھے آپ سے ایک کام ہے اور اس میں فائدہ آپ کا ہے آپ نے فرمایا : اے بھلے آدمی! معمر کا قول ہے کہ آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا : اللہ تم سے پناہ دے۔ پس میں واپس لوگوں کے پاس آپہنچا اتنے میں کہ حضرت عثمان کا قاصد بلانے آگیا تو میں ان کے پاس حاضر ہوگیا۔ فرمایا : آپ کیا نصیحت کرناچاہتے ہیں میں نے کہا : اللہ تعالیٰ نے حضور نبی اکرم ﷺکو حق کے ساتھ مبعوث فرمایا اور ان پر کتاب نازل فرمائی آپ ان میں سے ہیں جنہوں نے اللہ اور اس کے رسول کی بات مانی، ہجرت کا دو دفعہ شرف حاصل کیا۔ رسول اللہ کی صحبت سے مشرف ہوئے اور آپ ﷺ کے اسوۂ حسنہ کو بچشم خود دیکھا۔ اکثر لوگ ولید کے طرز عمل سے شاکی ہیں۔ حضرت عثمان نے پوچھا : آپ نے حضور نبی اکرم ﷺ کو دیکھا ہے؟ میں نے جواب دیا : نہیں لیکن آپ کے بعض علوم مجھ تک اس طرح پہنچے ہیں جیسے کنواری لڑکی کو پردے میں پہنچایا جاتا ہے۔ اس کے بعد انہوں نے فرمایا : بے شک اللہ تعالیٰ نے حضرت محمد ﷺ کو حق کے ساتھ مبعوث فرمایا، پس میں ان میں سے ہوں جنہوں نے اللہ اور اسکے رسول کی بات مانی اور اس پر ایمان لایا جس کے ساتھ آپ مبعوث فرمائے گئے تھے اور واقعی میں نے دو مرتبہ ہجرت کی ہے۔‘‘ جیسا کہ آپ نے کہا : میں نے رسول اﷲ ﷺ کی صحبت کا شرف پایا اور آپ ﷺسے بیعت کی لیکن خدا کی قسم، نہ میں نے ان کی نافرمانی کی اور نہ انہیں دھوکا دیا، یہاں تک کہ آپ ﷺ بارگاہِ خداوندی میں پہنچ گئے پھر حضرت ابوبکر کے ساتھ میں نے ایسا ہی کیا پھر حضرت عمر کے ساتھ بھی یہی کچھ کیا پھر مجھے خلیفہ بنا دیا گیا تو جو حق ان دونوں حضرات کو حاصل تھا، کیا مجھے وہ حاصل نہیں ہے؟ میں نے کہا : کیوں نہیں۔ فرمایا : لوگوں کی جو باتیں آپ نے مجھ تک پہنچائی ہیں جیسا کہ ولید کے بارے میں آپ نے شکایات کا ذکر کیا تو اس سلسلے میں ہم ان شاء اﷲ تعالیٰ حق کا دامن نہیں چھوڑیں گے پھر آپ نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو بلا کر ولید کو درے مارنے کا حکم دیا اور اسے 80 درے مارے گئے۔ اِس حدیث کو امام بخاری نے روایت کیا ہے۔

الحديث رقم 59 : أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب فضائل الصحابة، باب مناقب عثمان بن عفانص، 3 / 1351. 1352، الحديث رقم : 3493، وأحمد بن حنبل في فضائل الصحابة، 1 / 488، الحديث رقم : 791.
صابر:۔ ’’حضرت قیس بن ابی حازم رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ابو سھلہ رضی اللہ عنہ نے مجھے بتایا کہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے یوم الدار (محاصرہ کے دن) کو فرمایا جب وہ محصور تھے کہ بے شک حضور نبی اکرم ﷺ نے مجھے ایک وصیت فرمائی تھی پس میں اسی پر صابر ہوں اور حضرت قیس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ وہ اس کا انتظار کیا کرتے تھے۔ اس حدیث کو امام احمد اور ابن حبان نے روایت کیا ہے۔‘‘

الحديث رقم 60 : أخرجه أحمد بن حنبل في المسند، 1 / 69، الحديث رقم : 501، و ابن حبان في الصحيح، 15 / 356، الحديث رقم : 6918، والمقدسي في الأحاديث المختارة، 1 / 525، الحديث رقم : 391، و ابونعيم في حلية الأولياء، 1 / 58
اہل و عیال کے ساتھ ہجرت:۔ ’’حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ سرزمین حبشہ کی طرف ہجرت کی غرض سے نکلے اور آپ رضی اللہ عنہ کے ساتھ آپ کی اہلیہ حضور نبی اکرم ﷺ کی صاحبزادی حضرت رقیہ رضی اﷲ عنہا بھی تھیں پس کافی عرصہ تک ان کی خبر حضور نبی اکرم ﷺ کو نہ پہنچی اور آپ ﷺ روزانہ ان کی خبر معلوم کرنے کے لئے باہر تشریف لاتے پس ایک دن ایک عورت ان کی خیریت کی خبر لے کر حضور نبی اکرم ﷺ کے پاس آئی تو آپ ﷺ نے فرمایا : بے شک عثمان حضرت لوط علیہ السلام کے بعد پہلا شخص ہے جس نے اپنی اہلیہ کے ساتھ اﷲ کی راہ میں ہجرت کی۔

الحديث رقم 61 : أخرجه الطبرانيفي المعجم الکبير، 1 / 90، الحد يث رقم : 143، و الشيباني في الآحاد والمثاني، 1 / 123، الحديث رقم : 123
اللہ ان ہستیوں کے صدقے ہمارے ،ملک پاکستان حال پہ رحم فرمائے ملک پاکستان کی جغرافیائی و نظریاتی سرحدوں کی حفاظت فرمائے آمین

اس تحریر میں اگر کوئی بھی غلطی کوتاہی ہو گئی ہو تو اللہ تعالی کی بارگاہ میں معافی کا طلبگار ہوں۔
MUHAMMAD BURHAN UL HAQ
About the Author: MUHAMMAD BURHAN UL HAQ Read More Articles by MUHAMMAD BURHAN UL HAQ: 164 Articles with 242302 views اعتراف ادب ایوارڈ 2022
گولڈ میڈل
فروغ ادب ایوارڈ 2021
اکادمی ادبیات للاطفال کے زیر اہتمام ایٹرنیشنل کانفرنس میں
2020 ادب اطفال ایوارڈ
2021ادب ا
.. View More