یہ زندگی کیا ہے ؟

میرے واخب الاحترام پڑھنے والوں کو میرا آداب
کسی نے پوچھا کہ یہ " زندگی " کیا ہے ؟ سب سے پہلے اس کے جواب میں میں اپنے چند اشعار پیش کروں گا ۔
اس زندگی کا ہم نے یہ فلسفہ ہے جانا
خالی ہاتھ آئے ہیں اورخالی ہاتھ ہے جانا
قدرت کا یہ نظام برسوں سے ہے قائم
جو آیا ہے وہ جائے گا ہم کو بھی ہے جانا
اچھے انسان کو ہمیشہ یاد رکھے یہ دنیا
ورنہ اس دنیا کی عادت ہے بھول جانا
موت کو اپنی تم بھی یاد رکھو اے یوسف
کب بلاوہ آجائے اور کب ہو تم کو جانا

اصل میں سوال تو یہ بہت چھوٹا ہے لیکن اس کا جواب اپنے اندر بڑے گہرے معنی رکھتا ہے کیوں کہ ہر مذہب کے ماننے والوں کے نزدیک اس کے معنی مختلف ہیں ایک بزرگ سے کسی نے عرض کیا کہ جو لوگ اللہ تعالی اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلیہ وسلم پر ایمان نہیں لائے یعنی انگریز یہودی ، ہندو کافر وغیرہ وہ لوگ تو بڑے عیش وآرام میں اپنی زندگی گزارتے ہیں اور اسی کا نام انہوں نے زندگی رکھا ہوا ہے وہ سمجھتے ہیں کہ اصل زندگی یہ ہی ہے کہ اس کو اپنی مرضی سے گزارو جبکہ اہل ایمان مسلمان مال و دولت اور عیش و آرام ہونے کے باوجود ہر وقت پریشان نظر آتے ہیں ایسا کیوں ؟
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں اللہ تبارک و تعالی کے ان بزرگ نے ارشاد فرمایا کہ اہل ایمان مسلمان میں وہ طبقہ جو مال و دولت سے مالامال ہے اور ضروریات زندگی کی ہر شہ اس کے پاس موجود ہے تو یہ اصل میں اس کے لئے آزمائش ہے اللہ رب تعالی دیکھنا چاہتا ہے کہ یہ اس زندگی میں میرا شکر ادا کرتا ہے یا اس عیش و آرام کی زندگی میں مجھے بھول گیا ہے کیوں کہ اہل ایمان مسلمان کے جنت اور دوزخ کا فیصلہ بروز محشر ہوگا جبکہ کافروں کے لئے یہ دنیا ہی جنت ہے اس لئے یہ یہاں عیش وآرام میں رہتے ہیں جبکہ بروز قیامت ان کے لئے جہنم کا عذاب تیار ہے ۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں اہل ایمان مسلمانوں کے لئے اصل زندگی قیامت کے بعد والی زندگی ہے اور کافروں کے لئے زندگی اسی دنیا کا نام یے اب اگر پھر کوئی یہ پوچھے کہ زندگی کیا ہے ؟تو پڑھیئے ایک جنگل میں ایک ہرن جو مادہ تھی اپنے دو چھوٹے چھوٹے بچوں کے ساتھ گھوم پھر رہی تھی اس نے دیکھا کہ اچانک ایک خوفناک شیر سامنے سے آرہا ہے اس نےماں ہونے کے ناطے اپنے دونوں بچوں کو اپنے ساتھ چمٹا کر محفوظ کرلیا لیکن دائیں طرف سے بھی ایک شیر اور بائیں طرف سے بھی ایک شیر آگیا اور جب وہ چاروں اطراف سے شیروں کے درمیان گھیرے میں آگئی تو وہ سمجھ گئی کہ اب موت قریب ہے اس سے پہلے کہ شیر اس پر حملہ آور ہوتے اس نے اپنے دونوں بچوں کو وہاں سے بھاگنے کے لئے کہا اور اپنے آپ کو اس اطمنان کے ساتھ کہ اس کے بچے بچ گئے مجبوری اور بے بسی کے عالم میں شیروں کے حوالے کردیا بس یاروں اسی کو ہم " زندگی " کہتے ہیں ۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں یہاں پھر اگر کوئی پوچھے کہ " زندگی " کیا ہے ؟ تو یہ پڑھیئے کہ ایک چیونٹی ایک جگہ سے رینگتی ہوئی جارہی تھی کہ اچانک اس نے دیکھا کہ کچھ گاڑھا سا لیکویڈ پڑا ہوا ہے جو کہ دراصل شہد کا گرا ہوا ایک قطرہ تھا اب ہماری نظروں میں تو وہ ایک قطرہ ہے لیکن اس چیونٹی کے لئے یہ کسی دریا یا سوئمنگ پول سے کم نہ تھا جب اس نے اس میں منہ مارا تو اسے ذائقہ بہت اچھا لگا گویا اس نے دوبارہ منہ مارا لیکن اس کا جی نہیں بھر رہا تھا لہذہ وہ جیسے ہی اسکے قریب گئی تو اس کا پائوں پسلا اور وہ اس کے اندر ڈپکیاں کھانے لگی اب تو اسے مزہ آنے لگا ۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں جب وہ شہد کے ذائقہ سے خوب لطف اندوز ہوکر تھک گئی تو باہر نکلنے کا سوچنے لگی لیکن شہد کے گاڑھے پن اور چکنائی کی وجہ سے لاکھ کوشش کرنے کے بعد بھی وہ وہاں سے نکلنے میں کامیاب نہ ہوسکی حتی کہ وہیں پر اس کی موت ہوگئی اور شہد کے اس قطرے میں ہی وہ دنیا سے رخصت ہوگئی بس اسی کا نام زندگی ہے ۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں یہاں پھر اگر کوئی یہ پوچھے کہ " زندگی " کیا ہے ؟ تو یہ پڑھیئے کہ ایک یونانی بزنس مین جسے اللہ تبارک وتعالی نے بیش بہا مال ودولت سے نوازہ ہوا تھا یہ بات 1920 یا 30 کی ہے کیوں کہ اس شخص کا انتقال 1975 میں ہوا ایک بڑے بزنس مین اور مال ودولت ہونے کی وجہ سے وہ کافی مشہور تھا اس لئے اس کے ا نتقال کے بعد ایک ٹی وی چینل نے اس کے اوپر ایک ڈوکومینٹری پروگرام بنایا جس میں اس کے شروع کے حالات سے لیکر آخری وقت تک کی ساری کہانی بتائی گئی لیکن اس پروگرام میں اس کے متعلق ایک انکشاف نے سب کو حیران کردیا ۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں ہوا یوں کہ وہ اپنے آخری وقت میں ایک خطرناک اور حیرت انگیز بیماری میں مبتلہ ہوگیا تھا یعنی وہ اپنی آنکھوں کی پلکوں کو اپنی مرضی سے جھپکنے سے قاصر تھا جب وہ صبح اٹھتا تو اس کی پلکوں کو ایک سلیوشن ٹیپ کی مدد سے اوپر کی جانب کرکے چپکا دیا جاتا اور وہ اپنی کھلی آنکھوں سے اپنے معمولات میں مصروف ہوجاتا اور جب سونے کا وقت ہوتا تو وہ ٹیپ ہٹادی جاتی تو وہ بند آنکھوں سے سوجاتا جب اس سے پوچھا گیا کہ آپ کی کوئی ایسی خواہش جو اتنی دولت ہونے کے بعد بھی اب تک پوری نہ ہوئی ہو تو اس نے مسکراتے ہوئے کہا کہ میری اخری خواہش یہ ہے کہ میں اپنی پلکوں کو اپنی مرضی سے جھپکا سکوں اور اسی خواہش کو دل میں لیکر وہ دنیا سے رخصت ہوگیا تو یاروں یہ ہے زندگی ۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں اگر پھر بھی کوئی کہتا ہے کہ یہ " زندگی " کیا ہے ؟ تو اسے چاہیئے کہ زرا قران مجید کو پرھے سورہ انعام ، سورہ القلم ، سورہ النبیاء ، سورہ الصفت اور سورہ یونس میں جس پیغمبر کا ذکر کیا گیا ہے وہ ہیں حضرت یونس علی نبینا علیہ السلام جکا واقعہ بڑی تفصیل کے ساتھ بیان کیا گیا ہے لیکن المختصر یہ کہ ایک دفعہ آپ علیہ السلام ایک کشتی میں کسی سفر پر جارہے تھے کہ لوگوں نے کسی غلط فہمی کی بنیاد پر آپ علیہ السلام کو دریا میں پھینک دیا عین اسی وقت ایک برے سر والی مچھلی وہاں سے گزری اور آپ علیہ السلام کو نگل لیا ۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں اس مچھلی کانام " نجم" تھا بڑے سر والی اس مچھلی کی خصوصیت یہ تھی کہ وہ پوری کشتی کو نگلنے کی صلاحیت رکھتی تھی آپ علیہ السلام اس مچھلی کے پیٹ میں کتنے دن تک رہے یہ مستند گنتی کہیں نہیں ملتی ہمارے کچھ اکابر نے 9 دن کچھ نے اس سےزیادہ اور کچھ نے 40 دن تک بھی لکھا ہے لیکن فکس اور مستند گنتی نہیں ملتی آپ علیہ السلام کو مچھلی کے پیٹ میں کافی اندھیرا محسوس ہورہا تھا ایک تو رات کا اندھیرا دوسرا دریا کے اندر کا اندھیرا اور مچھلی کے پیٹ کے اندر کا اندھیرا ۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں آپ علیہ السلام نے مچھلی کے پیٹ میں آیت کریمہ کا ورد شروع کردیا تھا جس کا ذکر سورہ الانبیاء کی آیت نمبر 87 میں آیا ہے اور اس کا ترجمعہ کنزالایمان ہے کہ " تیرے سواکوئی معبود نہیں تو ہر عیب سے پاک ہے بیشک مجھ سے بےجا ہوا " پھر اسی آیت کریمہ کی بدولت اللہ تعالی نے 10 محرم عاشورہ کے دن مچھلی کے پیٹ سے زندہ و جاوید آزادی نصیب فرمائی تو میرے یاروں یہ ہے زندگی اور اس کو بھی زندگی ہی کہا گیا ہے ۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں اب اگر پھر کوئی یہ سوال کرے کہ بھئی یہ " زندگی " کیا ہے؟
تودیکھیئے Titanic جہاز کا نام تو آپ نے سناہی ہوگا یہ برطانوی بحری مسافرجہاز تھا جس کو یہ سوچ کر بنایا گیا تھا کہ یہ کبھی ڈوبے گا نہیں لیکن بدقسمتی سے اپنے پہلے ہی سفر میں ایک برفانی تودے سے ٹکرا کر ڈوب گیا اب زندگی کی اصل حقیقت کو جاننے کے لئے غور سے پرھیئے ایک شخص جس کانام کلارک تھا اور وہ ایک متوسط طبقہ سے تعلق رکھتا تھا لیکن جب اسے اس جہاز کے بارے میں معلوم ہوا تو اسے شوق ہوا کہ وہ بھی اپنے بیوی بچوں کے ساتھ سفر کرے۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں اس کے پانچ بچے اور ایک بیوی تھی جب جہاز کے پہلے سفر کی روانگی کا اعلان ہوا تو اس شخص نے اپنی ساری جمع پونجی لگاکر اس کا ٹکٹ لےلیا اور اس دن کا انتظار کرنے لگا جب وہ ٹائٹینک جہاز اپنے پہلے سفر پر روانہ ہونے والا تھا آخرکار تاریخ کا اعلان ہوا اور وہ خوشی خوشی جانے کی تیاری میں لگ گیا صرف تین دن قبل پڑوس کے ایک کتے نے اس کے سب سے چھوٹے بیٹے کو کاٹ لیا اور وہ شدید بیمار ہوگیا اس کی بیوی نے کہا کہ میں اس چھوٹے بچے کو اس حالت میں لیکر نہیں جاسکتی تم باقی بچوں کو لیکر چلے جائو ۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں اب کلارک بہت پریشان ہوا اور وہ سوچنے لگا کہ اپنی بیوی بچے کے بغیر وہ کیسے جائے اور جب بھی اس کی نظر اس کتے پر پڑتی تو اسے غصے میں دیکھتا اور دل ہی دل میں برا بھلا کہتا پھر اس نے فیصلہ کیا کہ وہ اپنے بچے کو بیماری کے اس حالت میں لیکر نہیں جاسکتا اور اس طرح اس کی ساری جمع پونجی کے ضائع ہونے کا بھی چانس ہوگیا کیوں کہ وہ ٹکٹ Refundable نہیں تھا اور یوں وہ دن بھی آگیا جب وہ اپنی آنکھوں سے جہاز کو روانہ ہوتے ہوئے دیکھ رہا تھا ۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں لیکن جب اسے بعد میں یہ اطلاع ملی کہ جہاز ڈوب گیا تو اسے بڑی حیرت ہوئی اور وہ حیران ہوکر کبھی اپنے بچے کی طرف دیکھتا تو کبھی جاکر اس کتے کی طرف جس کتے کو وہ ناراض ہوکر برا بھلا کہتا رہا آج کی طرف پیار سے دیکھکر سوچنے لگا کہ اگر یہ کتا میرے بچے کو نہیں کاٹتا تو شاید میں بھی جہاز میں ڈوب کر مرنے والوں میں شامل ہوتا ( اللہ ہمیشہ اپنے بندے کے لئے بہتر ہی سوچتا ہے ) تو میرے یاروں اسی کانام ہے زندگی ۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں قران مجید فرقان حمید میں حضرت ابراھیم علی نبیینا علیہ السلام کے آگ میں ڈالے جانے کا واقعہ بھی بڑی تفصیل کے ساتھ سورہ الانبیاء پارہ نبمر 17 پانچویں رکوع میں ایا ہے لیکن المختصر یہ کہ جب آپ علیہ السلام کو آگ میں ڈال دیا گیا اور اللہ تعالی کے حکم سے آگ نے آپ علیہ السلام کا ایک بال بھی نہ جلایا تو ہمارے علماء فرماتے ہیں کہ کم و بیش 7 دن آپ علیہ السلام آگ میں رہے اور جب باہر آنے پر آپ علیہ السلام سے پوچھا گیا کہ آگ میں کیسا لگا تو فرمایا کہ جو عیش وآرام مجھے اس آگ میں رہتے ہوئے ملا وہ شاید زندگی میں پھر کبھی نہ ملے تو یاروں یہ بھی زندگی کا ہی ایک روپ ہے ایک شکل ہے ۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں دراصل زندگی کے کئی روپ ، کئی رنگ اور کئی شکلیں ہیں کہیں انسان اس زندگی کے ہاتھوں ہارا ہوا لگتا ہے تو کہیں یہ ہی زندگی اسے اس مقام تک پہنچادیتی ہے جس کا خواب ہر کوئی دیکھتا ہے بس بات صرف اتنی ہے کہ اگر ہم اس زندگی کو اللہ تعالی کے حکم کی پیروی کرتے ہوئے گزارتے ہیں تو ہماری دنیا بھی سنور جائے گی اور اخرت بھی اور اگر ہم اس کے مخالف سمت چلے تو یہ ہی زندگی ہمیں نیست و نابود کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑے گی ہمیں تباہ و برباد کردے گی ۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں زندگی جیسے طویل اور وسیع و عریض موضوع پر کئی تحریریں لکھی جاچکی ہیں اور کئی کتابیں بھی پڑھنے والوں کے لئے موجود ہیں اور ہر تحریر میں زندگی کو نئی شکل اور نئے انداز میں دکھلایا گیا ہے لکھنے کو میرے پاس بھی بہت کچھ ہے لیکن وقت اور ویب سائٹ کے قوانین کو مد نظر رکھتے ہوئے میں نے کوشش کی ہے کہ مختلف پیرائے کے مختلف واقعات کو آپ تک پہنچا کر لفظ " زندگی" جیسے وسیع و عریض موضوع کو مختصر انداز میں لیکن جامع تحریر کے ذریعے آپ تک پہنچا سکوں اللہ تعالی اپنی بارگاہ میں قبول و منظور فرمائے ۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں اپنی اس تحریر کا آغاز میں نے اپنے کچھ اشعار سے کیا اور اس تحریر کا اختتام بھی اپنے ہی ایک شعر سے کررہا ہوں کہ
زندگی کیا ہے یاروں بس اک نعمت خداوندی ہے
اس کے حکم پر جو گزرے وہ ہی اصل زندگی یے

مجھے دعائوں میں یاد رکہیئے گا ان شاء اللہ کسی اور تحریر کے ساتھ پھر حاضر خدمت ہوجائوں گا
دعا ہے کہ اللہ رب العزت مجھے حق بات لکھنے اور ہم سب کو پڑھکر اس پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائیں آمین آمین بجاء النبی الکریم
صلی اللہ علیہ وآلیہ وسلم ۔
 

محمد یوسف برکاتی
About the Author: محمد یوسف برکاتی Read More Articles by محمد یوسف برکاتی: 112 Articles with 77928 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.