آئی ایم ایف سے معاہدہ۔۔ عوام مہنگائی کی چکی میں

پاکستان اور آئی ایم ایف کے درمیان اسٹینڈ بائی معاہدہ پاکستان کو حالیہ بیرونی دباؤ کی شکار معیشت کو استحکام کی طرف لے جانے میں معاون ثابت ہوگا ،پاکستان عالمی مالیاتی ادارے سے معاہدے کے لیے پیشگی شرائط پر عملدرآمد کر چکا ہے جس کیلئے آئی ایم ایف مشن نے ٹیکس نیٹ کو بڑھانے سمیت دیگر شرائط بھی عائد کی ہیں۔

پاکستان کی معیشت کے حوالے سے اشاریوں پر نگاہ ڈالیں تو تذبذب اور وسوسے اب بھی دلوں کو بے چین کیے ہوئے ہیں کیونکہ 1.1ارب ڈالر کی پہلی قسط تو پاکستان کو مل جائے گی لیکن باقی 2اقساط کیلئے ان 7 شرائط کو ہر صورت پورا کرنا ہوگا جو پاکستان کو پیشگی بتائی جاچکی ہیں لیکن اگر وہ 7 شرائط لگادی جائیں تو عوام کو ریلیف ملنا تو درکنار ،عوام پر مہنگائی کا مزید دباؤ بڑھنا قدرتی امر ہوگا۔

میرے وطن کے 50 فیصد لوگ پہلے سے خوراک کی عدم دستیابی یا جزوی دستیابی کے مسئلے سے دوچار ہیں ۔ ملک میں خوراک کی مہنگائی کی شرح 39 فیصد کی تشویشناک حدوں کو چھو چکی ہے اور عالمی ماہر اسٹیو میکنی پاکستان میں 60 فیصد تک خوراک کی مہنگائی کی شرح کا دعویٰ کرتے ہیں جبکہ زمینی حقائق کو دیکھیں تو پاکستان کے پسماندہ علاقوں میں خوراک کی کمی اور مہنگائی کی شرح ہولناک حد تک بڑھ چکی ہے۔

افسوس کی بات یہ ہے کہ پاکستان میں غربت، بھوک اور افلاس کا انڈیکس دیکھیں تو پاکستان کے 1کروڑ سے زائد لوگ ہنگامی طور پر خوراک کی فراہمی کے منتظر ہیں۔ بھوک اور افلاس کے مارے عوام کی خودکشیاں بتدریج بڑھتی جارہی ہیں۔

پاکستان اس وقت جس طرح کے حالات سے دوچار ہے اس میں آئی ایم ایف سے امداد کی صورت میں آکسیجن نہ ملتی تو شاید پاکستان ڈیفالٹ کی طرف چلاجاتا ۔ پاکستان میں ڈالر کی قیمت میں کمی سے گوکہ غریب عوام کی زندگی پر فی الفور پر کوئی فرق نہیں پڑے گا لیکن درحقیقت پاکستان میں غیر قانونی ذرائع سے رقوم کی ترسیل یعنی ہنڈی کی حوصلہ شکنی کے علاوہ بیرونی قرضوں کے حجم میں ایکسچینج ریٹ کی وجہ سے کمی آئے گی۔

پاکستان میں اس وقت سرکاری شرح سود 22 فیصد کی بلند ترین سطح پر موجود ہے کیونکہ معاشی ترقی کی شرح تشویشناک حد تک گرچکی ہے اور شنید یہ ہے کہ گروتھ ریٹ منفی سمت میں جاسکتا ہے، معاشی حالات کے پیش نظر اور آئی ایم ایف کی شرائط کے مطابق ملک میں شرح سود بڑھانے کے علاوہ کوئی چارہ بھی نہیں ہے۔

آئی ایم ایف سے معاہدے میں حکومت پربجٹ میں پیش کیے گئے اہداف پر من و عن عمل کرنے کی پابندی عائد کی گئی ہے اوریہ بات اس لئے بھی کی گئی ہے کیونکہ پاکستان آئی ایم ایف سے معاہدے کے وقت کئی معاملات پر عمل کرنے کا عہد تو کرتا ہے لیکن گزشتہ تمام معاہدوں میں وعدوں کی پاسداری شاذ و نادر ہی کی گئی ہے۔

معاشی طور پر بدحال اور قرضوں کی دلدل میں ڈوبے ہوئے ملک کے حکمرانوں کی عیاشیاں دیکھ کر دنیا کے ترقی یافتہ ممالک کے حکمران بھی اپنی انگلیاں دانتوں تلے دبا لیتے ہیں۔ بھوک اور بدحالی سے دوچار پاکستان میں لاکھوں فاضل سرکاری ملازمین اور لاکھوں گاڑیاں افسر شاہی کی خدمت پر مامور ہیں جبکہ برطانیہ کے سب سے بڑے شہر لندن میں پاکستان جیسی عیاشی کا تصور بھی محال ہے ۔برطانوی حکومت کے امور مملکت چلانے کیلئے صرف 86 گاڑیاں اور پاکستان میں محض وفاقی اداروں کی افسر شاہی کیلئے 80 ہزار سے زائد گاڑیاں زیر استعمال ہیں۔

یہ بھی ریکارڈ کا حصہ ہے کہ پاکستان کے حکمران قرض لینے کیلئے بیرون ممالک میں فائیو اسٹار اور سیون اسٹار جیسے مہنگے ہوٹلوں میں قیام کرتے ہیں لیکن قرض دینے والے واجبی سی جگہوں پر ٹھہرتے ہیں جس پر دیکھنے والوں کو یوں گمان گزرتا ہے کہ شاید پاکستان کے حکمران قرضہ لینے کیلئے نہیں بلکہ دینے کیلئے آئے ہیں۔ملک کو معاشی مشکلات سے نکالنے کیلئے عوام کا خون نچوڑنے کی بجائے خواص پر ٹیکسز لگانے کے ساتھ ساتھ ٹیکسز کا دائرہ کار بڑھانا بھی ضروری ہے۔

پاکستان کے سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے گزشتہ روز (اے آر وائے پر کاشف عباسی کے پروگرام میں) خود اس بات کا اقرار کیا کہ پاکستان میں انکم اور ٹیکس سے متعلق کوئی پوچھتا ہی نہیں ہے، انکم ٹیکس سے متعلق پوچھا جائے تو یہاں سب اندر ہو جائیں گے۔ امیر لوگ انکم پر ٹیکس نہیں دیتے تو بوجھ غریبوں پر آ جاتا ہےجو بڑی ناانصافی ہے۔ ملک میں جو ٹیکس دے رہا ہے اسی پر مزید ٹیکسز لگائے جا رہے ہیں۔

پاکستان میں غریب کو ماچس کی ڈبی سے لے کر صابن کی ٹکیہ ، ادویات اور پیٹرول سمیت ضروریاتِ زندگی کی ہر چیز پربلاواسطہ ٹیکسز ازخود ادا کرنا پڑتے ہیں اور ظاہر ہے کہ جب پیٹرول، بجلی، گیس اوردیگر اشیاء کی قیمتوں میں اضافہ ہوگا تو اس کا انتہائی شدید دباؤ بھوک اور بدحالی سے بلکتے عوام پر پڑے گا۔

بقول شاہد خاقان عباسی اگر ٹیکس معاملات پر لوگوں کو پکڑنا شروع کیا جائے تو ایوان خالی ہو جائیں گے۔ ارکان اسمبلی میں مہنگی گاڑی پر آتے ہیں اور 6 گارڈز ساتھ ہوتے ہیں، ارکان سے گارڈز کی تنخواہیں اور اخراجات کا سوال پوچھنا چاہیے۔جب تک ارکان سے سوال نہیں پوچھیں گے ،معاملہ آگے نہیں جائے گا، ارکان سے پوچھیں ٹیکس 1لاکھ روپے دیا لیکن 4 گاڑیاں کہاں سے آئیں۔

پاکستان میں اسمبلیوں کی مدت تقریباً اپنی تکمیل کے قریب پہنچ چکی ہے اور کچھ حلقے ملک میں الیکشن کی امید بھی لگائے بیٹھے ہیں ۔ آئی ایم ایف سے معاہدے اور پاکستان کی جغرافیائی اہمیت کی وجہ سے ممکن ہے کہ کچھ دوست ممالک پاکستان میں سرمایہ کاری کی طرف مائل ہوجائیں لیکن الیکشن کا انعقاد وقت پر ہونا مشکل دکھائی دیتا ہے۔حکمران معاشی ایمرجنسی عائد کرکےاسمبلیوں کی مدت میں توسیع کیلئے تیار بیٹھے ہیں۔

تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان کی بات کریں تو انہوں نے مقبولیت اور کے زعم اور غرور میں خود اپنے ہی پیروں پر کلہاڑی مار کر اپنے لیے مشکلات کے دروازے کھول دیئے ہیں۔ اس وقت عمران خان کے حوالے سے جس طرح کی باتیں سامنے آرہی ہیں ان حالات میں ان کا فوری طور پر مشکلات کے اس بھنور سے نکلنا مشکل دکھا دیتا ہے۔

پاکستان کے حالات کو دیکھا جائے تو ملک میں الیکشن کی صدائیں تو سنائی دیتی ہیں لیکن زمینی حقائق اور معاشی اشاریئے معاشی ایمرجنسی کی جانب اشارہ کرتے ہیں تاہم اگر الیکشن کا انعقاد ہوتا بھی ہے تو پہلے تمام سیاسی جماعتوں کو یہ طے کرنا چاہیے کہ ملک کو سیاسی طور پر مستحکم بنانے کیلئے جس کو مینڈیٹ ملے اس کو حکومت کرنے دی جائے تاکہ ملک میں سیاسی افراتفری کا خاتمہ ہو اور معیشت کو بھی دوام مل سکے۔

آئی ایم ایف نے پاکستان کی ڈوبتی نبض پر ہاتھ رکھ کر سانس کی ڈور بچانے کیلئے جو معاہدہ کیا ہے وہ انتظامی طور پر تو لائق تحسین ہے لیکن اس کا بوجھ عوام پر ڈالنے کی بجائے خواص پر بھی شکنجہ تنگ کیا جائے اور غریب سے آخری نوالہ بھی چھیننے کی بجائے بھوک اور افلاس کے مارے عوام کیلئے اقدامات اٹھائے جائیں اور ٹیکسوں کا بوجھ مراعات یافتہ طبقے پر منتقل کیا جائے تاکہ غریب کی سانس کی آس برقرار رہے۔

آخر میں یہ کہنا بھی ضروری ہے کہ آئی ایم ایف سے معاہدہ ہو ، مہنگائی کا طوفان ہو،غیر ضروری سیاسی افراتفری یا پھر حکمرانوں کی عیاشیاں، ان تمام تر ریشہ دوانیوں کا بالواسطہ یا بلا واسطہ اثر غریب عوام پر ہی پڑتا ہے جو پہلے ہی اربوں کے بھاری بھرکم ٹیکس تلے دبے ہوئے ہیں لیکن اب عوام کا صبر بھی جواب دے چکا ہے جو احتجاج، نعرے بازی یا بھوک ہڑتال کی بجائے ذمہ داران کے گریبانوں پر ہاتھ ڈالنے کیلئے تیار ہوچکے ہیںجو انہیں معاشی استحکام کے سبز باغ تو دکھاتے ہیں لیکن اپنے وعدوں پر عملدرآمد کیلئے کبھی تیار نہیں ہوتے۔ ضروری ہے کہ حکمران طبقے عوام کی بڑھتی ہوئی تشویش اور اضطراب کا نوٹس لیتے ہوئے عوام کی فلاح وبہبود کیلئے تمام تر ضروری اقدامات اٹھائے، اس سے پہلے کہ بہت دیر ہوجائے۔
 

Dr. Jamil Ahmed Khan (Former Ambassador)
About the Author: Dr. Jamil Ahmed Khan (Former Ambassador) Read More Articles by Dr. Jamil Ahmed Khan (Former Ambassador): 39 Articles with 33360 views Former Ambassador to UAE, Libya and High Commissioner of Malta.
Former Chief Security Advisor at United Nations۔(DSS)
.. View More